Tag: دماغی صحت

  • ماہرین نے شادی کا انوکھا فائدہ ڈھونڈ لیا

    ماہرین نے شادی کا انوکھا فائدہ ڈھونڈ لیا

    طبی و سائنسی ماہرین نے شادی اور ساتھ رہنے کے کئی فوائد پر ریسرچ کی ہے اور اب حال ہی میں اس کا ایک اور فائدہ سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں جرنل آف نیورولوجی نیورو سرجری اینڈ سائیکاٹری کے تحت کی گئی تحقیق میں کم از کم 15 مطالعات میں دنیا بھر سے 8 لاکھ 12 ہزار سے زیادہ لوگوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا، برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے بیوہ، طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ افراد کا موازنہ شادی شدہ افراد سے کیا۔

    تحقیق کے نتائج کے مطابق شادی شدہ لوگوں کے مقابلے میں، ساتھی سے علیحدہ ہوجانے والے افراد میں ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ کم از کم 20 فیصد زیادہ ہوتا ہے، اور ایسے افراد جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی ان میں جنس اور عمر سے متعلق خطرے کے عوامل کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد یہ خطرہ 42 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں سامنے آیا کہ شادی شدہ ہونے سے مختلف طریقوں سے ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    شادی شدہ افراد روزانہ کی بنیاد پر باہمی میل اور تعلق کی بنا پر مختلف سماجی مصروفیت میں وقت گزارتے ہیں جو کسی بھی شخص کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، ذہنی استعداد اور یاداشت کو بہتر بناسکتی ہے۔

    اس کے علاوہ ماضی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے نتیجے میں بہتر فیصلہ سازی میں مدد ملتی ہے، جیسے کہ صحت مند کھانا اور ورزش میں اضافہ، کم سگریٹ نوشی، یہ سب ڈیمنشیا کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    طلاق یافتہ افراد کے مقابلے میں علیحدہ ہوجانے والے افراد میں ڈیمنشیا کا زیادہ خطرہ موجود ہوتا ہے، اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سوگ ہو جو زیادہ تناؤ میں مبتلا رکھتا ہے۔

    یہ تناؤ ذہن کے اس حصے کو جہاں یادداشت کی تشکیل ہوتی ہے، نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔

    تاہم، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیمنشیا کو روکنا اتنا آسان نہیں ہے، یہ مطالعہ ڈیمنشیا کے خطرے اور شادی کے درمیان تعلق کو ظاہر تو کرتا ہے۔ لیکن، یہ سمجھنا کہ ازدواجی حیثیت سے متعلق کچھ مخصوص عوامل ڈیمنشیا کے خطرے کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں، بڑی حد تک نامعلوم ہے۔

  • 6 منٹ کی سخت ورزش کا حیران کن نتیجہ، نئی تحقیق

    طبی ماہرین نے ایک تحقیق کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ محض 6 منٹ کی سخت ورزش آپ کے دماغ میں ایک اہم مالیکیول کو بڑھا دیتی ہے، جو دماغی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔

    یہ ریسرچ اسٹڈی نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں کی گئی جو جرنل آف سائیکولوجی نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ چھ منٹ کی تیز رفتار ورزش سے حیران کن طور پر دماغ میں ایک اہم پروٹین کی پیداوار بڑھ جاتی ہے، یہ پروٹین دماغ کی بناوٹ، افعال اور یادداشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اس پروٹین کی کمی یا خرابی کی وجہ سے الزائمر کی بیماری جیسا کہ نیوروڈیجینریٹیو عوارض ابھرنے لگتے ہیں۔

    زیربحث خصوصی پروٹین کو ’دماغ سے ماخوذ نیوروٹروفک فیکٹر‘ (BDNF) کہا جاتا ہے، اور یہ دماغ میں نیورون سیلز کی نشوونما اور بقا دونوں کو فروغ دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ نئے روابط اور سگنل لانے لے جانے والے راستوں کی نشوونما میں سہولت فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ صرف چھ منٹ کی سخت اور تیز ورزش آپ کو دماغی امراض سے بچا سکتی ہے۔

    ریسرچ کیسے کی گئی؟

    محققین نے جسمانی طور پر فعال 12 رضاکاروں کو ریسرچ اسٹڈی کے لیے منتخب کیا، جن کی عمریں 18 سے 56 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام شرکا کو تین مختلف طریقوں کے ذریعے جانچا گیا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دماغ میں بی ڈی این ایف کی پیداوار بڑھانے کے لیے کون سا طریقہ بہترین ہے۔

    ان تین طریقوں میں 20 گھنٹے کا روزہ، 90 منٹ سائیکل چلانا، اور 6 منٹ کی بھرپور سائیکلنگ شامل تھی۔

    مختصر وقت کے لیے تیز رفتار یعنی سخت سائیکلنگ نے اس پروٹین کی پیداوار بڑھانے حیران کن نتائج فراہم کیے، درحقیقت، اس نے خون میں بی ڈی این ایف کی سطح کو 4 یا 5 گنا بڑھایا، اس کے برعکس ہلکی ورزش کے بعد معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا، تاہم روزے کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ دماغ کو صحت مند رکھنے اور بیماری سے بچانے کے لیے زیادہ شدت والی ورزش ایک آسان اور سستا طریقہ ہے۔

    نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی فزیالوجسٹ ٹریوس گبنس کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اب تک انسانوں میں اس اہم پروٹین کی پیداوار بڑھانے اوراس کی طاقت کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں، حالاں کہ جانوروں کے ماڈلز میں اس کی کارکردگی اچھی رہی۔ لہذا انھوں نے اس کے لیے غیر روایتی طریقوں کو تلاش کیا، جو اس پروٹین کی پیداور کو بڑھا کر اسے مستقبل میں استعمال کرتے ہوئے دماغی امراض سے بچا سکے۔

  • یہ انکشاف جاننے کے بعد آپ ورڈل گیم ضرور کھیلنا چاہیں گے

    یہ انکشاف جاننے کے بعد آپ ورڈل گیم ضرور کھیلنا چاہیں گے

    آپ نے حال ہی میں مقبول ہونے والے آن لائن گیم ورڈل کو ضرور کھیلا ہوگا یا کم از کم اپنی سوشل فیڈ پر اس کے اسکور ضرور دیکھے ہوں گے جو لوگ پوسٹ کرتے ہیں۔

    اب ماہرین نے اس گیم کے حوالے سے انکشاف کیا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گیم روزمرہ کی بنیادوں پر کھیلنا ذہنی صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔

    بنیادی طور پر یہ ایک ورڈ گیم ہے جس میں 5 بلاکس پر مبنی 6 خالی قطارتیں ہوتی ہیں اور آپ کو 6 بار اس میں 5 حروف پر مبنی درست لفظ کو تحریر کرنا ہوتا ہے۔

    جو لفظ درست ہوگا وہ سبز رنگ میں نظر آئے، اگر لفظ درست ہوگا مگر ترتیب میں غلط ٹائپ ہوگا تو وہ زرد ہوگا، جبکہ غلط حروف گرے رنگ کے ہوں گے۔

    تو کم از کم کوششوں میں لفظ کا اندازہ لگانے کو زیادہ بہتر تصور کیا جاتا ہے اور ہر دن ایک پزل دستیاب ہوتا ہے، اگر وہ کافی نہیں تو اس کی نقل پر مبنی متعدد ایپس بھی دستیاب ہیں۔

    اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی ویکسنر میڈیکل سینٹر کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر ڈوگلس شیکرے کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ورڈل جیسی کسی ورڈ گیم کو کھیلنا دماغی صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کسی مسئلہ حل کرنے والی ورزش سے خود کو چیلنج کرنا اہم ہوتا ہے، بزلز اور گیمز دماغ کے بنیادی حصوں جیسے منطق، زبان، بصری تصورات، توجہ اور لچک کو متحرک کرنے کے لیے اہم ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس طرح عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی صحت کی تنزلی کی روک تھام میں بھی بہت زیادہ مدد ملتی ہے، درحقیقت دماغ کو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے گا وہ اتنا ہی بہتر ہوگا، تو اس کی ورزش اسے صحت مند رکھنے کا اچھا ذریعہ ہے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ورڈل جیسی گیمز دماغی مسائل کے شکار افراد کے لیے بھی ممکنہ طور پر فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔

    اسی طرح اوریگن یونیورسٹی کے نیورو سائنسز پروفیسر ماہر الرچ مائر نے بتایا کہ جو لوگ ذہنی طور پر خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں وہ ورڈل جیسی ورڈ گیمز سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ہر سرگرمی پرلطف ہونے کے ساتھ ہمارے لیے اچھی ہوتی ہے، بالخصوص جب اس کا موازنہ ٹی وی دیکھنے یا دیگر مسائل کے باعث پریشان رہنے سے کیا جائے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ورڈل کے ذریعے لوگوں کا جڑنا اس گیم کی ایک اور مثبت خصوصیت ہے، کیونکہ سماجی تعلقات کو اچھی ذہنی صحت اور سوچنے کے عمل سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    اگر آپ کو ورڈ گیمز پسند نہیں تو ایسی سرگرمیوں کی کمی نہیں جو اسی طرح کے فوائد فراہم کرتی ہیں، مثال کے طور پر جسمانی ورزش بھی دماغی افعال پر مثبت اثرات کرتی ہے۔

    ورزش کے ساتھ ساتھ ماہرین سماجی طور پر گھلنے ملنے کو بھی دماغ کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر پہلیاں، گیمز، مسائل حل کرنے والی سرگرمیاں، رقص، گانا، موسیقی کے آلات بجانا اور کھیلوں سے بھی دماغ کو فائدہ ہوتا ہے۔

  • ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا نہ صرف جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، بلکہ ذہنی صحت کی بہتری کے لیے بھی ضروری ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    لندن میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا دماغ کو طویل مدت تک صحت مند رکھتا ہے اور دماغ کو مختلف الجھنوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    کووڈ 19 سے دماغی صحت کو بھی خطرہ

    حال ہی میں امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، کنگز کالج، کیمبرج، ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کس حد تک ذہنی صحت اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔

    اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے 81 ہزار سے زیادہ افراد کے جنوری سے دسمبر 2020 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 13 ہزار کے قریب میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف 275 افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔

    باقی افراد کے لیے محققین نے دماغی کارکردگی کی پیشگوئی کے ایک لائنر ماڈل کو استعمال کیا، جس میں جنس، نسل، مادری زبان، رہائش کے ملک، آمدنی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق دماغ کی کارکردگی کے مشاہدے اور پیشگوئی سے ان افراد کے ذہانت کے ٹیسٹوں میں ممکنہ کارکردگی کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے، ان کی ذہنی کارکردگی اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔

    ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق، مسائل حل کرنے، منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج لانگ کووڈ کی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں، جن میں مریضوں کو ذہنی دھند، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور الفاظ کے چناؤ جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل سے جڑی ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 دماغی تنزلی سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا تسلسل صحت یابی کے مراحل کے دوران برقرار رہتا ہے، یعی علامات ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی شدت پر ہوتا ہے۔

    یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں ذہنی افعال کی تنزلی کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی، درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7 پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔

  • ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    بھاگتی دوڑتی زندگی اور مختلف مسائل نے ہر شخص کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے، ایسے میں ذہنی صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ نہ صرف زندگی کے مختلف امور بہتر طور پر سرانجام دیے جائیں بلکہ خود کو بھی خوش رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر کنول قدیر نے شرکت کی اور ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی خرابی کی سب سے پہلی علامت تو یہ ہے کہ مناسب طریقے سے کوئی کام سرانجام دینے میں ناکامی ہونا۔ جب بھی ہم کسی شخص میں تبدیلی محسوس کریں اور تبدیلی خرابی کی صورت میں ہو تو ایسی صورت میں چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    جیسے کوئی شخص پہلے کی نسبت تنہائی پسند ہوگیا، زیادہ رونے لگا ہے، اس کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں فرق آگیا ہے تو یہ ذہنی طور پر پریشان ہونے کی علامت ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کو سب سے پہلے اہل خانہ اور قریبی دوست محسوس کرتے ہیں۔ اگلا مرحلہ اس شخص کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ یہ عادت نارمل نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ اس تبدیلی کو مانتے نہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں، پاکستان میں خواتین کی اکثریت ڈپریشن کا شکار ہے اور انہیں یہ نہیں پتہ کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ زیادہ رونا، زیادہ سوچنا یا گھلنے ملنے سے پرہیز کرنا ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ پچھلا پورا سال کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوا اور اس سے ہماری دماغی صحت کو بے حد نقصان پہنچا ہے، اب دماغی صحت کی بہتری کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھائیں کہ گھر سے باہر وقت گزاریں۔

    انہوں نے کہا کہ پورا سال گھر میں بند رہنے کے بعد اب ہمارے دماغ کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہے، لہٰذا اگر کسی روز کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی صبح جلدی اٹھیں، کپڑے تبدیل کریں اور باہر نکلیں۔

    ڈاکٹر کنول نے بتایا کہ وہ ایک استاد بھی ہیں اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آج کل نوجوان بچوں میں اینگزائٹی میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سخت مقابلے کی فضا اور سوشل میڈیا پر سب اچھا دکھانے کا رجحان ہے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر بچے (اور بڑے بھی) کسی اہم موقع یا امتحان کے دن دماغی بلیک آؤٹ محسوس کرتے ہیں اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال پیش آئے تو اس پر فوکس کریں جو آپ کو یاد ہے، بجائے اس کے کہ اس پر فوکس کیا جائے جو آپ کو یاد نہیں۔

    ڈاکٹر کنول نے دماغی صحت کی بہتری کے لیے 5 ٹپس بھی بتائیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    روزانہ دن میں کم از کم 1 گھنٹہ گھر سے باہر کھلی ہوا میں گزاریں۔

    مراقبے کی عادت اپنائیں اور اس کے لیے یوٹیوب ویڈیوز کی مدد لیں۔

    اپنے سوشل سرکل کو بہتر کریں، ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں جو آپ کی حوصلہ افزئی کریں اور جن کے ساتھ بیٹھ کر آپ خوشی محسوس کریں۔ جو لوگ آپ کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اور آپ کی خرابیاں گنوائیں، ایسے لوگوں سے رابطہ ختم نہیں کرسکتے تو کم سے کم کردیں۔

    اپنی کامیابیوں اور خود کو حاصل نعمتوں کی ایک فہرست بنا کر رکھیں، جب بھی اداسی اور مایوسی محسوس کریں اس فہرست کو دیکھیں۔

    چاکلیٹ اور اخروٹ کا استعمال باقاعدگی سے کریں، یہ دماغ کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔

  • انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    کو وِڈ 19 کی مہلک ترین وبا کے باعث جہاں بڑی تعداد میں لوگ مرے ہیں، اور معاشی نقصانات بھی نہایت وسیع سطح پر مرتب ہوئے ہیں، وہاں یہ بیماری انسانی دماغی صحت کے لیے بھی نہایت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟ اس حوالے سے ایک ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر تامر المری بتاتی ہیں کہ ذہنی صحت پر کرونا وائرس کے متعدد اثرات ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

    بے چینی کی کیفیت، ذہنی تناؤ اور زیادہ غصہ محسوس کرنا، نیند میں مشکل ہونا یا خلل، روزمرہ کے معمول میں عدم توازن وغیرہ۔

    محققین نے کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی ذہنی صحت پر بھی اس کے اثرات کو نوٹ کیا ہے، آکسفورڈ یونی ورسٹی کے محققین کی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شفایاب ہونے والوں میں سے 18 فی صد افراد صحت یابی کے 3 ماہ کے اندر ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحت یاب ہونے والوں کو مختلف نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً بے خوابی، افسردگی اور اضطراب اس کی سب سے عام علامات ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں دماغی کم زوری جیسے دماغی نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جب کہ پہلے سے موجود نفسیاتی عارضے میں مبتلا افراد میں ذہنی بیماریوں کی سنجیدہ علامات دیکھی گئیں، اور صحت مند افراد کے مقابلے میں انھیں کرونا وائرس ہونے کا 65 فی صد زیادہ امکان دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا بیماری کی وجہ سے لوگوں میں مختلف نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، اور ذہنی تناؤ، اضطراب، افسردگی عدم یقین جیسی کیفیات میں دن بدن اضافہ دیکھا گیا، اس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ ٹینشن، دماغی بیماریاں اور اسٹروک وغیرہ کا شکار ہوئے ہیں۔

    جو لوگ پہلے سے اعصابی مسائل کا شکار تھے انھیں بیماری سے مزید متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے ان کا نقصان بعض اوقات موت کا سبب بنتا ہے۔

  • فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی فضائی آلودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگلات میں آتشزدگی، اسموگ، سگریٹ کے دھویں، کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے بوسٹن سے تعلق رکھنے والے 954 معمر افراد کی دماغی کارکردگی اور ہوا میں موجود ننھے ذرات پی ایم 2.5 اور سیاہ کاربن جیسی آلودگی کے اثرات کا موازنہ کیا۔ اس کے علاوہ تحقیق میں ورم کش ادویات کے استعمال سے مرتب اثرات کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ایم 2.5 کی اوسط سطح میں اضافہ 28 دن تک برقرار رہنے سے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹوں میں رضا کاروں کے اسکور کم ہوئے۔ تاہم جو افراد ورم کش ادویات استعمال کر رہے تھے ان میں فضائی آلودگی سے دماغی کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی شرح دیگر سے کم تھی۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اسپرین کا استعمال اعصابی ورم کو معتدل رکھتا ہے یا دماغ کی جانب خون کے بہاؤ میں تبدیلیاں لاتا ہے جس سے فضائی آلودگی کے منفی اثرات کا کم سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ مختصرمدت کے لیے فضائی آلودگی بھی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اسپرین یا دیگر ورم کش ادویات کے استعمال سے ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

  • درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    لندن: برطانیہ میں کی جانے والی ایک لمبے عرصے پر مبنی نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر روزانہ 6 گھنٹے یا اس سے کم کی نیند لی جائے تو اس سے دماغی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں منگل کو شائع ہوئی ہے، اس تحقیق سے یہ بات پھر سامنے آئی ہے کہ نیند ہماری صحت کے لیے کتنی زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس کی کمی متعدد امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ درمیانی عمر میں روزانہ 6 گھنٹے سے کم کی نیند دماغی خلل (dementia) کی طرف لے جا سکتی ہے، جس میں دماغ اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے، اہم نکتہ یہ ہے کہ اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کی نیند بھی کم نیند کے زمرے میں آتی ہے، اور کم سے کم نیند 7 گھنٹے کی ہونی چاہیے۔

    اس طبی تحقیق کا دورانیہ 25 سال پر محیط رہا، اور اس دوران تقریباً 8 ہزار افراد کے معمولات کا جائزہ لیا گیا، نتائج نے دکھایا کہ 50 سے 60 سال کی عمر میں نیند کا دورانیہ 6 گھنٹے سے کم ہو تو ڈیمنشیا (دماغی تنزلی کا مرض) کا خطرہ ہر رات 7 گھنٹے سونے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیقی رپورٹ کے مطابق سماجی آبادیاتی، نفسی طرز عمل، امراض قلب، دماغی صحت اور ڈپریشن جیسے اہم عوامل سے ہٹ کر یہ معلوم کیا گیا کہ 50، 60 اور 70 سال کی عمر کے افراد میں نیند کی مسلسل کمی سے ڈیمنشیا کا خطرہ 30 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس طبی تحقیق کے حوالے سے برطانیہ میں ناٹنگھم یونی ورسٹی کے مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ٹام ڈیننگ نے بتایا کہ اگرچہ یہ طبی مطالعہ علت و معلول (یعنی سبب اور اس کے اثر) کا تعین نہیں کرتا، تاہم یہ ڈیمنشیا کی بالکل ابتدائی علامت ہو سکتی ہے، اور اس کا تو کافی امکان ہے کہ ناقص نیند دماغی صحت کے اچھی نہیں، اور یہ الزائمر جیسے امراض کی طرف لے جا سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے دوران محققین نے 1985 سے 2016 کے درمیان 7959 رضاکاروں کے معمولات کا جائزہ لیا، تحقیق کے اختتام پر 521 افراد میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہوئی جن کی اوسط عمر 77 سال تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں اور خواتین دونوں پر ان نتائج کا اطلاق مساوی طور پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں دماغ اپنے افعال درست طریقے سے جاری نہیں رکھ پاتا، جیسا کہ توجہ مرکوز کرنا، سوچنا اور یادداشت کا تجزیہ مشکل ہوتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور خطرہ

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو یوں تو کئی ماہ تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، تاہم ایسے افراد میں ذہنی امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد مختلف دماغی امراض کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 2 لاکھ 36 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کے الیکٹرونک ہیلتھ ریکارڈز کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 34 فیصد افراد کو بیماری کو شکست دینے کے بعد ذہنی اور نیورولوجیکل امراض کا تجربہ ہوا جن میں سب سے عام ذہنی بے چینی یا اینگزائٹی ہے۔

    نیورولوجیکل امراض جیسے فالج اور ڈیمینشیا کی شرح کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں میں بہت کم ہے، مگر کووڈ سے سنگین حد تک بیمار ہونے والوں میں یہ غیرمعمولی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کے جو مریض آئی سی یو میں زیرعلاج رہے، ان میں سے 7 فیصد میں فالج اور لگ بھگ 2 فیصد میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہوئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ سائیکٹری میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ یہ ذہنی و دماغی امراض کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں زیادہ عام نظر آتے ہیں جو فلو یا سانس کی نالی کی دیگر بیماریوں کا سامنا کووڈ کے ساتھ کرتے رہے۔

    پہلے سے امراض، عمر، جنس اور نسل سمیت دیگر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے تخمینہ لگایا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری سے صحت یابی کے بعد ذہنی و دماغی امراض کا خطرہ فلو کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر پال ہیریسن کا کہنا تھا کہ یہ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کا ڈیٹا ہے اور اس سے کووڈ 19 کے بعد ذہنی امراض کی بڑھتی شرح کی تصدیق ہونے کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سنگین امراض (جیسے فالج اور ڈیمینشیا) اعصابی نظام کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    اگرچہ یہ بہت زیادہ عام نہیں مگر پھر بھی کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں ان بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر امراض کا خطرہ مریضوں میں زیادہ نہیں، مگر ہر عمر کی آبادی پر اس کے اثرات ضرور نمایاں ہیں۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ کو شکست دینے کے بعد جن ذہنی و دماغی امراض کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ان میں اینگزائٹی ڈس آرڈرز (17 فیصد مریضوں کو)، مزاج پر منفی اثرات (14 فیصد)، سکون کے لیے ادویات یا دیگر کا زیادہ یا غلط استعمال (7 فیصد) اور بے خوابی (5 فیصد) نمایاں ہیں۔

    اعصابی امراض کی شرح بہت کم ہے جیسے برین ہیمرج کا خطرہ 0.6 فیصد اور ڈیمینشیا کی شرح 0.7 فیصد ہوسکتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ 6 ماہ کے بعد مریضوں کی حالت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔