Tag: دل کے خلیات

  • سائنس دانوں نے دل کے خلیات دوبارہ نہ بننے کی وجہ معلوم کر لی

    سائنس دانوں نے دل کے خلیات دوبارہ نہ بننے کی وجہ معلوم کر لی

    پنسلوانیا: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ انسان کی جلد اور دیگر اعضا جب چوٹ یا کسی بیماری کے سبب خراب ہو جاتے ہیں تو نئے خلیات بنتے ہیں اور وہ عضو ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن دل کے ساتھ ایسا نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ دل کے خلیات دوبارہ نہیں بنتے۔

    سائنس دان اس امر کی وجہ جاننے کے لیے برسوں سے تحقیق کر رہے تھے، اب کچھ امریکی سائنس دانوں نے چوہوں پر تجربات کر کے اس کی ایک ممکنہ وجہ معلوم کر لی ہے۔

    امریکی ریاست پنسلوانیا کی پٹس برگ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے تجربات کے نتائج کی روشنی میں کہا ہے کہ جیسے جیسے دل کے خلیات کی عمر بڑھتی ہے، ارد گرد کے خلیوں کے ساتھ ان کا رابطہ ختم ہونے لگتا ہے، یہ تبدیلی اگرچہ ایک طرف خلیات کو نقصان سے بچاتی ہے، لیکن دوسری طرف امکان ہے کہ اسی وجہ سے دل کے خلیات کی مرمت کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے دیگر حصوں کے برعکس دل کے خلیے اگر ایک بار ناکارہ ہو جائیں تو دوبارہ نئے خلیے جنم نہیں لیتے، حالیہ ریسرچ سے یہ جاننے کا موقع ملا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو دل کے نئے خلیات بننے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

    یہ تحقیق 24 اکتوبر کو سائنسی جریدے ’ڈیویلپمپنٹل سیل‘ میں شائع ہوئی ہے، اس کے سینئر مصنف برن ہارڈ کوہن کا کہنا ہے کہ ’یہ مقالہ اس بات کی وضاحت فراہم کرتا ہے کہ بالغ دل کیوں خود کو دوبارہ تخلیق نہیں کرتے، لیکن نوزائیدہ چوہوں اور انسانوں کے دل ایسا کرتے ہیں۔ یہ نتائج اس بات کی بنیادی تفہیم میں ایک اہم پیش رفت ہیں کہ عمر کے ساتھ دل کی نشوونما کیسے ہوتی ہے، اور کس طرح تناؤ (اسٹریس) سے اس کا بچاؤ ممکن ہو جاتا ہے۔ خیال رہے کہ پروفیسر کوہن یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے اسکول آف میڈیسن میں پیڈیاٹرکس کے پروفیسر اور پیڈیاٹرک انسٹیٹیوٹ فار ہارٹ ریجنریشن اینڈ تھیراپیوٹکس کے ڈائریکٹر ہیں۔

    ای سگریٹ سے کون سی بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟ امریکا میں نئی تحقیق

    یہ ریسرچ دراصل نیوکلیئس (مرکزہ) میں موجود مساموں (خلیوں کے درمیان باریک راستے) پر مرتکز تھی، مسام خلیے کا وہ حصہ ہے جو ڈی این اے کی حفاظت کرتا ہے۔ ریسرچ میں دیکھا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ چوہوں کے دل کے خلیوں میں ان مساموں کی تعداد کم ہوتی گئی، اور یوں ایک قسم کا دباؤ لینے کا خطرہ کم ہو گیا جس سے ہارٹ فیل ہو سکتا ہے۔

    محققین نے پایا کہ اگرچہ مساموں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے دل کا بلڈ پریشر جیسے دباؤ سے متعلق نقصان دہ سگنلز سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے بالغ دل کے خلیات دوبارہ پیدا ہونے سے بھی رُک جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ لپڈ جھلی میں موجود سوراخ جو سیل کے ڈی این اے کو گھیرے ہوئے ہیں، نیوکلیئس سے مالیکیولز کے گزرنے کو منظم کرتے ہیں۔

    پروفیسر کوہن نے مساموں کو سمجھنے کے لیے ہائی وے کی مثال دی، انھوں نے کہا جس طرح سڑک کی حفاظت اسفالٹ (سیاہ ٹھوس مادہ، تارکول) کرتا ہے، اسی طرح نیوکلیئر انویلوپ (لفافہ) ایک ناقابل تسخیر تہہ ہے، جو نیوکلیئس یعنی مرکزے کی حفاظت کرتی ہے۔ اب جس طرح سڑک میں مین ہول ہوتے ہیں، اسی طرح نیوکلیئر پورز (مسام) ایسے راستے ہیں جن سے معلومات رکاوٹیں توڑ کر گزرتی ہیں اور نیوکلیئس تک پہنچ جاتی ہیں۔

    بائیو میڈیکل امیجنگ ایکسپرٹ یانگ لیو نے کہا کہ انھوں نے چوہے کے دل کے خلیات (یا کارڈیو مایوسائٹس) میں نیوکلیئر مساموں کی تعداد کو سپر ریزولوشن مائکرواسکوپی کے ذریعے دیکھا اور گنا۔ یہ تعداد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ 63 فی صد کم ہو گئی۔ جنین کے خلیات میں یہ تعداد 1,856 تھی، پھر شیرخواری میں 1,040 ہو گئی، اور بالغ خلیات میں یہ تعداد 678 رہ گئی۔

    اس سے قبل کی گئی ایک تحقیق میں پروفیسر برن ہارڈ کوہن اور ان کی ٹیم نے دکھایا تھا کہ Lamin b2 نامی ایک جین ہے، جو نوزائیدہ چوہے میں تو بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد میں کمی ہو جاتی ہے، یہ جین دل کے خلیات دوبارہ بننے کے لیے اہم ہوتا ہے۔

    اب اس حالیہ تحقیق میں کوہن اور ان کی ٹیم نے دیکھا کہ چوہے میں ’لامن بی ٹو‘ نامی جین کی کمی کی وجہ سے نیوکلیئر مساموں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ کم نیوکلیئر مساموں والے چوہوں نے نیوکلیئس تک سگنل والے پروٹین کی نقل و حمل کو کم کر دیا تھا، اور خلیے کے اندر آر این اے اور پروٹین بنانے کا جینیاتی عمل بھی کم ہو گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیونکیشن کے اس طرح محدود ہو جانے سے دل کے خلیات کی دوبارہ پیدا ہونے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

  • کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے مخصوص خلیات میں تبدیلی لا کر ان کے افعال میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارد گرد موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔

    دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو جب کرونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کر کے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔

    اس پروٹین کو کرونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد خارج کرتا ہے۔

    اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا ہے، پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک پروٹین کے زیر اثر آنے پر ان کا علاج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی 147 نامی ریسیپٹر کو بلاک کر کے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورم کا باعث بننے والا کیمیکل پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جا سکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک تھام کے ذرائع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے تک پھیلا دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنا دیتا ہے۔