Tag: دماغی صحت

  • ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

    ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

    غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

    حقیقت

    اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

    غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

    دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت

    اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

    غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

    یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

    ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

    غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

    یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

    حقیقت

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

    غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

    عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

    حقیقت

    ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

    سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

    غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

    جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

    حقیقت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

    ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت / پاکستان

    کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

  • چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کسی ملک کا کوئی شہری نوبل انعام حاصل کرنے میں کیوں کامیاب رہتا ہے؟ تو یقیناً آپ کے پاس بہت سے جواب ہوں گے جیسے کہ انفرادی طور پر اس شخص کی محنت، قابلیت، ذہانت علاوہ ازیں اس شخص کو ملک کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات و مراعات۔

    تاہم نوبل انعام سے جڑا ایک عنصر ایسا ہے جو انکشاف کی صورت میں سامنے آیا اور دنیا کو حیران کر گیا۔

    کچھ عرصہ قبل ایک تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا گیا کہ جن مالک میں چاکلیٹ کھانے کا رجحان زیادہ ہے، ان ممالک میں نوبل انعام پانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    جی ہاں، یعنی کہ جن ممالک کے شہریوں میں چاکلیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے ان ممالک کے شہریوں میں نوبل انعام حاصل کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    یہ تحقیقی مقالہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوا تھا جسے سوئٹزر لینڈ کے ایک پروفیسر آف میڈیسن فرانز ایچ مزرلی نے تحریر کیا تھا۔

    پروفیسر فرانز نے لکھا کہ چونکہ کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چاکلیٹ دماغی استعداد اور کارکردگی بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ذہنی صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، تو میں نے نوبل انعام اور چاکلیٹ میں تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔

    ان کے مطابق اس حوالے سے انہیں کوئی باقاعدہ ڈیٹا تو نہیں مل سکا، تاہم جب انہوں نے مختلف ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح اور ان ممالک کے نوبل انعامات کا جائزہ لیا تو ان کے خیال کی تصدیق ہوگئی۔

    فرانز کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح زیادہ تھی، یہ وہی ممالک تھی جن کے متعدد شہری نوبل انعام حاصل کر چکے تھے۔

    ان کے مطابق اس تحقیق نے انہیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    پروفیسر فرانز کا یہ تحقیقی مقالہ باقاعدہ کسی دستاویز یا تحقیق کے نتائج کی صورت میں نہیں پیش کیا جاسکتا، ان کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقت تو ہیں تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ کیا واقعی یہ دو عوامل ایک دوسرے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا چاکلیٹ کا استعمال کسی شخص کو نوبل انعام حاصل کرنے جتنا ذہین بنا دیتا ہے یا پھر ذہین اور تخلیقی افراد میں قدرتی طور پر چاکلیٹ کھانے کا شوق موجود ہوتا ہے۔

    چونکہ چاکلیٹ کا زیادہ استعمال فائدے کی جگہ نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے لہٰذا یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد کتنی مقدار میں چاکلیٹ استعمال کرتے تھے، اور جن ممالک کا مقالے میں ذکر کیا گیا وہاں فی کس چاکلیٹ کے استعمال کی شرح فوائد کا سبب بن رہی تھی یا نقصان کا۔

    اس مقالے کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اس کے معتبر ہونے کے بارے میں طے کیا جاسکے گا۔

    لیکن چاکلیٹ میں ایسے کیا اجزا شامل ہیں؟

    چاکلیٹ کا جزو خاص یعنی کوکوا اپنے اندر بے شمار فائدہ مند اجزا رکھتا ہے۔ اس میں فائبر، آئرن، میگنیشیئم، کاپر اور پوٹاشیئم وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام اجزا دماغی صحت کے لیے بہترین ہیں۔

    ایک امریکی طبی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو باقاعدگی سے چاکلیٹ کھاتے ہیں ان کی یادداشت ان افراد سے بہتر ہوتی ہے جو چاکلیٹ نہیں کھاتے۔

    چاکلیٹ کھانے والے افراد دماغی طور پر بھی زیادہ حاضر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق چاکلیٹ دماغ میں خون کی روانی بہتر کرتی ہے جس سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، یوں ہمارے دماغ کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔

    چاکلیٹ دماغ میں سیروٹونین نامی مادہ پیدا کرتی ہے جس سے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے نجات ملتی ہے اور موڈ میں فوراً ہی خوشگوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ یہ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں 70 فیصد تک کمی کرسکتی ہے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کے ساتھ تفریق برتنا، غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور ایسے افراد کو مزید تناؤ زدہ حالات سے دو چار کرنا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دماغی صحت میں بہتری کے اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔

    مختلف ممالک اپنے کل بجٹ کا اوسطاً صرف 2 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

  • اچانک چکر آنے کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟

    اچانک چکر آنے کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟

    کبھی دورانِ کام اور چلتے پھرتے اچانک ہی ہمیں اپنا سَر گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہم کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوئے ہوں خود کو چکراتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا بھی چھا جاتا ہے جس کی کوئی عام وجہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن ایسا اکثر ہونے لگے تو کسی مستند اور ماہر معالج سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہم آپ کو چند عام وجوہ بتا رہے ہیں جو سَر چکرانے کا باعث ہوسکتی ہیں۔

    اگر آپ لیٹے ہوئے ہوں اور اٹھ کر بیٹھیں یا کھڑے ہوں اور اچانک چکر آنے لگیں تو ممکن ہے کہ آپ کا بلڈ پریشر بہت زیادہ کم ہو گیا ہو، اور جسم میں‌ خون کی گردش متاثر ہوئی ہو۔ طبی ماہرین کے مطابق جب کوئی لیٹا ہوا شخص اچانک اٹھتا ہے تو خون تیزی سے اس کے دماغ تک نہیں پہنچ پاتا جس کے نتیجے میں اسے اپنا سَر چکراتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر آپ تیزی سے پوزیشن بدلنے کے دوران سر چکراتا ہوا محسوس کریں اور ایسا بہت کم ہو تو آرام سے پوزیشن بدلنے کی عادت ڈالیں، لیکن یہ شکایت بڑھ جائے اور اس کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہ آرہی ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    طبی ماہرین کے نزدیک سَر چکرانے کی ایک وجہ پانی کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں‌ کہ پانی زندگی ہے اور جسم کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جسم میں پانی کی کمی سے غشی یا چکر محسوس ہونے لگتے ہیں اور دورانِ خون کا نظام متاثر ہوتا ہے جس کے سبب ہم چکر محسوس کرسکتے ہیں۔

    سَر پر لگنے والی معمولی چوٹ یا ضرب لگنے سے بھی چکر آسکتے ہیں۔ اگر آپ کا سَر کسی چیز سے ٹکرایا ہو تو وقفے وقفے سے سر گھومتا ہوا محسوس ہوسکتا ہے، لیکن یہ شکایت بڑھ جائے اور متلی یا قے بھی ہونے لگے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    کانوں کا انفیکشن بھی چکر آنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کان ہی ہمارا جسمانی توازن بھی برقرار رکھتے ہیں۔ کانوں‌ کے انفیکشن کی صورت میں ہم چکر محسوس کرتے ہیں جس کا علاج کروانا ضروری ہوتا ہے۔

  • کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے وقت میں سے چند لمحے نکال اپنے ڈپریشن کا شکار دوستوں کی بات سن لیں، تو انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بچا سکتے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل معروف بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی نے جہاں ایک طرف تو کئی تنازعوں کو جنم دیا، وہیں دماغی صحت کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    یہ موضوع اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے کہ کیوں ہم اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کے افراد کی پریشانی سننے کے لیے ذرا سا بھی وقت نہیں اور نہ ہم ڈپریشن کو بیماری ماننے کے لیے تیار ہے۔

    یہی ڈپریشن اور ذہنی تناؤ ہے جو کسی شخص کو خودکشی کی نہج پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے لیے زندگی بے معنی بن جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ خودکشی انہیں راہ نجات نظر آنے لگتی ہے۔

    جب کوئی شخص کینسر یا کسی دوسرے جان لیوا مرض کا شکار ہوتا ہے تو کیا ہم ان کے لیے بھی ایسے ہی غیر حساسیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر ذہنی صحت کے حساس معاملے میں اتنی بے حسی کیوں دکھائی جاتی ہے۔

    خودکشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد جنگوں اور دہشت گردی میں ہلاک اور قتل کیے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ہر 40 سیکنڈ بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔

    خودکشی کی طرف لے جانے والی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    سائیکٹرک فرسٹ ایڈ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں کمی کا سب سے آسان طریقہ اپنے خیالات اور جذبات کو کسی سے شیئر کرنا ہے، بات کرنے سے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار شخص کو سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص اسے بغیر جج کیے اس کی باتوں کو سنے اور جواب میں اس کی ہمت بندھائے۔

    کراچی کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔

    مغربی ممالک میں اسی مقصد کے لیے ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے ایسی ہیلپ لائن قائم کی جاتی ہے جہاں دوسری طرف ان کی بات سننے کے لیے ایک اجنبی شخص موجود ہوتا ہے اور مریض جب تک چاہے اس سے بات کرسکتا ہے۔

    کیا یہ پہلے سے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی کا ارادہ رکھتا ہے؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔

    ان کے مطابق ایسا شخص اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتا ہے جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے والا ہے۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے، اس کے برعکس اس کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

    کراچی میں نفسیاتی صحت کے ایک ادارے سے وابستہ ڈاکٹر طحہٰ صابری کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی شخص کی جان لے لے۔

  • موٹاپے کے حوالے سے نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

    موٹاپے کے حوالے سے نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

    لندن: نئی سائسنی تحقیق میں طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ موٹاپا دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ہم میں سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ موٹاپا صرف دل کی بیماریوں اور ذیابیطس کا سبب بنتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ موٹاپا دماغی امراض کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق موٹاپا صرف انسانی جسم کے لیے ہی نہیں بلکہ دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپے کے باعث دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے دوران 17 ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کے دماغی اسکین کیے گئے جن کی اوسط عمر 41 سال تھی، تحقیق میں دماغ کے 128 حصوں میں دوران خون کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ موٹاپے سے دماغ کے ان 5 حصوں کو خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے جو الزائمر امراض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    طبی جریدے جرنل آف الزائمر ڈیزیز میں شائع تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ جسمانی وزن میں اضافہ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

  • ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    سَر درد کی عام شکایت تو چند گھنٹوں کے آرام اور درد کُش دوا کے استعمال سے دور ہو جاتی ہے۔ تاہم کبھی دورانِ‌ نیند اچانک آنکھ کھل جاتی ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سَر پھٹ رہا ہے۔

    یہ نیند کے عالم میں طاری ہونے والی ایک کیفیت ہے جس میں اچانک ہی محوِ استراحت فرد کوئی تیز آواز اور دھماکا سنتا ہے اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، جس کے ساتھ ہی چند منٹوں کے لیے اسے شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔

    طبی ماہرین اسے Exploding Head Syndrome (ای ایچ ایس) کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک پیچیدہ طبی کیفیت ہے، جس کی کوئی ایک وجہ نہیں‌ ہوسکتی۔ تاہم اس کا نیند اور ذہنی سکون سے گہرا تعلق ہے۔

    طبی محققین کے مطابق یہ کوئی خطرناک بیماری یا مستقل کیفیت کا نام نہیں، لیکن اس کی وجہ سے انسانی جسم دوسری پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

    اس طبی مسئلے میں محققین اور ماہرین کی مختلف آرا اور مشاہدات سامنے آئے ہیں اور اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے، لیکن اس مسئلے کے شکار زیادہ تر افراد کے مطابق انھیں دوران نیند اچانک گولی کے چلنے کی آواز، کسی بھی قسم کے دھماکے یا بجلی کے کڑکنے کی آواز سنائی دی اور ان کی آنکھ کھل گئی۔

    امریکا میں اس مسئلے کے شکار افراد سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی آواز بہت تیز ہوتی ہے، کبھی تو لگتا ہے کہ کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہے یا کسی نے دروازہ زور سے بند کیا ہے یا پھر کوئی بھاری چیز قریب ہی کہیں گری ہوگی، مگر گھبراہٹ کے ساتھ جب آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

    امریکا میں پبلک ہیلتھ کیئر سے متعلق سرگرم ادارے سلیپ ایسوسی ایشن (اے ایس اے) کے مطابق اس مسئلے کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں، مگر ایک بات مشترک ہے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ بعض لوگ دورانِ نیند دھماکا سننے کے ساتھ تیز روشنی بھی دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

    وہ شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں، انھیں‌ لگتا ہے کہ سَر پھٹ جائے گا، لیکن منٹوں ہی میں وہ نارمل بھی ہوجاتے ہیں، کیوں کہ بیدار ہونے پر وہ اس کی حقیقت جان جاتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بعض افراد کو دھماکے کی آواز صرف ایک کان میں سنائی دیتی ہے، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں کانوں میں تیز آواز آئی تھی۔ اسی طرح بعض متاثرہ افراد کے مطابق انھیں اپنے دماغ میں ایسی زور دار آوازیں یا دھماکے محسوس ہوئے۔ اسی لیے ماہرین نے اسے Exploding Head Syndrome کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ شدید اسٹریس یا تھکن کی وجہ سے کبھی ایسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے اور پچاس سال سے زائد عمر کے افراد اس کیفیت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بعض طبی محققین اس کا تعلق دماغ کے ایک مخصوص حصّے کی خرابی سے جوڑتے ہیں اور اکثر اسے سماعت کی خرابی کا نتیجہ بتاتے ہیں۔

  • ہاتھوں کے انگوٹھے آپ کے بارے میں کیا کچھ بتاسکتے ہیں؟

    ہاتھوں کے انگوٹھے آپ کے بارے میں کیا کچھ بتاسکتے ہیں؟

    گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں کماری نائیک کا نام حال ہی میں درج کیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کے انگوٹھے اور انگلیاں ہیں۔

    اب وہ 63 سال کی ہیں۔ پیدائش کے بعد معلوم ہوا کہ ایک عام اور صحت مند انسان کی طرح کماری نائیک کے ہاتھوں کی پانچ انگلیاں اور دو انگوٹھے نہیں بلکہ 12 انگلیاں اور 19 انگوٹھے ہیں۔ یہ ایک طبی پیچیدگی اور جسمانی مسئلہ تھا اور انھیں اسی کے ساتھ عمر کی منازل طے کرنا پڑے۔

    کماری نائیک اور ان کے ورلڈ ریکارڈ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اب ہم ایک عام انسانی ہاتھ سے متعلق دل چسپ انکشافات کی طرف چلتے ہیں۔ یہ دراصل ہمارے ہاتھوں کے دو انگوٹھوں پر ماہرینِ نفسیات اور خاص طور پر پامسٹ حضرات کے تجربات اور مشاہدات ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ انگوٹھے کی لمبائی سے انسان کی خصوصیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور انگوٹھے پڑھ کر یہ جان سکتے ہیں کہ کوئی انسان کس طرح کم زوری کا شکار ہورہا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس عضو کی مدد سے انسان کی موت سے متعلق بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں ضعف، کسی کم زوری اور اس کے موت کی طرف بڑھنے کا اندازہ انگوٹھے کی حالت میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے لگایا جاتا ہے اور ان کے درست ہونے کے بارے میں‌ حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ یہ صرف دماغ کو پڑھنے کی ایک کوشش ہے جس کے دوران ماہرِ نفسیات یا پڑھا لکھا اور قابل پامسٹ اس انسانی عضو کی مدد سے طبی مسائل کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    چھوٹے، بھدے اور موٹے انگوٹھے والے افراد اپنے کاموں کو حیوانی زور سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے افراد کی عادت میں تحمل نہیں ہوتا، لمبے اور خوبصورت انگوٹھے والے افراد اچھی عادات کے حامل ہوتے ہیں اور ہمیشہ ذہانت سے کام لیتے ہیں اور مہذب ہوتے ہیں۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔