Tag: دماغی امراض

  • حکومت پنجاب دماغی بیماریوں کی روک تھام کیلئے کوشاں

    حکومت پنجاب دماغی بیماریوں کی روک تھام کیلئے کوشاں

    لاہور: حکومت پنجاب دماغی بیماریوں کی روک تھام، علاج اور آگاہی کیلئے کوشاں ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز نے ورلڈ برین ڈے پر پیغام جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب دماغی بیماریوں کی روک تھام، علاج اور آگاہی کیلئے کوشاں ہے، صحت مند دماغ ہی مثبت سوچ اور تعمیری فیصلوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔

    وزیراعلیٰ مریم نواز نے ورلڈ برین ڈے پر اپنے پیغام میں کہا کہ انسانی دماغ خالق کائنات کی بے مثال تخلیق ہے، ورلڈ برین ڈے ہمیں دماغی امراض پر توجہ دینے کی یاد دلاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف نامناسب الفاظ کا استعمال ، بزرگ شہری مقدمے سے ڈسچارج

    انھوں نے کہا کہ انسانی دماغ کائنات کا سب سے پیچیدہ اور حیرت انگیز نظام ہے، دماغی صحت کو نظرانداز کرنا زندگی نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

    وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ دماغی بیماریوں میں مبتلا افراد تکلیف ہی نہیں سہتے بلکہ اکثر معاشرتی بے حسی اور لاپرواہی کا بھی شکار ہوتے ہیں، دماغی صحت کو جسمانی صحت جتنی ہی اہمیت دینا ضروری ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/punjab-chief-ministers-decision-regarding-taxes-restaurants-and-wedding-halls/

  • ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں؟ کیا آپ بھی اس کا شکار ہیں

    بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسی چیزیں دیکھ یا سُن رہے ہیں جو درحقیقت موجود ہی نہیں ہیں، اکثر لوگ اسے توہم پرستی میں اوپری ہوا کا اثر کہتے ہیں لیکن میڈیکل سائنس اس کے برعکس بیان کرتی ہے۔

    ایسے حالات یا تجربات درحقیقت ہماری جسمانی یا ذہنی صحت سے متعلق ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات صحت کے سنگین مسائل کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے تجربے کو طبی زبان میں ’ہیلوسینیشن‘ کہتے ہیں۔

    Hallucinations

    ’ہیلوسینیشن‘ کسے کہتے ہیں ؟

    کسی شخص کو کسی شے یا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی بھی نہ ہو پھر بھی آوازیں سنائی دینے لگیں تو اس عمل کو ’ہیلو سینیشن‘ کہتے ہیں۔

    زیادہ تر معاملات میں ہیلوسینیشن کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور یہ مریض کے معیار زندگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نشہ یا کچھ ادویات کے اثرات کو ایک طرف چھوڑ دیا جائے تو زیادہ تر معاملات میں اس کے لیے سنگین ذہنی اور دماغی صحت کی خرابیاں ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے بھارتی ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا دتہ (پی ایچ ڈی) کا کہنا ہے کہ ہیلوسینیشن ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہمارے حواس متاثر ہونے لگتے ہیں، یہ فریب کاری کئی قسم کی ہو سکتی ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں کو بصری فریب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کو سماعت کے فریب کا سامنا ہو سکتا ہے، جس میں وہ ایسی آوازیں سن سکتے ہیں جو حقیقی نہیں ہیں جیسے کہ کسی کے بولنے یا گانے کی آواز وغیرہ۔

    اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو ’ٹیکٹائل ہیلوسینیشن‘ کا بھی سامنا ہوسکتا ہے یعنی ایسا محسوس ہو جیسے کوئی انہیں چھو رہا ہے اور ذائقہ یا بو سے متعلق فریب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    Visual

    فریب کی وجوہات

    ڈاکٹر رینا دتہ بتاتی ہیں کہ ہیلوسینیشن بہت سی وجوہات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جس میں جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق وجوہات اور مسائل کچھ بری عادتیں اور بعض اوقات تناؤ بھی شامل ہیں۔

    کچھ وجوہات جن کے اثرات میں ہیلوسینیشن بھی شامل ہے یا جنہیں فریب کی ذمہ دار وجوہات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں۔

    دماغی صحت کے عوارض : دماغی صحت کے عوارض جیسے شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، پی ٹی ایس ڈی، بعض دیگر فریبی عوارض، اور شدید ڈپریشن فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دماغی امراض : دماغی مسائل جیسے مرگی، پارکنسنز کی بیماری، یا دماغی ٹیومر بھی فریب کا باعث بن سکتے ہیں۔

    دواؤں کا اثر : کچھ دواؤں کے ضمنی اثر کے طور پر ہیلوسینیشن بھی ہو سکتا ہے۔

    متلی اور اضطراب: ضرورت سے زیادہ تناؤ اور اضطراب بھی انسان کو فریب کا شکار بنا سکتا ہے۔

    منشیات اور الکحل: کچھ منشیات اور الکحل کا زیادہ استعمال فریب کا باعث بن سکتا ہے۔

    نیند کی کمی: نیند کی دائمی کمی یا بے خوابی بھی فریب کا باعث بن سکتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ اگر دماغی یا دماغ سے متعلق وجوہات ہیلوسینیشن کی ذمہ دار ہیں تو ضروری ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر دوائیں، کچھ خصوصی تھراپی اور سائیکو تھراپی تجویز کرتے ہیں۔

    دوسری طرف اگر منشیات کا استعمال، نیند کی کمی یا دیگر رویے یا منشیات سے متعلق وجوہات اس کے لیے ذمہ دار ہیں، جس کا اثر صرف تھوڑے عرصے تک رہتا ہے تو ڈاکٹر متاثرہ شخص کو اس سے متعلقہ اچھی عادتیں اپنانے کا مشورہ دے گا۔ یعنی غذا، طرزِ زندگی اور باقاعدگی سے ورزش کرنا وغیرہ۔

  • پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟

    پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟

    کسی بھی فرد کو اچانک، غیرمتوقع اور حادثاتی طور پر ملنے والی کوئی اطلاع کسی ایسے صدمے سے دوچار کر سکتی ہے جو انتہائی خوفناک اور روح فرسا ہو اور ذہن پر حاوی ہونے کے ساتھ اس کے لیے ناقابلِ‌ برداشت ہو۔

    اس کی مثال کسی سنگین بیماری کی تشخیص ہونا، سڑک پر کسی دل دہلا دینے والے حادثے کا شکار ہونا یا ایسے ہی کسی حادثے کو دیکھنا، غیر متوقع چوٹ یا کسی انتہائی قریبی عزیز کی اذیت ناک موت کا سانحہ، اغوا اور شدید مالی نقصان۔

    اس طرح کے کسی بھی واقعے کے بعد ہم ذہنی اذیت کا شکار ہو سکتے ہیں جو Post-traumatic stress disorder (PTSD) یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کہلاتا ہے۔ اس کی علامات چھے ہفتوں تک بر قرار رہ سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ کسی کی مدد کے بغیر ہی اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پا لیتے ہیں۔ تاہم تین میں سے ایک فرد میں کئی مہینوں بلکہ برسوں تک ایسے مسئلے میں گرفتار رہ سکتا ہے۔ کم تکلیف دہ مگر طویل عرصہ تک برقرار رہنے والی ذہنی اذیت کے بھی یہی اثرات ہو سکتے ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی عام طور پر اذیت ناک حادثے یا تجربے کے چھ ماہ کے اندر اندر یا بعض اوقات چند ہفتوں کے اندر شروع ہوجاتا ہے اور کسی بھی فرد میں اس کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی میں جذباتی صدمے کے بعد آپ رنج والم، ذہنی دباؤ، اضطراب، احساسِ جرم یا غصے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مندرجہ ذیل احساسات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

    اذیت ناک حادثے کا خیال بار بار ذہن میں آنا، اور آپ ذہنی طور پر اس صورت حال سے بار بار گزرتے ہیں۔ ایسا فرد واقعے کے بارے میں سوچنے سے گریز اور ذہنی پریشانی سے بچنے کے لیے مصروفیات کا سہارا لیتا ہے اور اس میں‌ کسی بھی ایسی چیز یا لوگوں سے گریز کرتا ہے جس سے اس واقعے کی یاد ذہن میں تازہ ہو جائے۔ ارد گرد پر نظر رکھنا اور ہر وقت چوکنا رہنا، سکون نہ ہونا، بے چینی اور بے خوابی۔

    اس طبّی مسئلے سے دوچار افراد جسمانی علامات میں درد، اسہال، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، سر درد، خوف کے احساس کے ساتھ ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم یہ علامات دیگر کئی امراض کی صورت میں‌ بھی سامنے آتی ہیں، اور اس کے لیے معالج سے رجوع کرنا بہتر ہوتا ہے۔

    اس کی ممکنہ وجوہ میں نفسیاتی اثر کے علاوہ جسمانی مسئلہ بھی شامل ہے۔ پی ٹی ایس ڈی کی شدت کم کرنے کے لیے یا اس سے نکلنے کے لیے خود بھی متاثرہ فرد کوشش کرسکتا ہے۔

    حادثے کی تما تکلیف دہ تفصیلات کے بار بار یاد آنے سے فرد بہت زیادہ ہیجان اور دباؤ کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی تناؤ، جھنجھلاہٹ، بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت رہتی ہے۔

    سادہ سا علاج کی بات کریں تو پی ٹی ایس ڈی سے بچنے کے لیے اپنے روزمرہ کام اور معمولات کو اچھی طرح دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کریں۔ کسی قریبی دوست سے اس واقعے کے بارے میں باتیں کریں اور سکون آور ورزشیں کریں۔ کھانا باقاعدگی سے کھائیں، جسمانی ورزش کریں اور دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ اگر کسی شدید حادثے اور دل خراش واقعہ کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا ہو تو دوبارہ اس جگہ جانے کی کوشش کریں اور منطقی جائزہ لیں۔ یہ غور کریں‌ کہ ایسا کچھ دوبارہ ہوا تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے اس صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں۔

    اپنےاوپر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں نہ اپنے آپ سے بہت زیادہ توقعات رکھیں۔ پی ٹی ایس ڈی کی علامات آپ کی شخصیت میں کسی کمزوری کی علامت نہیں ہیں۔ یہ بہت ہی اذیت ناک اور تکلیف دہ واقعات سے گزرنے والے لوگوں میں عام طور پہ نظر آتی ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا کم مت کریں۔ بہت زیادہ سگریٹ یا شراب نوشی نہ کریں۔ اپنی نیند یا خوراک میں زیادہ کمی نہ ہونے دیں۔

    اگر آپ شدید ذہنی تکلیف کی وجہ سے نہ سو سکتے ہوں اور نہ ہی واضح طور پر سوچ سکتے ہوں تو پھر آپ سکون آور ادویات لے سکتے ہیں لیکن انہیں دس دن سے زیادہ کے لیے نہیں لینا چاہیے۔

    کسی بھی مریض کو جسمانی ورزشوں کے ذریعے علاج پر توجہ دینی چاہیے جن میں فزیو تھراپی یعنی جسم کے مختلف حصوں کی ورزش، مالش، یوگا، مراقبہ وغیرہ تکلیف کے احساس میں کمی کے ساتھ ہر وقت چوکنا یا خطرے کے احساس سے دوچار رہنے کی کیفیت کو کم کرتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ آپ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے تکلیف محسوس نہیں‌ گے اور خود کو ہر وقت کسی خطرے کی زد میں محسوس کرنا بند کر دیں گے تو یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔

  • بڑھاپے میں دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل

    بڑھاپے میں دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل

    عمر کے ساتھ ساتھ جسم اور دماغ کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے اور بڑھاپے میں کئی امراض لاحق ہوجاتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے دماغی امراض سے بچنے کا آسان حل بتا دیا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کی اندرونی سوزش میں اضافہ ہوتا ہے جو اعصابی انحطاط کی وجہ بنتا ہے، تاہم ماہرین نے اس کا ایک آسان حل پیش کردیا ہے اور وہ ہے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال۔

    سبزیاں اور پھل جسم کے مرکزی اور اہم ترین عضو دماغ کے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پھل اور سبزیوں میں مرغن غذاؤں اور فاسٹ فوڈ کے مقابلے میں فائٹو کیمیکلز، معدنیات اور پولی فینولز کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو خون کی روانی کو برقرار رکھتے ہیں۔

    خون کے بہاؤ سے دماغ سمیت تمام اعضا کو خون پہنچتا ہے اور اپنے ساتھ آکسیجن بھی لے جاتا ہے، اس سے دماغی افعال بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔

    علاوہ ازیں پھل اور سبزیوں میں اندرونی سوزش اور جلن یعنی انفلیمیشن کم کرنے والے کئی مرکبات موجود ہوتے ہیں، عمر رسیدہ افراد میں یہی سوزش ڈیمنشیا اور الزائمر سمیت دماغی انحطاط کے کئی امراض کو جنم دیتی ہے۔

    اسی لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال ایسے افراد کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

  • 6 منٹ کی سخت ورزش کا حیران کن نتیجہ، نئی تحقیق

    طبی ماہرین نے ایک تحقیق کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ محض 6 منٹ کی سخت ورزش آپ کے دماغ میں ایک اہم مالیکیول کو بڑھا دیتی ہے، جو دماغی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔

    یہ ریسرچ اسٹڈی نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں کی گئی جو جرنل آف سائیکولوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ چھ منٹ کی تیز رفتار ورزش سے حیران کن طور پر دماغ میں ایک اہم پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے، یہ پروٹین دماغ کی بناوٹ، افعال اور یادداشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اس پروٹین کی کمی یا خرابی کی وجہ سے الزائمر کی بیماری جیسا کہ نیوروڈیجینریٹیو عوارض ابھرنے لگتے ہیں۔

    زیربحث خصوصی پروٹین کو ’دماغ سے ماخوذ نیوروٹروفک فیکٹر‘ (BDNF) کہا جاتا ہے، اور یہ دماغ میں نیورون سیلز کی نشوونما اور بقا دونوں کو فروغ دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ نئے روابط اور سگنل لانے لے جانے والے راستوں کی نشوونما میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ صرف چھ منٹ کی سخت اور تیز ورزش آپ کو دماغی امراض سے بچا سکتی ہے۔

    ریسرچ کیسے کی گئی؟

    محققین نے جسمانی طور پر فعال 12 رضاکاروں کو ریسرچ اسٹڈی کے لیے منتخب کیا، جن کی عمریں 18 سے 56 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام شرکا کو تین مختلف طریقوں کے ذریعے جانچا گیا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دماغ میں بی ڈی این ایف کی پیداوار بڑھانے کے لیے کون سا طریقہ بہترین ہے۔

    ان تین طریقوں میں 20 گھنٹے کا روزہ، 90 منٹ سائیکل چلانا، اور 6 منٹ کی بھرپور سائیکلنگ شامل تھی۔

    مختصر وقت کے لیے تیز رفتار یعنی سخت سائیکلنگ نے اس پروٹین کی پیداوار بڑھانے حیران کن نتائج فراہم کیے، درحقیقت، اس نے خون میں بی ڈی این ایف کی سطح کو 4 یا 5 گنا بڑھایا، اس کے برعکس ہلکی ورزش کے بعد معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا، تاہم روزے کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ دماغ کو صحت مند رکھنے اور بیماری سے بچانے کے لیے زیادہ شدت والی ورزش ایک آسان اور سستا طریقہ ہے۔

    نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی فزیالوجسٹ ٹریوس گبنس کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اب تک انسانوں میں اس اہم پروٹین کی پیداوار بڑھانے اوراس کی طاقت کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں، حالاں کہ جانوروں کے ماڈلز میں اس کی کارکردگی اچھی رہی۔ لہذا انھوں نے اس کے لیے غیر روایتی طریقوں کو تلاش کیا، جو اس پروٹین کی پیداور کو بڑھا کر اسے مستقبل میں استعمال کرتے ہوئے دماغی امراض سے بچا سکے۔

  • وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں اس وقت 5 کروڑ افراد کسی نہ کسی نوعیت کے ذہنی امراض کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی امراض کو اہم مسئلہ خیال کرتے ہوئے اسے اولین ترجیح دینا ضروری ہے اور صحت کے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

  • کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟

    کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟

    بوسٹن: کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟ امریکا میں ہونے والے ایک وسیع سطح کے تحقیقی مطالعے میں ماہرین نے ہیٹ اسٹروک اور دماغی امراض کے درمیان تعلق دریافت کر لیا ہے۔

    یہ تحقیق امریکی جریدے جاما سائیکیٹری میں شائع ہوئی، اور یہ تحقیق بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی پبلک ہیلتھ کی پروفیسر امروتا شرما اور دیگر نے کی ہے۔ محققین کا نتائج کے حوالے سے کہنا ہے کہ سخت گرمی اور ہیٹ اسٹروک سے دماغی عوارض اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔

    اس تحقیق سے قبل بھی ریسرچ اسٹڈیز میں کسان، چرواہوں اور مچھیروں کے حوالے سے آب و ہوا میں تبدیلی اور دماغی تناؤ، نفسیاتی عوارض کے درمیان تعلق کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔

    موجودہ تحقیقی سروے میں لگ بھگ 20 لاکھ امریکیوں کا ڈیٹا لیا گیا، ماہرین نے جائزہ لیا کہ سخت گرمیوں میں ان کی دماغی کیفیت کیا تھی؟ انھوں نے دیکھا کہ وہ گرمی کے ہاتھوں دماغی طور پر وہ کسی عارضے کے شکار تو نہیں ہوئے۔ محققین نے اس ڈیٹا کے علاوہ اسپتالوں کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا کہ گرمیوں کے دنوں میں لوگ ایمرجنسی میں اسپتال گئے تو کتنے افراد دماغی طور پر پریشان یا کسی منفی کیفیت کے شکار تھے۔

    محققین نے ریسرچ کے بعد خلاصہ کیا کہ سخت گرمی اور ہیٹ اسٹروک کی کیفیت لوگوں میں یاسیت، تناؤ، ڈپریشن، منشیات اور سکون آور ادویہ کا استعمال بڑھاتی ہے اور یہاں تک کہ لوگ خود کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    دوسری جانب شدید گرمی امراضِ قلب کو بھی بڑھا سکتی ہے، گرمی اور نفسیاتی اثرات کی تحقیقات میں کل 22 لاکھ سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا، معلوم ہوا کہ اگرچہ یہ افراد کچھ عارضوں کے شکار تھے لیکن گرمی سے ان کے مرض کی شدت بڑھ گئی یہاں تک کہ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جانا پڑ گیا۔

  • بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات سے مستقبل میں ان میں مختلف دماغی امراض کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

    میساچیوسٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات اور موٹائی کو دیکھ کر مستقبل میں ان میں ڈپریشن اور دماغی امراض کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

    ایم جی ایچ کی ماہر ایرن سی ڈن نے اپنی حیرت انگیز تحقیق میں کہا کہ ابتدائی کم عمری میں بچوں کی مشکلات آگے چل کر ان کی شخصیت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    بچوں کے ابتدائی ماہ و سال بہت حساس ہوتے ہیں اور کوئی بھی ناخوشگواری ایک تہائی دماغی عارضوں کی وجہ بن سکتی ہے جس کے واضح اثرات جوانی اور بلوغت میں سامنے آتے ہیں۔

    تحقیق کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ڈپریشن اور دیگر امراض میں مبتلا افراد سے ان کے بچپن کے واقعات اور مسائل کے بارے میں پوچھا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہرفرد کو اپنے بچپن کی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس لحاظ سے یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے ساتھ بچپن میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے نقوش دانتوں پر آجاتے ہیں۔ یوں انہیں، زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ایک ریکارڈ کہا جاسکتا ہے۔ بیماری ہو، ذہنی تناؤ ہو یا پھر غذائی قلت ان کا اثر دانتوں پر آتا ہے۔ درختوں کے تنوں میں دائروں کی طرح کی دھاریاں دانتوں میں بنتی ہیں جنہیں اسٹریس لائن کہا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں ایم جی ایچ کےماہرین نے 70 بچوں کا جائزہ لیا جس میں ایوون لونگٹیوڈینل اسٹڈی آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن کے تحت برطانوی بچوں کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے والدین میں حمل کی سختیوں، والدہ کی نفسیاتی مسائل کی تاریخ، پڑوس کا ماحول، غربت اور رویہ اور معاشرتی سپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن ماؤں نے تناؤ بھرا ماحول گزارا تھا اور بے چینی سے گزری تھیں ان کے بچوں پر اس کے اثرات دیکھے گئے اور ان کے دانتوں پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے تھے۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے بعد زور دیا ہے کہ بچوں میں دودھ کے دانتوں کے معائنے سے انہیں مستقبل میں کئی امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔

  • کیا ایک صحّت مند شخص ذہنی طور پر بھی توانا ہوتا ہے؟

    کیا ایک صحّت مند شخص ذہنی طور پر بھی توانا ہوتا ہے؟

    کیا جسمانی طور پر توانا اور صحّت مند نظر آنے والا کوئی شخص ذہنی طور بھی تن درست ہوسکتا ہے؟ سائنس دانوں‌ کے مطابق جسمانی اور ذہنی صحّت یا تن درستی دو الگ باتیں‌ ہیں۔ جس طرح‌ جسمانی صحّت اور توانائی کو بحال رکھنے کے لیے ہم غذائی اجناس اور ضرورت کے مطابق خوراک پر انحصار کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں‌ اپنی ذہنی صحّت پر بھی توجہ دینا چاہیے۔

    عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق صحّت مند وہ شخص ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تن درست ہو، لیکن عام طور پر ایسا نہیں‌ سمجھا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ذہنی صحّت سے متعلق مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کے ان خدشات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں‌ اکثریت کو غربت اور علاج معالجے کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا ہے اور لوگ‌ ذہنی صحّت اور امراض کے بارے میں‌ آگاہی نہیں‌ رکھتے۔

    بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذہنی مسائل اور بیماریوں کے علاج کی ضرورت ہی محسوس نہیں‌ کی جاتی اور لوگ سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں رپورٹ ہونے والے خودکشی کے کیسوں میں سے 90 فی صد کا تعلق ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض سے ہے۔ ذہنی امراض کے شکار افراد پر توجہ دینے اور ان کی مدد کرنے کا رحجان کم ہے جب کہ علاج کی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن آپ کی نیند اور معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونے کے بعد مسلسل عدم توجہی کے سبب خودکشی تک لے جاتا ہے۔

    پاکستان مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ غیر سرکاری ادارے کے مطابق پاکستان میں‌ نوجوان کی بڑی تعداد ڈپریشن کی مریض ہے۔

    عالمی ادارے کی رپورٹ میں‌ کہا گیا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں تعلیم و روزگار کے حصول کی دوڑ اور مسابقت کی فضا خاص طور پر نوجوانوں کو ذہنی دباؤ اور مختلف بیماریوں میں‌ مبتلا کررہی ہے۔

    عصرِ حاضر میں ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز‌ کا غیر ضروری یا اضافی استعمال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور طبی سائنس کے مطابق انٹرنیٹ اور سیلفی کا جنون نوجوانوں‌ کو ذہنی مسائل سے دوچار کررہا ہے۔

    سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہوئے نوجوان توازن اور اعتدال برقرار نہیں‌ رکھتے جس کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح ان کی ذہنی صحّت متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو ان عوامل پر توجہ دینا ہو گی جن کی مدد سے نوجوانوں کے رویّوں اور ان کے طرزِ زندگی میں مثبت اور توانا تبدیلی آئے۔

    عالمی ادارۂ صحّت کے ماہرین کے مطابق نوجوانوں‌ کو اس حوالے سے آگاہی دینے اور ان کی راہ نمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر گزشتہ سال جاری کی گئی رپورٹ میں علاج کے بجائے احتیاط کو اہمیت دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ اور کسی بیماری کی صورت میں ماہرِ ‌نفسیات سے ضرور رابطہ کریں۔

    عالمی ادارۂ صحّت کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے چند ہدایات اور عملی کوششوں کی‌ ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی ممکنہ چیلنج کے حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے چاہییں۔

    والدین، تعلیمی ادارے، معاشرہ اور حکومت اہم ستون ہیں جن کا باہمی تعاون کئی مسائل سے نمٹنے میں‌ مدد دے سکتا ہے۔

    کمیونٹی سروسز کو تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے۔ طلبا کو سماجی خدمت کے پراجیکٹس دیے جائیں جو ان کے مضمون سے متعلق ہوں اور ان کی تعلیمی سند کا حصول ان پراجیکٹس کی تکمیل سے مشروط کیا جائے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ جو طلبا کمیونٹی سروسنگ نہ کریں، انھیں ڈگری جاری نہ کی جائے۔ ایسا کرنے سے ان میں احساسِ ذمہ داری اور جذبہ خدمت پیدا ہو گا جو معاشرے میں سدھار لاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے حکومتی سطح پر جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور اس میں ماہرین کی رائے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

  • مینیا (Mania) کیا ہے؟

    مینیا (Mania) کیا ہے؟

    بائیپولر افیکٹو ڈس آرڈر وہ بیماری ہے جس کا تعلق ہمارے موڈ اور دماغی حالت سے ہے۔ اس بیماری میں مختلف اوقات میں انسان مختلف کیفیات کا شکار ہوسکتا ہے جس میں‌ سے ایک مینیا (Mania) بھی ہے۔

    کبھی کبھی ہم سب بہت زیادہ خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں اور مختلف شکلوں‌ میں‌ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن اس کی کوئی وجہ، سبب ضرور ہوتا ہے، لیکن جب ایسا بے سبب ہو اور خوشی و مسرت کے حد سے زیادہ اظہار کی کوئی بڑی یا معقول وجہ نظر نہ آرہی ہو تو یہ دماغی مسئلہ ہوسکتا ہے۔

    اکثر ہم خود کو بہت زیادہ توانا پاتے ہیں‌ اور ذہن میں نئے نئے خیالات جنم لینے لگتے ہیں،‌ ہم طرح طرح کے منصوبے بناتے ہیں جن پر عمل کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے اور یہ سلسلہ طول پکڑ جائے یا حد سے بڑھ جائے تو اسے بیماری تصور کیا جائے گا۔

    بائیپولر افیکٹو ڈس آرڈر کی وہ حالت جسے مینیا کہا جاتا ہے، اگر معمولی اور غیرمستقل ہو تو اسے کسی سطح پر نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ علامات شدت اختیار کر جائیں‌ تو ایسے فرد کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مینیا (Mania) کی علامات یہ ہیں:

    ● بغیر کسی ٹھوس اور معقول وجہ کے حد سے زیادہ گرم جوشی اور بات بات پر خوشی کا اظہار کرنا۔

    ● اکثر اوقات زیادہ چڑچڑے ہو جانا۔

    ● خود کو کوئی بہت بڑی ہستی اور اہم شخصیت خیال کرنا۔

    ● خود کو طاقت وَر اور زیادہ توانا محسوس کرنا۔

    ● بہت تیزی سے حرکت کرنا یا ہر کام تیزی سے انجام دینا جب کہ اس کی کوئی ضرورت بھی نہ ہو، اسی طرح اونچی آواز میں اور بہت زیادہ بولنا۔

    ● بہت کم نیند محسوس کرنا اور دنوں‌ تک نیند نہ ہونے یا بہت کم نیند لینے کے باوجود مزید سونے کی خواہش نہ ہونا اور کسی قسم کی تھکن محسوس نہ ہونا۔

    ● ایسے بڑے بڑے منصوبے بنانا جن پر کام کرنا ممکن نہ ہو۔

    ● معمول کے مقابلے میں بہت زیادہ اکثر خریداری وغیرہ پر پیسے خرچ کرنا۔

    بائیپولر افیکٹو ڈس آرڈر کے اس مرحلے میں اکثر انسان اپنے اندر تبدیلیوں‌ اور ان کیفیات کو سمجھ ہی نہیں‌ پاتا، لیکن اس کے قریبی لوگ ضرور ان تبدیلیوں‌ کو جان لیتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے ایسے مریض کو سمجھانا اور اسے علاج پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ کیفیت کچھ عرصے میں‌ خود ختم بھی ہوسکتی ہے، لیکن ایسا نہ ہو تو ماہر معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس قسم کے امراض‌ اگر شدت اختیار کرلیں‌ تو معمولاتِ زندگی کو بری طرح‌ متاثر کرتے ہیں۔