Tag: دماغ

  • فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    سڈنی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کے نتائج میں یہ انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسٹی میں شائع شدہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ تو پہلے سے جانتے ہیں کہ سیر شدہ چکنائی (saturated fat) اور ریفائنڈ شوگر کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم اب انسانوں پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ ہمارے دماغ کے ایک مخصوص حصے پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے ورچوئل رئیلٹی (VR) سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے دوران پایا کہ چکنائی اور شوگر کی زیادہ مقدار کھانے سے ’’مقامی نیویگیشن‘‘ (کسی جگہ یا ماحول میں اپنی پوزیشن کو سمجھنے، راستوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت) اور یادداشت کی خرابی کا خدشہ ہے، سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل چوہوں پر کیے جانے والی تحقیقات کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔

    فاسٹ فوڈ دماغ

    اس ریسرچ اسٹڈی کے دوران 120 نوجوان بالغ افراد نے غذائی چکنائی اور شکر کی جانچ (DFS) کرائی، تاکہ محققین گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران اندازہ لگا سکیں کہ انھوں نے اوسطاً کتنی شکر اور غذائی چکنائی کھائی۔ اس کے بعد انھیں سر پر ایک ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ پہنائے گئے، اور انھیں تھری ڈی بھول بھلیاں گیم کھیلنے دیا گیا، کہ اس میں راستہ تلاش کریں، بھول بھلیاں میں خزانے تک پہنچنے کے لیے کچھ اشارے بھی دیے گئے تھے، جنھیں سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔

    شرکا نے یہ کھیل 6 بار کھیلا، ان میں سے جنھوں نے 4 منٹ سے کم وقت میں راستہ تلاش کر کے خزانے تک رسائی کی، وہ اگلی کوشش کی طرف بڑھ گئے، اور جو اس ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو انھیں ورچوئلی خزانے کے لوکیشن تک پہنچایا گیا جہاں انھوں نے اگلی کوشش کے لیے رہنما اشارے دیکھے۔


    اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات


    ساتویں اور آخری کوشش میں خزانے کو ہٹایا گیا، اور اس بار شرکا کو بھول بھلیاں کے اس حصے تک جانا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پچھلی بار خزانے کا وہی مقام تھا۔

    اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ ورکنگ میموری اور وزن اور جسم کے سائز کو ایڈجسٹ کر لیا گیا تھا، ان شرکا نے جنھوں نے چکنائی اور شکر والی زیادہ غذا کھائی تھی، دیگر کے مقابلے میں بری کارکردگی دکھائی۔

    ان نتائج سے یہ نشان دہی ہوئی کہ زیادہ چکنائی اور شکر والی غذائیں (روایتی مغربی خوراک) ہپپوکیمپس کی ایک قسم کی خرابی (hippocampus impairment) کا سبب بنتی ہیں، جو مقامی نیویگیشن اور یادداشت کے فعل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ مقامی نیویگیشن کا مطلب ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے راستے کو سمجھنا اور یاد رکھنا‘‘ ہے۔

    سڈنی یونیورسٹی کے محقق ڈومینک ٹران نے یہ تشویش بات کہی کہ عام عام BMI اسکور والے نسبتاً صحت مند افراد میں بھی ایک ناقص غذا دیگر میٹابولک حالات ظاہر ہونے سے بہت پہلے (دماغی صلاحیت) ادراک کو کمزور کر سکتی ہے۔

    تاہم دوسری طرف اس تحقیق میں یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ محققین کا خیال ہے کہ اس صورت حال سے آسانی سے بحالی ممکن ہے، محققین نے کہا کہ غذائی تبدیلیاں ہپپوکیمپس کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔

  • کیا آپ جانتے ہیں دماغ کے لیے یہ غذائیں نہایت بہترین ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دماغ کے لیے یہ غذائیں نہایت بہترین ہیں؟

    انسانی صحت بجا طور پر ان غذاؤں سے جڑی وہ جو وہ روز مّرہ زندگی میں استعمال کرتا ہے بالخصوص دماغ کی صحتمندی کے لیے بھی غذا کی اہمیت مسلمہ ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت بہتر نہ ہو تو اس کا اثر لازمی طور پر مجموعی صحت پر بھی پڑتا ہے۔ ان ہی باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں نے پتا لگایا ہے کہ وہ کون سی غذائیں ہیں جو دماغ کی صحت کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔

    برطانیہ کے بائیو بینک میں طب کے حوالے سے کافی ڈیٹا موجود ہے۔ کون سی بنیادی غذائیں ہمارے دماغ اور اعصاب کے لیے بہتر ثابت ہوسکتی ہیں؟ حال ہی میں اس حوالے سے ہونیوالی ایک تحقیق میں 181990 افراد نے شرکت کی جن کی اوسط عمر71 برس تھی جبکہ ان میں 57 فیصد خواتین تھیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق ایسے تمام شرکا جنھوں نے اپنی غذا میں سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ مچھلی اور لین پروٹین (لین پروٹین ہلکے قسم کے گوشت پر مشتمل ہوتے ہیں جس میں سرخ گوشت شامل نہیں ہوتا) کو شامل رکھا ان میں ڈپریشن، اینزائیٹی اور یاداشت کے دیگر مسائل یا نفسیاتی مسائل کم تھے۔

    سبزیاں اور مچھلی استعمال کرنے والے خواتین و حضرات کا اکتسابی یا کوگنیٹو فنکشن بھی بہت بہتر تھا، اسی طرح دماغ کے اندر بھورا مادہ جسے گرے میٹر کہا جاتا ہے وہ بھی متوازن غذا کھانے والوں میں زیادہ پایا گیا۔

    اس تحقیق میں تمام شرکا سے جسمانی صحت کے ساتھ ان کی دماغی صحت کے بارے میں بھی دریافت کیا گیا تھا۔ مثلاً ان سے بائی پولر ڈس آرڈر، شیزوفرینیا، الزائمر، پارکنسنز کی بیماری، ڈپریشن، خودکشی کی کوشش اور قلبی امراض سے متعلق پوچھا گیا۔

    پھر ان تمام شرکا کے مختلف بلڈ ٹیسٹ کیے گئے تاکہ ان میں لپڈز اور امائنو ایسڈ سے لے کر سرخ اور سفید خون کے خلیوں کی تعداد اور سوزش کو دیکھا جاسکے۔

    خیال رہے کہ غذا کی افادیت کے حوالے سے اکثر لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات ضرور ہوتی ہیں جیسے کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ پھل، سبزیاں، پروٹین سے بھرپور غذائیں تاہم ان غذاؤں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہوتیں جو ان کے دماغ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

  • کچھ چیزیں دماغ سے کیوں نکل جاتی ہیں؟ اہم انکشاف

    کچھ چیزیں دماغ سے کیوں نکل جاتی ہیں؟ اہم انکشاف

    بعض اوقات ہمارے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی اہم کام کرنے کے لیے کسی دوسرے کمرے میں داخل ہوئے اور ذہن سے نکل گیا کہ کس کام سے آئے تھے؟

    جوکام بھی دل لگا کر نہ ہو یا جلدی جلدی نمٹانا ہو تو اُس میں بھول چوک ہوجانا ایک لازمی امر ہے، اگر ہر کام توجہ اور دل لگی سے کیا جائے تو بھو ل چوک کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ دراصل ضروری بات کا یاد نا رہنا ہی بھول کہلاتا ہے۔

    کسی چیز، کسی کام، کسی شخص یا کسی واقعے کو بھول جانا ہمارے دماغ کی سب سے مایوس کن چیزوں میں سے ایک ہے۔ یادداشت کی کمی کو طویل عرصے سے ایک بیماری کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بھول جانا اتنا برا نہیں جتنا کہ اسے آج تک پیش کیا گیا ہے۔

    درحقیقت جب دماغ کچھ سیکھتا ہے اور معلومات کو جذب کرتا ہے تو دماغ کے نیوران اور ان کے سائنپسز میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    اس عمل کو پھر اینگرام سیلز کے ذریعے سہولت فراہم کی جاتی ہے، جو میموری کو ذخیرہ کرنے، مضبوط کرنے، بازیافت کرنے اور پھر بھولنے میں مدد کرتے ہیں۔

    دماغ جب کچھ بھول جاتا ہے تو اینگرام سیلز کا کیا ہوتا ہے یہ واضح نہیں ہے لیکن یادداشت پر غور کرنے سے بعض اوقات بھول جانے والی چیزوں کو یاد کیا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ خلیے مرتے نہیں ہیں۔

    یہ جاننے کے لیے کہ ان خلیات کا کیا ہوتا ہے، آئرلینڈ کے محققین نے چوہوں میں اینگرام سیلز کا سراغ لگایا کہ جب وہ بھول گئے تو کیا ہوا پھر خلیات کو روشنی سے متحرک کیا گیا، جس نے بظاہر خلیات اور بھولی ہوئی یادوں کو دوبارہ متحرک کیا۔

    اس کھوج کے کئی مضمرات ہیں لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ "قدرتی بھول جانا” اکثر الٹ جانے والا عمل ہوتا ہے۔

    یعنی جب آپ معلومات کو "بھولتے” ہیں، تو وہ معلومات درحقیقت غائب نہیں ہوتی، یہ صرف چھپ جاتی ہیں لیکن دماغ چیزیں کیوں بھول جاتا ہے ، اس کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ دماغ ذہن میں موجود چیزوں کو بھول کر موافقت کر سکتا ہے۔ یہ ان یادوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے زیادہ لچک اور بہتر فیصلہ سازی کا باعث بن سکتا ہے جو صورت حال سے متعلق نہیں ہیں۔

    لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان یادوں کو دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے ، یہ مستقبل کی تحقیق کے لیے ناقابل یقین اہمیت رکھتا ہے۔

    یہ بات قابل غور ہے کہ الزائمر جیسی بہت سی حالتیں یادداشت کی کمزوری سے ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ یادیں کبھی کبھی خوشگوار اوقات میں واپس آ سکتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اینگرام سیلز ابھی بھی موجود ہیں۔

    اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نظریاتی طور پر ان کا علاج کرنے میں مدد کرنے کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے۔

  • نہاتے ہوئے دماغ میں اچھوتے آئیڈیاز کیوں آجاتے ہیں؟

    نہاتے ہوئے دماغ میں اچھوتے آئیڈیاز کیوں آجاتے ہیں؟

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ کسی مسئلے پر اپنا مکمل دماغ اور توجہ لگا کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں ناکام رہتے ہیں، لیکن پھر اچانک ہی غیر متوقع طور پر کوئی اور کام کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل آپ کے دماغ میں آجاتا ہے، جیسے نہاتے ہوئے؟

    اور صرف مسئلوں کا حل ہی نہیں، نہاتے ہوئے اکثر ہمارے دماغ میں بہت اچھوتے آئیڈیاز آتے ہیں جو ہمارے کام اور ذاتی زندگی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    اس کی ایک آسان وجہ تو یہ ہے کہ چونکہ نہاتے ہوئے ہمارا دوران خون تیز ہوجاتا ہے، میل کچیل سے چھٹکارا ملتا ہے، تو ہم بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں اور جسم اور دماغ بھی تازہ دم ہوجاتا ہے، اسی لیے دماغ نئے سرے سے نئے خیالات ڈھونڈ نکالتا ہے۔

    تاہم اس کی ایک اور دلچسپ وجہ بھی ہے۔

    دنیا بھر میں گزشتہ 15 برس سے کی جانے والی تحقیقات میں ایک بات سامنے آئی کہ جب ہم سوچ و بچار کر کے، پوری توجہ مرکوز کر کے کوئی آئیڈیا تلاش کرنے کی کوشش کریں، تب ہم اس میں ناکام رہتے ہیں۔

    لیکن جب ہم اپنا کوئی روزمرہ کا کام انجام دے رہے ہوتے ہیں، تو اچانک ہمیں کوئی آئیڈیا سوجھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہم روز مرہ کا کوئی ایسا کام کر رہے ہوں جس میں دماغ کو سوچ و بچار کی ضرورت نہ ہو۔

    یہ کام ایسے ہوتے ہیں جو ہم طویل عرصے سے انجام دے رہے ہوتے ہیں اور ہمارا جسم اور دماغ ان کا اس قدر عادی ہوتا ہے کہ اس موقع پر ہم تقریباً ’آٹو پائلٹ‘ موڈ پر ہوتے ہیں۔ تب دراصل ہمارا دماغ آزاد ہوتا ہے اور خیالات کی رو میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی نیورو سائنٹسٹ کلینا کرسٹوف کا کہنا ہے کہ یہ بات ہمارے لیے حیران کن اور ناقابل قبول ہوتی ہے کہ کبھی غیر متوقع حالات میں کوئی اچھوتا آئیڈیا آجائے کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ آئیڈیاز سخت محنت سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ انجام دیے جانے والے کاموں کے دوران جن میں ہم خودکار طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت دماغ کا ’ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک‘ فعال ہوجاتا ہے۔

    اس نیٹ ورک کو سنہ 2001 میں دریافت کیا گیا تھا۔

    ماہرین نے اس کی تحقیق کے لیے مختلف سرگرمیوں میں مصروف افراد کے دماغ کا اسکین کیا تو دیکھا کہ جس وقت دماغ آرام دہ حالت میں تھا اس وقت اس کے کچھ حصے زیادہ فعال تھے۔

    یہی حصے غیر منطقی سوچ کے ذمہ دار ہوتے ہیں جنہیں ہم آئیڈیاز کا نام دیتے ہیں، اور یہ اس وقت کام نہیں کرتے جب کسی بارے میں سوچ و بچار کرتے ہوئے دماغ ہمارے خیالات کو فوکس اور منطقی رکھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کا ایسے آزاد گھومنا ہمارے لیے بے حد فائدہ مند ہے، کیونکہ اس دوران ہمیں ایسے خیالات آسکتے ہیں جو ہماری پیشہ وارانہ، ذاتی اور جذباتی زندگی کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔

    کیا دماغ سے آئیڈیاز حاصل کرنے کے لیے اسے متحرک کیا جانا ممکن ہے؟

    اس کے لیے ماہرین کی تجویز ہے کہ سب سے پہلے تو نیند پوری کرنا بہت ضروری ہے۔

    ایک ایسا دماغ جس کی یادداشت اچھی ہو، وہ چاق و چوبند اور ہوشیار ہو، فعال ہو اور مسائل کو حل کرسکتا ہو، ایسا دماغ اسی شخص کا ہوسکتا ہے جو روزانہ بھرپور اور پرسکون نیند لیتا ہو۔

    دماغ کو کری ایٹو بنانے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ واک پر جاتے ہوئے، نہاتے ہوئے، یا باغبانی کرتے ہوئے دماغ کو خالی رکھیں، اس دوران کانوں میں ہیڈ فون لگا کر کچھ سننے سے پرہیز کریں تاکہ دماغ کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہو۔

    دماغ اسی وقت آزاد ہوسکتا ہے جب وہ بالکل محفوظ ماحول میں ہو اور اسے پتہ ہو کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں۔

    فطرت کے درمیان وقت گزارنا بھی دماغ کو متحرک کردیتا ہے۔ سمندر کنارے، درختوں کے بیچ یا کسی پرفضا سرسبز مقام پر وقت گزارنا دماغ کو تازہ دم کردیتا ہے اور اس کی کمی دماغ کو جامد اور دباؤ کا شکار کردیتی ہے۔

    ٹیکنالوجی کا استعمال کم سے کم کریں تاکہ دماغ کی قدرتی صلاحیت بیدار ہو۔

    دماغ کے لیے فائدہ مند غذا کھائیں جیسے مچھلی، ہرے پتوں والی سبزیاں، خشک میوہ جات، بیریز اور چاکلیٹ۔

  • بڑھاپے میں دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل

    بڑھاپے میں دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل

    عمر کے ساتھ ساتھ جسم اور دماغ کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے اور بڑھاپے میں کئی امراض لاحق ہوجاتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل بتا دیا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کی اندرونی سوزش میں اضافہ ہوتا ہے جو اعصابی انحطاط کی وجہ بنتا ہے، تاہم ماہرین نے اس کا ایک آسان حل پیش کردیا ہے اور وہ ہے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال۔

    سبزیاں اور پھل جسم کے مرکزی اور اہم ترین عضو دماغ کے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پھل اور سبزیوں میں مرغن غذاؤں اور فاسٹ فوڈ کے مقابلے میں فائٹو کیمیکلز، معدنیات اور پولی فینولز کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو خون کی روانی کو برقرار رکھتے ہیں۔

    خون کے بہاؤ سے دماغ سمیت تمام اعضا کو خون پہنچتا ہے اور اپنے ساتھ آکسیجن بھی لے جاتا ہے، اس سے دماغی افعال بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔

    علاوہ ازیں پھل اور سبزیوں میں اندرونی سوزش اور جلن یعنی انفلیمیشن کم کرنے والے کئی مرکبات موجود ہوتے ہیں، عمر رسیدہ افراد میں یہی سوزش ڈیمنشیا اور الزائمر سمیت دماغی انحطاط کے کئی امراض کو جنم دیتی ہے۔

    اسی لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال ایسے افراد کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

  • برین ٹیومر کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

    برین ٹیومر کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

    دنیا بھر میں آج دماغ کی رسولی یا برین ٹیومر اور اس سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے برین ٹیومر کا دن منایا جارہا ہے، ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ برس ساڑھے 3 لاکھ افراد میں برین ٹیومر کی تشخیص ہوئی۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق برین ٹیومر کا شکار خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دماغی رسولی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور سنہ 2035 تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

    برین ٹیومر کی 2 اقسام ہوتی ہیں، ایک کینسریس اور ایک نان کینسریس۔

    نان کینسریس برین ٹیومر

    یہ کم گریڈ کا ٹیومر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور علاج کے بعد ان کے واپس آنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    کینسریس برین ٹیومر

    یہ مہلک ہوتے ہیں اور یا تو دماغ میں شروع ہوتے ہیں یہ کہیں اور سے شروع ہو کر دماغ میں پھیل جاتے ہیں، علاج کے بعد ان کے واپس پلٹ آنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک دماغی رسولی بننے کی واضح وجوہات طے نہیں کی جاسکی ہیں تاہم بہت سے بیرونی و جینیاتی عوامل اس مرض کو جنم دے سکتے ہیں۔

    اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    عمر کے بڑھنے کے ساتھ برین ٹیومر کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے جبکہ کچھ برین ٹیومر بچوں میں بھی ہوتے ہیں۔

    وہ بچے یا بڑے جنھیں پہلے سے کینسر ہو آگے جا کرانہیں برین ٹیومر بھی ہوسکتا ہے۔

    ریڈی ایشن بھی برین ٹیومر کا باعث بن سکتی ہے، ایسے لوگ جن کے سر کی ریڈیو تھراپی، بہت زیادہ سی ٹی اسکین یا ایکسرے ہوا ہو ان کو برین ٹیومر کا خطرہ ہوتا ہے۔

    عام لوگوں کے مقابلے میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں میں برین ٹیومر ہونے کا خطرہ دگنا ہوجاتا ہے۔

    علاج

    برین ٹیومر کا علاج عمر اور مرض کی کیفیت کے حساب سے کیا جاتا ہے جن میں سرجری، ریڈیو تھراپی اور کیمو تھراپی شامل ہے۔

  • عمر کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں تبدیلی

    عمر کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں تبدیلی

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دماغ کے حجم میں کمی آتی جاتی ہے، اس تحقیق کے لیے 1 لاکھ سے زائد افراد کی جانچ کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کافی عرصے سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ کے حجم میں تبدیلیاں آتی ہیں، مگر اب پہلی بار اس کی نشوونما کا مکمل چارٹ تیار کیا گیا ہے۔

    15 ہفتوں کے بچوں سے لے کر 100 سال کی عمر کے افراد کے دماغی اسکینز سے معلوم ہوا کہ زندگی کی ابتدا میں دماغ تیزی سے پھیلتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج سکڑنے لگتا ہے۔

    برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 6 براعظموں سے تعلق رکھنے والے 1 لاکھ 25 ہزار کے قریب افراد کے دماغی اسکینز کے اس ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جو سابقہ تحقیقی رپورٹس میں اکٹھا کیا گیا تھا۔

    یہ انسانی دماغ کی نشوونما کا پہلا چارٹ بھی ہے جس کے نتائج چونکا دینے والے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ عالمی سطح پر کوشش کر کے ہم نے پوری زندگی کے دماغی نشوونما کے ڈیٹا کو اکھا کیا جس سے ہمیں ابتدائی زندگی میں تیزی سے ہونے والی دماغی تبدیلیوں کو جانچنے کا موقع ملا اور یہ بھی علم ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ سست روی سے تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دماغی خلیات یا گرے میٹر کا حجم 6 برس کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے جس کے بعد یہ بتدریج گھٹنے لگتا ہے۔

    اسی طرح وائٹ میٹر یا دماغی کنکشن کا حجم بچپن میں تیزی سے بڑھتا ہے اور 29 سال کی عمر سے قبل عروج پر ہوتا ہے جبکہ اس کے حجم میں کمی کا عمل 50 سال کی عمر میں تیز ہوجاتا ہے۔

    جسمانی افعال اور بنیادی رویوں کو کنٹرول کرنے والے دماغی حصے کا حجم 14 سال کی عمر میں عروج پر ہوتا ہے۔ اس دماغی چارٹ سے سائنس دانوں کو دماغی امراض کے شکار افراد کے دماغ میں آنے والی تبدیلیوں کو جانے کا موقع بھی مل سکے گا۔

    الزائمر امراض کے شکار افراد کے دماغی افعال تنزلی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ دماغی ٹشوز کی محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے، جس وجہ سے ان افراد کے دماغ کا حجم دیگر کے مقابلے میں کم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ویسے تو عمر کے ساتھ دماغ کا حجم قدرتی طور پر گھٹنے لگتا ہے مگر الزائمر کے مریضوں میں یہ عمل بہت تیز رفتاری سے ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ابھی بھی اپنے دماغی چارٹس کے حوالے سے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں مگر ان سے دماغی نشوونما اور ہمارے جذبات کے حوالے سے کافی کچھ معلوم ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان چارٹس کو مریضوں کی اسکریننگ کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، مثال کے طور پر ڈاکٹروں کو دماغی تنزلی کے آثار دیکھنے کا موقع مل سکے گا۔

  • کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 ہمارے جذبات کو بھی متاثر کرسکتا ہے

    کووڈ 19 جسم کے تمام اعضا کو بری طرح متاثر کرتا ہے لیکن دماغ پر اس کے بدترین اثرات سامنے آتے جارہے ہیں، حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے حجم کو سکیڑ سکتی ہے، ان حصوں کا حجم کم کرسکتی ہے جو جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ ان حصوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جو سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

    اس موازنے سے ابتدائی بیماری کے کئی ماہ بعد دماغی حجم سکڑنے اور ان ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا جو سونگھنے کی حس اور دماغی صلاحیتوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 51 سے 81 سال کی عمر کے 785 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے دماغی اسکینز کرونا وائرس کی وبا سے قبل اور اس کے دوران لیے گئے تھے۔

    ان میں سے نصف سے زیادہ میں ان اسکینز کے درمیان کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 384 افراد کے اسکینز کا موازنہ ان افراد سے کیا گیا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے دماغ اور گرے میٹر کے کچھ حصے سکڑ گئے، بالخصوص وہ حصے جو سونگھے کی حس سے منسلک ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر کووڈ کے شکار افراد میں اس سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں سونگھنے کی حس سے منسلک اہم دماغی حصے parahippocampal gyrus کا حجم 1.8 فیصد جبکہ cerebellum کا حجم 0.8 فیصد تک سکڑ گیا۔

    ان حصوں کے سگنلز کے عمل میں مداخلت کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مختلف علامات جیسے سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے، اسی طرح کووڈ سے متاثر افراد کا ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹوں میں اسکور اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم تھا۔

    یہ کم اسکور ذہنی صلاحیتون سے جڑے دماغی حصے cerebellum کے ٹشوز کے نقصان کا عندیہ بھی دیتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اثرات معمر افراد اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والوں میں زیادہ نمایاں تھے مگر معمولی بیمار یا بغیر علامات کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ان کا مشاہدہ ہوا۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ دماغی تبدیلیاں مستقل ہیں یا جزوی طور پر ریورس کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو کووڈ سے دماغی صحت پر مرتب ہونے والے بدترین اثرات کا عندیہ دیتے ہیں۔

    یہاں تک کہ معمولی بیمار افراد کے دماغی افعال جیسے توجہ مرکوز کرنے اور چیزیں منظم کرنے کی صلاحیت بدتر ہوگئی اور اوسطاً دماغی حجم میں 0.2 سے 2 فیصد کمی آئی۔

    ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ ویکسی نیشن سے ان اثرات کی روک تھام پر کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں مگر حال ہی میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 15 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا تھا کہ ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

  • بھولنے کی عادت ہمارے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے

    بھولنے کی عادت ہمارے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے

    بھولنے کی عادت کسی کے لیے بہت الجھن اور پریشانی پیدا کرسکتی ہے تاہم ماہرین نے اب باتیں بھول جانے والوں کو خوشخبری سنائی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ بھولنا درحقیقت ہمارے سیکھنے کے عمل کی فعال صورت ہے جو ہمارے دماغ کو مزید اہم معلومت تک رسائی میں مدد دیتا ہے۔

    ٹرِینٹی کالج ڈبلن اور یورنیورسٹی آف ٹورنٹو کے ماہرین نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بھولی ہوئی باتیں در حقیقت کہیں نہیں گئی ہوتیں، بس ان تک ہماری رسائی نہیں ہوتی۔

    ماہرین نے بتایا کہ یادیں مستقل طور پر نیورونز کے سیٹ میں ذخیرہ ہوجاتی ہیں جس کے متعلق ہمارا دماغ فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں ہمیں رسائی دینی ہے اور کن غیر متعلقہ چیزوں بلائے طاق رکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات اطراف کے نقطہ نظر پر مبنی ہوتے ہیں جو نظریاتی طور پر ہمیں تبدیلی اور بہتر فیصلہ کرنے کے موقع پر لچک دار بناتے ہیں۔

    نیورو سائنس دان ڈاکٹر ریان نے کہا کہ یادیں انگرام سیلز نامی نیورونز کے جتھوں میں جا کر ذخیرہ ہوجاتی ہیں اور کامیابی سے دوبارہ یاد تب آتی ہیں جب وہ جتھے دوبارہ فعال ہوتے ہیں۔

    انہوں نے واضح کیا کہ بھولنے کاعمل تب ہوتا ہے جب انگرام سیلز دوبارہ فعال نہیں ہو پاتے۔

  • ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    کچھ عرصہ قبل افریقہ میں سامنے آنے والے ایبولا وائرس کے بارے میں ایک پریشان کن انکشاف ہوا ہے جس کی تصدیق دوبارہ اس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ہوگئی ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ایبولا وائرس علاج کے بعد بھی دماغ کے کسی گوشے میں کئی برس تک چھپ کر بیٹھا رہتا ہے اور غالب امکان ہے کہ مریض کو دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔

    سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن کی تحقیق کےمطابق ایبولا وائرس ایک جان لیوا مرض کی وجہ بنتا ہے۔ مونوکلونل اینٹی باڈیز سے اس کا علاج کیا جاتا ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ علاج کے بعد بھی یہ دماغ میں کہیں موجود رہتا ہے۔

    حال ہی میں افریقہ میں ایبولا کے بعض کیسز سامنے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا خیال اسی جانب گیا ہے، کیونکہ پہلے یہ تمام افراد ایبولا سے شفایاب ہوچکے تھے۔ یہ تحقیق امریکی آرمی کے تحقیقی مرکز برائے انفیکشن امراض کے سائنسدانوں نے کی ہے۔

    ان کے مطابق افریقی ملک گنی میں ٹھیک پانچ برس بعد 2021 کے اختتام پر ایبولا کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں اور پہلے شفایاب ہونے والے مریض دوسری مرتبہ اس کے شکار بنے ہیں۔

    بندروں کے دماغ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وینٹریکل سسٹم میں ایبولا وائرس چھپا بیٹھا تھا، اس سے بندروں کو شدید دماغی سوزش کا سامنا بھی تھا۔

    اسی طرح افریقہ میں لوگوں کی خدمت کرنے والی ایک برطانوی نرس بھی شفایابی کے بعد دوبارہ ایبولا کی شکار بنی تھی جس کی تصدیق حالیہ تجربات سے ہوچکی ہے۔