Tag: دماغ

  • کرونا وائرس سے دماغ کو شدید نقصان پہنچنے کا انکشاف

    کرونا وائرس سے دماغ کو شدید نقصان پہنچنے کا انکشاف

    اب تک کی مختلف تحقیقات سے علم ہوا ہے کہ کرونا وائرس جسم کے تقریباً ہر حصے کو نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ کو پہنچنے والے ایک اور نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 کے باعث اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں میں مختصر مدت تک خون میں ایسے پروٹین کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے جو دماغی نقصان کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔

    نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت کووڈ کا مرض معمر افراد کے دماغ کو الزائمر امراض سے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ بیماری کے بعد مختصر وقت تک ان پروٹین کی سطح دیگر بیماریوں بشمول الزائمر سے متاثر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران بیمار ہونے والے مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    مریضوں میں مسقبل میں الزائمر امراض کا خطرہ تو نہیں بڑھ جاتا یا وہ وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتے ہیں، اس کا تعین کرنے کے لیے طویل المدتی تحقیقی رپورٹس کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کووڈ 19 کے مریضوں میں ایسے 7 پروٹینز کی زیادہ سطح کو دریافت کیا گیا جن کو بیماری کے دوران دماغی علامات کا سامنا تھا اور ان میں ہلاکتوں کی شرح بھی کووڈ سے متاثر دیگر افراد (جن کو دماغی علامات کا سامنا نہیں ہوا) سے زیادہ تھی۔

    مزید تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ دماغ کو نقصان پہنچنانے والے یہ اشاریے مختصر مدت تک الزائمر کے شکار افراد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، بلکہ ایک کیس میں یہ شرح دگنے سے بھی زیادہ تھی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں بالخصوص دماغی و اعصابی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں دماغی نقصان پہنچانے والے عناصر کی شرح زیادہ ہوتی ہے بلکہ الزائمر کے مریضوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    اس تحقیق میں 251 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 71 سال تھی مگر ان میں دماغی تنزلی یا ڈیمینشیا کی علامات کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل نہیں تھیں۔

    ان مریضوں کو دماغی علامات ہونے یا نہ ہونے ، صحتیاب اور ڈسچارج ہونے یا ہلاکت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    161 افراد کے کنٹرول گروپ (54 دماغی طور پر صحت مند، 54 میں معمولی دماغی مسائل اور 53 میں الزائمر کی تشخیص ہوئی تھی) میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔

    ان میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دماغی انجری کی جانچ پڑتال کی گئی اور خون کے نمونوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔

    ماہرین نے دماغی علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے خون میں 7 پروٹینز کی زیادہ مقدار کو دریافت کیا جن میں یہ شرح ان علامات کا سامنا نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ کووڈ کے مریض میں الزائمر یا ڈیمینشیا سے متعلق کسی عارضے کا امکان مستقبل میں ہوسکتا ہے، مگر خطرہ ضرور بڑھ سکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں سائنس دان انسانی دماغ کے ایک ٹکڑے کو پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تاریخ میں پہلی بار سائنس دانوں نے انسان کے دماغ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسم سے باہر ایک پیٹری ڈش میں 12 گھنٹے زندہ رکھ کر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    انسانی دماغ اتنا حساس ہے کہ اس کا ایک حصہ بھی الگ ہوکر فوری طور پر مر جاتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی حیاتیاتی سرگرمی نہیں رہتی، لیکن ماہرین نے دماغ کے ایک سینٹی میٹر حصے کو بارہ گھنٹوں تک زندہ رکھا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ڈاکٹر ایما لیوس لوتھ کی سربراہی میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ایک مریض کے کارٹیکس سے دماغ کے ٹشو کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کے زندہ رہنے کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے ایک نیا عمل شروع کیا۔

    ٹیم نے پہلے اس ٹشو کو ٹھنڈا کیا، اسے آکسیجن سے بھرا رکھا تاکہ خلیات زندہ رہیں، اور پھر اس چھوٹے سے ٹکڑے کو آئنز (برقی چارج والے مالیکیول) اور معدنیات کے ایک مرکب میں رکھ دیا، یہ وہی اجزا ہیں جو دماغی ریڑھ کی ہڈی کے مائع جات میں پائے جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر ایما لوئس لوتھ

    ڈاکٹر لوتھ نے اس سلسلے میں جانوروں پر ہونے والے تجربات کے حوالے سے دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسری ریسرچ سے اس سلسلے میں مدد لینا (یعنی چوہوں پر تحقیق بمقابلہ انسانوں پر تحقیق) ایسا تھا جیسے کوئی آئی فون کو ٹھیک کرتے ہوئے نوکیا 3310 کو دیکھے، ان کے بنیادی افعال تو ایک جیسے ہیں لیکن انسانی دماغ میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدگی ہے۔

    انھوں نے کہا ہم یہاں تک جانتے ہیں کہ خلیات کی اقسام اور بعض ریسیپٹرز کے اظہار میں بھی فرق ہے، لہٰذا انسانی ٹشو کو براہ راست ٹیسٹ کرنے کے قابل ہونا ایک منفرد موقع تھا۔

    اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق میں انسانوں اور چوہوں کے نیورانز کے درمیان (ڈوپامائن کے ذریعے بڑھائے گئے) رابطوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں دیکھا گیا کہ انعام سے وابستہ نیورو ٹرانسمیٹر انسانی دماغ میں نیورانز کے درمیان رابطوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ڈوپامن ایک قسم کا نیوروٹرانسمیٹر ہے جو اعصابی خلیوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ہماری خوشی محسوس کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    لوتھ کا کہنا تھا کہ یہ جاننا علاج کے نئے مواقع کا باعث بن سکتا ہے، مثال کے طور پر فالج کے بعد بحالی کے سلسلے میں یا شدید دماغی نقصان کی دوسری اقسام، جہاں مریض کے دماغ کے نیورونز میں رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور نئے کنیکشنز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ڈوپامِن انسانوں اور چوہوں میں مختلف کردار ادا کرتی ہے، اس تجربے سے انسانی بافتوں پر ادویات کی براہ راست جانچ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

    واضح رہے کہ اس ٹکڑے میں اعصابی خلیات زندہ تھے اور ان سے برقی سگنل بھی پھوٹ رہے تھے، اس اہم صورت حال میں ماہرین کئی طرح کے تجربات کو بالکل نئے انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ محققین کا یہ گروپ فی الحال ایک ایسے طریقے پر کام کر رہا ہے جس سے دماغ کے چھوٹے ٹکڑوں کو 10 دن تک زندہ رکھا جا سکے۔

    خیال رہے کہ اس تجربے کے لیے انسانی دماغ کے ٹکڑے کو استعمال کیا گیا، جس پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، ڈاکٹر لوتھ نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ کہ اس سے درد محسوس نہیں ہوتا، اور ہر قسم کے جذبات یا خیالات دماغ کے کئی حصوں سے گزرتے ہیں، ہم نے جس ٹکڑے پر کام کیا، وہ انسانی انگوٹھے کے سب سے بیرونی حصے کے سائز جتنا تھا، اور یہ دماغ کے دوسرے حصوں سے منسلک نہیں ہے، میں لوگوں کی اس حیرانی کو سمجھ سکتی ہوں کہ پیٹری ڈش میں جو نیوران موجود ہے، کیا اس میں یادداشت ہے، لیکن میں یہ بتاؤں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

  • دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    یونان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی تنزلی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو پھلوں، سبزیوں، بیجوں اور دیگر غذاؤں کا استعمال معمول بنالیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم کش خصوصیات رکھنے والی غذاؤں کا استعمال عمر بڑھنے کے ساتھ ڈیمینشیا کا شکار ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    کاپوڈسٹریشن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم بڑھانے کا باعث بننے والی غذاؤں کا استعمال یادداشت سے محرومی، زبان کے مسائل، مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور سوچ سے جڑی دیگر صلاحیتوں کا امکان 3 گنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ورم کش غذا کا استعمال ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ غذا ممکنہ طور پر دماغی صحت پر متعدد میکنزمز کے ذریعے اثرات مرتب کرتی ہے اور ہمارے نتائج کے مطابق ورم ان میں سے ایک ہے۔

    اس تحقیق میں ایک ہزار سے زیادہ معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان سے سوالنامے بھروا کر غذائی عادات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق کے آغاز میں کسی میں بھی ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی اور 3 برسوں کے دوران 6 فیصد میں دماغی تنزلی کی تشخیص ہوئی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مغربی طرز کی غذا کے استعمال سے ڈیمینشیا کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، بیجوں، دالوں، کافی یا چائے کا زیادہ استعمال دماغی تنزلی سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئے۔

  • باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    پیرس: حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مچھلی کھانے کی عادت دماغ کی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم کردیتی ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے، دماغی شریانوں کو نقصان پہنچنے سے ڈیمینشیا اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    بورڈیوکس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 3 شہروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں دماغی شریانوں کے امراض اور ڈیمینشیا کے تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین نے 65 سال سے زائد عمر کے 16 سو 23 افراد کے ایم آر آئی اسکینز کا تجزیہ کیا جن میں فالج، دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ ان افراد سے غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھی بھروائے گئے تھے۔

    ان افراد کو 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ ہفتے میں ایک بھی مچھلی نہ کھانے والوں پر مشتمل تھا، دوسرا ہفتے میں ایک بار، تیسرا ہفتے میں 2 سے 3 بار جبکہ چوتھا 4 یا اس سے زیادہ بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے والوں پر مشتمل تھا۔

    ماہرین نے پھر ہر گروپ میں شامل افراد میں خون کی شریانوں کے امراض کی علامات کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ زیادہ مچھلی کھانے والے افراد میں شریانوں کو نقصان پہنچنے کی نشانیاں دیگر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 65 سے 69 سال کی عمر میں مچھلی کے استعمال اور خون کی شریانوں کے امراض کا تعلق زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بیشتر افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ مختلف جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر کے باعث بڑھتا ہے، طرز زندگی کے عناصر اور دماغی صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ ملا ہے کہ جو غذا دل کے لیے مفید ہوتی ہے وہ دماغ کے لیے بھی صحت بخش ہوتی ہے، جبکہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا، تمباکو نوشی نہ کرنا، الکحل سے گریز اور متحرک طرز زندگی سب عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔

    اس سے قبل امریکا کی ساﺅتھ ڈکوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا مختلف امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔

    ڈھائی ہزار سے زائد معمر افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ جو لوگ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان میں جلد موت کا خطرہ 34 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ایسے افراد میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ 39 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کولیسٹرول لیول میں اضافہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والا اہم ترین عنصر ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کولیسٹرول لیول ہارٹ اٹیک یا فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھا کر جلد موت کا باعث بنتا ہے، تاہم اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا ہارٹ اٹیک، فالج، امراض قلب اور مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔

  • کوے سے دشمنی مول لینا مہنگا پڑ سکتا ہے!

    کوے سے دشمنی مول لینا مہنگا پڑ سکتا ہے!

    کیا کبھی آپ نے کسی کوے سے دشمنی کی ہے؟ اگر ہاں تو جان لیں کہ یہ دشمنی آپ کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔

    گھر کی چھتوں، بالکونیوں، کھڑکیوں اور لانز میں کئی اقسام کے پرندے آتے جاتے رہتے ہیں جن کی چہچہاہٹ سے ماحول خوشگوار ہوجاتا ہے تاہم اگر کوا آجائے تو اس کی کائیں کائیں بہت ناگوار گزرتی ہے۔

    ایسے میں کچھ افراد کووں کو مار بھگانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہیں سے ان کی کووں سے باقاعدہ دشمنی شروع ہوجاتی ہے۔

    وہ جس کوے کو مار بھگاتے ہیں وہی کوا ان کی جان کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ ہر روز وہاں آ کر ان پر جھپٹنے، حملہ کرنے یا چونچ مارنے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے ہی تجربے سے گزرنے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے کسی کوے مار بھگایا تو اس کے بعد وہ کسی بھی وقت اس جگہ پر آئیں تو اچانک کہیں سے وہی کوا نمودار ہوتا ہے اور ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    کینہ پروری کی یہ فطرت کوے کے علاوہ کم ہی کسی پرندے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

    تاہم اب ماہرین نے کوے کی اس حرکت کی وضاحت کی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوے دراصل ایک بار جو چہرہ دیکھ لیں وہ اسے کبھی نہیں بھولتے، چنانچہ جب کبھی کوئی شخص ان سے خراب برتاؤ کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھ لیتے ہیں اور اسے دیکھتے ہی اپنے دفاع میں پہلے حملہ کردیتے ہیں۔

    اب تک دنیا بھر میں کئی تحقیقات کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوا ہے کہ کوے کا دماغ دیگر پرندوں سے مختلف اور زیادہ فعال ہوتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق کووں کی جسمانی اور معاشرتی صلاحیتوں کا موازنہ بندروں کی بڑی نسل اورنگٹن سے کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق میں ثابت ہوا کہ چار ماہ کے کوے کی پہچاننے کی صلاحیت بالغ بندر کی طرح ہوتی ہے۔

    سائنٹفک ریسرچ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق 4 ماہ کے کوے میں پہچاننے کی وہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک بالغ بندر میں ہوتی ہیں۔

    کوے خوراک کے حصول کے لیے بھی نہایت ذہانت کا استعمال کرتے ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق کوے نئی حاصل ہونے والی معلومات کو دیگر کووں کے ساتھ شیئر بھی کرتے ہیں۔

  • کیا میٹھا کھانا چھوڑ دینا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    کیا میٹھا کھانا چھوڑ دینا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    میٹھا چھوڑ دینے کے مختلف فوائد تو کافی ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹھا چھوڑنے کے بعد کے ابتدائی کچھ دن آپ کو منفی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے، ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں۔

    مختلف تحقیقات کے مطابق خوارک میں چینی کی مقدار کم کرنے کے صحت پر واضح طور پر مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اور کیلوریز کم لینے سے بھی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ اس سے وزن بھی کم ہوتا ہے لیکن لوگ جب چینی کم کھانا شروع کرتے ہیں تو کبھی کبھار اس کے صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ مثلاً سر میں درد رہنا، تھکن کا احساس اور مزاج میں تلخی پیدا ہونا، لیکن یہ عارضی ہوتا ہے۔

    ان علامات کی وجوہات کے بارے میں کم علمی پائی جاتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ ان علامات کا تعلق چینی زیادہ کھانے سے دماغ کے ردعمل سے ہو، جسے بائیولوجی آف ریوارڈ یا صلے کی بائیولوجی کہا جاتا ہے۔

    نشاستہ دار غذا کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، جن میں چینی شامل ہے جو کھانے کی بہت سی چیزوں میں قدرتی طور پر شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ پھلوں میں فرکٹوز اور دودھ میں لیکٹوز کی صورت میں۔ کھانے کی چینی جس کو سائنسی اصطلاح میں سوکروز کہا جاتا ہے وہ گنے، چقندر، میپل سیرپ اور شہد کے بڑے اجزا، گلوکوز اور فرکوٹوز میں شامل ہے۔

    ایسی غذا کے استعمال سے جس میں چینی کی مقدار زیادہ ہو اس کے گہرے بائیولو جیکل اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں، یہ اثرات شدید ہوتے ہیں اور یہ بحث ابھی جاری ہے کہ کیا یہ چینی کے عادی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

    سوکروز منہ میں چینی کا ذائقہ محسوس کرنے والے اجزا کو متحرک کر دیتا ہے جن کا بالآخر اثر دماغ میں ڈوپامین نامی کیمیا کا اخراج ہوتا ہے۔ ڈوپامین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے دماغ میں پیغام رسانی ہوتی ہے، جب عمل شروع ہوتا ہے تو دماغ ڈوپامین خارج کرنا شروع کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے ریوارڈ یا انعامی کیمیکل کہا جاتا ہے۔

    ڈوپامین کا یہ انعامی عمل دماغ کے ان حصوں میں ہوتا ہے جو مزے اور انعام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ انعامی عمل ہمارے رویے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم وہ کچھ دوبارہ کرنا چاہتے ہیں جس سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے۔

    انسانوں اور جانوروں پر تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چینی سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔ تیز میٹھا اس عمل کو متحرک کرنے میں کوکین کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چینی چاہے وہ خوراک کی صورت میں لی جائے یا اسے انجیکشن کے ذریعے خون میں شامل کیا جائے اس سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق منہ میں ذائقہ محسوس کرنے کے اجزا سے نہیں ہوتا۔ چوہوں پر ہونے والی تحقیق سے ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں کہ سوکروز کے استعمال سے دماغ میں ڈوپامین متحرک کرنے والے نظام میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس سے انسان اور جانوروں کے مزاج اور رویے بھی بدل جاتے ہیں۔

    چینی ترک کرنے کے ان ابتدائی دنوں میں جسمانی اور ذہنی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن میں ڈپریشن، پریشانی، بے چینی، ذہنی دباؤ، تھکن، غنودگی اور سر درد شامل ہے۔ چینی چھوڑنے سے جسمانی اور ذہنی طور پر ناخوشگوار علامتیں محسوس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    ان علامات کی بنیاد پر وسیع تر تحقیق نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا تعلق ذہن کے انعامی جوڑوں سے ہے۔ چینی کی لت لگ جانے کا خیال ابھی متنازعہ ہے لیکن چوہوں پر تحقیق سے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بہت سے دوسرے ایسے اجزا جن کی آپ کو عادت یا لت پڑ جاتی ہے اور ان میں چینی بھی شامل ہے اور اس کو چھوڑنا مختلف اثرات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثالاً چینی کھانے کی شدید خواہش، طلب اور طبعیت میں بے چینی کا پیدا ہونا۔

    جانوروں پر مزید تحقیق سے ظاہر ہوا کہ چینی کی عادت کے اثرات منشیات کے اثرات سے ملتے ہیں جن میں دوبارہ ان کا استعمال شروع کر دینا اور اس کی طلب کا محسوس کیا جانا شامل ہے۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحقیق کی گئی ہے وہ جانوروں تک ہی محدود ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انسانوں میں ہی ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جو لوگ اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کم کرتے ہیں ان کے ذہن کے کیمیائی توازن پر یقینی طور پر اثر پڑتا ہے اور یہ ہی ان علامات کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے۔ ڈوپامین انسانی دماغ میں، قے، غنودگی، بے چینی اور ہارمون کو کنٹرول کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔

    گو کہ چینی کے انسانی دماغ پر ہونے والے اثرات پر تحقیق محدود ہے لیکن ایک تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ موٹاپے اور کم عمری میں فربہ مائل افراد کی خوراک میں چینی کم کرنے سے اس کی طلب شدید ہو جاتی ہے اور دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔

  • وہ جاندار جس کے 32 دماغ ہیں

    وہ جاندار جس کے 32 دماغ ہیں

    حضرت انسان کا ایک دماغ ہوتا ہے جس سے وہ اس زمین پر بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں زمین پر ایک جاندار ایسا بھی ہے جس کے 32 دماغ ہیں۔

    یہ جاندار جونک ہے جو انسانوں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

    دراصل جونک کا جسم اندرونی طور پر 32 حصوں میں منقسم ہوتا ہے اور ہر حصے کا اپنا الگ دماغ ہوتا ہے، گویا جونک کے اندر 32 دماغ موجود ہیں۔

    جونک کا کاٹا تکلیف دہ یا زہریلا نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی حد تک انسانوں کے لیے فائدہ مند ہے، کسی انفیکشن کی صورت میں اسے جسم پر لگانے سے یہ زہریلا خون چوس لیتی ہے اور انسان کی جان بچا لیتی ہے۔

    جونک کے 300 دانت ہوتے ہیں اور ان کی اوسط عمر 1 سال ہوتی ہے۔

  • کیا آپ بھی الارم کو سنوز پر لگانے کے عادی ہیں؟

    کیا آپ بھی الارم کو سنوز پر لگانے کے عادی ہیں؟

    اسمارٹ فونز نے جہاں ہماری زندگیوں میں بے شمار آسانیاں پیدا کردی ہیں، وہیں ایک الارم کا سنوز بٹن بھی ہے جو ہمیں ایک سہولت لگتا ہے۔

    الارم کی آواز پر آنکھ کھلتے ہی ہم میں سے اکثر افراد سنوز کا بٹن دبا دیتے ہیں، اس سے الارم فوری طور پر خاموش ہوجاتا ہے اور دس یا پندرہ منٹ بعد دوبارہ بجتا ہے جس سے ہمیں پندرہ منٹ سونے کا مزید وقت مل جاتا ہے۔

    تاہم ماہرین اس بٹن کو ایسی غلطی قرار دیتے ہیں جو ہمارا پورا دن برباد کرسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ الارم کے بجتے ہی اسے سنوز پر لگا کر دوبارہ سوجاتے ہیں اور 10 منٹ بعد الارم دوبارہ بج اٹھتا ہے، اور یہ سلسلہ آدھے گھنٹے تک جاری رہتا ہے تو جان لیں کہ آپ اپنی صحت کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق الارم کی پہلی گھنٹی پر اٹھ کر بستر پر بیٹھ جانا زیادہ مفید ہے۔ بار بار الارم بجنے سے نہ تو آپ ٹھیک سے سوپاتے ہیں اور نہ جاگ پاتے ہیں، یوں آپ کا دماغ تھکن کا شکار ہوجاتا ہے اور آپ سارا دن غنودگی محسوس کرتے رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ خوشگوار اور چاک و چوبند دن گزارنا چاہتے ہیں تو اسی وقت کا الارم لگائیں جب آپ کو اٹھنا ہے، اور پہلی گھنٹی بجتے ہی فوراً اٹھ بیٹھیں، اس سے آپ کا جسم اور دماغ سارا دن فعال اور چاک و چوبند رہے گا۔

  • کیا ہمارا دماغ اپنے آپ کو کھاتا ہے؟

    کیا ہمارا دماغ اپنے آپ کو کھاتا ہے؟

    انسانی جسم حیرت انگیز معلومات و صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں گے، اتنے ہی حیران ہوتے جائیں گے۔

    آج ہم آپ کو انسانی جسم سے متعلق ایسے ہی کچھ حیران کن حقائق سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔

    جلد

    آپ کے بستر کے نیچے جمع زیادہ تر مٹی، آپ کی مردہ جلد ہوتی ہے جو سونے کے دوران جھڑتی ہے۔

    ہڈیاں

    ایک ننھے بچے میں عام انسان کی نسبت 60 ہڈیاں زیادہ موجود ہوتی ہیں یعنی کل 350 ہڈیاں۔ نشونما کے دوران کچھ ہڈیاں آپس میں جڑتی چلی جاتی ہیں جس کے بعد بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک انسان میں 206 ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔

    پلکیں

    ہماری پلکوں میں نہایت ننھے ننھے کیڑے یا لیکھیں موجود ہوتی ہیں۔

    دانت

    دانت ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کسی نقصان کی صورت میں خود سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

    دماغ

    جب ہم نیند سے جاگتے ہیں تو ہمارے دماغ کی توانائی سے ایک ننھا سا لائٹ بلب باآسانی روشن کیا جاسکتا ہے۔

    ڈی این اے

    اگر ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی این اے کو کھول کر سیدھا کیا جائے تو یہ 10 ارب میل کے فاصلے پر محیط ہوگا، یعنی اس کی لمبائی زمین سے سیارہ زحل تک اور پھر واپس زمین جتنی ہوگی۔

    سانس لینا

    انسان وہ واحد ممالیہ جانور ہے جو بیک وقت سانس لینے اور نگلنے کا کام نہیں کرسکتا۔

    ڈائٹنگ

    ڈائٹنگ کرنے والے افراد کا دماغ غذا کی کمی کے باعث اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔

    موت

    انسانی جسم کی موت کے 3 دن بعد وہ انزائم جو زندگی میں آپ کا کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی انزائم مردہ جسم کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔