Tag: دماغی صحت

  • لکڑی کی اسٹک چبانا دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ حیرت انگیز تحقیق

    لکڑی کی اسٹک چبانا دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ حیرت انگیز تحقیق

    کھانا کھانے کے دوران غذا کو آہستہ آہستہ چبانا نظام ہاضمہ کو بہتر بنانے کے ساتھ دیگر فوائد کا بھی حامل ہوتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لکڑی کی اسٹک چبانا بھی دماغی صحت کیلیے مفید ہے۔

    یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ چیونگم چبانے سے دماغ میں خون کے بہاؤ میں بہتری آتی ہے، لیکن اب جنوبی کوریا کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ دماغ کی صحت کے لیے لکڑی چبانا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق لکڑی جیسے سخت مادے کو چبانے سے انسانی دماغ میں قدرتی طور پر پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کی یادداشت بہتر ہوتی ہے۔

    سائنس الرٹ ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق اس سلسے میں کی جانے والی حالیہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لکڑی کی اسٹک کو پانچ منٹ تک چبانے سے دماغ میں بنیادی اینٹی آکسیڈینٹ گلوٹاتھیون کی سطح بڑھ جاتی ہے جو آکسیڈیٹیو تناؤ سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس مطالعہ کے لیے جنوبی کوریا کے52 صحت مند یونیورسٹی طلباء کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں سے27 کو چیونگم دی گئی اور باقی25 طلبا کو لکڑی کی اسٹکس دی گئی تھیں۔

    جرنل فرنٹیئرز ان سسٹمز نیورو سائنس میں شائع رپورٹ کے مطابق مطالعہ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی رپورٹ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چبانے سے انسانی دماغ میں اینٹی آکسیڈنٹس کی سطح تبدیل ہو سکتی ہے اور دماغی اینٹی آکسیڈنٹ کی سطح میں اضافہ علمی افعال سے منسلک ہے۔

  • بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    بادام اور اخروٹ : گوشت سے پرہیز کرنے والوں کیلیے بہترین متبادل

    اپنی غذا میں بادام اور اخروٹ جیسےگری دار میوے شامل کرنا کئی ضروری غذائی اجزاء کی مقدار کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر طریقہ اور متعدد بیماریوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    بادام اور اخروٹ یہ دو ایسی سوغاتیں ہیں جو اپنے ذائقے اور افادیت کی بدولت میوہ جات میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ بادام کو تو میوہ جات میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا کی اشیاء شمار کیا جاتا ہے۔

    یہ دونوں ہی ان تمام بنیادی غذائی عناصر سے بھرپور ہیں جو یاد داشت اور دماغ کی عام کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔

    خشک میوہ جات بادام اور اخروٹ، گوشت کے استعمال سے دور بھاگنے والے سبزی خوروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، جو افراد گوشت نہیں کھاتے وہ ان میووں کے استعمال سے پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

    بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی یک رپورٹ میں ان دونوں میوہ جات کی غذائی خصوصیات اور دماغ کی مضبوطی کے لیے ان کی صفات کا موازنہ کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ صحت کو بہتر بنانے کے لیے ان میں سے خاص چیزکون سی ہے؟

    بادام

    بادام کو ڈرائی فروٹ یعنی خشک میوہ جات کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، تقریباً 23 باداموں میں 164کیلوریز، 14 گرام فیٹ، 6 گرام پروٹین، 6 گرام کاربز جبکہ 3.5 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    بادام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں خوب چبا چبا کر کھانا چاہیے، بادام نہار منہ کھانے سے ذہانت میں اضافہ اور کمر پتلی ہوتی ہے۔

    بادام بھگو کر کھانے سے ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو جاتی ہے، رات کو پانی میں باداموں کی 7 سے 9 گریاں بھگو کر رکھ دیں اور صبح نہار منہ کھا لیں، اس سے معدہ، آنکھیں اور دماغ تروتازہ رہتا ہے۔

    اخروٹ

    انسانی دماغی شکل سے مشابہت رکھنے والی گری اخروٹ میں وٹامن اور معدنی نمک پایا جاتا ہے جس سے ناصرف مسلز مضبوط ہوتے ہیں بلکہ اس سے میٹابالزم بھی تیز ہوتا ہے۔

    غذائی لحاظ سے 14 اخروٹ میں تقریباً 185 کیلوریز، 18.5 گرام فیٹ، 4 گرام پروٹین، 4 گرام کاربز جبکہ 1.9 گرام فائبر پایا جاتا ہے۔

    اخروٹ مقدار میں کم کھانے چاہئیں کیونکہ اِن میں کیلوریز، کولیسٹرول زیادہ اور فائبر کم پایا جاتا ہے۔

    یہ گلے میں خراش اور منہ میں چھالے بننے کا سبب بھی بن سکتا ہے، اخروٹ دن کے بجائے رات سونے سے قبل کھائیں، اخروٹ کھانے کے بعد چائے پینا نقصان دہ ہے ثابت ہو سکتا ہے۔

    اگرچہ اخروٹ اور بادام دماغی صحت کے لیے مفید ہیں تاہم اخروٹ اپنی غذائی ترکیب کے سبب یاد داشت بہتر بنانے میں شان دار کردار ادا کرتا ہے۔

    بہترین نتائج کے حصول کے لیے روزانہ اخروٹ اور بادام کا ایک حصہ اپنے جامع صحت بخش غذائی نظام کے جزو کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے، یہ گریاں بلاشبہ صحت بخش غذائی پلان کا بہترین حصہ ہیں۔

  • بچوں کو کس عمر میں موبائل فون دینا چاہیے؟ والدین توجہ کریں

    بچوں کو کس عمر میں موبائل فون دینا چاہیے؟ والدین توجہ کریں

    والدین کو بچوں کی دماغی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس عمر میں انھیں موبائل فون دینا چاہیے اس حوالے سے تفصیلات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔

    اس وقت دنیا کا چاہے کوئی بھی ملک ہو اس میں بچوں میں موبائل فون کا استعمال تقریباً عام ہوگیا ہے، اس کی مد نظر رکھتے ہوئے سعودی ادارے العربیہ ڈاٹ نیٹ نے بچے کو پہلا اسمارٹ فون دینے کے لیے مناسب عمر کے حوالے سے بچوں کی نشوونما کے ماہرین کے ایک برطانوی ڈیلی میل پول کا جائزہ لیا۔

    والدین اور اسمارٹ فون
    اعداد و شمار بتاتےہیں کہ 10 سال کی عمر سے پہلے 65 فیصد بچے اسمارٹ فون کے مالک ہیں، یعنی کہ بچے اوائل عمری سے ہی اپنے فون استعمال کرتے ہیں، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ والدین پانچ سے سات سال کی عمر بچوں کو بھی موبائل فون دے رہے ہیں۔

    امریکہ میں ایک بچہ اوسطاً اپنا پہلا فون 11.6 سال کی عمر میں استعمال کرتا ہے، ساڑھے 12 سال کے بچوں میں تو تیزی سے فون رکھنے کی شرح بڑھ رہی ہے، وہ بچے جن کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں وہ والدین سے ٹیبلیٹ جیسے آلات لے کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

    طویل مدتی نقصان
    برطانوی کمیونیکیشن ریگولیٹری باڈی ’آف کام‘ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تین سے چارسال کی عمر کے 90 فی صد بچے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 84 فی صد یوٹیوب دیکھتے ہیں۔

    ان اسباب کی بنا پر اسمارٹ فونز جلد طویل مدتی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں، بچوں کی خدمات اور مہارتوں کے لیے تعلیمی دفتر آفسٹڈ کی چیف انسپکٹر امانڈا سپیلمین کا کہنا ہے کہ میں چھوٹے بچوں کے لیے انٹرنیٹ تک لامحدود رسائی کے حق میں نہیں۔

    انھوں نے کہا کہ میں بہت حیران ہوتی ہیں جب ابتدائی عمر کے بچوں کے پاس اسمارٹ فون ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ہائی اسکول میں بھی بچوں کے پاس فون ہوتے ہیں۔

    بچوں کی نشونما میں رکاوٹ
    سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ بچوں کو بہت جلد اسمارٹ فون دینا ان کی نشوونما کو روک سکتا ہے، اگرچہ یہ سائنسی بحث تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ اسمارٹ فون کے استعمال سے نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    موجودہ تحقیق بتاتی ہے کہ چھ سال کی عمر بچپن کی نشوونما کے لیے ایک اہم نکتہ ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے کسی بچے کو کسی بھی قسم کا انٹرایکٹو میڈیا دینا مناسب نہیں ہو سکتا، یعنی کہ 6 سال سے پہلے بچے کو موبائل فون سے دور رکھا جائے۔

    بل گیٹس کی رائے
    مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچے کو 14 سال کی عمر تک اسمارٹ فون رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے جب تک دماغ اچھی طرح سے نشو نما نہ پاچکا ہو۔

    تحقیق سے پتا چلا کہ چھ سال سے کم عمر بچے اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں تو یہ ان کی نیند میں خلل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کے اثرات خاصے حساس ہوسکتے ہیں، جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کا دماغ مکمل طور پر نشوونما پاتا ہے اور کم متاثر ہو سکتا ہے۔

    خودکشی کے خیالات
    مغربی سیپین لیبز ریسرچ گروپ کے سائنسدانوں کی تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایک بچہ اپنا پہلا فون جتنی دیر میں حاصل کرے گا، بالغ ہونے کے بعد اس کی ذہنی صحت اتنی ہی بہتر ہوگی۔

    اس کے برعکس بچہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے جب وہ اپنا پہلا فون حاصل کرتا ہے، اس کے بعد کی زندگی میں خودکشی کے خیالات کا سامنا کرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔

    والدین کا طرز عمل
    تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ والدین اپنے سیل فون کو کس طرح استعمال کرتے ہیں بچہ بھی اس چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، تھائی تحقیق جس نے فون کے استعمال اور بچون کی خراب نشوونما کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی، اس میں اس بات کا انکشاف کیا گہا کہ والدین جتنا زیادہ وقت اپنے فون پر گزارتے ہیں بچے اتنا ہی زیادہ وقت اپنا فون استعمال کرتے ہیں۔

    ماہریں کہتے ہیں کہ والدین اگر اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو یہ بچوں کے ساتھ ان کی بات چیت کو متاثر کرتا ہے، اور یہ بات قابل تشویش ہوتی ہے۔

  • قیلولہ : دوپہر میں کچھ دیر آرام اور بےشمار فوائد

    قیلولہ : دوپہر میں کچھ دیر آرام اور بےشمار فوائد

    قیلولہ کے معنی دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر کیلئے لیٹنا ہیں، خواہ نیند آئے یا نہ آئے، یہ عمل صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں فیملی فزیشن ڈاکٹر عظمیٰ حمید نے قیلولہ کے تفصیلی معنی اور اس کے فوائد سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    قیلولہ

    انہوں نے بتایا کہ قیلولہ جسے انگریزی میں پاور نیپ بھی کہتے ہیں اور سنت نبویﷺ کے مطابق دوپہر کے کھانے کے بعد کم سے کم دس منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹے کیلئے آرام کرنا بھی ضروری ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ قیلولہ کے وقت آپ کا بستر یا کام کرنے کی جگہ اور کرسی آرام دہ ہو اس دوران کسی بھی قسم کی مصروفیت موبائل فون دیکھنا یا کوئی اور کام بالکل نہیں کرنا ذہن کو تمام فکروں سے آزاد ہوکر کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے لیٹیں۔

    دوپہر کو سونے سے

    ڈاکٹر عظمیٰ حمید کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بعد آپ خود کو بہتر اور توانا محسوس کریں گے اور کام کرنے کی جستجو اور طاقت میں اضافہ ہوگا۔

    قیلولہ سنت

    انہوں نے بتایا کہ کچھ دیر کا قیلولہ فرسٹریشن کا خطرہ کم کرتا ہے، بیماریوں کے خلاف جسم کا دفاعی نظام زیادہ بہتر طریقے سے کام کرپاتا ہے۔ یاداشت میں بھی بہتری آتی ہے اور دماغی صلاحیتوں کو بھی بہتر کرتا ہے۔

  • بھیگے ہوئے بادام نہار منہ کھانے کے 8 حیرت انگیز فوائد

    بھیگے ہوئے بادام نہار منہ کھانے کے 8 حیرت انگیز فوائد

    ہم اکثر اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ صبح سویرے رات بھر بھگوئے ہوئے بادام کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے اور جسم کو توانائی بھی ملتی ہے۔

    خشک میوہ جات اور ان میں پایا جانے والا روغن انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے جبکہ بادام سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال سے انسانی جسم کو بے شمار کرشماتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    اگر آپ صبح سویرے بھیگے بادام نہیں کھاتے تو آج سے ہی شروع کردیں کیونکہ تحقیق نے یہ ثابت کردی ہے کہ یہ بات بالکل دُرست ہے۔

    صبح بھیگے بادام کھانا اس کے فوائد کو دُگنا کر دیتا ہے۔ بچوں بڑوں میں اس طرح بادام کھانے کی عادت دماغ کی بہترین نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے

    ہاضمے کو بہتربناتے ہیں رات بھر بھیگے ہوئے بادام غذائی اجزاء کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سےہاضمے کے عمل کو آسان بناتے ہیں۔

    زیر نظر مضمون میں آج آپ کو ان بھیگے ہوئے باداموں کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

    بادام ایک ایسا خشک میوہ ہے جو صحت کیلئے بہت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے، بادام میں پوٹاشیم، میگنیشیم، آئرن، کیلشیم اور دیگر غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں جو جسم کو بہت سے فوائد فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    اگر آپ روزانہ صبح میں بھگوئے ہوئے بادام کھاتے ہیں تو آپ صحت کے بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

    بھیگے باداموں کے فائدے

     بادام

    1.ہاضمہ

    بھگوئے ہوئے بادام کے چھلکے اتارنے سے ان میں موجود ٹینن کی مقدار کم ہو جاتی ہے جو کہ نظام ہاضمہ کو بہتر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    2.موٹاپا

    بھیگے ہوئے بادام میں فائبر ہوتا ہے جو کہ بھوک کو کنٹرول کرنے اور وزن کم کرنے میں مددگار ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو صبح کے وقت بھگوئے ہوئے بادام کھا سکتے ہیں۔

    3.دل

    بادام میں monounsaturated چربی ہوتی ہے جو دل کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ یہ کولیسٹرول کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہیں۔

    4 دماغی صحت

    بھیگے ہوئے بادام میں وٹامن ای اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو دماغی صحت کو فروغ دینے میں مددگار ہوتے ہیں۔

    5.ہڈیاں

    بادام میں کیلشیم اور میگنیشیم کی اچھی مقدار ہوتی ہے جو کہ ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    6.قوت مدافعت

    بھگوئے ہوئے بادام میں موجود وٹامنز اور منرلز قوت مدافعت کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    7.جلد

    بھگوئے ہوئے بادام میں وٹامن ای ہوتا ہے جو جلد کو صحت مند اور چمکدار بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے آپ بھیگے ہوئے بادام کھا سکتے ہیں۔

    8.توانائی

    بھیگے ہوئے بادام میں پروٹین، فائبر اور صحت بخش چکنائی ہوتی ہے، جو جسم کو توانا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

     

  • سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    سرخ گوشت کھانے سے دماغی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

    ہم میں سے اکثر لوگ گوشت کھانے کے بے حد شوقین ہوتے ہیں اور ہمارا کھانا گوشت کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ روزانہ گوشت کھانا کس قدر نقصان دہ ہے؟

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ گوشت کو اعتدال میں کھانا ہی صحت بخش ہے کیونکہ اس کی زیادتی سے ڈائریا، بد ہضمی، الٹی اور فوڈ پوائزننگ جیسی شکایت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    سرخ اور سفید گوشت کیا ہے؟

    گوشت کے بارے میں وائٹ میٹ اور ریڈ میٹ کی اصطلاح تو آپ نے اکثر سنی ہو گی، وائٹ میٹ چکن اور مچھلی یا دیگر آبی حیات سے حاصل ہونے والے گوشت کو کہا جاتا ہے، جب کہ بکری، بھیٹر اور گائے وغیرہ کے گوشت کو ریڈ میٹ کہتے ہیں۔

    ریڈ میٹ عموماً زیادہ ذائقے دار ہوتا ہے، اس میں پروٹین، وٹامنز اور دوسرے صحت بخش اجزاء کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے معالج عموماً بعض صور توں میں بڑا گوشت یا ریڈ میٹ کھانے سے منع کرتے ہیں۔

    سرخ گوشت

    گو کہ گوشت میں شامل غذائی اجزا جسم کے لیے ضروری ہوتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اجزا دوسری متبادل غذاؤں جیسے مچھلی، انڈوں یا خشک میوہ جات سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنانے سے قبل ان کے خطرناک نقصانات کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

    حیران کن تحقیق 

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گائے یا بکرے کا گوشت زیادہ مقدار کھانے والے افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ محض 28 گرام پراسیس سرخ گوشت کے استعمال سے ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں سرخ گوشت کی جگہ گریوں، دالوں اور بیجوں کو استعمال کرنے سے ڈیمینشیا کا خطرہ 20 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔

    ماضی میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پراسیس سرخ گوشت میں چکنائی، نمکیات اور نائٹریٹ کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جس سے کینسر کی مختلف اقسام، ذیابیطس ٹائپ 2، امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • ذہین افراد ان 8 عادات سے لازمی اجتناب کریں

    ذہین افراد ان 8 عادات سے لازمی اجتناب کریں

    تیزرفتاری سے ترقی کرتی دنیا میں لوگ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔

    دماغی صحت میں خرابی ہمارے خیالات، احساسات اور اعمال کو متاثر کرتی ہے، دماغی صحت میں جذباتی، نفسیاتی اور سماجی بہبود شامل ہے۔

    جس طرح جسمانی صحت ضروری ہے اسی طرح اچھی ذہنی صحت بھی ایک بھرپور اور متوازن زندگی کے لیے بےحد ضروری ہے۔

    گلوبل انگلش ایڈیٹنگ ویب سائٹ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ لوگ بعض اوقات خود کو کم ذہین محسوس کرتے ہیں، لوگوں کو شاید س بات کا علم نہیں کہکچھ ایسی عادات ایسی بھی ہیں جو درحقیقت انسان کو ذہانت کی کمی کی طرف لے جاتی ہیں۔

    شعبہ نفسیات کے پاس اس حوالے سے بہت اہم اور بہترین مشورے اور طریقہ علاج ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ایسے رویے ہیں جو کم عقلی کی علامت ہوسکتے ہیں جو مندرجہ درج ذیل سطور میں بیان کی جارہی ہیں۔

    تجسس کی کمی :1

    تجسس کا تعلق اکثر ذہانت سے ہوتا ہے، البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ میرے پاس کوئی خاص ہنر نہیں ہے۔ میں صرف پرجوش ہوں۔ ماہر نفسیات آئن اسٹائن کی رائے سے متفق ہیں کیونکہ وہ بڑی حد تک ایک متجسس ذہن کو اعلیٰ ذہانت کا ایک بڑا اشارہ سمجھتے ہیں۔

    لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ تجسس کی کمی اس کے برعکس یعنی ذہانت کی کمی کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی شاذ و نادر ہی چیزوں پر سوال کرتا ہے، نئی چیزیں سیکھنے میں کم دلچسپی ظاہر کرتا ہے یا اس میں عام طور پر کسی بھی موضوع میں گہرائی میں جانے کی خواہش کا فقدان ہے تو یہ ذہانت کی کم سطح کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔

    بار بار تاخیر :2

    بہت سے لوگ وقتاً فوقتاً کچھ کاموں یا ذمہ داریوں کو ملتوی کر دیتے ہیں لیکن نفسیات کے مطابق بار بار اور دائمی تاخیر کم ذہانت کی علامت ہوسکتی ہے کیونکہ تاخیر محض ایک بری عادت سے زیادہ کچھ ہے۔

    یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے وقت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے یا اپنے وقت کو استعمال کرنے کے بارے میں عقلی فیصلے کرنے سے قاصر ہے۔

    تاخیر پیداواری صلاحیت اور کام کے مجموعی معیار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ حقیقت پسندانہ اہداف طے کرنے، کاموں کو قابل انتظام حصوں میں تقسیم کرنے اور وقت پر کام مکمل کرنے پر اپنے آپ کو انعام دینے سے اس عادت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

    سننے کی ناقص مہارت :3

    بات چیت کے دوران کچھ لوگ بالکل نہیں سن رہے ہوتے اور وہ اپنا سر ہلا رہے ہوتے ہیں لیکن جب ان کی بات کرنے کی باری آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری بات نہیں سمجھتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق سننے کی ناقص صلاحیتیں ذہانت کی کم سطح کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔ فعال سننے کے لیے کہی گئی باتوں کو سمجھنے، تشریح کرنے اور اس کا اندازہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    یہ صرف جملے اور الفاظ سننے سے زیادہ سمجھنے اور تشریح کرنے کے بارے میں ہے، غور سے سننا، سمجھنا اور تشریح کرنے سے علمی صلاحیتوں میں بہت بڑا فرق پیدا کیا جا سکتا ہے۔

    موافقت کی کمی :4

    چاہے وہ روزانہ کی چھوٹی تبدیلیاں ہوں یا زندگی کی بڑی تبدیلیاں، تبدیلی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ تبدیلی اپنانے کی صلاحیت بہت ضروری ہے۔

    ماہرین نفسیات اعلیٰ درجے کی ذہانت کو نئے حالات اور ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت سے جوڑتے ہیں کیونکہ تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے مسائل کو حل کرنے کی مہارت، تخلیقی صلاحیت اور تیزی سے سوچنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب ذہانت کی خصوصیات کے عنوان کے تحت آتے ہیں۔

    خود کی بہتری کو نظر انداز کرنا :5

    ذاتی ترقی اور خود کی بہتری ہر شخص کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے بشرطیکہ وہ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے قابل ہو اور انہیں تبدیل کرنا چاہتا ہو، کچھ لوگ زندگی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ترقی یا بہتری کی خواہش کے بغیر اپنی موجودہ حالت سے مطمئن رہتے ہیں، خود کو بہتر بنانے کی یہ غفلت ذہانت کی کم سطح کا اشارہ ہو سکتی ہے۔

    علم میں حد سے زیادہ اعتماد :6

    اعتماد ہونا ایک بہت بڑی خوبی ہے لیکن حد سے زیادہ اعتماد خاص طور پر اپنے علم کے بارے میں اعتماد ایک جال بن سکتا ہے۔ یہ ایک خاصیت ہے جسے ماہرین نفسیات اکثر ذہانت کی کم سطح سے جوڑتے ہیں۔ حد سے زیادہ اعتماد ایک شخص کو اپنی غلطیوں کو پہچاننے سے قاصر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ اعتماد سیکھنے اور ترقی میں رکاوٹ ہے۔ یہ نئی معلومات اور نقطہ نظر کو مسدود کرتا اور ایک بند نقطہ نظر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ شائستہ ہونا اور یہ سمجھنا کہ سیکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے اور ترقی کی گنجائش کسی کو کھلا ذہن رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

    مختلف نقطہ نظر کو نظر انداز کرنا :7

    ماہرین نفسیات تجویز کرتے ہیں کہ مختلف نقطہ نظر کو نظر انداز کرنا اور کسی نقطہ نظر پر سختی سے قائم رہنا کم علمی اور کم لچک کی نشاندہی کرتا ہے ۔ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنا ذہانت کا ایک اہم پہلو ہے کیونکہ مختلف نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ہمدردی، تنقیدی سوچ اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

    خود آگاہی کی کمی :8

    خود آگاہی کسی شخص کی علمی صلاحیتوں اور ذہانت کی سطحوں کی نگرانی کے لیے اہم کلیدوں میں سے ایک ہے۔ وہ لوگ جن میں خود آگاہی کا فقدان ہےاور جو اپنی طاقتوں اور کمزوریوں کو نہیں سمجھتے تو وہ اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔ خود آگاہی کے لیے خود کی عکاسی، جذباتی ذہانتاور خود کا تنقیدی تجزیہ کرنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ذاتی ترقی اور سیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

  • دماغی صحت کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    دماغی صحت کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ہر انسان کیلئے ذہنی صحت اتنی اہمیت کی حامل ہے جیسے سانس لینا یا یا کھانا پینا کیونکہ جب ہم دماغی طور پر تندرست و توانا نہیں ہوں گے تو فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھ سکیں گے۔

    اچھی زندگی کیلئے دماغی صحت اہم جز ہے کیونکہ یہ خیالات، طرز عمل اور جذبات کو متاثر کرتی ہے، ذہنی طور پر صحت مند ہونا روزمرہ کی سرگرمیوں میں مثبت اور دیرپا نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شوبز کی معروف اداکارہ شرمین علی نے ذہنی صحت کی اہمیت اور اس کی افادیت سے متعلق اہم باتیں بتائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اچھی دماغی صحت ہماری سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ جب ہم خود کسی کام کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہونگے تو دوسروں کے کام بھی نہیں آسکتے۔

    لہٰذا ہمیں اس حوالے سے مزید جاننا چاہیے تاکہ اس سے بچا جاسکے اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی پھیلائی جا سکے۔

    انسان کی دماغی صحت اس وقت متاثر ہوتی ہے جب کوئی شخص کیا اچھا ہے اور اچھا چل رہا ہے کے بجائے مسئلہ کیا ہے؟ پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھی خصوصی توجہ دیتا ہے تاکہ وہ خود بھی پرسکون رہ سکے۔

    دماغی صحت کیا ہے؟

    دماغی صحت سب سے زیادہ غلط سمجھی جانے والی اصطلاح ہے، لوگ اکثر ذہنی صحت کی حالتوں جیسے ڈپریشن، اضطراب، شخصیت کی خرابی، شیزوفرینیا جیسے علامات کو ذہنی صحت کی خرابی سمجھتے ہیں جبکہ معاملہ اس سے مختلف ہے۔

    بہت سے لوگوں کو جسمانی بیماریوں کی علامات کا علم ہوسکتا ہے جیسے کہ ہارٹ اٹیک یا فالج لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خراب دماغی صحت کے بارے میں نہیں جانتے ہوں یا انہیں اس کا ادراک ہی نہ ہو۔

    بہت سے لوگوں کو جسمانی بیماریوں کی علامات کا علم ہوسکتا ہے، جیسے ہارٹ اٹیک یا فالج لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ خراب دماغی صحت کے بارے میں نہیں جانتے ہوں۔

    علامات کیا ہیں:

    اس کیفیت کی علامات میں مسلسل اداسی یا کوئی کمی محسوس ہونا، سماجی روابط اور روزمرہ کی سرگرمیوں سے دستبرداری یا بے اعتناعی، کھانے اور سونے کے اوقات میں تبدیلیاں، خودکشی کے خیالات اور تنہائی کے احساسات، حد سے زیادہ سوچنا اورحالات اور لوگوں سے متعلق یا سمجھنے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ غصہ شامل ہیں۔

    دماغی صحت کیسے بہتر بنائی جائے؟

    وہ افراد جو ذہنی طور پر لچکدار ہوتے ہیں وہ مشکل حالات سے نمٹنے اور مثبت نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کے لیے ذہن سازی کی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    چھوٹی چھوٹی چیزیں یا اقدامات دماغی صحت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، دماغی صحت کے مخصوص مسئلے سے نمٹنے کے لیے جذبات کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے لیے یا محض زیادہ مثبت اور توانائی بخش محسوس کرنے کے چند طریقے یہ ہیں۔

    اپنے ارد گرد سماجی روابط کو ترجیح دیں، روزانہ 30 منٹ کی جسمانی سرگرمی کو مقصد بنائیں متوازن اور صحت مند دماغی غذا کھائیں۔ فرصت کے وقت کو ترجیح دیں، ہر رات سات سے نو گھنٹے کی معیاری نیند ضروری بنائیں۔

  • یادداشت کو تیز کرنے کا جادوئی نسخہ

    یادداشت کو تیز کرنے کا جادوئی نسخہ

    ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ شکایت یا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں، اس کی وجہ دیگر عوامل کے علاوہ یادداشت کی کمزوری بھی ہوسکتی ہے۔

    اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے، چابیاں یا چشمہ کہیں رکھ کر بھول جانا، تاریخوں کا بھول جانا، بہت سی دعائیں جو یاد کر رکھی ہوں ان کا یاد نہ آنا سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

    لیکن اگر آپ کو بھولنے کی بیماری ہے تو اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ آپ ضرورت سے کم نیند لے رہے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں، جسمانی مشقت کم ہے یا کوئی جینیاتی مسئلہ ہے۔

    اس چیز سے چھٹکارا پانے کیلیے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر عیسیٰ نے بہت آسان سا نسخہ بیان کیا جس کو کھا کر چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھول جانے کا یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ سو روپے کی برہمی بوٹی کسی بھی پنساری کی دکان سے لیں اور اس کے اندر اتنے ہی وزن کی مصری شامل کریں اور اس کا سفوف بنا کر رکھ لیں، ڈاکٹر عیسیٰ نے کہا کہ روزانہ ایک چمچ دودھ میں ڈال کر پیئیں آپ کی یادداشت بہترین ہوجائے گی۔

    دماغی صحت میں خوراک کا کردار نہایت اہم ہے، دماغ کے لیے مفید غذاؤں کا استعمال ہمارے جسم میں خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے اور اگر آپ بھولنے کی شکایت کر رہے ہیں تو یقیناً اپنے دماغ کو درست غذا فراہم نہیں کرپا رہے۔

  • نمک کے زیادہ استعمال کا خطرناک نقصان

    نمک کے زیادہ استعمال کا خطرناک نقصان

    نمک کا زیادہ استعمال کئی جسمانی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے لیکن اب حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ نمک کا زیادہ استعمال ذہنی بیماریاں بھی دے سکتا ہے۔

    تحقیقی جریدے برٹش فارماکولوجیکل سوسائٹی میں شائع تحقیق کے مطابق جاپانی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کا زیادہ استعمال نہ صرف ہائی بلڈ پریشر بلکہ ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین نے نمک کے زیادہ استعمال کے دماغ اور انسانی اعصاب پر پڑنے والے منفی اثرات جانچنے کے لیے چوہوں پر تحقیق کی اور چوہوں کو 12 ہفتوں تک زیادہ نمک والا پانی اور خوراک دی گئی۔

    بعد ازاں ماہرین نے تمام چوہوں کے اعصاب، جسمانی اور دماغی حالت کا جائزہ لیا اور معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے کون سے کیمیکل یا پروٹین بڑھ جاتے ہیں جو بیماریوں اور مسائل کا سبب بنتے ہیں۔

    ماہرین نے دیکھا کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرنے والے پروٹین تاؤ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے ڈیمینشیا یا الزائمر ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے دماغ میں ایک کیلشیئم پروٹین میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، یہ پروٹین دماغ میں لہروں یا وہاں موجود نسوں کے درمیان سگنلز بھیجنے کا کام کرتا ہے۔

    ماہرین نے زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے اعصاب پر پڑنے والے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ زیادہ نمک استعمال کرنے سے چوہوں کے اعصابی نظام کے دو اہم ہارمونز اور ان کے جزوی ہارمونز میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جو ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن رہی ہیں۔

    مذکورہ دونوں ہارمونز اور ان کے جزوی ہارمونز انسان کے نسوں میں خون کی روانی کو بہتر اور معیاری بنا کر اسے دل اور دماغ سمیت جسم کے دیگر حصوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں جبکہ اس میں سے ایک ہارمون چوٹ لگنے یا خون بہنے کی صورت میں خون کو روکنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے چوہوں کے اعصابی اور دماغی نظام کے متعدد پروٹینز اور ہارمونز میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں جو کہ ہائی بلڈ پریشر اور دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیادہ نمک استعمال کرنے سے نہ صرف ہائی بلڈ پریشر بلکہ ذہن کے غیر فعال ہونے یا ڈیمینشیا اور الزائمر جیسی بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہر انسان کو یومیہ زیادہ سے زیادہ 4 گرام نمک کھانا چاہیئے لیکن آج کل کے دور میں باربی کیو اور فاسٹ فوڈز کی وجہ سے انسانوں میں نمک کا یومیہ استعمال 15 سے 20 گرام تک جا پہنچا ہے جو کہ مطلوبہ مقدار سے 5 گنا زیادہ ہے۔