Tag: دماغی صحت

  • دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    ہماری زندگی کے مصروف ترین معمولات ہمارے دماغ کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں اور ہم ذہنی طور پر تھکاوٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    بہت سے کام، گھر اور باہر کی بہت سی ذمہ داریاں، اہل خانہ کی ضروریات کو یاد رکھنا اور انہیں پورا کرنا، اس کے ساتھ ساتھ اسمارٹ فونز میں سوشل میڈیا کا استعمال اور ان کے ذریعے دوستوں سے جڑے رہنا، یہ سب ہمارے دماغ پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے جس سے ہمارے دماغ کی کارکردگی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی عمر، طویل عرصے تک یکساں معمولات سر انجام دینا اور ان میں کوئی تبدیلی نہ کرنا بھی دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بند دماغ کو کھولیں

    ایسی صورتحال میں ہم معمولی معمولی چیزیں بھولنے لگتے ہیں۔ ہم بہترین دماغی کارکردگی کا مظاہر نہیں کر پاتے اور بعض اوقات ہمیں سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے میں بھی مشکل پیش آرہی ہوتی ہے۔

    تاہم اس صورتحال کو مخصوص ورزشوں اور غذاؤں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہاں آپ کو کچھ ایسی غذائیں بتائی جارہی ہیں جو آپ کی دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔


    مچھلی

    دماغ کے لیے سب سے بہترین غذا مچھلی ہے۔ ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانا آپ کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے بہترین ہے۔


    خشک میوہ جات

    خشک میوہ جات بھی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں لہٰذا ان کا معمولی مقدار میں استعمال کیا جائے البتہ روزانہ استعمال ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں: روزانہ خشک میوہ جات کا استعمال بے شمار بیماریوں سے بچائے


    چاکلیٹ

    چاکلیٹ کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ دماغی صلاحیت کو بڑھانا بھی ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ ناشتے میں یا دن کے آغاز میں چاکلیٹ کھانا دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے اور آپ اپنا کام بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔

    لیکن بہت زیادہ چاکلیٹ موٹاپے کا سبب بھی بن سکتی ہے لہٰذا اسے صرف صبح کے وقت اور تھوڑی مقدار میں کھایا جائے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت کھائی جانے والی غذا جسم کے بجائے دماغ کو توانائی پہنچاتی ہیں اور جزو بدن ہو کر موٹاپے کا سبب نہیں بنتی۔

    مزید پڑھیں: چاکلیٹ کے فوائد


    بیریز

    مختلف اقسام کی بیریز جیسے بلو بیریز، بلیک بیریز، اسٹرابیریز میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور مختلف امور پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔


    ناشتہ نہ چھوڑیں

    دماغ کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے ناشتہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ناشتہ چھوڑ دینا اور طویل عرصہ تک اس معمول پر کاربند رہنا دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ 8 گھنٹے کی نیند کے بعد ہمارا دماغ سست ہوجاتا ہے اور اسے فوری طور پر توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں غذائیت سے بھرپور ناشتہ ہمارے دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے اور ہم ذہنی طور پر بہت فعال ہوجاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ناشتہ وزن میں کمی کا سبب بھی بنتا ہے کیونکہ ناشتہ کرنے کے بعد ہم دن بھر ایک معمول کے مطابق کھاتے پیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناشتہ دماغ کو چاک و چوبند رکھنے کے لیے ضروری


    متوازن غذا

    ان غذاؤں کے علاوہ روزانہ متوازن غذا کا استعمال کریں۔ دودھ، دہی، انڈے، سبزیوں، گوشت اور پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ جنک فوڈ اور باہر کے کھانوں سے پرہیز کریں۔ متوازن غذا جسمانی و ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔

    دماغی صحت کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    آج دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی رویوں کے حامل ہیں اور انہیں عموماً نفسیاتی یا پاگل کہا جاتا ہے، تاہم نفسیاتی یا پاگل سمجھ یا کہہ کر جان چھڑا لینا اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترداف ہے۔

    ذہنی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جبکہ سنہ 2020 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا مرض بن جائے گا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض ہیں کیا، یہ کس حد تک ہمارے معاشرے کو متاثر کر چکے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں پائے جانے والے 5 عام ذہنی امراض

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں ماہرین نفسیات و دماغی امراض سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دماغی امراض کی شرح کیا ہے اور کون سے افراد ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی میں فرق

    معروف اسپتال برائے نفسیاتی امراض کاروان حیات سے منسلک ڈاکٹر سلیم احمد نے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کی۔ ان کے مطابق ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی، جسے ہم ذہنی معذوری بھی کہتے ہیں، میں فرق ہے۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی پیدائشی ہے اور اس کا دارو مدار بچے یا والدین کی جینز پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ بچے پیدا ہی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ والدین کا بلڈ گروپ بھی ہوتا ہے جو ملاپ کے بعد جب نئی زندگی وجود میں لاتا ہے تو وہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح بعض دفعہ بچہ پیدا ہونے کے کافی دیر بعد روتا ہے، 5 سے 7 منٹ تک سانس نہیں لے پاتا یا نیلا پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کیونکہ دماغ کو فوری طور پر آکسیجن نہیں ملتی۔

    ایسے بچے عمر بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق ایسی معذوری کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ بہت شدید طور پر ذہنی معذوری، جس میں بچے کو کچھ بھی سکھانا ناممکن ہو، ایسے بچے عموماً زیادہ نہیں جی پاتے اور جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

    درمیانی یا کم شدت کے ذہنی معذور بچوں کے لیے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی طور پر اسپیشل ایجوکیشن دی جاتی ہے جہاں ان کے ذہن کی حد تک ان کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ پیدائشی ذہنی معذور بچوں میں مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ عام بچوں کے مقابلے میں اپنی افزائش کا عمل دیر سے شروع کرتے ہیں۔

    جیسے 8 سے 9 ماہ کی عمر کے بچے کا بیٹھنا، 16 یا 18 ماہ کی عمر کے بچے کا بولنا شروع کرنا، 1 سال کی عمر سے قبل قدم اٹھانا شروع کردینا وغیرہ معمول کا عمل ہے تاہم اگر اس عمل میں تاخیر ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچوں میں ذہنی پسماندگی یا معذوری کی ایک مثال ڈاؤن سنڈروم کا مرض ہے جو تا عمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں جانیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    دماغی امراض کیا ہیں؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق دماغی امراض کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سائیکوٹک سنڈروم اور دوسرا نیوروٹک سنڈرمز۔

    سائیکوٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق سائیکوٹک سنڈروم میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کا بچپن نارمل گزرا ہو لیکن اوائل نوجوانی میں ان کے ساتھ نفسیاتی مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں۔

    مثال کے طور پر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے جذبات میں تبدیلی اور اس کی وجہ سے غصہ، ڈپریشن یا کسی قسم کے خوف کا بڑھ جانا۔ اگر کوئی شخص حساس ہے تو اس عمر میں وہ حد سے زیادہ حساس ہوگا اور معمولی باتوں کو بھی ذہن پر سوار کرلے گا۔

    اس درجہ بندی کے مریضوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

    سائیکوٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    الزائمر

    ڈیمینشیا

    شیزو فرینیا

    مندرجہ بالا 2 امراض میں مبتلا افراد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً 50 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا اور کیوں کرنے جارہا ہے۔

    اسی طرح شیزو فرینیا بھی مختلف توہمات و خیالات کے ذہن میں بیٹھ جانے یا اپنے آپ کو کوئی دوسری شخصیت سمجھنے کی بیماری ہے اور اس میں بھی مریض تقریباً اپنے مرض سے بے خبر اور ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق نیوروٹک سنڈروم وہ ذہنی امراض ہیں جن میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    اینگزائٹی ۔ بے چینی کا مرض

    پینک ڈس آرڈر ۔ شدید گھبراہٹ، اداسی، رقت طاری ہوجانا

    اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر ۔ اس مرض میں مریض کوئی کام بار بار سرانجام دیتا ہے یا جنون کی حد تک نفاست پسند ہوجاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مرض کا شکار ہیں۔

    فوبیا ۔ کسی جانور، چوہے یا بلی سے خوف آنا

    اونچائی کا خوف

    بند جگہوں کا خوف

    اس نوعیت کے امراض میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے لیکن وہ اس کے آگے بے بس ہوتا ہے اور خود کو لاشعوری طور پر نقصان دہ کام کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایک عام مرض بن چکا ہے جو اب اس مرحلے پر آگیا ہے کہ اس کا شکار افراد کو باقاعدہ ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق ہر وہ شے جو آپ کی دماغی کارکردگی کو متاثر کرے، ڈپریشن کہلاتی ہے۔

    مثال کے طور پر آپ کی کسی سے نوک جھونک ہوگئی اور آپ کا موڈ خراب ہوگیا، تو یہ بھی ڈپریشن کی ایک قسم ہے تاہم یہ عارضی ہوتی ہے اور مذکورہ شخص کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے پر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

    اسی طرح آپ کسی سے برے رویے یا دھوکے کی امید نہ رکھتے ہوں، لیکن اس شخص کا رویہ آپ کو غیر متوقع طور پر دکھ پہنچائے تو یہ بھی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر چند دن، یا چند ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ ڈپریشن میں دراصل بیرونی عوامل زیادہ کار فرما ہوتے ہیں جو ہر شخص پر الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2 افراد ایک جیسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی ڈپریشن کی مختلف اقسام (کم یا شدید) میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ڈپریشن سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    کیا اذیت پسندی بھی ذہنی مرض ہے؟

    بعض افراد خود کو یا دوسروں کو اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسا نہ صرف جنسی تعلقات میں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مواقعوں پر بھی ایسے افراد اذیت پسندی سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ بھی کسی ذہنی مرض کی علامت ہے؟

    ضیا الدین یونیورسٹی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمیہہ علیم اس بارے میں بتاتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرنا سیڈ ازم کہلاتا ہے جبکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا کسی دوسرے کے ذریعے خود کو تکالیف دلوانا میکوس ازم کہلاتا ہے۔

    اس علامت کے حامل افراد لازماً کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ’یہ دونوں اصطلاحیں صرف جنسی عمل سے منسلک نہیں ہیں، عام زندگی میں بھی ان افراد کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق اگر یہ اپنے لیے، کسی دوسرے کے لیے یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے نقصان دہ، متشدد اور جان لیوا ثابت ہونے لگے تو پھر یہ خطرناک بن جاتا ہے جس کا علاج ضروری ہے۔

    آپ خصوصاً مغرب میں پائے جانے والے ایسے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے جو کسی کو قتل کرنے سے قبل اسے مخصوص تکلیف پہنچاتے تھے۔

    اس مرض کا آغاز بھی بچپن سے ہوتا ہے اور جب یہ مرض بڑھ جائے تو مریض اپنے لاشعور میں دبی کسی شے کی وجہ سے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔

    جیسے بچپن میں ماں کا برا رویہ سہنے والا شخص عورتوں کو قتل یا نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ کسی مخصوص رویے یا رنگ سے اس کی کوئی ناخوشگوار یاد منسوب ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی وہ اشتعال میں آجاتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے افراد بچپن میں بے ضرر اشیا یا اپنے سے کمزور افراد کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ مرض نشونما پانے لگتا ہے۔

    بعض افراد اداسی یا غم کو بھی اپنے اوپر سوار کرلیتے ہیں اور خوش نہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور ایسی طبیعت کے افراد منفی سوچ اور مضمحل طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔

    شخصیت کے مختلف پہلو بھی ذہنی امراض کی علامت

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق شخصیت کے بعض مختلف پہلو جب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بھی ذہنی امراض کی علامت ہوتے ہیں جنہیں پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    جیسے کسی کی شخصیت حاکمانہ ہے اور وہ سب پر اپنا حکم چلانے کا عادی ہے تو یہ اس کی شخصیت کا پہلو ہے۔ لیکن اگر یہی پہلو اس کے ارد گرد موجود افراد کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے لگے تو یہ ڈس آرڈر کہلائے گا جس کا علاج ضروری ہے۔

    ظلم و زیادتی کو برداشت کرنا بھی ذہنی مرض؟

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے کہ لڑکیوں کا شادیاں ان کی پسند اور رضا مندی کے بغیر کردی جاتی ہیں، گو کہ یہ ظلم ہے تاہم ثقافتی اور سماجی طور پر لوگ اس ظلم کو سہنے کے عادی ہیں۔

    مذہبی یا ثقافتی رسوم و رواج کو نہ چاہتے ہوہے قبول کرلینا اطاعت گزاری یا فرمانبرداری کا نام ہے جس کے پیچھے معاشرتی، خاندانی و سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

    تاہم اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دباؤ سے بالکل آزاد ہو، تب بھی وہ ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا پسند کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ لوگ اسے تکلیف پہنچائیں، شخصیت کے اس پہلو کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

    اس بارے میں ڈاکٹر سمیہہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بچپن میں پیش آنے والے حالات و ماحول سے ہے جو لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

    بظاہر آپ کے سامنے ایک خود انحصار اور پر اعتماد شخص موجود ہوگا، لیکن اگر سب کے سامنے اس کا اچھے الفاظ میں بھی تذکرہ کیا جائے تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔

    ایسے شخص کو کسی ادارے میں کسی شعبے کا سربراہ بنانے پر غور کیا جائے تو وہ شخص ڈر جاتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکے گا، یا لوگ اسے اس روپ میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہیں ہوتیں اور یہ پس منظر میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: احساس کمتری سے نجات حاصل کریں

    دراصل ایسے افراد کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو مظلوم بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو نہ صرف انہیں قبول کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت بھی کی جائے گی۔ ایسے لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں بے شمار خوف و توہمات موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق یہ بھی شخصیت کا ایک پہلو ہے، تاہم منفی پہلو ہے۔

    ذہنی امراض کا علاج کیا ہے؟

    کراچی نفسیاتی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر روحی افروز کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی کا تو کوئی علاج نہیں۔ اس میں مریض کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور مختلف تربیتی سیشنز کے ذریعے ذہنی معذور افراد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    البتہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے علاج کا انحصار ان کے مرض کی شدت پر ہوتا ہے کہ اسے کس نوعیت کی دواؤں یا تھراپی سے کنٹرول کیا جاسکے۔

    کراچی نفسیاتی اسپتال ڈاکٹر سید مبین اختر کا قائم کیا ہوا ہے جہاں پاکستان میں ہی بننے والی دواؤں سے ذہنی امراض کا نہایت مؤثر علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر سمیہہ کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کو تھراپی کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی لیے ضروری ہے کہ مریض خود اپنی اس کیفیت کو سمجھے اور علاج کروانے پر رضا مند ہو۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب رہنا دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    بعض افراد کو علم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو بڑھ کر ذہنی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے، ایسے افراد خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیم احمد نے اس بارے میں بتایا کہ ماہرین نفسیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کو براہ راست ڈیل نہ کریں۔

    وہ چاہتے ہیں کہ مریض کے ساتھ اس کا کوئی بے حد قریبی عزیز چاہے وہ اہل خانہ میں سے ہو، کوئی دوست ہو، یا دفتر کا کوئی ساتھی جس سے وہ بہت قریب ہوں، وہ ان کے ساتھ آئے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    وہ مریض سے زیادہ اس کے ساتھ آئے شخص سے گفتگو کر کے مریض کی مختلف کیفیات و علامات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ مرض کی جڑ کو پکڑ کر اس کا علاج کیا جا سکے۔

    ذہنی امراض اور مذہب

    ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض میں اضافے کی اصل وجہ اپنی بنیاد یعنی مذہب سے دور ہوجانا ہے۔ ’قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘۔

    ان کے مطابق نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کو زندگی کا حصہ بنا لینا ذہنی امراض سے بچاتا ہے۔ اپنی زندگی میں خدا سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے افراد (بذریعہ نماز و تلاوت) جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ یہی بات دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتی ہے، ’کیونکہ ہیں تو سب آدم کی اولاد، تمام انبیا بھی خدا کے حکم سے اس عہدے پر فائز ہوئے چنانچہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس ایک خدا سے ضرور جا ملتا ہے جو واحد اس کائنات کا مالک ہے‘۔

    ان کے مطابق خدا کے سامنے رونا اور گڑگڑانا کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے جو سکون آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر نفسیات بھی آپ کو نہیں دے سکتا۔


    دماغ ہمارے جسم کا سب سے طاقتور عضو ہے جسے صحت مند رکھنے کے لیے سب سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • فطرت کے قریب ورزش دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    فطرت کے قریب ورزش دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    ورزش کرنے یا چہل قدمی کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ورزش ہر عمر کے شخص کے لیے مفید ہے اور انہیں مختلف بیماریوں سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلی فضا میں چہل قدمی کرنا جم میں ورزش کرنے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فوائد دے سکتی ہے۔

    آسٹریا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ فطرت کے درمیان جیسے جنگلات اور پہاڑوں کے درمیان وقت گزارنا ہماری دماغی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ورزش کا مطلب جسم کو فعال کرنا ہے تاکہ ہمارے جسم کا اندرونی نظام تیز اور بہتر ہوسکے اور ہم بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم ورزش کرتے ہوئے لطف اندوز نہیں ہوتے، تو ورزش سے ہماری دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق تحقیق کے لیے جب کھلی فضا اور جم میں ورزش کرنے والوں کا جائزہ لیا گیا تو دیکھا گیا کہ جو افراد کھلی فضا میں کسی پارک، یا سبزے سے گھری کسی سڑک پر چہل قدمی کرتے تھے ان کا موڈ ان لوگوں کی نسبت بہتر پایا گیا جو جم میں ورزش کرتے تھے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت ہماری دماغی صحت پر ناقابل یقین اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن میں کمی کرتی ہے جبکہ ہمارے دماغ کو پرسکون کر کے ہماری تخلیقی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر پر کوئی پسندیدہ کام کرتے ہوئے وقت گزارنے والے اور فطرت کے قریب وقت گزارنے والے افراد کے درمیان ان لوگوں میں ذہنی سکون اور اطمینان کی شرح بلند ہوگی جنہوں نے کھلی فضا میں وقت گزارا۔

    ان کے مطابق لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔

    ماہرین نے تجویز کیا کہ پر ہجوم شہروں میں رہنے والے لوگ سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر ضرور وقت گزاریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دماغی کمزوری دور کرنے کا آسان ہربل نسخہ

    دماغی کمزوری دور کرنے کا آسان ہربل نسخہ

    دماغی صحت کے بغیر ایک مکمل صحت مند زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں کیونکہ دماغ انسانی جسم میں ’’کنٹرول روم‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، اگر دماغ کی کارکردگی درست نہیں تو کسی بھی شخص کے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

    دماغ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جو پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے اسی وجہ سے دماغی بیماریاں شخصیت پر بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہے، مہنگے علاج کے علاوہ اس بیماری سے نجات کے لیے مختلف گھریلو ٹوٹکے بھی آزمائے جاتے ہیں۔

    week-brain-3

    دماغ کمزور ہونے کا شکوہ اکثر لوگ کرتے دکھائے دیتے ہیں، یہ ایسی بیماری ہے جس کے علاج کے لیے لوگ مہنگی ادویات تک استعمال کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

    طریقہ علاج

    اے آر وائی کیو ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام ’’حکمت اور صحت‘‘ میں اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے حکیم صاحب نے بیماری کا آسان علاج بتایا، انہوں نے بتایا کہ 10 گرام کاسنی کے بیچ اور 50 گرام کلونجی کو ملا کر پیس لیا جائے۔

    week-brain-2

    week-brain-1

    دونوں اجزاء کو پیسنے کے بعد ایک پاؤ یعنی 250 گرام شہد میں ملا کر معجون تیار کریں اور باقاعدگی کے ساتھ استعمال کریں۔ ایک ماہ استعمال کے بعد دماغی قوت اور طاقت میں واضح فرق نظر آئے گا۔

    حکیم صاحب کے مطابق یہ نسخہ نسیان (بھولنے کا مرض) کے مریضوں کے لیے مفید ہے، جن افراد کو یہ مرض لاحق ہے اس میں کمی واقع ہوگی اور جو اس مرض میں مبتلا ہونے والے ہوں گے انہیں اس مرض کا شکار ہونے سے قبل ہی دماغی قوت مدافعت ملے گی۔

    یہ عام اور سادہ سا نسخہ ہے جو کہ بالخصوص بوڑھے افراد کے لیے بہترین ہے کیوں کہ ادھیڑ عمری کے بعد جسم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی کمزوری کا شکار ہونے لگتا ہے یا ایسے طالب علم جنہیں اپنا نصاب یاد کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو۔

    نوٹ: تمام اشیاء گرم ہیں لہذا معجون چھوٹے چمچے کا ایک چوتھائی حصہ بطور دوا دن میں ایک بار استعمال کریں۔

    ویڈیو دیکھیں

    اسی سے متعلق: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے یہ ورزشیں کریں

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

     مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    مزید پڑھیں: دو زبانیں بولنے والوں کا دماغ زیادہ فعال

  • آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا فائدے کے بجائے نقصان کا سبب

    آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا فائدے کے بجائے نقصان کا سبب

    ویسے تو سائیکل چلانا صحت کے لیے نہایت مفید ورزش ہے۔ یہ ورزش جسم کے تمام پٹھوں اور اعضا کو حرکت میں لا کر انہیں فعال کرتی ہے۔ اگر اس عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو گاڑیوں اور دیگر سفری سہولیات کی وجہ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

    لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی آلودہ شہر میں رہتے ہیں، تو وہاں پر سائیکلنگ کرنا فائدے کے بجائے جان لیوا نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق آلودہ شہروں میں سائیکل چلانا کہیں زیادہ خطرناک ہے، بہ نسبت سائیکل نہ چلانے کے باعث مختلف طبی خطرات کا شکار ہونا۔

    رپورٹ میں بھارت کے شہر الہٰ آباد اور ایران کے شہر زبول کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان شہروں میں صرف آدھہ گھنٹہ سائیکل چلانا تنفس کے مختلف مسائل پیدا کرسکتا ہے جو ساری زندگی ساتھ رہ سکتے ہیں۔

    cycling-2

    ماہرین نے آلودہ شہروں میں سائیکلنگ سمیت کھلی فضا میں انجام دی جانے والی دیگر ورزشوں جیسے جاگنگ یا چہل قدمی کرنے کو بھی صحت کے لیے فائدہ مند کے بجائے نقصان دہ قرار دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ فضا میں موجود ذرات سانس کے ساتھ جسم کے اندر جا کر بے شمار بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان بیماریوں میں سانس کی بیماریاں، نمونیہ، امراض قلب، فالج اور بعض اقسام کے کینسر شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی ہر سال 50 لاکھ سے زائد افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔ صرف چین میں ہر روز 4 ہزار (لگ بھگ 155 لاکھ سالانہ) افراد بدترین فضائی آلودگی کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    دوسرے نمبر پر بھارت 11 لاکھ اموات کے ساتھ موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

    اس سے قبل ایک تحقیق کے دوران کیے جانے والے ایک دماغی اسکین میں فضا میں موجود آلودہ ذرات دماغ کے ٹشوز میں پائے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودہ ذرات الزائمر سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا کا ہر 7 میں سے ایک بچہ بدترین فضائی آلودگی اور اس کے خطرات کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں موجود آلودگی کے ذرات بچوں کے زیر نشونما اندرونی جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نہ صرف ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خون میں شامل ہو کر دماغی خلیات کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں جس سے ان کی دماغی استعداد میں کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

  • چہل قدمی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    چہل قدمی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    چہل قدمی ایک نہایت مفید عادت ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے بے شمار فوائد ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ حاصل ہوتے ہیں۔

    چہل قدمی ان افراد کے لیے خاص طور پر بے حد مفید ہے جو اپنے دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں جیسے دفاتر میں کام کرنے والے افراد۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر ہلکی پھلکی چہل قدمی کو عادت بنالیا جائے تو دن اور رات کو اوسط بلڈ شوگر کی بڑھتی ہوئی سطح کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد میں ذیابیطس کا مرض پیدا ہو رہا ہے وہ صرف 20 منٹ چہل قدمی کر کے دل کے دورے سے بچ سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی آپ کی دماغی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ چہل قدمی سے دماغی فوائد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر بار مختلف مقام، کھلی اور پرسکون فضا کا انتخاب کریں۔

    چہل قدمی سے دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، آیئے آپ بھی جانیں۔

    تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ اکیلے چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ روزمرہ کی معمولی اشیا کے بجائے تخلیقی سوچ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس دوران آپ کو اپنے کام کے لیے مختلف آئیڈیاز بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔

    چہل قدمی اگر کسی کے ساتھ کی جائے تب بھی آپ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جس کے دوران دماغ نئے پہلوؤں کو سوچنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    لت سے چھٹکارہ

    اگر آپ کسی بھی قسم کی لت جیسے شراب، سگریٹ یا کھانے کی لت سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ روزانہ چہل قدمی کو اپنا معمول بنا لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی یا ورزش سے آپ دماغ کے پیدا کردہ ان کیمیائی عناصر میں کمی لاسکتے ہیں جو آپ کو کسی چیز کی طرف بار بار راغب کرتے ہیں۔

    دماغی امراض سے حفاظت

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغی خلیات بوسیدہ ہوجاتے ہیں اور مرنے لگتے ہیں جس کے باعث مختلف بیماریاں جیسے الزائمر اور ڈیمنیشا وغیرہ پیدا ہوتی ہیں۔ آپ اس خطرے سے صرف چہل قدمی سے بھی نجات پاسکتے ہیں۔

    یادداشت میں اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی کے لیے ہر بار نئی جگہ اور کھلی فضا کا انتخاب کرنا آپ کی یادداشت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ نئی جگہ پر مختلف اور نئی چیزوں کو دیکھنا، ان پر غور کرنا اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کو محسوس کرنے سے آپ کی دماغی استعداد اور یادداشت میں اضافہ ہوگا۔

    منفی جذبات سے تحفظ

    چہل قدمی کرنے سے دماغ آپ کے جسم کے لیے مفید کیمیائی عناصر پیدا کرنے لگتا ہے اور جسم سے منفی عناصر کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ نتیجتاً آپ منفی جذبات جیسے غصہ، حسد اور ذہنی دباؤ سے بچے رہتے ہیں یا ان میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

  • آ کیور فور ویل نیس: دماغی انتشار کی کہانی یا پراسرار واقعات کا مجموعہ

    آ کیور فور ویل نیس: دماغی انتشار کی کہانی یا پراسرار واقعات کا مجموعہ

    ہالی ووڈ کی سسپنس فلم ’آ کیور فور ویل نیس‘ کا سنسنی خیز ٹریلر جاری کردیا گیا۔ فلم کی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ انسانی ذہن ہوش کی سرحدوں سے دور ہو کر کیا کیا کمالات دکھا سکتا ہے۔

    شہرہ آفاق فلم سیریز ’پائریٹس آف دی کیربیئن‘ کے ڈائریکٹر گور وربنسکی کی آنے والی فلم ’آ کیور فور ویل نیس‘ اس بار عقل و شعور کی سرحد سے دور پیش آنے والے واقعات کو بڑے پردے پر پیش کرنے والی ہے۔

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت *

    film-8

    film-9

    جاری کیے جانے والے ٹریلر میں ڈین ڈہان کو دکھایا گیا ہے جنہیں ذہنی صحت کی بحالی کے ایک ادارے میں بھیجا جاتا ہے۔

    film-3

    لیکن یہاں پہنچ کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس ادارے میں پس پردہ بھی کچھ پراسرار کام جاری ہیں جن کا تعلق انسانی دماغ سے ہے۔

    film-7

    ٹریلر میں دکھائے گئے مختلف تخیلاتی مناظر سے ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارا دماغ کس قدر طاقت ور ہے اور صحت مندی، بیماری یا انتشار کی حالت میں ہمیں کیا کیا دکھا سکتا ہے۔

    film-11

    ٹریلر کے ایک منظر میں ایک کردار کو کاغذ پر گول گول دائرے بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ذہنی انتشار کا شکار افراد کی عمومی عادت ہوتی ہے۔

    film-1

    اسی طرح خود کشی کا ایک منظر دکھا کر ذہنی بیماریوں کا شکار افراد کی دماغی کشمکش کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    film-5

    ایک منظر میں اداکارہ میا گوتھ بھی دکھائی دیں جو اس سے قبل فلم ’ایورسٹ‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔

    film-2

    ڈین ڈہان ان اسرار بھرے واقعات اور مخفی رازوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ادارے میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، جس کے بعد ان کی اپنی دماغی صحت کی خرابی کے خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز *

    film-6

    ٹریلر کے آخری سین میں ڈین ایک سبز محلول میں کچھ انسانوں کو دیکھتا ہے جو بے ہوشی کی حالت میں وہاں موجود ہوتے ہیں تب اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے جس میں یہ لوگ مبتلا تھے اور انہیں ’علاج‘ کی خاطر اس محلول میں ڈالا گیا ہے۔

    film-4

    فلم اگلے برس 17 فروری کو ریلیز کردی جائے گی۔

  • دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    ہم اپنی زندگی میں بے شمار ایسے کام انجام دیتے ہیں جو ہماری جسمانی و دماغی صحت کے لیے مضر ہوتے ہیں اور ہمیں بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ کام ہماری عادت بن کر غیر محسوس انداز میں ہماری طرز زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں علم بھی نہیں ہوتا لیکن یہ ہمیں خطرناک طریقے سے متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ایسی ہی کچھ عادات جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہمارے دماغ کو بے حد نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ہمارے دماغ کی کارکردگی کم کر کے اسے غیر فعال بناتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ اتنا ہی فعال ہوگا۔ غیر فعال دماغ آہستہ آہستہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جائے گا اور اسے مختلف امراض گھیر لیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اگر بڑھاپے میں بھی دماغ کا زیادہ استعمال کیا جائے تب بھی یہ کوئی نقصان دہ بات نہیں بلکہ یہ آپ کو مختلف بیماریوں جیسے الزائمر یا ڈیمینشیا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    آئیے وہ عادات جانیں جو ہمارے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

    :تخیلاتی تصورات کی کمی

    imagination

    اگر آپ کا دماغ تخیلاتی پرواز سے محروم ہے، یعنی آپ حقیقی زندگی کو پوری طرح اپنے اوپر حاوی کر چکے ہیں اور اپنے دماغ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ تصوراتی اور غیر حقیقی چیزوں کے بارے میں سوچے، تو جان جائیں کہ آپ اپنے دماغ کو محدود کر رہے ہیں۔

    کسی انسان کی قوت تخیل جتنی زیادہ بلند ہوگی اس کا دماغ اتنا ہی زیادہ فعال ہوگا۔

    :فضائی آلودگی

    pollution

    ہمارا دماغ جسم کا وہ عضو ہے جو پورے جسم میں سب سے زیادہ آکسیجن جذب کرتا ہے اور اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے اس سے توانائی حاصل کرتا ہے۔

    آلودہ فضا میں آکسیجن کم اور دیگر مضر صحت گیسیں زیادہ شامل ہوتی ہیں جس کے باعث دماغ کو پہنچنے والی آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے یوں دماغ  آہستہ آہستہ سست ہوتا چلا جاتا ہے۔

    :کم بولنا

    speak

    کم بولنا ویسے تو ذہانت کی نشانی ہے لیکن ماہرین کے مطابق دانشورانہ بحثوں میں حصہ لینا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا اور دوسروں کی رائے سننا بھی آپ کے دماغ کے سوئے ہوئے حصوں کو بیدار کرتا ہے اور دماغ کے سوچنے کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔

    :سوتے ہوئے سر کو ڈھانپنا

    covering-head

    اگر آپ سوتے ہوئے سر کو چادر یا تکیے سے ڈھانپ لیتے ہیں تو محتاط ہوجائیں کیونکہ یہ دماغ کے لیے تباہ کن عادت ہے۔ سر ڈھانپنے سے یہ 8 سے 9 گھنٹے تک ہوا سے محروم رہتا ہے جس سے مختلف دماغی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    :بیماری کے دوران دماغی کام

    sickness

    کسی بھی جسمانی بیماری کے دوران زیادہ دماغی کام کرنا دماغی خلیات کو تباہ کرسکتا ہے۔ بیماری کی حالت میں جسم اور دماغ دونوں کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسے میں دماغ کو اس کی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور کرنا اسے تباہ کرسکتا ہے۔

    :موٹاپا

    obesity

    شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ موٹاپا ہمارے دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موٹاپے کے باعث دماغ کی شریانوں کو اپنا کام سر انجام دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں موٹے افراد آہستہ آہستہ کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    :سگریٹ نوشی

    smoking

    سگریٹ نوشی دماغی خلیات کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وقت سے بہت پہلے الزائمر کا شکار بناسکتی ہے۔

    :ناشتہ نہ کرنا
    breakfast

    ناشتہ نہ کرنے کی عادت ہمیں جسمانی و دماغی طور پر بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔ صبح کے وقت کھایا جانے والا پہلا کھانا جسم سے زیادہ دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے لہٰذا اگر آپ صبح ناشتہ نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے دماغ کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناشتہ میں چاکلیٹ کھانا دماغی صلاحیت میں اضافے کا باعث

    صبح ناشتہ نہ کرنا ہمارے جسم میں شوگر کی سطح کو کم کردیتا ہے۔ ہمارے جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز یا شوگر پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمارے جسم میں شوگر کی مقدار کم ہوگی تو دماغ اپنے افعال درست طریقے سے سر انجام نہیں دے سکے گا نتیجتاً آپ کام کرنے کے لیے دماغی توانائی سے محروم ہوجائیں گے۔

    :میٹھے کا زیادہ استعمال

    sugar

    ویسے تو دماغ اپنی توانائی شوگر سے حاصل کرتا ہے لیکن اگر جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوجائے تب بھی یہ دماغ کے لیے نقصان دہ بات ہے۔

    مزید پڑھیں: بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    شوگر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارا جسم صرف شوگر کو ہضم کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور دوسرے صحت مند اجزا جیسے پروٹین اور نمکیات وغیرہ کو ہضم نہیں کر پاتا جس کا منفی اثر دماغ پر بھی پڑتا ہے۔

    :نیند کی کمی

    sleep

    نیند کی کمی ہماری دماغی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ہم کام کے دوران چاق و چوبند نہیں رہ پاتے۔

  • دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    ہماری دنیا جیسے جیسے ترقی یافتہ ہورہی ہے ویسے ویسے ہماری زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں کئی فوائد دیے ہیں وہیں بیماریوں اور نقصانات کی شکل میں ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔

    انہی میں ایک تحفہ ذہنی امراض کا بھی ہے جن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    یہاں ہم آپ کو دماغی امراض کے بارے میں قائم کچھ مفروضات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ بھی ان مفروضوں کو درست سمجھتے ہوں، اور ان کی بنیاد پر دماغی امراض کا شکار افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوں، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    :پہلا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    :حقیقت

    درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    :دوسرا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کم پائے جاتے ہیں۔

    :حقیقت

    ہم میں سے ہر 4 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہوتا ہے۔

    :تیسرا مفروضہ

    بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔

    :حقیقت

    یہ واقعی ایک نارمل بات ہے لیکن یہ 10 میں سے 1 نوجوان کی دماغی صحت میں ابتری کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو درست طریقے سے ہینڈل  کیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہیں بصورت دیگر یہ دماغی مرض کی شکل میں نوجوان کو سختی سے جکڑ لیں گی اور تاعمر اپنا نشانہ بنائے رکھیں گی۔

    :چوتھا مفروضہ

    نوجوانوں کے لیے آسان عمل ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اپنے جذبات بیان کریں۔

    :حقیقت

    درحقیقت نوجوان افراد اپنے خیالات بتانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ دونوں صورتوں میں یہ چیز ان کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    :پانچواں مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کی واحد جگہ نفسیاتی اسپتال ہیں۔

    :حقیقت

    دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

    :چھٹا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد بعض اوقات برے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ رویہ مستقل ہوتا ہے۔

    :حقیقت

    ایسے وقت میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ برے رویے کی وجہ ان کا مرض ہے، اور یہ رویہ عارضی ہے۔

    :ساتواں مفروضہ

    دماغی امراض ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شکار شخص کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔

    :حقیقت

    مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔

  • دماغ ’بند‘ ہونے سے پریشان ہیں؟

    دماغ ’بند‘ ہونے سے پریشان ہیں؟

    ہم میں سے اکثر افراد بعض اوقات ’دماغ بند‘ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا دماغ اس کے لیے تیار نہیں۔

    ایسا اس صورت میں ہوتا ہے جب دماغ سستی اور تھکن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر ہم روز ایک جیسا کام کریں تو ہمارا جسم اور دماغ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اسے تبدیلیوں کی ضوررت ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے دماغ کو پھر سے بیدار کردیں تاکہ وہ کام کرنے کے قابل ہو سکے۔

    ماہرین ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ جب بھی اپنے دماغ کو سست اور ناکارہ ہوتا محسوس کریں، یہ طریقے اپنائیں۔

    :مطالعہ کریں

    book

    مطالعہ کرنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔ ہر موضوع اور ہر شعبہ کے بارے میں مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ مطالعہ سے آپ کی ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔

    ویسے تو ماہرین روایتی طریقے یعنی کتاب کے ذریعہ مطالعہ پر ہی زور دیتے ہیں، لیکن آپ اپنے موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر بھی مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس سے بھی کچھ نیا سیکھنے کا مطلوبہ مقصد پورا ہوجائے گا۔

    :فلم دیکھیں

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اچھی، بامقصد اور معیاری فلمیں ہمارے دماغ پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کرتی ہیں جو مطالعہ کرتا ہے۔

    مہم جوئی سے بھرپور فلم آپ کو کوئی مہم سرکرنے پر ابھارے گی۔ اسی طرح جاسوسی پر مبنی فلمیں دیکھنا آپ کے دماغ کو متحرک کرے گا اور فلم کے کردار کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر آپ بھی مجرم کو تلاش کریں گے۔

    :ورزش کریں

    exercise

    ورزش جسم اور دماغ دونوں کو متحرک کرتی ہے۔ علیٰ الصبح کی جانے والی ورزش جسم اور دماغ کو تازہ ہوا پہنچاتی ہے اور دماغ کے خلیات کو تازہ دم کرتی ہے۔

    کھلی ہوا میں ورزش کرنے سے دماغ سے کیمیائی عناصر اور منفی جذبات کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔

    :مراقبہ کریں

    meditation

    ذہنی سکون حاصل کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ مراقبہ کرنا ہے۔ دن کے کسی بھی حصہ میں 10 سے 15 منٹ کے لیے کسی نیم اندھیرے گوشے میں سکون سے بیٹھ جائیں، آنکھیں بند کرلیں اور دماغ کو تمام سوچوں سے آزاد چھوڑ دیں۔

    یہ طریقہ آپ کے دماغ کو نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    :دھیمی موسیقی سنیں

    music

    موسیقی زمانہ قدیم سے جسمانی و دماغی تکالیف کو مندمل کرنے کے لیے استعال کی جاتی رہی ہے۔

    ہلکی آواز میں دھیمی موسیقی سننا آپ کے دماغ کو سکون پہنچائے گا اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

    :دماغ کو کام کرنے کا موقع دیں

    chess

    دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے اتنا ہی فعال ہوتا ہے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کا دماغ بند ہورہا ہے تو اسے ایسی چیز فراہم کریں جس سے وہ کام کرنے پر مجبور ہوجائے۔

    اس صورت میں کوئی دماغی کھیل کھیلنا، کوئی نئی زبان سیکھنا، کوئی آلہ موسیقی یا رقص سیکھنا، باغبانی کرنا، رضاکارانہ خدمات انجام دینا یا سیاحت کرنا آپ کو دماغ کو جگا دے گا۔

    ماہرین کے مطابق یہ تمام طریقے نہ صرف آپ کے دماغ کی سستی دور بھگانے بلکہ دماغی کارکردگی میں اضافے کے لیے بھی معاون ہیں۔