Tag: دماغی امراض

  • کرونا وائرس سے صحتیاب مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں

    کرونا وائرس سے صحتیاب مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں

    کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس سے صحتیاب ہوجانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہیں، اس کے دیرپا اثرات بھی کم خطرناک نہیں ہیں۔

    حال ہی میں برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس ذہنی امراض کی شرح میں اضافہ کردے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض سے صحتیاب ہوجانے والے طویل عرصے تک مختلف ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار رہ سکتے ہیں۔

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والا ہر 3 میں سے 1 شخص پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر (حادثے کے بعد اس کا تناؤ اور خوف)، ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے سنہ 2002 کے سارس وائرس، 2012 کے مرس وائرس اور موجودہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کا جائزہ لیا، زیادہ توجہ سارس اور مرس وائرس سے متاثرہ افراد پر رکھی گئی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے اس کے اثرات مبہم ہوسکتے ہیں کیونکہ اول تو کرونا وائرس کا پھیلاؤ ان دونوں وائرسز سے کہیں زیادہ ہے، علاوہ ازیں کرونا وائرس سے صحتیابی کے بعد کے اثرات فی الحال نامعلوم ہیں، اور یہ اثرات سارس اور مرس جیسے ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ذہنی امراض کا سامنا کرونا وائرس کے تمام مریضوں کو نہیں ہوگا لیکن چونکہ اس کا شکار افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذہنی امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سے صحتیاب تقریباً 15 فیصد افراد کم از کم ایک سال تک ذہنی امراض کا شکار رہیں گے جس سے وہ صحتیابی کے بعد بھی معمول کی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔

    تحقیق میں برطانیہ کی ایک تنظیم کوویڈ ٹراما رسپانس ورکنگ گروپ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب مریض ذہنی امراض کا شکار ہونے والے گروپس میں پانچواں گروپ ہوں گے۔

    صحتیاب مریضوں کے علاوہ جو 4 گروپس ذہنی امراض سے متاثر ہوں گے ان میں طبی عملہ، وہ افراد جنہوں نے اس مرض کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھو دیا، وہ جو پہلے سے دماغی مسائل کا شکار تھے اور وہ جو آئسولیشن میں رہتے ہوئے مختلف مسائل کا شکار ہوئے جیسے گھریلو تشدد، شامل ہیں۔

  • مرگی کے مریضوں کی مددگار کمپیوٹر "چِپ”

    مرگی کے مریضوں کی مددگار کمپیوٹر "چِپ”

    مِرگی ایک دماغی مرض ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد اس میں مبتلا ہیں۔

    مرگی کی مختلف اقسام ہیں جن سے کوئی فرد عارضی اور مستقل طور پر متاثر ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس مرض سے متعلق تفصیل میں جانے سے پہلے ایک سائنسی تجربے سے متعلق جان لیجیے۔

    حال ہی میں کینیڈا کی کیلگرے یونیورسٹی سے ایک امید افزا رپورٹ سامنے آئی ہے۔ یہ ایک سائنسی تجربے سے متعلق ہے جس کے مطابق سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسی کمپیوٹر چِپ تیار کی ہے جسے دماغ کے ساتھ نصب کرنے سے مرگی اور دیگر دماغی امراض کو بڑی حد تک "سنبھالا” جاسکتا ہے۔

    پاکستانیوں کے لیے یہ بات باعثِ مسرت ہوگی کہ اس ٹیم کی سربراہی پاکستانی نژاد ڈاکٹر نوید سید کررہے ہیں۔

    سائنس دانوں کی جانب سے تجربہ گاہ میں چِپ کی آزمائش کے بعد انسانوں پر بھی اس کا تجربہ کیا جائے گا۔

    مرگی کے اسباب سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دماغ میں برقی انتشار کے ردعمل میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہے۔ سائنس دانوں‌ کے مطابق ہر انسان کا دماغ برقی رو کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے تک جڑا رہ کر اپنا فعل انجام دیتا رہتا ہے اور جب اس دماغی کرنٹ کا نظام متاثر ہوتا ہے اور اس میں وقفے وقفے سے بگاڑ آتا ہے تو ایسے فرد کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ یہ جھٹکے یا دورے مختلف صورتوں یا اقسام کے ہوتے ہیں۔

    ایسا مریض ہوش و حواس کھو دیتا ہے، اکثر ان کا جسم اکڑ جاتا ہے، وہ چلتے ہوئے اور بیٹھے بیٹھے گر پڑتے ہیں اور ان کا جسم جھٹکے لینے لگتا ہے۔

  • خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    اس مشینی دور نے ہمارے طرزِ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ہر طرف افراتفری، انتشار نظر آتا ہے۔

    ہم میں‌ سے ہر فرد طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہا ہے جن میں گھریلو جھگڑے، عام مسائل کے علاوہ بے روزگاری یا کم تنخواہ کی وجہ سے اکثر لوگ ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔

    تنگ دستی، غربت کے ساتھ جہاں ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں، وہیں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جو صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہیں اور یہ سب ہماری ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ اور شدید ڈپریشن کے شکار لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    دماغی اور ذہنی صحت کے حوالے سے سرگرم اداروں کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 33 فی صد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ذہنی تناؤ سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا غریب ممالک ہی نہیں ترقی یافتہ اور ان ملکوں کو بھی ہے جہاں صحت اور علاج کی بہتر سہولیات
    موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذہنی امراض سے متاثر ہونے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ذہنی تناؤ اور مختلف دماغی امراض کے باعث دنیا بھر میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہر طرح کا دباؤ نقصان دہ نہیں ہوتا اور بعض اوقات وقتی طور پر کوئی بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔

    اگر مسائل ختم ہوجائیں یا کسی طرح کوئی فرد اس ذہنی تناؤ پر قابو پا سکے تو نارمل ہوسکتا ہے۔

    ذہنی تناؤ کے نتیجے میں اعصابی نظام، ہارمونز، نظامِ تنفس پر اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت کسی بات کو سوچتے رہنا، فکرمند رہنا، غصہ آنا، مستقل چڑچڑا پن شدید ذہنی تناؤ کی علامات ہیں۔

  • فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    زندگی میں نشیب و فراز اور حالات کا اتار چڑھاؤ ہماری رفتار تو کم کرسکتے ہیں، لیکن ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور بُرا وقت بھی گزر جاتا ہے۔

    مشکل حالات اور کڑے وقت کا سامنا کرتے ہوئے ہم گھبراہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجانے خدشے، اندیشے ستاتے ہیں اور ہم پریشان رہنے لگتے ہیں۔

    اسی طرح جب کوئی خطرہ سَر پر ہو یا افتاد ٹوٹ پڑنے کا ڈر ہو تو ہم اس کے "خوف” میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو حاوی ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    فوبیا، کسی مخصوص صورتِ حال یا چیز کے خوف کو کہتے ہیں جس میں کچھ خاص تدابیر اور طریقے اپنائے جائیں تو اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہر قسم کی احتیاط، کچھ چیزوں سے پرہیز اور اجتناب کرنا بتدریج بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔

    کوشش کریں کہ انجانی اور ان دیکھی شے یا خطرے کے فوبیا کو کم سے کم وقت کے لیے سوچیں، خود کو مثبت سرگرمی کی طرف دھکیل دیں۔ اچھی اور معلوماتی کتب کا مطالعہ اور دیگر مفید مشاغل اپنائیں۔ تاہم ماہر اور مستند معالج اس حوالے سے بہتر راہ نمائی کرسکتا ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق اکثر فوبیا کے شکار لوگوں پر عرصے بعد کُھلتا ہے کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ تھے، وہ کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا کہ اس سے مسلسل پریشان رہا جاتا، لیکن اس پر توجہ دینا اور ضرورت پڑنے پر باقاعدہ علاج یا عادات و رویے میں تبدیلی لاکر گھبراہٹ اور بے چینی کی شدت سے بچنا بہرحال ضروری تھا۔

    بعض اوقات تشویش، پریشانی اور اس کے نتیجے میں گھبراہٹ کی بہت واضح اور معقول وجوہ بھی ہوتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس حوالے سے غیرمستند، غیرضروری اور سنی سنائی باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے درست اور مناسب راہ نمائی اور مشاورت ضروری ہوتی ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ اور رویوں پر برسوں کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مستقبل کا خوف یا کل کے اندیشوں سے گھبرانے کے بجائے فوبیا کے شکار افراد کو اگر اس بات پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے ڈٹ کر‌ حالات کا مقابلہ کریں تو ان کی حالت میں بتدریج بہتری آسکتی ہے اور مسائل کے حل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

  • کیا خوشی سے بھی خوفزدہ ہوا جاسکتا ہے؟

    کیا خوشی سے بھی خوفزدہ ہوا جاسکتا ہے؟

    خوشی ایک ایسی شے ہے جو ہر انسان اپنی زندگی میں چاہتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کچھ لوگ خوشی سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں؟

    انسان کو لاحق بہت سے فوبیاز یا خوف میں سے ایک خوف خوشی کا بھی ہے جسے چیئرو فوبیا بھی کہا جاتا ہے، بظاہر یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ خوشی کی تلاش انسان کی زندگی کا اہم مقصد ہوتا ہے لیکن ایسے بھی افراد ہوتے ہیں جو اس سے بچنا چاہتے ہیں۔

    دراصل ایسے افراد کے اس خوف کی جڑیں ان کے ماضی سے پیوست ہوتی ہیں۔ ایسے افراد کے ساتھ کسی ایسے موقع پر، جب وہ بے حد خوش ہوں، کوئی دردناک واقعہ، حادثہ یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔

    لہٰذا ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے انہیں ملنے والی خوشی اپنے ساتھ کوئی دکھ بھی لائے گی، چنانچہ وہ خوشی سے بچنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

    ایسے افراد نا چاہتے ہوئے بھی تنہائی پسند بن جاتے ہیں، لوگوں سے ملنا اور محفلوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں ذرا سی خوشی بھی خوفزدہ کرنے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے آس پاس رہنے والے افراد کو چاہیئے کہ انہیں خوشی کے چھوٹے چھوٹے مواقعوں سے متعارف کروائیں اور ان میں مثبت خیالات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے قریبی افراد کی مدد سے ہی ایسے افراد اپنے خوف پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • وہ عادات جو بائی پولر ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    وہ عادات جو بائی پولر ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر کی کچھ عام علامات یہ ہیں۔

    حد سے زیادہ ڈپریشن

    نیند میں بے قاعدگی

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    کام میں غیر دلچسپی

    خودکش خیالات

    حد سے زیادہ غمگین محسوس کرنا

    بے حد مایوسی چھا جانا

    حد سے زیادہ خوش اور پر جوش ہونا

    کسی بھی کام میں دل نہ لگنا

    تھکن اور کمزوری محسوس ہونا

    غائب دماغی کی کیفیت

    احساس کمتری کا شکار ہوجانا

    ماضی کی ہر بری بات کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانا

    بھوک اور وزن میں بہت زیادہ کمی یا زیادتی ہونا

    طویل عرصے تک بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار رہنے والے افراد میں کچھ عجیب و غریب عادات اپنی جگہ بنا لیتی ہیں، ان عادات سے واقفیت ضروری ہے تاکہ انجانے میں آپ کسی مرض کی شدت کو بڑھا نہ دیں۔

    یادداشت کی بدترین خرابی

    بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض یادداشت کی بدترین خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں اپنے روزمرہ کے کاموں جیسے کھانا پکانے یا غسل کرنے کے لیے بھی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مستقبل کے موڈ کی فکر

    ایسے افراد عام افراد کی طرح اداس یا خوش نہیں ہوسکتے، جب بھی یہ خوش ہوتے ہیں تو انہیں خیال آتا ہے کہ کہیں یہ خوشی عارضی تو نہیں؟ کہیں اس کے بعد مجھے کسی دکھ کا سامنا تو نہیں کرنا؟

    غمگین ہونے کی صورت میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ مستقل اس کیفیت میں رہتے ہوئے کیسے اپنی زندگی گزاریں گے؟

    گو کہ خوشی غمی کو عارضی سمجھنا اور وقت بدلنے کی امید کرنا ایک فطری خیال ہے تاہم اسے اپنے اوپر سوار کرلینا بائی پولر ڈس آرڈر کی نشانی ہے۔

    بہت زیادہ اور بہت تیزی سے گفتگو کرنا

    بائی پولر ڈس آرڈر کے شکار افراد عام افراد کے برعکس بہت تیزی سے گفتگو کرتے ہیں، علاوہ ازیں یہ مقابل کا خیال کیے بغیر بہت یادہ بولتے ہیں اور اس رو میں اپنے ذاتی راز بھی افشا کردیتے ہیں جس پر بعد میں انہیں شرمندگی ہوسکتی ہے۔

    معمولی اشیا سے الجھن مں مبتلا ہونا

    ایسے افراد کو بعض معمولی آوازیں بہت زیادہ پریشان کرسکتی ہیں۔ معمولی باتیں ایسے افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب یہ سونے کے لیے لیٹتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ ان کا کمبل برابر بستر پر پھیلا ہوا ہو اور اس پر ذرا بھی شکن نہ ہو، وگرنہ وہ الجھن میں مبتلا ہو کر ساری رات جاگ سکتے ہیں۔

    تنہائی پسند

    بائی پولر ڈس آرڈر کے شکار افراد سماجی زندگی سے خود کو کاٹ کر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگتے ہیں تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی مصروفیات ترک کر دیتے ہیں۔

    لوگوں سے زیادہ سے زیادہ گریز کرتے ہوئے یہ افراد اپنی ذمہ داریاں، مشاغل اور مصروفیات پوری طرح نبھاتے ہیں اور متحرک زندگی گزارتے ہیں۔

    یاد رکھیں، بائی پولر سمیت ہر دماغی مرض کا شکار افراد مناسب علاج اور اپنے قریبی افراد کے تعاون اور مدد کی بدولت ایک عام زندگی گزار سکتے ہیں۔

  • ذہنی تناؤ سے بچنے اور خوش رہنے کا آسان نسخہ

    ذہنی تناؤ سے بچنے اور خوش رہنے کا آسان نسخہ

    آج کل کے دور میں ہر شخص ذہنی تناؤ کا شکار اور خوشی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ ماہرین نے فوری طور پر ذہنی تناؤ سے نجات پانے اور خوشی حاصل کرنے کا نہایت انوکھا طریقہ بتایا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ ذہنی تناؤ سے نجات چاہتے ہیں تو چاکلیٹ کو اپنی خوراک کا حصہ بنا لیں۔

    ایک طویل عرصے سے سائنسی و طبی ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی نئی تحقیقوں نے ثابت کیا ہے کہ چاکلیٹ کھانا نقصان دہ نہیں بلکہ دماغی و جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔

    حال ہی میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کی لوما لنڈا یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق چاکلیٹ میں پائی جانے والی کوکو دماغ کو پرسکون کر کے اس میں خوشی کی لہریں پیدا کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: باقاعدگی سے چاکلیٹ کھانا دماغی کارکردگی بڑھانے میں معاون

    ماہرین کے مطابق یہ کام چاکلیٹ میں موجود فلیونائیڈز کرتے ہیں۔ چاکلیٹ کے یہ فوائد ہم کسی عام سی چاکلیٹ بار سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے طویل عرصے تک کئی ہزار افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جو افراد چاکلیٹ زیادہ کھاتے تھے ان میں ذہنی تناؤ کی شرح دیگر افراد کے مقابلے میں کم تھی جبکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خوش تھے۔

    تحقیق میں شامل ایک پروفیسر ڈاکٹر لی کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ میں موجود مٹھاس ہمارے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور ہم جتنی زیادہ چاکلیٹ کھائیں گے اتنا زیادہ خوش رہیں گے۔

    تو پھر کیا اراداہ ہے آپ کا؟ خوشی حاصل کرنے کا یہ طریقہ کچھ زیادہ مہنگا نہیں۔

  • بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچنا بے حد آسان

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچنا بے حد آسان

    آج دنیا بھر میں بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی بیماری الزائمر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 60 لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہیں۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں


    اسباب کیا ہیں؟

    طبی ماہرین کے مطابق خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    علاوہ ازیں مندرجہ ذیل وجوہات بھی دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی ہیں جن کی طرف طرف توجہ دے کر الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض سے حفاظت کی جاسکتی ہے۔

    درمیانی عمر میں ہونے والا بلند فشار خون

    موٹاپا

    بالوں کا جھڑنا

    ذہنی دباؤ

    ذیابیطس

    جسمانی طور پر غیر متحرک رہنا

    تمباکو نوشی

    تنہائی کی زندگی گزارنا

    مزید پڑھیں: دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات


    الزائمر کی علامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کے آغاز کی 4 علامات ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان پر نظر رکھی جائے تو الزائمر کی شروعات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

    الزائمر کے مریض میں پہلی علامت غیر ضروری طور پر بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہوتی ہے۔

    دوسری علامت الفاظ کی ادائیگی میں مشکل اور غیر مناسب الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے۔

    تیسری علامت لکھتے ہوئے الفاظ کے ہجے بھول جانا ہے۔

    آخری علامت کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل پیش آنا ہے۔


    بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین کے مطابق ایسے کئی اسباب ہیں جو الزائمر کا سبب بنتے ہیں اور ان سے بچاؤ حاصل کرکے الزائمر کے خطرے میں کسی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر پکائے جانے والے کھانوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بنتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تیز آنچ پر زیادہ دیر تک پکائے ہوئے کھانے میں گلوکوز اور پروٹینز پر مشتمل ایڈوانس گلائیکیشن اینڈ پروڈکٹس نامی پیچیدہ مرکب تشکیل پاتا ہے، جسے سائنسی زبان میں اے جی ای بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مرکب انسانی یادداشت کو متاثر کرتا ہے۔

    ایسے تمام کھانے جن میں نمک کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے وہ بھی دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نمکین کھانے ذہانت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی بھی انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے الزائمر وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔

    علاوہ ازیں جسمانی طور پر فعال رہنا بھی دماغ کے لیے فائدہ مند ہے۔ چھوٹی موٹی دماغی مشقیں جیسے ریاضی کی مشقیں زبانی حل کرنا، حساب کرنا، چیزوں کو یاد کرنا، پزل حل کرنا بھی دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: یہ آسان پہیلی حل کر کے اپنے دماغ کو فعال کریں