Tag: دماغی امراض

  • ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    معروف امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے کہتا ہے، ’ذہین افراد کا خوش ہونا، ایک ایسا عمل ہے جو میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھا ہے‘۔

    آپ نے ذہین افراد کو عام افراد کے مقابلے میں کچھ مختلف دیکھا ہوگا۔ ان کی عادتیں، چیزوں کو محسوس کرنے کے طریقے، گفتگو وغیرہ سب کچھ عام افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

    ایسے لوگ تنہائی پسند، کم میل جول رکھنے والے، اور بے ترتیب عادات کے مالک بھی ہوتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ذہین افراد کو خوش ہونے کا موقع بھی بہت کم ملتا ہے؟ اگر یہ ایک نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہوں، ان کی زندگی میں کوئی کمی نہ ہو، اور انہیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہو، تب بھی آپ انہیں خوش نہیں دیکھیں گے۔

    ماہرین نفسیات اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، آئیے آپ بھی وہ وجوہات جانیں۔

    بہت زیادہ سوچنا

    intelligent-3

    ذہین افراد ہر شے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ وہ مختلف خوشگوار اور تلخ واقعات کا بار بار تجزیہ کرتے ہیں اور ہر بار اس تجزیے کے مختلف نتائج حاصل کرتے ہیں، جس میں کہیں نہ کہیں دکھ یا تلخی کا عنصر چھپا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو ناگوار واقعات کو درگزر اور نظر انداز کرنا سیکھیں۔

    بلند ذہنی سطح

    intelligent-4

    ذہین افراد کی ذہنی سطح عام افراد سے کچھ بلند ہوتی ہے۔ وہ عام افراد کے بے مقصد خیالات اور گفت و شنید میں حصہ نہیں لے سکتے۔

    وہ چاہتے ہیں کہ ان سے ان کے ذہنی معیار کے مطابق گفتگو کی جائے، اور جب انہیں اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ تنہا اور اداس محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ایسے افراد اپنے جیسے ذہنی معیار کے حامل افراد کے ساتھ نہایت خوش رہتے ہیں۔

    اپنا محاسبہ کرنا

    intelligent-2

    ذہین افراد اپنی ذات کے لیے کڑا معیار رکھتے ہیں اور وہ نہایت سخت اصولوں پر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور سزا زندگی کی کئی نعمتوں اور رشتوں سے محروم بھی کر لیتے ہیں جو انہیں اداسی کا شکار بنا دیتی ہے۔

    مختلف انداز فکر

    intelligent-5

    ذہین افراد کی قوت تخیل بلند اور انداز فکر مختلف ہوتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں یا چیزوں پر خوش نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کے مدنظر بڑی کامیابی اور بڑا مقصد ہوتا ہے۔

    دماغی امراض کا شکار؟

    bipolar

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ ذہین اور حساس افراد اکثر اوقات دماغی امراض اور الجھنوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جس میں سب سے عام مرض بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔

    مزید پڑھیں: بائی پولر ڈس آرڈر ۔ علامات اور علاج

    اس مرض میں موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کا دورانیہ بعض اوقات کئی ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ایک اور عام مرض اینگزائٹی یا بے چینی ہے جس میں خوف، عدم تحفظ، گھبراہٹ اور بے دلی کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

  • بھارتی شہری خودکشیوں میں سرفہرست

    بھارتی شہری خودکشیوں میں سرفہرست

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ذہنی تناؤ کے باعث سب سے زیادہ خودکشیاں بھارت میں ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے ڈپریشن اور دیگر عام ذہنی امراض کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 30 کروڑ 22 لاکھ افراد ذہنی تناؤ یا اس سے ملتی جلتی بیماریوں کا شکار ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 4.3 فیصد حصہ ہے۔

    ذہنی امراض کا شکار ان افراد میں سے ڈپریشن کے تقریباً 50 فیصد مریض بھارت، چین اور جنوب مشرقی ایشیا میں موجود ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کی 2 نہایت عام اقسام ہیں جنہیں ڈپریسو ڈس آرڈر اور اینگزائٹی (بے چینی) کہا جاتا ہے۔

    india-3

    ڈپریسو ڈس آرڈر میں مریض اداسی اور پشیمانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں نیند میں خلل اور بھوک میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

    اینگزائٹی ڈس آرڈر میں مریض میں بے چینی اور خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں جبکہ یہ مختلف فوبیائی امراض کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ دونوں امراض نہایت عام ہیں اور قابل تشخیص اور قابل علاج ہیں۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سنہ 2015 میں 7 لاکھ 88 ہزار افراد نے خودکشیاں کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا جب کہ خود سوزی کرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان خودکشیوں کی 20 بڑی وجوہات میں سے ایک ڈپریشن بھی تھی۔

    سنہ 2014 میں دنیا بھر میں کی جانے والی خود کشیوں میں سے 78 فیصد غریب ممالک یا ترقی پذیر ممالک میں کی گئیں اور 2012 میں سب سے زیادہ خود کشیاں کرنے والے ممالک میں بھارت سر فہرست تھا۔

    ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض سے متعلق مزید مضامین:

    دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا

    ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

  • چہل قدمی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    چہل قدمی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    چہل قدمی ایک نہایت مفید عادت ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے بے شمار فوائد ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔

    چہل قدمی ان افراد کے لیے خاص طور پر بے حد مفید ہے جو اپنے دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں جیسے دفاتر میں کام کرنے والے افراد۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر ہلکی پھلکی چہل قدمی کو عادت بنالیا جائے تو دن اور رات کو اوسط بلڈ شوگر کی بڑھتی ہوئی سطح کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد میں ذیابیطس کا مرض پیدا ہو رہا ہے وہ صرف 20 منٹ چہل قدمی کر کے دل کے دورے سے بچ سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی آپ کی دماغی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ چہل قدمی سے دماغی فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر بار مختلف مقام، کھلی اور پرسکون فضا کا انتخاب کریں۔

    چہل قدمی سے دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، آیئے آپ بھی جانیں۔

    تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ اکیلے چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ روزمرہ کی معمولی اشیا کے بجائے تخلیقی سوچ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس دوران آپ کو اپنے کام کے لیے مختلف آئیڈیاز بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔

    چہل قدمی اگر کسی کے ساتھ کی جائے تب بھی آپ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جس کے دوران دماغ نئے پہلوؤں کو سوچنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    لت سے چھٹکارہ

    اگر آپ کسی بھی قسم کی لت جیسے شراب، سگریٹ یا کھانے کی لت سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ روزانہ چہل قدمی کو اپنا معمول بنا لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی یا ورزش سے آپ دماغ کے پیدا کردہ ان کیمیائی عناصر میں کمی لاسکتے ہیں جو آپ کو کسی چیز کی طرف بار بار راغب کرتے ہیں۔

    دماغی امراض سے حفاظت

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغی خلیات بوسیدہ ہوجاتے ہیں اور مرنے لگتے ہیں جس کے باعث مختلف بیماریاں جیسے الزائمر اور ڈیمنیشا وغیرہ پیدا ہوتی ہیں۔ آپ اس خطرے سے صرف چہل قدمی سے بھی نجات پاسکتے ہیں۔

    یادداشت میں اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی کے لیے ہر بار نئی جگہ اور کھلی فضا کا انتخاب کرنا آپ کی یادداشت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ نئی جگہ پر مختلف اور نئی چیزوں کو دیکھنا، ان پر غور کرنا اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کرنے سے آپ کی دماغی استعداد اور یادداشت میں اضافہ ہوگا۔

    منفی جذبات سے تحفظ

    چہل قدمی کرنے سے دماغ آپ کے جسم کے لیے مفید کیمیائی عناصر پیدا کرنے لگتا ہے اور جسم سے منفی عناصر کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ نتیجتاً آپ منفی جذبات جیسے غصہ، حسد اور ذہنی دباؤ سے بچے رہتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

  • دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    ہم اپنی زندگی میں بے شمار ایسے کام انجام دیتے ہیں جو ہماری جسمانی و دماغی صحت کے لیے مضر ہوتے ہیں اور ہمیں بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ کام ہماری عادت بن کر غیر محسوس انداز میں ہماری طرز زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں علم بھی نہیں ہوتا لیکن یہ ہمیں خطرناک طریقے سے متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ایسی ہی کچھ عادات جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہمارے دماغ کو بے حد نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ہمارے دماغ کی کارکردگی کم کر کے اسے غیر فعال بناتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ اتنا ہی فعال ہوگا۔ غیر فعال دماغ آہستہ آہستہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جائے گا اور اسے مختلف امراض گھیر لیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اگر بڑھاپے میں بھی دماغ کا زیادہ استعمال کیا جائے تب بھی یہ کوئی نقصان دہ بات نہیں بلکہ یہ آپ کو مختلف بیماریوں جیسے الزائمر یا ڈیمینشیا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    آئیے وہ عادات جانیں جو ہمارے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

    :تخیلاتی تصورات کی کمی

    imagination

    اگر آپ کا دماغ تخیلاتی پرواز سے محروم ہے، یعنی آپ حقیقی زندگی کو پوری طرح اپنے اوپر حاوی کر چکے ہیں اور اپنے دماغ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ تصوراتی اور غیر حقیقی چیزوں کے بارے میں سوچے، تو جان جائیں کہ آپ اپنے دماغ کو محدود کر رہے ہیں۔

    کسی انسان کی قوت تخیل جتنی زیادہ بلند ہوگی اس کا دماغ اتنا ہی زیادہ فعال ہوگا۔

    :فضائی آلودگی

    pollution

    ہمارا دماغ جسم کا وہ عضو ہے جو پورے جسم میں سب سے زیادہ آکسیجن جذب کرتا ہے اور اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے اس سے توانائی حاصل کرتا ہے۔

    آلودہ فضا میں آکسیجن کم اور دیگر مضر صحت گیسیں زیادہ شامل ہوتی ہیں جس کے باعث دماغ کو پہنچنے والی آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے یوں دماغ  آہستہ آہستہ سست ہوتا چلا جاتا ہے۔

    :کم بولنا

    speak

    کم بولنا ویسے تو ذہانت کی نشانی ہے لیکن ماہرین کے مطابق دانشورانہ بحثوں میں حصہ لینا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا اور دوسروں کی رائے سننا بھی آپ کے دماغ کے سوئے ہوئے حصوں کو بیدار کرتا ہے اور دماغ کے سوچنے کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔

    :سوتے ہوئے سر کو ڈھانپنا

    covering-head

    اگر آپ سوتے ہوئے سر کو چادر یا تکیے سے ڈھانپ لیتے ہیں تو محتاط ہوجائیں کیونکہ یہ دماغ کے لیے تباہ کن عادت ہے۔ سر ڈھانپنے سے یہ 8 سے 9 گھنٹے تک ہوا سے محروم رہتا ہے جس سے مختلف دماغی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    :بیماری کے دوران دماغی کام

    sickness

    کسی بھی جسمانی بیماری کے دوران زیادہ دماغی کام کرنا دماغی خلیات کو تباہ کرسکتا ہے۔ بیماری کی حالت میں جسم اور دماغ دونوں کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسے میں دماغ کو اس کی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور کرنا اسے تباہ کرسکتا ہے۔

    :موٹاپا

    obesity

    شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ موٹاپا ہمارے دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موٹاپے کے باعث دماغ کی شریانوں کو اپنا کام سر انجام دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں موٹے افراد آہستہ آہستہ کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    :سگریٹ نوشی

    smoking

    سگریٹ نوشی دماغی خلیات کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وقت سے بہت پہلے الزائمر کا شکار بناسکتی ہے۔

    :ناشتہ نہ کرنا
    breakfast

    ناشتہ نہ کرنے کی عادت ہمیں جسمانی و دماغی طور پر بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔ صبح کے وقت کھایا جانے والا پہلا کھانا جسم سے زیادہ دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے لہٰذا اگر آپ صبح ناشتہ نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے دماغ کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناشتہ میں چاکلیٹ کھانا دماغی صلاحیت میں اضافے کا باعث

    صبح ناشتہ نہ کرنا ہمارے جسم میں شوگر کی سطح کو کم کردیتا ہے۔ ہمارے جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز یا شوگر پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمارے جسم میں شوگر کی مقدار کم ہوگی تو دماغ اپنے افعال درست طریقے سے سر انجام نہیں دے سکے گا نتیجتاً آپ کام کرنے کے لیے دماغی توانائی سے محروم ہوجائیں گے۔

    :میٹھے کا زیادہ استعمال

    sugar

    ویسے تو دماغ اپنی توانائی شوگر سے حاصل کرتا ہے لیکن اگر جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوجائے تب بھی یہ دماغ کے لیے نقصان دہ بات ہے۔

    مزید پڑھیں: بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    شوگر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارا جسم صرف شوگر کو ہضم کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور دوسرے صحت مند اجزا جیسے پروٹین اور نمکیات وغیرہ کو ہضم نہیں کر پاتا جس کا منفی اثر دماغ پر بھی پڑتا ہے۔

    :نیند کی کمی

    sleep

    نیند کی کمی ہماری دماغی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ہم کام کے دوران چاق و چوبند نہیں رہ پاتے۔

  • دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    ہماری دنیا جیسے جیسے ترقی یافتہ ہورہی ہے ویسے ویسے ہماری زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں کئی فوائد دیے ہیں وہیں بیماریوں اور نقصانات کی شکل میں ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔

    انہی میں ایک تحفہ ذہنی امراض کا بھی ہے جن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    یہاں ہم آپ کو دماغی امراض کے بارے میں قائم کچھ مفروضات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ بھی ان مفروضوں کو درست سمجھتے ہوں، اور ان کی بنیاد پر دماغی امراض کا شکار افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوں، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    :پہلا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    :حقیقت

    درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    :دوسرا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کم پائے جاتے ہیں۔

    :حقیقت

    ہم میں سے ہر 4 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہوتا ہے۔

    :تیسرا مفروضہ

    بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔

    :حقیقت

    یہ واقعی ایک نارمل بات ہے لیکن یہ 10 میں سے 1 نوجوان کی دماغی صحت میں ابتری کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو درست طریقے سے ہینڈل  کیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہیں بصورت دیگر یہ دماغی مرض کی شکل میں نوجوان کو سختی سے جکڑ لیں گی اور تاعمر اپنا نشانہ بنائے رکھیں گی۔

    :چوتھا مفروضہ

    نوجوانوں کے لیے آسان عمل ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اپنے جذبات بیان کریں۔

    :حقیقت

    درحقیقت نوجوان افراد اپنے خیالات بتانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ دونوں صورتوں میں یہ چیز ان کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    :پانچواں مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کی واحد جگہ نفسیاتی اسپتال ہیں۔

    :حقیقت

    دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

    :چھٹا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد بعض اوقات برے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ رویہ مستقل ہوتا ہے۔

    :حقیقت

    ایسے وقت میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ برے رویے کی وجہ ان کا مرض ہے، اور یہ رویہ عارضی ہے۔

    :ساتواں مفروضہ

    دماغی امراض ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شکار شخص کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔

    :حقیقت

    مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔