Tag: دماغی صحت

  • بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    آپ کے آس پاس بعض افراد ایسے ہوں گے جو بھوک کی حالت میں چڑچڑانے اور غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ شدید بھوکے ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے غصہ میں آجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر چڑچڑانے لگتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہو۔ آپ بھی بھوک کی حالت میں لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہر کرتے ہوں اور بعد میں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔

    اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجائیں کیونکہ ماہرین نے نہ صرف اس کی وجہ دریافت کرلی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ماہرین نے اس حالت کو بھوک کے ہنگر اور غصہ کے اینگر کو ملا کر ’ہینگری‘ کا نام دیا ہے۔

    اس کی وجہ کیا ہے؟

    ہماری غذا میں شامل کاربو ہائڈریٹس، پروٹین، چکنائی اور دیگر عناصر ہضم ہونے کے بعد گلوکوز، امائنو ایسڈ اور فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ اجزا خون میں شامل ہوجاتے ہیں جو دوران خون کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کی طرف جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے اعضا اور خلیات ان سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمیں کھانا کھائے بہت دیر ہوجاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بہت کم ہوجائے تو ایک خود کار طریقہ سے دماغ یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

    اس کے بعد دماغ تمام اعضا کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے ہارمونز پیدا کریں جن میں گلوکوز شامل ہو تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہو اور دماغ اپنا کام سرانجام دے سکے۔

    ان ہارمونز میں سے ایک اینڈرنلائن نامی ہارمون بھی شامل ہے۔ یہ ہارمون کسی بھی تناؤ یا پریشان کن صورتحال میں ہمارے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں شوگر کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا دماغ کے حکم کے بعد بڑی مقدار میں یہ ہارمون پیدا ہو کر خون میں شامل ہوجاتا ہے نتیجتاً ہماری کیفیت وہی ہوجاتی ہے جو کسی تناؤ والی صورتحال میں ہوتی ہے۔

    جب ہم بھوک کی حالت میں ہوتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجائے تو بعض دفعہ ہمیں معمولی چیزیں بھی بہت مشکل لگنے لگتی ہیں۔ ہمیں کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آتی ہے، ہم کام کے دوران غلطیاں کرتے ہیں۔

    اس حالت میں ہم سماجی رویوں میں بھی بد اخلاق ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود خوشگوار چیزوں اور گفتگو پر ہنس نہیں پاتے۔ ہم قریبی افراد پر چڑچڑانے لگتے ہیں اور بعد میں اس پر ازحد شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    یہ سب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور دماغ کے حکم کے بعد تناؤ والے ہارمون پیدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔

    حل کیا ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دفتر میں ہوں اور ہینگر کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہتے ہوں تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ آپ گلوکوز پیدا کرنے والی کوئی چیز کھائیں جیسے چاکلیٹ یا فرنچ فرائز۔

    لیکن چونکہ یہ اشیا آپ کو موٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں لہٰذا آپ کو مستقل ایک بھرپور اور متوازن غذائی چارٹ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کے جسم کی تمام غذائی ضروریات کو پورا کرے اور بھوک کی حالت میں آپ کو غصہ سے بچائے۔

  • اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    سان فرانسسکو: سائنس دان ایسا مالیکیول ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں جو ڈپریشن اور زیادہ عمر کے باعث یادداشت کھو دینے والے مریضوں کی میموری واپس لے آتا ہے۔

    سائنسی جریدے مالیکیولر نیورو سائیکیٹری میں شائع ہونے والے مقالے میں مرکز برائے نشے کے عادی اور ذہنی صحت کینیڈا کے سائنس دانوں نے ایک نیا دافع مرض مالیکیول ایجاد کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یہ تھیراپیوٹک مالیکیول نہ صرف مرض کی علامات کو نمایاں طور پر ختم کرتا ہے بلکہ دماغ کی اندرونی تہہ میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی بھی مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ریسرچ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا عمر زیادہ ہو جانے کے باعث یادداشت کھو جانے کی صورت میں یادداشت کی بحالی کے لیے کوئی کارگر دوا موجود نہیں تھی، تاہم حالیہ ریسرچ نے یادداشت کھو جانے کے علاج میں ٹھوس امید دلائی ہے۔

    طبی تحقیق کے مطابق گابا نیورو ٹرانسمیٹرز نظام کے دماغ کے خلیات میں توڑ پھوڑ یادداشت کھو جانے کے ذمہ دار ہیں۔

    نیا مالیکیول نہ صرف گابا نیورو ٹرانسمیٹر کے ریسیپٹر تک جا کر دماغ کے اُن خلیات کی توڑ پھوڑ کو روکتا ہے بلکہ دماغ کے خلیوں کی تعمیرِ نو میں بھی کردار ادا کرتا ہے جس سے یادداشت کی بحالی ممکن ہو جاتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    طبی ماہرین نے بتایا کہ خلیوں کی تعمیرِ نو سے یادداشت واپس آنے کے بھی امکانات روشن ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چند ضروری اقدامات کے بعد یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اور دماغی امراض میں ایک انقلابی حیثیت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گی۔

  • انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات کے یہ اصول آپ کی زندگی آسان بنا سکتے ہیں

    انسانی نفسیات ایک پیچیدہ گتھی ہے۔ آج تک کوئی سائنسدان یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ وہ انسانی دماغ کو پوری طرح سمجھ سکا ہے۔

    ہمارے دماغ میں بلین کے قریب خلیات ہیں اور ہر شخص میں ان بلین خلیات کا کچھ حصہ کام کرتا ہے۔ ان خلیات کی اقسام ہر شخص میں الگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان علیحدہ عادات، نفسیات اور فطرت کا مالک ہوتا ہے۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق کچھ اصول ایسے ہیں جو تقریباً ہر شخص پر لاگو ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ان اصولوں سے واقفیت حاصل کرلیں تو یقیناً آپ لوگوں کو بہتر طور پر سمجھنے لگیں گے اور آپ کی زندگی آسان ہوجائے گی۔

    وہ اصول یہ ہیں۔

    کسی انٹرویو پر جانے سے قبل تصور کریں کہ انٹرویو لینے والا شخص آپ کا پرانا دوست ہے اور آپ اس سے ملنے جارہے ہیں۔ یہ چیز آپ کے دماغ کو پرسکون کرے گی۔

    اگر آپ کسی سے ملتے ہوئے خود کو خوش اور پرجوش ظاہر کریں تو اگلی بار ان سے ملتے ہوئے آپ غیر ارادی طور پر خوشی محسوس کریں گے۔ یہ فطرت کتوں میں بھی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار اپنے مالک سے ملتے ہوئے اس قدر پرجوش ہوتے ہیں جیسے کئی عرصہ بعد مل رہے ہیں۔

    جب آپ کوئی ایسا کام کریں جسے کرتے ہوئے آپ کنفیوز ہو رہے ہوں تو اس دوران چیونگم چبائیں یا کچھ کھائیں۔ یہ آپ کے دماغ کے اس حصہ کو تحریک دیتا ہے جو آپ کے جسم کو سب ٹھیک ہونے کا سگنل بھیجتا ہے۔

    کسی شخص کے غصہ ہونے پر اگر آپ پرسکون رہیں تو اس شخص کو مزید غصہ آسکتا ہے۔ لیکن غصہ ختم ہونے کے بعد وہ شخص ضرور نادم ہوگا۔

    کسی سے گفتگو کے دوران اگر کوئی آپ کو مختصر جواب دے تو اس سے آئی کانٹیکٹ برقرار رکھیں اور خاموش رہیں۔ اس سے اس شخص کو خودبخود احساس ہوجائے گا کہ اس کا جواب آپ کی تشفی نہیں کرسکا اور وہ مزید گفتگو کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

    اگر آپ کسی میٹنگ کے دوران اپنی صلاحیتوں کی آزمائش چاہتے ہیں تو سربراہ کے بالکل قریب بیٹھ جائیں۔ وہ قدرتی طور پر آپ کی طرف بار بار متوجہ ہوگا اور کام دیتے ہوئے سب سے پہلے آپ کی طرف دیکھے گا۔

    جذبات، جذبات کو پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو زبردستی مسکرائیں اور ہنسیں۔ آہستہ آہستہ آپ کا دماغ بھی آپ کی اس اداکاری کے مطابق عمل کرنے لگے گا اور آپ سچ مچ خوش رہنے لگیں گے۔

    جب لوگوں کا کوئی گروپ آپس میں ہنس رہا ہوتا ہے تو ہنستے ہوئے ذہنی طور پر ایک دوسرے سے قریب افراد غیر ارادای طور پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

    اگر کوئی آپ کو کسی بڑے معاملے پر مدد کرنے سے انکار کرے تو وہ احساس شرمندگی سے زیر بار ہوتے ہوئے کسی چھوٹے کام میں آپ کی مدد کرے گا۔

    اگر دکانوں پر کاؤنٹر کے پیچھے ایک آئینہ رکھ دیا جائے تو گاہک خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کرخت صورت آئینے میں نہیں دیکھنا چاہے گا۔

  • شاپنگ کرنا دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    شاپنگ کرنا دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    شاپنگ کرنا تقریباً ہر خاتون کو پسند ہوتا ہے۔ مردوں کی بات آئے تو انہیں بھی اپنے لیے شاپنگ کرنا پسند ہوتا ہے۔

    ماہرین کا دعویٰ ہے کہ شاپنگ کرنا ہماری دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    آج کل کی مصروف زندگی میں شاپنگ کے انداز بھی بدل گئے ہیں اور زیادہ تر شاپنگ آن لائن کرلی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ شاپنگ کے لیے جانا آپ کی دماغی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    آئیں جانتے ہیں شاپنگ ہمارے لیے کس طرح فائدہ مند ہے۔


    واک کرنا

    جب بھی آپ شاپنگ کے لیے کسی مال یا مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو بہتر سے بہتر چیز کی تلاش میں کئی دکانوں پر جاتے ہیں اور اس دوران واک کرتے ہیں۔

    یہ وہ چیز ہے جس کے لیے روزمرہ کی مصروفیت میں وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پیدل چلنا یا چہل قدمی کرنا دماغی و جسمانی صحت پر نہایت مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔


    رنگ آنکھوں کے لیے تسکین کا باعث

    شاپنگ کے لیے جانے کے بعد آپ کے چاروں طرف مختلف اشیا کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔

    مختلف اشیا اور مختلف رنگوں کو دیکھنا آنکھوں کے لیے ورزش کا کام دیتا ہے چنانچہ شاپنگ پر جانے سے آپ اپنی آنکھوں کو بھی پرسکون کرنے کا باعث بنتے ہیں۔


    ذہنی تناؤ میں کمی

    ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شاپنگ کرنا ذہنی تناؤ میں کمی لاتا ہے۔ شاپنگ کے دوران آپ وقتی طور پر تمام پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں جس سے آپ کا دماغ پرسکون ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ اداس ہوں یا کسی وجہ سے پریشان ہوں تو شاپنگ اس کا بہترین علاج ثابت ہوسکتی ہے۔


    خوشی

    یہ ناممکن ہے کہ آپ اپنے لیے بہترین اشیا کی خریداری کر کے لائیں اور آپ کو خوشی کا احساس نہ ہو۔

    نئی اور پسندیدہ اشیا کو استعمال کرنے کا خیال آپ کو خوش اور پرجوش بنا دیتا ہے جس سے آپ کا دماغ بہت پرسکون ہوجاتا ہے۔

    تو پھر کیا خیال ہے؟ آج ہی شاپنگ پر جانے کا پروگرام بنالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنون کی حد تک صفائی پسند بنا دینے والی بیماری

    جنون کی حد تک صفائی پسند بنا دینے والی بیماری

    آپ نے اپنے ارد گرد بعض افراد کو غیر معمولی رویوں کا حامل پایا ہوگا۔ ایسے افراد تکلیف دہ حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں، وہ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں اس قدر نفاست اور باریکیوں کا خیال رکھتے ہیں کہ دیگر افراد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    یہ تمام علامات دراصل ایک بیماری اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض بے چینی کی شدید قسم کا نام ہے۔

    اس کا شکار افراد کسی شے کے بارے میں اس قدر سوچتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر اسے بار بار انجام دیتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی آبادی کا 2 فیصد حصہ اس مرض سے متاثر ہے یعنی ہر 50 میں سے 1 شخص۔

    بعض افراد کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ثبوت ان کی مختلف عجیب و غریب عادات سے ملتا ہے۔

    اس ڈس آرڈر کی تشخیص کرنا کچھ مشکل عمل نہیں۔ اگر آپ اپنے اندر یا اپنے آس پاس موجود کسی شخص میں مندرجہ ذیل علامتیں پائیں تو جان جائیں کہ یہ او سی ڈی ہے جسے مناسب دیکھ بھال سے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت


    گندگی کا خوف

    او سی ڈی کا شکار افراد کی پہلی علامت یہ ہے کہ یہ جنون کی حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے جسم سے نادیدہ جراثیم چمٹ جانے کا خوف ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ معمول کے کام بھی سرانجام نہیں دے پاتے۔

    ایسے افراد کسی قسم کے کھیل میں حصہ لینے یا معمولی طور پر بے ترتیب جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں

    یہ ان افراد سے بھی اپنا تعلق ختم کر سکتے ہیں جو ان کے خیال میں صاف ستھرے نہیں رہتے اور جراثیم منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    غلطی کا خوف

    ایک عام انسان اگر کوئی غلطی کرے تو وہ اسے درست کر کے یا بھول کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن او سی ڈی کے مریضوں سے کسی غلطی سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    کسی کام میں غلطی ہونے کے خوف سے بعض اوقات یہ عجیب و غریب رویے اپنا لیتے ہیں۔ اگر یہ غلطی کر بیٹھیں تو ایک طویل عرصے تک اس کی شرمندگی سے نکل نہیں پاتے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز


    کاموں کو بار بار کرنا

    او سی ڈی کے مریض کاموں کو بار بار دہرانے کے عادی بن جاتے ہیں۔

    دراصل جب وہ کوئی کام کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ کام درست طریقے سے نہیں ہوا اور وہ بے چین رہتے ہیں۔ اس بے چینی کے زیر اثر وہ اس کام کو کئی بار دہراتے ہیں حتیٰ کہ انہیں تسلی ہوجائے کہ اب کام درست طریقے سے انجام پاگیا ہے۔

    مثال کے طور پر ایسے افراد بار بار ہاتھ دھوئیں گے، کوئی کام کریں گے تو اسے بار بار چیک کریں گے، گھر سے نکلتے ہوئے پاور بٹن وغیرہ کو بند کرنے کے بعد کئی بار چیک کریں گے آیا کہ وہ بند ہوئے ہیں یا نہیں۔


    اشیا کو منظم کرنا

    او سی ڈی کا شکار افراد کبھی بھی دوسروں کی کی گئی ترتیب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ جب اپنی میز پر کام کرنے کے لیے بیٹھتے تو چیزوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں اس کے بعد مطمئن ہوتے ہیں۔

    یہ وہی علامت ہے جو دنیا بھر کے میڈیا نے صدر ٹرمپ میں بھی پائی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی اشیا کو ہٹا کر دور رکھ دیتے ہیں اور اس کے بعد گفتگو یا کام کا آغاز کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی عجیب و غریب عادت


    کاملیت پسندی

    او سی ڈی کا شکار افراد نہایت کاملیت پسند ہوجاتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی دوسروں کا کیا ہوا کام پسند نہیں آتا اور وہ اس وقت تک اس سے مطمئن نہیں ہوتے جب تک وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کام کو سر انجام نہ دے لیں۔


    ضدی

    او سی ڈی کے مریض کسی حد تک ضدی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے مختلف نظریات اور ماحول کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ اپنی بات پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔


    منفی خیالات

    ہر دماغی مرض مریض کو منفی خیالات کا حامل بنا دیتا ہے۔ او سی ڈی کا شکار افراد بھی منفی خیالات کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کے اپنے اور آس پاس کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں


    کسی خیال کا حاوی ہوجانا

    او سی ڈی کا مرض، مریض پر کسی ایک خیال کو حاوی کردیتا ہے۔ عموماً کوئی چھوٹی سی بات یا چھوٹا سا واقعہ ان کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ طویل عرصے تک اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتے۔

    یہ واقعہ یا خیال بعض اوقات ناخوشگوار اور بھیانک بھی ہوسکتا ہے جو مریض کی دماغی صحت پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے۔


    مشکوک رہنا

    او سی ڈی کا مرض اپنے شکار کو مشکوک بنا دیتا ہے اور وہ کسی شخص پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔

    بھروسہ نہ کرنے کی عادت بعض اوقات قریبی رشتوں میں بھی دراڑ ڈال دیتی ہے جس کے باعث مریض تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں اس کا مرض مزید شدت اختیار کرلیتا ہے۔


    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس مرض کا شکار ہیں اور آپ کو ابتدائی مرحلے میں اس کا ادراک ہوگیا ہے تو آپ مندرجہ بالا علامات پر قابو پا کر اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

    البتہ اگر کوئی شخص طویل عرصے سے اس مرض کا شکار ہو اور اب اس کے لیے اپنی عادتوں کو تبدیل کرنا ناممکن ہو تو تو ایسے میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    یاد رکھیں دماغی امراض دماغی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اگر ان پر فوری توجہ دے کر ان کا سدباب کیا جائے تو مریض صحت یاب ہوکر ایک معمول کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صرف آدھے منٹ میں نیند لانے کی تکنیک

    صرف آدھے منٹ میں نیند لانے کی تکنیک

    کیا آپ جانتے ہیں اگر رات میں بستر پر جانے کے بعد آپ کو سونے کے لیے 15 منٹ درکار ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ہر سال 90 گھنٹے صرف سونے کی تگ و دو کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے نیند آنے کا وقت مختلف ہے۔ کوئی بستر پر لیٹتے ہی نیند کی گہری وادیوں میں اتر جاتا ہے۔ کسی کو اپنے دماغ کو بہلانے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے موسیقی سننا، کتاب پڑھنا، ٹی وی دیکھنا، لیکن جن افراد کو بستر پر لیٹنے کے بعد آدھے گھنٹے تک نیند نہیں آتی اس کا مطلب ہے کہ وہ بے خوابی کا شکار ہیں۔

    بے خوابی یا نیند کی کمی آپ کی دماغی و جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور آپ کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ نیند کی کمی سے آپ چڑچڑاہٹ، ڈپریشن اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: نیند کی کمی کے منفی اثرات

    لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ آپ اپنے دماغ کو جلد سونے کا عادی بنا سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو ایسی تکنیک بتائی جارہی ہے جس کے بعد آپ بے خوابی کے مرض سے چھٹکارہ حاصل کرلیں گے۔

    نیند کو دور بھگانے کے کئی اسباب ہیں جیسے سونے سے صرف آدھا گھنٹہ پہلے کھانا، چائے یا کیفین کا استعمال، ذہنی دباؤ، کسی چیز کے بارے میں ایکسائٹمنٹ جس سے آپ کا دماغ نیند لانے والا ہارمون پیدا کرنا بند کردیتا ہے، کمرے میں تیز روشنی یا شور کا ہونا، یا دوپہر میں دیر تک سوجانا، وہ وجوہات ہیں جو نیند پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔

    مزید پڑھیں :نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

    سب سے پہلے تو ان چیزوں سے بچیں۔

    سونے سے 2 گھنٹے پہلے تمام مصروفیات کو ترک کردیں تاکہ آپ کا دماغ سونے کی طرف راغب ہوسکے۔

    مزید پڑھیں: نیند لانے کے 5 آزمودہ طریقے

    اب ہم اس تکنیک کی طرف آتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تکنیک کامیابی سے استعمال کرنے سے آپ کا مسئلہ ایک دو دن میں حل نہیں ہوگا بلکہ اس میں مہینوں بھی لگ سکتے ہیں۔

    یہ تکنیک دماغ کو اپنے قابو میں کرنے کی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر آپ دماغ کو پابند نہیں کریں گے تو آپ اس کے غلام بن جائیں گے۔

    آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر افراد ٹی وی دیکھتے ہوئے یا کوئی کتاب پڑھتے ہوئے فوراً سو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دماغ اس بات پر کاربند ہے کہ جیسے ہی کتاب پڑھی جائے گی یا ٹی وی دیکھا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سونے کا وقت ہے۔

    آپ بھی اسی طرح کا کوئی معمول بنا سکتے ہیں۔ جس وقت نیند آرہی ہو اس وقت کتاب پڑھنا شروع کردیں۔ روز کے معمول سے آہستہ آہستہ آپ کا دماغ اس کا عادی ہوتا جائے گا۔

    جب آپ سونے کے لیے لیٹیں اور 15 منٹ تک آپ کو نیند نہ آئے تو بستر سے اٹھ جائیں اور کوئی کام کریں۔ اپنے دماغ کو اس کی اجازت مت دیں کہ وہ اپنی مرضی سے کبھی بھی نیند لائے اور آپ کو سونے پر مجبور کرے۔

    مزید پڑھیں: چاندنی راتیں نیند میں کمی کا سبب

    اسی طرح صبح جب آپ کا الارم بجے تو آپ اسنوز کرنے کے بجائے فوراً اٹھ کھڑیں۔ یہ دراصل آپ کے دماغ کے خلاف ایک مزاحمت ہے کہ وہ مزید سونا چاہتا ہے لیکن آپ اسے نظر انداز کر کے اٹھ بیٹھیں، شاور لیں، کافی پئیں اور کام کریں، آپ کا دماغ مجبوراً آپ کی بات ماننے پر مجبور ہوجائے گا۔

    دماغ کو اس بات کی ٹریننگ دیں کہ بستر پر لیٹتے ہی ایک منٹ کے اندر وہ آپ کو سلادے۔ علاوہ ازیں دن کے کسی بھی حصہ میں آپ کو نیند محسوس ہو، یا کسی دن رات میں جلدی نیند آنے لگے تب بھی بستر پر مت جائیں۔ اپنے سونے اور اٹھنے کا وقت مقرر کریں اور اس کے علاوہ دماغ کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت مت دیں۔

    اس تکنیک سے آہستہ آہستہ آپ کا دماغ نہ صرف نیند کے معاملے میں آپ کا پابند ہوجائے گا بلکہ دوسرے معاملوں میں بھی آپ کی سننے لگے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زیادہ کام کرنے سے دماغی صحت کو خطرہ

    زیادہ کام کرنے سے دماغی صحت کو خطرہ

    کیا آپ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ہر وقت ’کام، کام اور کام ‘کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو جان جایئے کہ آپ اپنی دماغی صحت کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

    آسٹریلیا میں میلبرن انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اور سوشل ریسرچ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق 40 سال کی عمر سے زائد وہ افراد جو ہفتہ میں 25 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں، ان کی دماغی صلاحیت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ہفتہ میں 25 گھنٹے یا اس سے کم وقت کام کرنے سے بڑی عمر کے افراد کا دماغ متحرک رہتا ہے۔ یہ اثر مرد و خواتین دونوں میں دیکھا گیا۔ 25 گھنٹے کام کرنے سے دماغ اپنے تمام افعال خوش اسلوبی سے انجام دے سکتا ہے۔

    لیکن اس سے زیادہ کام کرنا جسمانی اور نفسیاتی دباؤ پیدا کر سکتا ہے جس کا اثر دماغ کی کارکردگی پر ہوگا۔

    ریسرچ کے سربراہ کولن مک کنز نے بتایا کہ 20 سال کی عمر کے بعد دماغ میں موجود مائع جو معلومات کو ذخیرہ کرتا ہے کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے۔ ایک اور مادہ جو کسی چیز کو سیکھنے میں مدد دیتا ہے، 30 سال کی عمر کے بعد غیر فعال ہونے لگتا ہے۔

    ان کے مطابق 40 سال کی عمر کے بعد لوگ ذہنی مشقوں میں ناکام اور یادداشت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

    مک کولنز نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کئی ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جاچکا ہے جبکہ کئی ممالک اس پر غور کر رہے ہیں۔ یہ عمل ملکوں کی معیشت پر منفی اثر ڈالے گا کیونکہ ان کے پاس کام کرنے والے افراد ذہنی مسائل کا شکار ہوں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دماغی طور پر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی عادات و رویوں کے عادی ہوتے ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری دماغی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ان عادات و رویوں سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی عوامل جیسے کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آئیے ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ان سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔


    ڈپریشن

    2

    مستقل ڈپریشن کا شکار رہنا آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔

    ایک طویل عرصے تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بالآخر اسی کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے


    تنقید کا نشانہ بننا

    11

    آپ نے اب تک اسکول بلنگ کا نام سنا ہوگا جس میں کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے نتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کی جگہوں پر بھی لوگ بلنگ یا تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں بلنگ کا نشانہ بننا دماغی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس کے اثرات سے نجات کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔


    کاموں کو ٹالنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ناکامی کے خوف یا سستی کے باعث اسے ٹال دیتے ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    یاد رکھیں پہلا قدم اٹھانے کا مطلب کسی کام کو نصف پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ جب آپ کام شروع کریں گے تو خود اسے مکمل کرنا چاہیں گے۔


    ناپسندیدہ رشتے

    ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشروں یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچوں کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور ہوجانا ہی بہتر ہے۔


    لوگوں میں گھرے رہنا

    5

    محبت کرنے والے دوست، احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

    تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغ کو خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد


    جھک کر چلنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں اور کاندھوں کو جھکا کر بیٹھتے ہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔


    ہر چیز کی تصویر کھینچنا

    7

    معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔

    ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیا کہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔


    زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا

    8

    زندگی مسائل، دکھوں، پریشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشیوں کانام ہے۔

    یہ سوچنا احمقانہ بات ہے کہ کسی کی زندگی میں مصائب یا دکھ نہ ہوں۔ انہیں سنجیدگی سے لے کر ان پر افسردہ اور ڈپریس ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ان کا حل سوچنا چاہیئے۔


    ورزش نہ کرنا

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ویک اینڈ پر ورزش کرنا زیادہ فوائد کا باعث


    ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

    9

    ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔

    یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریاں


    بیک وقت کئی کام کرنا

    10

    ماہرین کی نظر میں ملٹی ٹاسکنگ ایک اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

    اس کے برعکس ایک وقت میں ایک ہی کام پوری یکسوئی اور دلجمعی سے کیا جائے۔ ملٹی ٹاسکنگ دماغی خیالات کو منتشر کر کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برٹش کونسل کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں دماغی امراض کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔

    یہ پروگرام برٹش کونسل اور ایک مقامی اسکول کے تعاون سے منعقد کیا گیا جس میں ہر عمر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ذہنی الجھنوں کا شکار افراد کو مدد کی ضرورت

    پروگرام میں ماہرین دماغی امراض نے شرکت کی اور شرکا کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں، ان کی علامات اور علاج کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

    اس دوران شرکا سے مختلف سرگرمیوں جیسے مراقبے اور آرٹ تھراپی میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس کے بعد کئی افراد نے خود کو لاحق ذہنی مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔

    خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی امراض کی اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں

    کیا آپ جانتے ہیں فن مصوری ایک تھراپی یا علاج کی صورت میں بھی استعمال ہوتا ہے؟

    جی ہاں، ماہرین کا کہنا ہے چونکہ آرٹ یا کوئی بھی تخلیقی کام جیسے شاعری، مصنفی، موسیقاری یا مصوری وغیرہ کے لیے مخصوص ذہنی رجحان چاہیئے اور یہ دماغی کیفیت سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان فنون سے ہم اپنے دماغ کی کیفیات کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا علاج کر سکتے ہیں۔

    مصوری میں مختلف اشکال بنانا اور رنگوں سے کھیلنا آپ کی ذہنی کیفیت میں فوری طور پر تبدیلی کرسکتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو مصوری کے کچھ ایسے طریقہ بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اعصابی و ذہنی سکون حاصل کرسکتے ہیں۔

    art-3

    اگر آپ تھکے ہوئے ہیں، تو کسی کاغذ پر پھولوں کی تصویر کشی کریں۔ پھولوں کی تصویر کشی آپ کے دماغ کو توانائی فراہم کرے گی اور آپ کے دماغ پر چھائی دھند ختم ہوجائے گی۔

    اگر آپ کسی جسمانی تکلیف کا شکار ہیں تو کوئی پزل حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ تکلیف کی طرف سے ہٹ کر اس پزل کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔

    اگر آپ غصہ میں ہیں تو لکیریں کھینچیں۔ یہ کسی بھی قسم کی لکیریں ہوسکتی ہیں، سیدھی، آڑھی ترچھی ہر قسم کی۔

    اگر آپ خوفزدہ ہیں تو کاغذ پر کسی ایسی چیز کی تصویر کشی کریں جس سے آپ کو تحفظ کا احساس ہو۔

    بور ہورہے ہیں تو تصویروں میں رنگ بھریں۔ رنگ آپ کے دماغ کو ہلکا پھلکا کرتے ہیں۔

    اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مختلف اشکال بنائیں۔

    اگر آپ پریشان ہیں تو کاغذ پر گڑیا بنائیں۔

    art-1

    اگر آپ کسی معاملہ پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں تو رنگین جیومیٹری پیٹرن بنائیں۔

    اگر آپ کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مشکل کا سامنا ہے تو کاغذ پر لہریں اور گول دائرے بنائیں۔ یہ آپ کے ذہن کو کسی چیز کا انتخاب کرنے میں مدد دیں گی۔

    اگر آپ اداس ہیں تو قوس قزح بنائیں اور اس میں رنگ بھریں۔

    اگر آپ مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہیں تو کسی کا پورٹریٹ یا کوئی پینٹنگ بنائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔