Tag: دماغی امراض

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    آج کی مصروف زندگی میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور زندگی کی مختلف الجھنیں ہمارے دماغ کو تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں اور ہم زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کرنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

    زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم خود یا ہمارا کوئی عزیز ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ ہم ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے اور بعض اوقات لاعلمی کے باعث ہم ان کے مرض کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف ایک اداسی ہی ڈپریشن کی علامت نہیں ہے۔

    ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات ڈپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا


    ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟

    ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔ ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہوگا۔

    ذہنی تناؤ کا شکار افراد کی جانب سے برے رویے یا خراب الفاظ کی بھی امید رکھنی چاہیئے اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا چاہیئے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ رویہ متشدد صورت اختیار نہ کرے۔

    مریض کے خیالات ور جذبات کو سنتے ہوئے آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف اس کا دھیان مبذول کروایا جائے جیسے کسی لذیذ کھانے، کسی دلچسپ (خاص طور پر مزاحیہ) ٹی وی پروگرام، خاندان میں آنے والی کسی تقریب کی تیاری، شاپنگ، کسی اہم شخصیت سے ملاقات یا کہیں گھومنے کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کی جائے۔

    اسی طرح ڈپریشن کے شکار شخص کو جسمانی طور پر قریب رکھا جائے اور انہیں گلے لگایا جائے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا کہ قریبی رشتوں جیسے والدین، بہن بھائی، شریک حیات یا دوستوں کے گلے لگنا ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلے لگنا بے شمار فوائد کا سبب

    ڈپریشن کے شکار مریض کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے لہٰذا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی لفظ مرض کو بدتری کی جانب نہ گامزن کردے۔

    ماہرین کے مطابق آپ ڈپریشن کا شکار اپنے کسی پیارے یا عزیز کا ڈپریشن کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ کا استعمال کریں۔ یہ ان کے مرض کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔


    یہ کہیں

    تم اکیلے اس مرض کا شکار نہیں ہو۔

    تم ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت کو نہیں سمجھ سکتا / سکتی لیکن میری کوشش ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔

    وقت بدل جائے گا، بہت جلد اچھا وقت آئے گا اور تم اس کیفیت سے باہر نکل آؤ گے۔

    ہم (خاندان / دوست) تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری بیماری سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔


    یہ مت کہیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل الفاظ ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    بہت سے لوگ تم سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔

    زندگی کبھی بھی کسی کے لیے اچھی نہیں رہی۔

    اپنے آپ کو خود ترسی کا شکار مت بناؤ۔

    تم ہمیشہ ڈپریشن کا شکار رہتے ہو، اس میں نئی بات کیا ہے۔

    اپنا ڈپریشن ختم کرنے کی کوشش کرو۔

    تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا / سکتی ہوں۔ میں خود کئی دن تک اس کیفیت کا شکار رہا / رہی ہوں۔

    صرف اپنی بیماری کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔


    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون لازمی چاہیئے۔

    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں

    موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔

    مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

    علامات

    یہاں ہم آپ کو اس مرض کی 5 عام علامات بتا رہے ہیں۔ اگر آپ بھی اپنے اندر یہ علامات پائیں تو یہ اس مرض کی طرف اشارہ ہے۔

    حد سے زیادہ ڈپریشن

    آج کل تقریباً ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے جو غصہ، چڑچڑاہٹ یا اداسی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس مرض میں یہ تمام علامات اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہیں۔

    اس کے ساتھ اس مرض کا شکار شخص ناامیدی، بے چینی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتا ہے یا وہ لوگوں یا مختلف صورتحال میں الجھن بھی محسوس کرسکتا ہے۔

    نیند میں بے قاعدگی

    بائی پولر ڈس آرڈر نیند پر نہایت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس مرض کا شکار شخص رات میں کم یا بے سکون نیند سوتا ہے، اس کی نیند پوری نہیں ہو پاتی یوں وہ دن بھر تھکن، سستی اور چڑچڑاہٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    بائی پولر ڈس آرڈر چونکہ موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کا شکار افراد غیر معمولی سماجی رویوں کے حامل ہوجاتے ہیں۔

    یہ اپنے دوستوں، آفس کے ساتھیوں یا نئے لوگوں سے ملتے ہوئے بدتہذیبی کا مظاہر کرتے ہیں جس کے باعث کبھی کبھار ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔

    کام میں غیر دلچسپی

    بائی پولر ڈس آرڈر مریض کی دماغی استعداد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کی ہر شے سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ اپنا کام وقت پر انجام نہیں دے پاتے۔

    اپنی اس کیفیت کے باعث وہ غیر ذمہ دار مشہور ہوجاتے ہیں۔

    خودکش خیالات

    بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار شخص منفی سوچوں میں گھر جاتا ہے لہٰذا وہ اپنے آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ ایسے افراد خود کشی کے بارے میں سوچتے ہیں اور بعض اوقات اس پر عمل بھی کر ڈالتے ہیں۔

    مزید علامات

    اس بیماری کی مزید علامات یہ ہیں۔

    حد سے زیادہ غمگین محسوس کرنا

    بے حد مایوسی چھا جانا

    حد سے زیادہ خوش اور پر جوش ہونا

    کسی بھی کام میں دل نہ لگنا

    تھکن اور کمزوری محسوس ہونا

    غائب دماغی کی کیفیت

    احساس کمتری کا شکار ہوجانا

    ماضی کی ہر بری بات کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹہرانا

    بھوک اور وزن میں بہت زیادہ کمی یا زیادتی ہونا

    مرض کی وجوہات

    یہ مرض ڈپریشن سے مختلف اور اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ اس کی بظاہر کوئی خاص وجوہات نہیں البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موروثی ہوسکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنون کی حد تک صفائی پسند بنا دینے والی بیماری

    جنون کی حد تک صفائی پسند بنا دینے والی بیماری

    آپ نے اپنے ارد گرد بعض افراد کو غیر معمولی رویوں کا حامل پایا ہوگا۔ ایسے افراد تکلیف دہ حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں، وہ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں اس قدر نفاست اور باریکیوں کا خیال رکھتے ہیں کہ دیگر افراد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    یہ تمام علامات دراصل ایک بیماری اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض بے چینی کی شدید قسم کا نام ہے۔

    اس کا شکار افراد کسی شے کے بارے میں اس قدر سوچتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر اسے بار بار انجام دیتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی آبادی کا 2 فیصد حصہ اس مرض سے متاثر ہے یعنی ہر 50 میں سے 1 شخص۔

    بعض افراد کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ثبوت ان کی مختلف عجیب و غریب عادات سے ملتا ہے۔

    اس ڈس آرڈر کی تشخیص کرنا کچھ مشکل عمل نہیں۔ اگر آپ اپنے اندر یا اپنے آس پاس موجود کسی شخص میں مندرجہ ذیل علامتیں پائیں تو جان جائیں کہ یہ او سی ڈی ہے جسے مناسب دیکھ بھال سے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت


    گندگی کا خوف

    او سی ڈی کا شکار افراد کی پہلی علامت یہ ہے کہ یہ جنون کی حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے جسم سے نادیدہ جراثیم چمٹ جانے کا خوف ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ معمول کے کام بھی سرانجام نہیں دے پاتے۔

    ایسے افراد کسی قسم کے کھیل میں حصہ لینے یا معمولی طور پر بے ترتیب جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں

    یہ ان افراد سے بھی اپنا تعلق ختم کر سکتے ہیں جو ان کے خیال میں صاف ستھرے نہیں رہتے اور جراثیم منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    غلطی کا خوف

    ایک عام انسان اگر کوئی غلطی کرے تو وہ اسے درست کر کے یا بھول کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن او سی ڈی کے مریضوں سے کسی غلطی سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    کسی کام میں غلطی ہونے کے خوف سے بعض اوقات یہ عجیب و غریب رویے اپنا لیتے ہیں۔ اگر یہ غلطی کر بیٹھیں تو ایک طویل عرصے تک اس کی شرمندگی سے نکل نہیں پاتے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز


    کاموں کو بار بار کرنا

    او سی ڈی کے مریض کاموں کو بار بار دہرانے کے عادی بن جاتے ہیں۔

    دراصل جب وہ کوئی کام کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ کام درست طریقے سے نہیں ہوا اور وہ بے چین رہتے ہیں۔ اس بے چینی کے زیر اثر وہ اس کام کو کئی بار دہراتے ہیں حتیٰ کہ انہیں تسلی ہوجائے کہ اب کام درست طریقے سے انجام پاگیا ہے۔

    مثال کے طور پر ایسے افراد بار بار ہاتھ دھوئیں گے، کوئی کام کریں گے تو اسے بار بار چیک کریں گے، گھر سے نکلتے ہوئے پاور بٹن وغیرہ کو بند کرنے کے بعد کئی بار چیک کریں گے آیا کہ وہ بند ہوئے ہیں یا نہیں۔


    اشیا کو منظم کرنا

    او سی ڈی کا شکار افراد کبھی بھی دوسروں کی کی گئی ترتیب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ جب اپنی میز پر کام کرنے کے لیے بیٹھتے تو چیزوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں اس کے بعد مطمئن ہوتے ہیں۔

    یہ وہی علامت ہے جو دنیا بھر کے میڈیا نے صدر ٹرمپ میں بھی پائی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی اشیا کو ہٹا کر دور رکھ دیتے ہیں اور اس کے بعد گفتگو یا کام کا آغاز کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی عجیب و غریب عادت


    کاملیت پسندی

    او سی ڈی کا شکار افراد نہایت کاملیت پسند ہوجاتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی دوسروں کا کیا ہوا کام پسند نہیں آتا اور وہ اس وقت تک اس سے مطمئن نہیں ہوتے جب تک وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کام کو سر انجام نہ دے لیں۔


    ضدی

    او سی ڈی کے مریض کسی حد تک ضدی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے مختلف نظریات اور ماحول کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ اپنی بات پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔


    منفی خیالات

    ہر دماغی مرض مریض کو منفی خیالات کا حامل بنا دیتا ہے۔ او سی ڈی کا شکار افراد بھی منفی خیالات کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کے اپنے اور آس پاس کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں


    کسی خیال کا حاوی ہوجانا

    او سی ڈی کا مرض، مریض پر کسی ایک خیال کو حاوی کردیتا ہے۔ عموماً کوئی چھوٹی سی بات یا چھوٹا سا واقعہ ان کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ طویل عرصے تک اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتے۔

    یہ واقعہ یا خیال بعض اوقات ناخوشگوار اور بھیانک بھی ہوسکتا ہے جو مریض کی دماغی صحت پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے۔


    مشکوک رہنا

    او سی ڈی کا مرض اپنے شکار کو مشکوک بنا دیتا ہے اور وہ کسی شخص پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔

    بھروسہ نہ کرنے کی عادت بعض اوقات قریبی رشتوں میں بھی دراڑ ڈال دیتی ہے جس کے باعث مریض تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں اس کا مرض مزید شدت اختیار کرلیتا ہے۔


    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس مرض کا شکار ہیں اور آپ کو ابتدائی مرحلے میں اس کا ادراک ہوگیا ہے تو آپ مندرجہ بالا علامات پر قابو پا کر اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

    البتہ اگر کوئی شخص طویل عرصے سے اس مرض کا شکار ہو اور اب اس کے لیے اپنی عادتوں کو تبدیل کرنا ناممکن ہو تو تو ایسے میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    یاد رکھیں دماغی امراض دماغی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اگر ان پر فوری توجہ دے کر ان کا سدباب کیا جائے تو مریض صحت یاب ہوکر ایک معمول کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برٹش کونسل کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں دماغی امراض کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔

    یہ پروگرام برٹش کونسل اور ایک مقامی اسکول کے تعاون سے منعقد کیا گیا جس میں ہر عمر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ذہنی الجھنوں کا شکار افراد کو مدد کی ضرورت

    پروگرام میں ماہرین دماغی امراض نے شرکت کی اور شرکا کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں، ان کی علامات اور علاج کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

    اس دوران شرکا سے مختلف سرگرمیوں جیسے مراقبے اور آرٹ تھراپی میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس کے بعد کئی افراد نے خود کو لاحق ذہنی مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔

    خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی امراض کی اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    آج دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی رویوں کے حامل ہیں اور انہیں عموماً نفسیاتی یا پاگل کہا جاتا ہے، تاہم نفسیاتی یا پاگل سمجھ یا کہہ کر جان چھڑا لینا اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترداف ہے۔

    ذہنی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جبکہ سنہ 2020 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا مرض بن جائے گا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض ہیں کیا، یہ کس حد تک ہمارے معاشرے کو متاثر کر چکے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں پائے جانے والے 5 عام ذہنی امراض

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں ماہرین نفسیات و دماغی امراض سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دماغی امراض کی شرح کیا ہے اور کون سے افراد ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی میں فرق

    معروف اسپتال برائے نفسیاتی امراض کاروان حیات سے منسلک ڈاکٹر سلیم احمد نے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کی۔ ان کے مطابق ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی، جسے ہم ذہنی معذوری بھی کہتے ہیں، میں فرق ہے۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی پیدائشی ہے اور اس کا دارو مدار بچے یا والدین کی جینز پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ بچے پیدا ہی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ والدین کا بلڈ گروپ بھی ہوتا ہے جو ملاپ کے بعد جب نئی زندگی وجود میں لاتا ہے تو وہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح بعض دفعہ بچہ پیدا ہونے کے کافی دیر بعد روتا ہے، 5 سے 7 منٹ تک سانس نہیں لے پاتا یا نیلا پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کیونکہ دماغ کو فوری طور پر آکسیجن نہیں ملتی۔

    ایسے بچے عمر بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق ایسی معذوری کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ بہت شدید طور پر ذہنی معذوری، جس میں بچے کو کچھ بھی سکھانا ناممکن ہو، ایسے بچے عموماً زیادہ نہیں جی پاتے اور جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

    درمیانی یا کم شدت کے ذہنی معذور بچوں کے لیے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی طور پر اسپیشل ایجوکیشن دی جاتی ہے جہاں ان کے ذہن کی حد تک ان کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ پیدائشی ذہنی معذور بچوں میں مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ عام بچوں کے مقابلے میں اپنی افزائش کا عمل دیر سے شروع کرتے ہیں۔

    جیسے 8 سے 9 ماہ کی عمر کے بچے کا بیٹھنا، 16 یا 18 ماہ کی عمر کے بچے کا بولنا شروع کرنا، 1 سال کی عمر سے قبل قدم اٹھانا شروع کردینا وغیرہ معمول کا عمل ہے تاہم اگر اس عمل میں تاخیر ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچوں میں ذہنی پسماندگی یا معذوری کی ایک مثال ڈاؤن سنڈروم کا مرض ہے جو تا عمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں جانیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    دماغی امراض کیا ہیں؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق دماغی امراض کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سائیکوٹک سنڈروم اور دوسرا نیوروٹک سنڈرمز۔

    سائیکوٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق سائیکوٹک سنڈروم میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کا بچپن نارمل گزرا ہو لیکن اوائل نوجوانی میں ان کے ساتھ نفسیاتی مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں۔

    مثال کے طور پر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے جذبات میں تبدیلی اور اس کی وجہ سے غصہ، ڈپریشن یا کسی قسم کے خوف کا بڑھ جانا۔ اگر کوئی شخص حساس ہے تو اس عمر میں وہ حد سے زیادہ حساس ہوگا اور معمولی باتوں کو بھی ذہن پر سوار کرلے گا۔

    اس درجہ بندی کے مریضوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

    سائیکوٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    الزائمر

    ڈیمینشیا

    شیزو فرینیا

    مندرجہ بالا 2 امراض میں مبتلا افراد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً 50 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا اور کیوں کرنے جارہا ہے۔

    اسی طرح شیزو فرینیا بھی مختلف توہمات و خیالات کے ذہن میں بیٹھ جانے یا اپنے آپ کو کوئی دوسری شخصیت سمجھنے کی بیماری ہے اور اس میں بھی مریض تقریباً اپنے مرض سے بے خبر اور ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق نیوروٹک سنڈروم وہ ذہنی امراض ہیں جن میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    اینگزائٹی ۔ بے چینی کا مرض

    پینک ڈس آرڈر ۔ شدید گھبراہٹ، اداسی، رقت طاری ہوجانا

    اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر ۔ اس مرض میں مریض کوئی کام بار بار سرانجام دیتا ہے یا جنون کی حد تک نفاست پسند ہوجاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مرض کا شکار ہیں۔

    فوبیا ۔ کسی جانور، چوہے یا بلی سے خوف آنا

    اونچائی کا خوف

    بند جگہوں کا خوف

    اس نوعیت کے امراض میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے لیکن وہ اس کے آگے بے بس ہوتا ہے اور خود کو لاشعوری طور پر نقصان دہ کام کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایک عام مرض بن چکا ہے جو اب اس مرحلے پر آگیا ہے کہ اس کا شکار افراد کو باقاعدہ ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق ہر وہ شے جو آپ کی دماغی کارکردگی کو متاثر کرے، ڈپریشن کہلاتی ہے۔

    مثال کے طور پر آپ کی کسی سے نوک جھونک ہوگئی اور آپ کا موڈ خراب ہوگیا، تو یہ بھی ڈپریشن کی ایک قسم ہے تاہم یہ عارضی ہوتی ہے اور مذکورہ شخص کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے پر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

    اسی طرح آپ کسی سے برے رویے یا دھوکے کی امید نہ رکھتے ہوں، لیکن اس شخص کا رویہ آپ کو غیر متوقع طور پر دکھ پہنچائے تو یہ بھی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر چند دن، یا چند ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ ڈپریشن میں دراصل بیرونی عوامل زیادہ کار فرما ہوتے ہیں جو ہر شخص پر الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2 افراد ایک جیسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی ڈپریشن کی مختلف اقسام (کم یا شدید) میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ڈپریشن سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    کیا اذیت پسندی بھی ذہنی مرض ہے؟

    بعض افراد خود کو یا دوسروں کو اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسا نہ صرف جنسی تعلقات میں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مواقعوں پر بھی ایسے افراد اذیت پسندی سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ بھی کسی ذہنی مرض کی علامت ہے؟

    ضیا الدین یونیورسٹی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمیہہ علیم اس بارے میں بتاتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرنا سیڈ ازم کہلاتا ہے جبکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا کسی دوسرے کے ذریعے خود کو تکالیف دلوانا میکوس ازم کہلاتا ہے۔

    اس علامت کے حامل افراد لازماً کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ’یہ دونوں اصطلاحیں صرف جنسی عمل سے منسلک نہیں ہیں، عام زندگی میں بھی ان افراد کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق اگر یہ اپنے لیے، کسی دوسرے کے لیے یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے نقصان دہ، متشدد اور جان لیوا ثابت ہونے لگے تو پھر یہ خطرناک بن جاتا ہے جس کا علاج ضروری ہے۔

    آپ خصوصاً مغرب میں پائے جانے والے ایسے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے جو کسی کو قتل کرنے سے قبل اسے مخصوص تکلیف پہنچاتے تھے۔

    اس مرض کا آغاز بھی بچپن سے ہوتا ہے اور جب یہ مرض بڑھ جائے تو مریض اپنے لاشعور میں دبی کسی شے کی وجہ سے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔

    جیسے بچپن میں ماں کا برا رویہ سہنے والا شخص عورتوں کو قتل یا نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ کسی مخصوص رویے یا رنگ سے اس کی کوئی ناخوشگوار یاد منسوب ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی وہ اشتعال میں آجاتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے افراد بچپن میں بے ضرر اشیا یا اپنے سے کمزور افراد کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ مرض نشونما پانے لگتا ہے۔

    بعض افراد اداسی یا غم کو بھی اپنے اوپر سوار کرلیتے ہیں اور خوش نہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور ایسی طبیعت کے افراد منفی سوچ اور مضمحل طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔

    شخصیت کے مختلف پہلو بھی ذہنی امراض کی علامت

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق شخصیت کے بعض مختلف پہلو جب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بھی ذہنی امراض کی علامت ہوتے ہیں جنہیں پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    جیسے کسی کی شخصیت حاکمانہ ہے اور وہ سب پر اپنا حکم چلانے کا عادی ہے تو یہ اس کی شخصیت کا پہلو ہے۔ لیکن اگر یہی پہلو اس کے ارد گرد موجود افراد کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے لگے تو یہ ڈس آرڈر کہلائے گا جس کا علاج ضروری ہے۔

    ظلم و زیادتی کو برداشت کرنا بھی ذہنی مرض؟

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے کہ لڑکیوں کا شادیاں ان کی پسند اور رضا مندی کے بغیر کردی جاتی ہیں، گو کہ یہ ظلم ہے تاہم ثقافتی اور سماجی طور پر لوگ اس ظلم کو سہنے کے عادی ہیں۔

    مذہبی یا ثقافتی رسوم و رواج کو نہ چاہتے ہوہے قبول کرلینا اطاعت گزاری یا فرمانبرداری کا نام ہے جس کے پیچھے معاشرتی، خاندانی و سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

    تاہم اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دباؤ سے بالکل آزاد ہو، تب بھی وہ ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا پسند کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ لوگ اسے تکلیف پہنچائیں، شخصیت کے اس پہلو کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

    اس بارے میں ڈاکٹر سمیہہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بچپن میں پیش آنے والے حالات و ماحول سے ہے جو لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

    بظاہر آپ کے سامنے ایک خود انحصار اور پر اعتماد شخص موجود ہوگا، لیکن اگر سب کے سامنے اس کا اچھے الفاظ میں بھی تذکرہ کیا جائے تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔

    ایسے شخص کو کسی ادارے میں کسی شعبے کا سربراہ بنانے پر غور کیا جائے تو وہ شخص ڈر جاتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکے گا، یا لوگ اسے اس روپ میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہیں ہوتیں اور یہ پس منظر میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: احساس کمتری سے نجات حاصل کریں

    دراصل ایسے افراد کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو مظلوم بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو نہ صرف انہیں قبول کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت بھی کی جائے گی۔ ایسے لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں بے شمار خوف و توہمات موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق یہ بھی شخصیت کا ایک پہلو ہے، تاہم منفی پہلو ہے۔

    ذہنی امراض کا علاج کیا ہے؟

    کراچی نفسیاتی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر روحی افروز کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی کا تو کوئی علاج نہیں۔ اس میں مریض کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور مختلف تربیتی سیشنز کے ذریعے ذہنی معذور افراد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    البتہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے علاج کا انحصار ان کے مرض کی شدت پر ہوتا ہے کہ اسے کس نوعیت کی دواؤں یا تھراپی سے کنٹرول کیا جاسکے۔

    کراچی نفسیاتی اسپتال ڈاکٹر سید مبین اختر کا قائم کیا ہوا ہے جہاں پاکستان میں ہی بننے والی دواؤں سے ذہنی امراض کا نہایت مؤثر علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر سمیہہ کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کو تھراپی کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی لیے ضروری ہے کہ مریض خود اپنی اس کیفیت کو سمجھے اور علاج کروانے پر رضا مند ہو۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب رہنا دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    بعض افراد کو علم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو بڑھ کر ذہنی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے، ایسے افراد خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیم احمد نے اس بارے میں بتایا کہ ماہرین نفسیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کو براہ راست ڈیل نہ کریں۔

    وہ چاہتے ہیں کہ مریض کے ساتھ اس کا کوئی بے حد قریبی عزیز چاہے وہ اہل خانہ میں سے ہو، کوئی دوست ہو، یا دفتر کا کوئی ساتھی جس سے وہ بہت قریب ہوں، وہ ان کے ساتھ آئے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    وہ مریض سے زیادہ اس کے ساتھ آئے شخص سے گفتگو کر کے مریض کی مختلف کیفیات و علامات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ مرض کی جڑ کو پکڑ کر اس کا علاج کیا جا سکے۔

    ذہنی امراض اور مذہب

    ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض میں اضافے کی اصل وجہ اپنی بنیاد یعنی مذہب سے دور ہوجانا ہے۔ ’قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘۔

    ان کے مطابق نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کو زندگی کا حصہ بنا لینا ذہنی امراض سے بچاتا ہے۔ اپنی زندگی میں خدا سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے افراد (بذریعہ نماز و تلاوت) جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ یہی بات دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتی ہے، ’کیونکہ ہیں تو سب آدم کی اولاد، تمام انبیا بھی خدا کے حکم سے اس عہدے پر فائز ہوئے چنانچہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس ایک خدا سے ضرور جا ملتا ہے جو واحد اس کائنات کا مالک ہے‘۔

    ان کے مطابق خدا کے سامنے رونا اور گڑگڑانا کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے جو سکون آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر نفسیات بھی آپ کو نہیں دے سکتا۔


    دماغ ہمارے جسم کا سب سے طاقتور عضو ہے جسے صحت مند رکھنے کے لیے سب سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    کیا آپ کو مختلف دماغی و نفسیاتی مسائل خصوصاً اینگزائٹی (بے چینی) کا سامنا ہے، تو اس ضمن میں بھاری ورزشیں کرنا آپ کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    یہ دعویٰ حال ہی میں کی جانے ایک تحقیق میں سامنے آیا جس میں دیکھا گیا کہ وہ افراد جو مسلز بنانے والی بھاری بھرکم ورزشیں جیسے ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں، وہ افراد اینگزائٹی کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آئر لینڈ میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ باقاعدگی سے ورک آؤٹ کرنے والے افراد مختلف اقسام کے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دور رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ گو کہ ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی اور نفسیاتی صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اس کا تعلق ہمیشہ سے ہلکی اقسام کی ورزش سے جوڑا جاتا رہا ہے جن میں سانس کی مشقیں بھی شامل ہیں۔

    ان کے مطابق ورک آؤٹ دراصل دماغ کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیتا ہے اور وہ پریشان کن چیزوں کو چھوڑ کر سخت ورزش کی طرف مبذول ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ورک آؤٹ کرنے سے قبل یہ غذائیں کھائیں

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ورزش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ورزش کے دوران ادھر ادھر کے بارے میں سوچنے کے بجائے دماغ کو بھی ورزش پر مرکوز رکھا جائے اور بھاری ورزش اس ضمن میں معاون ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ محنت آپ کو دماغی اور جسمانی دونوں طور پر مشغول رکھے گی۔

    تحقیق میں تجویز کیا گیا کہ اینگزائٹی کے علاج کے لیے مہنگی دوائیں کھانے کے بجائے ورک آؤٹ کرنا آسان علاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس تحقیق پر مزید کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ابھی مزید جامع نتائج جاری کیے جائیں گے۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔

  • موڈ کو خوشگوار بنانے والی ٹیک عینک

    موڈ کو خوشگوار بنانے والی ٹیک عینک

    کیا آپ سال کے کچھ دن ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے آپ کا دل ہر شے سے اکتا گیا ہو اور کسی چیز میں دل نہ لگ رہا ہو؟

    اس کے ساتھ ساتھ آپ خود کو ایک نامعلوم اداسی اور ڈپریشن میں گھرا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں۔ تو پھر یہ لیومینیٹ تھراپی گلاسز آپ کے لیے ہیں۔

    اس عینک کو موڈ کو بدلنے والی عینک قرار دیا گیا ہے۔ اس ٹیک عینک میں موجود روشنیاں ایک تھراپی کی صورت آپ کے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور آپ کو ڈپریشن کی اس کیفیت سے نکلنے میں مدد دیتی ہیں۔

    دراصل یہ عینک ’سیڈ‘ نامی مرض کا شکار افراد کے لیے بنائی گئی ہے جو سیزنل افیکٹو ڈس آرڈر کا مخفف ہے۔

    اس مرض کے شکار افراد کا مزاج پورا سال معمول کے مطابق رہتا ہے، تاہم سال میں کسی ایک مخصوص وقت یہ اداسی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔

    مزید پڑھیں: موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں

    کچھ عرصے بعد یہ پہلے کی طرح معمول کے مطابق ہوجاتے ہیں، تاہم اگلے سال پھر انہی دنوں میں وہ اسی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق سال کے کسی ایک مخصوص وقت میں اپنا نشانہ بنانے والا یہ مرض زیادہ تر موسم سرما میں ظاہر ہوتا ہے، اور اس وقت کو ڈارک ڈیز، ڈارک ونٹر منتھ یا ڈارک موڈ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    مختلف روشنیوں کی حامل اس عینک میں مختلف مدھم روشنیاں شامل کی گئی ہیں جن میں سورج جیسی روشنی بھی شامل ہے جو دماغ کو امید کا پیغام پہنچاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: موڈ کو خوشگوار بنانے والی 5 غذائیں

    یہ روشنیاں دماغ میں میلاٹونن نامی مادے میں اضافہ کرتی ہیں جو ہمارے دماغ کو پرسکون بناتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ یہ نیند کو بھی بہتر اور پرسکون کرتی ہیں جس سے دماغی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    یہ مختلف مدھم روشنیاں آنکھوں پر براہ راست نہیں پڑتیں بلکہ ان سے ذرا اوپر رہتی ہیں جس کے باعث سامنے دکھائی دی جانے والی ہر شے چشمے کے رنگوں میں ڈھلی نظر آتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ چشمہ مکمل طور پر ’سیڈ‘ سے تحفظ تو نہیں دے سکتا، البتہ اس کی کیفیات جیسے بیزاری، بے چینی، اداسی اور تھکن کی شدت کو کم کرسکتا ہے جس سے مریض کا موڈ خوشگوار ہوگا، اس کی توانائی بحال ہوگی اور وہ معمولات زندگی کو بہتر طور پر انجام دے سکے گا۔

    اسے تیار کرنے والی کمنپی کی تجویز ہے کہ سیڈ سے متاثرہ افراد اسے روزانہ کم از کم 45 منٹ کے لیے استعمال کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ڈپریشن کا علاج حضرت علیؓ کے اقوال میں پوشیدہ

    ڈپریشن کا علاج حضرت علیؓ کے اقوال میں پوشیدہ

    اسلامی تاریخ کی با علم ترین شخصیت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اقوال زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک بار آپؓ کےلیے فرمایا، ’میں علم کا شہر ہوں، اور علیؓ اس کا دروازہ‘۔

    آج یوم علی رضی اللہ تعالی عنہ کے موقع پر ان کے ایسے اقوال جانیں جو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارے، اور دماغ کو پرسکون و مطمئن رکھنے کے بارے میں ہیں۔

    یاد رہے کہ ذہنی دباؤ کا مرض یعنی ڈپریشن اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ہوا دماغی مرض ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    :سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں

    غصہ، تناؤ اور پریشانی کے موقع پر سر پر ٹھنڈا پانی ڈالنا دماغ کو پرسکون کرتا ہے۔ اس بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا، ’جب کبھی ایسا دکھ محسوس ہو جس کی وجہ معلوم نہ ہوسکے، تو اپنے سر پر پانی ڈالو‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :خدا کی یاد

    دکھ اور تکلیف کے وقت میں خدا کو یاد کرنا اس بات پر یقین پختہ کرتا ہے کہ یہ وقت جلد گزر جائے گا اور خدا اس وقت میں ہمارا ہاتھ نہیں چھوڑے گا۔ ’جب دکھ بڑھ جائے تو کہو، اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں جو بچا سکے‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :صفائی نصف ایمان

    ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ انفرادی صفائی سے لے کر اجتماعی طور پر گھروں، گلی، محلوں، شہروں اور ملکوں کی صفائی انسانی نفسیات پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہننا اور خوشبوئیں لگانا ہمارے دماغ کو ہلکا پھلکا کرتا ہے۔

    حضرت علیؓ کا قول ہے، ’صاف کپڑے پہننا دکھ اور غم کو دور کرتا ہے‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    صرف طبی ماہرین ہی نہیں بلکہ دماغی و سماجی مسائل پر کام کرنے والے ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ صاف ستھرا لباس زیب تن کرنا اور صاف ستھرا رہنا نہ صرف دماغ کو تازہ دم کرتا ہے بلکہ آپ کی نفسیات اور موڈ پر بھی خوشوگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    :انگورکا حیران کن اثر

    بعض روایات سے موسوم ہے کہ حضرت علیؓ تکلیف اور ذہنی تناؤ کے مواقعوں پر انگور کھایا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔

    :حسد سے گریز

    حدیث نبویﷺ ہے، ’حسد انسان کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو‘۔

    حضرت علیؓ نے بھی اس بارے میں فرمایا کہ میں نے اس شخص کو خود اس کا سب سے بڑا دشمن دیکھا جو حسد میں مبتلا ہے۔ حسد کی وجہ سے وہ مستقل انتقامی کیفیت، بے سکونی اور دکھ کا شکار رہتا ہے۔ ( مفہوم ۔ بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    :طرز زندگی میں تبدیلی

    ماہرین عمرانیات کے مطابق ہم مادی اشیا سے جتنا دل لگاتے ہیں یہ ہمیں اتنا ہی زیادہ بے چینی اور بے سکونی میں مبتلا کرتی ہیں جو ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔

    حضرت علیؓ کا قول ہے، ’دنیا کی اشیا دکھ اور غم دینے کا سبب بنیں گی اور ان سے چھٹکارہ پالو گے تو یہ جسم اور دل کے لیے باعث راحت ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

    :شکر گزاری

    ہم دوسروں کی کامیابیوں پر حسد کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ایسی کتنی ہی نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے جو کئی افراد کو میسر نہیں۔ شکر گزاری دل و دماغ کو سکون پہنچاتی ہے۔

    حضرت علیؓ نے فرمایا، ’اللہ نے یقین اور اطمینان میں سکون اور خوشی رکھی ہے۔ جو بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہوگا وہ دکھی اور غمزدہ ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    بچوں کی تربیت ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے جو نرمی اور سختی دونوں کی متقاضی ہے۔ تاہم حال ہی میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ والدین کے 2 قسم کے ’شدت پسندانہ‘ رویے بچوں میں نفسیاتی مسائل جنم دے سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نارویجیئن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام کی گئی۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے جیلوں میں بند خطرناک جرائم میں ملوث قیدیوں کا طبی و نفسیاتی معائنہ کیا۔ ان مجرمان کو خطرناک ترین قرار دے کر سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ماہرین نے ان قیدیوں کے ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ان تمام مجرمان کے ماضی میں ایک بات مشترک تھی۔ یہ تمام لوگ یا تو والدین کی مکمل طور پر غفلت کا شکار تھے، یا پھر والدین کا رویہ ان کے ساتھ نہایت سختی اور ہر معاملے میں نگرانی اور روک ٹوک کا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ دونوں رویے بچوں کو تشدد پسندانہ خیالات اور رویوں کا مالک بنا سکتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور ایک عام زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ مجرمان اپنے بچپن میں جسمانی یا نفسیاتی طور پر تشدد کا شکار بھی ہوئے۔

    مذکورہ تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر اینا گل ہیگن کا کہنا ہے، ’یہ افراد اپنے نگرانوں (والدین یا سرپرست) کے ہاتھوں جسمانی و ذہنی طور پر زخمی ہوئے‘۔ ان کے مطابق بچپن گزرنے کے بعد ان لوگوں کے اندر ابھرنے والا تشدد پسند اور مجرمانہ رویہ انہی زخموں کا ردعمل تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کو بالکل نظر انداز کرنا، ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور یہ سوچنا کہ بچے خود ہی اپنی زندگی گزار لیں گے، یا والدین کا ہر بات پر روک ٹوک کرنا، ہر معاملے میں بچوں سے سختی سے پیش آنا اور بچوں کی مرضی اور پسند نا پسند کو بالکل مسترد کردینا، یہ 2 ایسے رویے ہیں جو بچوں کو بالآخر نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق والدین کو درمیان کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے، بچوں پر سختی بھی رکھنی چاہیئے اور ان کی پسند نا پسند کو اہمیت دیتے ہوئے ان کی بات بھی ماننی چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    ڈاکٹر اینا کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیق کے لیے جتنے بھی مجرمان سے ملیں وہ یا تو اپنے بچپن میں اپنے والدین کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیے گئے، یا پھر انہوں نے بے تحاشہ سختی اور درشتی برداشت کی اور انہیں اپنی پسند کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

    ماہرین کے مطابق کسی شخص کو مجرم بنانے میں حالات و واقعات کا بھی ہاتھ ہوتا ہے تاہم اس میں سب سے بڑا کردار والدین کی تربیت اور ان کے رویوں کا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔