Tag: دماغ

  • کیا موبائل فون کا استعمال دماغ کے لیے خطرناک ہے؟

    کیا موبائل فون کا استعمال دماغ کے لیے خطرناک ہے؟

    آج کل کے دور میں موبائل فون کے بغیر زندگی ناممکن ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغ میں رسولی کا سبب بن سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایک تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغ میں رسولی یا ٹیومر کا سبب بنتا ہے۔

    یہ تحقیق جنوبی کوریا کے نیشنل کینسر سینٹر اور سیئول نیشنل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کی گئی ہے، جس کے مطابق 46 فیصد امریکی روزانہ 5 سے 6 گھنٹے فون استعمال کرتے ہیں اور 11 فیصد دن میں سات گھنٹے سے زیادہ اپنی ڈیوائس سے چپکے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ 10 سال کے عرصے کے دوران سیل فون کا 1 ہزار گھنٹوں سے زیادہ استعمال یعنی محض 17 منٹ روزانہ بھی دماغ میں رسولی پیدا ہونے کے خطرے کو 60 فیصد بڑھا دیتا ہے۔ جو لوگ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موبائل فونز استعمال کر رہے ہیں، ان میں رسولی کا خطرہ ان لوگوں سے نسبتاً زیادہ ہے جو پانچ سال یا اس سے کم عرصے سے فونز کا استعمال کر رہے ہیں۔

    برکلے پبلک ہیلتھ میں سینٹر فار فیملی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ کے ڈائریکٹر جوئل ماسکووچ کہتے ہیں کہ موبائل فون کا استعمال صحت کے مختلف مسائل کو جنم دیتا ہے اور بدقسمتی سے ہماری سائنسی برادری نے اس پر بہت کم توجہ دی ہے۔

    ایک تحقیق میں 20 سال کے عرصے کے دوران 4 لاکھ 20 ہزار موبائل فون صارفین کا ریکارڈ جمع کیا گیا اور ماہرین نے دیکھا کہ موبائل فون اور دماغ کی رسولیوں میں کوئی تعلق نہیں۔ البتہ دوسری تحقیق میں کہا گیا کہ موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال دماغی رسولی کی ایک خاص قسم کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

    یہاں تک کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی اس کے صحت پر مضر اثرات سے انکار کیا۔ ان کے خیال میں اب تک کوئی ایسا مستقل یا قابل بھروسہ سائنسی ثبوت نہیں ملا جو موبائل فونز سے نکلنے والی ریڈیو فریکوئنسی سے صحت کے مسائل پیدا کرنے کے حق میں ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت موبائل فون سے چھٹکارا پانا تو مشکل ہے لیکن کچھ اقدامات کی مدد سے آپ اپنے موبائل فون کا استعمال محدود کر سکتے ہیں اور اس کے تابکاری کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔

    جب استعمال نہ کر رہے ہوں تو فون کا وائی فائی اور بلیو ٹوتھ بند کر دیں۔

    فون کو جسم سے کم از کم 10 انچ کے فاصلے پر رکھیں۔ اگر جیب میں رکھنا مجبوری ہو تو اسے ایئر پلین موڈ پر رکھیں۔

    کالز کے لیے ہیڈ فونز یا اسپیکر فون کا استعمال کریں۔

    سوتے ہوئے اپنا فون دوسرے کمرے میں رکھیں۔

    سگنل کمزور آرہے ہوں تو فون استعمال نہ کریں۔

  • یہ علامات برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہیں

    یہ علامات برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہیں

    دنیا بھر میں آج دماغ کی رسولی یا برین ٹیومر اور اس سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے برین ٹیومر کا دن منایا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 لاکھ میں 2 سے 3 افراد برین ٹیومر کا شکار بن سکتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق برین ٹیومر کا شکار خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ دماغی رسولی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور سنہ 2035 تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

    ماہرین کے مطابق اب تک دماغی رسولی بننے کی واضح وجوہات طے نہیں کی جاسکی ہیں تاہم بہت سے بیرونی و جینیاتی عوامل اس مرض کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دماغ میں رسولی بننے کی سب سے اہم وجہ بچپن میں تابکار شعاعوں میں وقت گزارنا ہے جو آگے چل کر برین ٹیومر کو جنم دے سکتا ہے۔

    اس ضمن میں موبائل فون ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن کا مستقل اور حد سے زیادہ استعمال اور ان سے نکلنے والی شعاعیں دماغ پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔

    بدقسمتی سے اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ ناقابل علاج بن چکا ہوتا ہے، البتہ اس سے جڑی چند علامتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

    برین ٹیومر کی ابتدائی علامات

    سر درد

    سر درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر چند اور علامات کے ساتھ مسلسل سر درد رہے تو یہ برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے چنانچہ فوری طور پر ٹیسٹ کروا کے تسلی کر لینی چاہیئے۔

    بے ہوشی کے دورے

    اگر اچانک اور بغیر کسی وجہ کے غشی کے دورے پڑتے ہوں یا بے ہوشی جیسی حالت ہو جاتی ہو تو یہ بھی برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہے، ایسے میں فوری طور پر کسی اچھے نیورولوجسٹ سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔

    چکھنے اور سونگھنے کی حس میں کمی

    اچانک سے چکھنے، سونگھنے اور بھوک لگنے کی حس کا ختم ہوجانا بھی برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے۔

    قوت سماعت و بصارت میں کمی

    بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اگر سننے یا دیکھنے میں دقت محسوس ہو یا کلی طور پر سماعت و بصارت چلی جائے تو اس کی ایک وجہ برین ٹیومر بھی ہو سکتی ہے۔

    ایسی صورت میں برین ٹیومر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے جو سماعت اور بصارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹیومر کے باعث اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    چہل قدمی یا توازن برقرار رکھنے میں دقت

    اگر مریض چلنے میں دقت محسوس کرے یا کھڑے کھڑے توازن برقرار نہ رکھ سکے تو یہ بھی دماغی رسولی کی نشانی ہے۔

    بولنے میں تکلیف کا سامنا

    برین ٹیومر کے اثرات دماغ کے ان حصوں پر ہوجائیں جو قوت گویائی کے لیے مخصوص ہوں تو ایسے میں مریض کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے، وہ الفاظ کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

    فالج کے اثرات

    چہرے کے ایک حصے کا بے حس ہوجانا یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا حرکت نہ کرنا فالج کی علامات ہیں اور فالج کی وجہ برین ٹیومر کا ہونا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے فالج کو بھی برین ٹیومر کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن

    چوںکہ خوشی اور غم کے جذبات کا کنٹرول بھی دماغ کے مخصوص حصوں میں ہوتا ہے اس لیے برین ٹیومر مریض میں ڈپریشن کی علامات پیدا کرنے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔

    اوپر دی گئی علامات کسی اور مرض کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ان علامتوں کے نمودار ہوتے ہی فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کریں اور ضروری ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت مرض کی تشخیص کی جا سکے۔

  • کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کو نظام تنفس پر حملہ کرنے والا وائرس سمجھا گیا تھا تاہم ایک سال میں کی جانے والی ریسرچز سے علم ہوا کہ یہ وائرس دماغ سمیت جسم کے کسی بھی عضو کا اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے 2 اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹرو سائٹس کو متاثر کر سکتی ہے۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی علامات کا باعث بنتی ہے۔

    ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کر سکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری، تھکاوٹ اور دماغی دھند جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے دماغی مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    کرونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے، یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

    اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کرونا وائرس کو حملہ کرنے کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔

    اس کو جاننے کے لیے ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس 2 ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور ان میں ایس 2 ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا، انہوں نے نیورونز اور آسٹراسائٹس جیسے معاون خلیات کا بھی تجزیہ کیا۔

    یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس 2 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

    اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    محققین اس حوالے سے کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ان خلیات کی بہت زیادہ مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک بار آسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

    اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں متعدد اعصابی و دماغی علامات بشمول سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے پہلو محدود تھے یعنی یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے پیچیدہ ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

  • بڑھاپے میں ہونے والی بیماری کی وہ علامت جو جوانی میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے

    بڑھاپے میں ہونے والی بیماری کی وہ علامت جو جوانی میں بھی ظاہر ہوسکتی ہے

    ہم میں سے اکثر افراد بعض اوقات زندگی کی دلچسپیوں سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے ہماری دلچسپی ہر چیز سے ختم ہوگئی ہے، اسے ڈپریشن سمجھا جاتا ہے تاہم اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ یہ ڈیمینشیا کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چیزوں سے دلچسپی یا عزم ختم ہوجانا درمیانی عمر یا بڑھاپے میں لاحق ہونے والے دماغی تنزلی کے مرض ڈیمینشیا کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے جو کئی برس قبل ظاہر ہوسکتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بڑھاپے میں ڈیمینشیا کی ایک عام نشانی معاملات میں دلچسپی ختم ہونا یا عزم سے محروم ہوجانا ہے، جس کو عام طور پر لوگ ڈپریشن یا سستی سمجھ لیتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ڈیمینشیا کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے جس میں زندہ رہنے کی جدوجہد میں کمی آتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ علامت بیماری کے حملے سے کئی سال پہلے نمودار ہوسکتی ہے اور اس موقع پر علاج سے ڈیمینشیا کی روک تھام بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

    اس تحقیق میں 304 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ڈیمینشیا کی اس قسم کا باعث بننے والا جین موجود تھا۔ ان افراد کا جائزہ کئی برسوں تک لیا گیا اور کسی میں ڈیمینشیا کی تشخیص نہیں ہوئی اور تحقیق میں شامل بیشتر افراد کو علم بھی نہیں تھا کہ ان میں وہ مخصوص جین موجود ہے یا نہیں۔

    محققین نے ان افراد کے مختلف رویوں، یاداشت کے ٹیسٹ اور دماغ کے ایم آر آئی اسکین لیے۔

    انہوں نے بتایا کہ کئی برسوں تک لوگوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم پر انکشاف ہوا کہ لوگوں کا روزمرہ کی زندگی میں زیادہ لاپروا ہونا اور مشغلوں میں دلچسپی ختم ہونا دماغی افعال میں تبدیلیوں کی پیشگوئی کرتا ہے، ہم نے دماغ کے ان حصوں کو سکڑتے دیکھا جو عزم اور کسی کام کو آگے بڑھانے کو سپورٹ کرتے ہیں اور یہ ڈیمینشیا سے کئی سال پہلے ہوتا ہے۔

    اس سے قبل ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسے افراد جن کو بیٹھنے کے بعد اچانک اٹھنے پر سر چکرانے کا سامنا ہوتا ہے، ان میں دیگر افراد کے مقابلے میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والی بیماری ڈیمینشیا کا خطرہ دیگر سے لگ بھگ 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

  • کوویڈ ٹیسٹ کے دوران خاتون کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان: خوفزدہ کردینے والی خبر کی حقیقت کیا ہے؟

    کوویڈ ٹیسٹ کے دوران خاتون کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان: خوفزدہ کردینے والی خبر کی حقیقت کیا ہے؟

    واشنگٹن: امریکا میں ایک خاتون کے کرونا وائرس ٹیسٹ کے دوران دماغ کو نقصان پہنچنے کی خبر نے سوشل میڈیا صارفین میں خوف و ہراس پھیلا دیا تاہم جلد ہی یہ خبر بے بنیاد نکلی۔

    گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل اس خبر نے صارفین کو بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خبر میں بتایا گیا کہ کوویڈ ٹیسٹ کے دوران نمونہ لینے کے عمل نے ایک خاتون کے دماغ کی باریک تہہ میں سوراخ کردیا۔

    خبر کے مطابق دماغ کی لیئر کو نقصان پہنچنے کے بعد دماغ سے مائع خاتون کی ناک سے بہنے لگا جس نے ڈاکٹرز میں کھلبلی مچا دی۔

    مذکورہ واقعے کے بعد خاتون کو شدید سر درد اور قے شروع ہوگئی جبکہ انہیں روشنی دیکھنے میں بھی بے حد تکلیف کا سامنا ہونے لگا۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی کوویڈ ٹیسٹ کروا چکی ہیں، اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا تاہم اس بار انہیں محسوس ہوا کہ نمونہ لینے والی اسٹک ان کی ناک کے اندر کچھ زیادہ گہرائی میں چلی گئی جس سے دماغ کو نقصان پہنچا۔

    جلد ہی فیس بک کی جانب سے اس خبر کو جھوٹ قرار دے دیا گیا۔ فیس بک کی جانب سے فراہم کردہ فیکٹ چیک لنک میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے ماہرین طب نے وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کی جس لیئر کی بات ہورہی ہے وہ بلڈ برین بیریئر کہلاتی ہے۔ یہ ایک پتلی سی جھلی ہوتی ہے جو خون میں موجود مضر اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔

    البتہ یہ جھلی دماغ کے لیے فائدہ مند اشیا جیسے نیوٹرنٹس اور آکسیجن کو اپنے اندر سے گزرنے دیتی ہے۔

    ایک فیس بک پوسٹ جس میں تصاویر بھی شامل تھیں، اور جسے بعد ازاں ہٹا دیا گیا، میں دعویٰ کیا گیا کہ کوویڈ ٹیسٹ کے لیے نمونہ بالکل اسی جھلی کے قریب سے لیا جاتا ہے جو ذرا سی بداحتیاطی کے باعث اس جھلی کونقصان پہنچا سکتا ہے۔

    جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس ہارٹنگ کا کہنا تھا کہ اس لیئر تک ناک کے ذریعے پہنچنا ممکن نہیں، درمیان میں بہت سے ٹشوز، دیگر جھلیاں اور کھوپڑی کی کچھ ہڈیاں حائل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس جھلی کو نقصان پہنچنے کے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں جو زیادہ تر اندرونی ہوتے ہیں، جیسے خطرناک قسم کے اجزا کا اس جھلی تک پہنچ جانا جو اسے نقصان پہنچا کر دماغ کے اندر داخل ہوجائیں، یا پھر کوئی اعصابی بیماری، تاہم صرف ناک کے ذریعے کسی شے کا اس تک پہنچنا ناممکن ہے۔

  • سر میں 10 سال سے گولی ہونے کے باوجود زندہ رہنے والا شخص

    سر میں 10 سال سے گولی ہونے کے باوجود زندہ رہنے والا شخص

    ماسکو: روسی پولیس کے سابق اہلکار ولادی میر کرتوف دماغ میں گولی ہونے کے باوجود 10 سال سے صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روس میں ڈاکٹرز نے سابق پولیس اہلکار کے دماغ سے سرجری کے ذریعے گولی نکانے سے انکار کر دیا، ڈاکٹرز کے مطابق دماغ سے گولی نکالنے سے ولادی میر کرتوف کی جان بھی جاسکتی ہے۔

    ولادی میر کرتوف نے آج سے 10 سال پہلے اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے سے متعلق بتایا کہ اس وقت میں سینٹ پیٹرزبرگ پولیس ڈپارٹمنٹ میں فرائض انجام دے دہا تھا، ایک دن ہمیں گیمنگ سینٹر پر ڈکیتی کی اطلاع ملی، میں اور میرا ساتھی چوری کی رپورٹ ملنے پر جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں ڈاکوؤں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں میرا ساتھی اہلکار دمتری وروئن جان کی بازی ہار گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلے میں مجھے جو گولی لگی وہ دماغ کی پچھلی سطح سے داخل ہو کر انتہائی اوپر والے حصے میں پھنس گئی،حادثے کے بعد 9 دن کومہ میں رہنے کے بعد میں نے الیگزینڈ ٹو روسکی اسپتال میں آنکھ کھولی۔

    ولادی میر کرتوف کا کہنا تھا کہ ان کو لگنے والی گولی 7.62 کیلیبر ناگن ریوالور کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز کے مطابق میرے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر تھی،مگر میں نہ صرف آج زندہ ہوں بلکہ اپنی بیوی اور پانچ ماہ کی بیٹی کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہا ہوں۔

  • برین ٹیومر سے بچاؤ کا عالمی دن: ابتدائی علامات جانیں

    برین ٹیومر سے بچاؤ کا عالمی دن: ابتدائی علامات جانیں

    دنیا بھر میں آج دماغ کی رسولی یا برین ٹیومر اور اس سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے برین ٹیومر کا دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد برین ٹیومر کا شکار ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق برین ٹیومر کا شکار خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دماغی رسولی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور سنہ 2035 تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

    برین ٹیومر کی وجہ

    ماہرین کے مطابق اب تک دماغی رسولی بننے کی واضح وجوہات طے نہیں کی جاسکی ہیں تاہم بہت سے بیرونی و جینیاتی عوامل اس مرض کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دماغ میں رسولی بننے کی ایک اہم وجہ تابکار شعاعوں میں وقت گزارنا بھی ہے۔

    اس ضمن میں موبائل فون ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن کا مستقل اور حد سے زیادہ استعمال اور ان سے نکلنے والی شعاعیں دماغ پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔

    بدقسمتی سے اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ ناقابل علاج بن چکا ہوتا ہے، البتہ اس سے جڑی چند علامتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

    برین ٹیومر کی ابتدائی علامات

    سر درد

    سر درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر چند اور علامات کے ساتھ مسلسل سر درد رہے تو یہ برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے چنانچہ فوری طور پر ٹیسٹ کروا کے تسلی کر لینی چاہیئے۔

    بے ہوشی کے دورے

    اگر اچانک اور بغیر کسی وجہ کے غشی کے دورے پڑتے ہوں یا بے ہوشی جیسی حالت ہو جاتی ہو تو یہ بھی برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہے، ایسے میں فوری طور پر کسی اچھے نیورولوجسٹ سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔

    چکھنے اور سونگھنے کی حس میں کمی

    اچانک سے چکھنے، سونگھنے اور بھوک لگنے کی حس کا ختم ہوجانا بھی برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے۔

    قوت سماعت و بصارت میں کمی

    بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اگر سننے یا دیکھنے میں دقت محسوس ہو یا کلی طور پر سماعت و بصارت چلی جائے تو اس کی ایک وجہ برین ٹیومر بھی ہو سکتی ہے۔

    ایسی صورت میں برین ٹیومر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے جو سماعت اور بصارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹیومر کے باعث اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    چہل قدمی یا توازن برقرار رکھنے میں دقت

    اگر مریض چلنے میں دقت محسوس کرے یا کھڑے کھڑے توازن برقرار نہ رکھ سکے تو یہ بھی دماغی رسولی کی نشانی ہے۔

    بولنے میں تکلیف کا سامنا

    برین ٹیومر کے اثرات دماغ کے ان حصوں پر ہوجائیں جو قوت گویائی کے لیے مخصوص ہوں تو ایسے میں مریض کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے، وہ الفاظ کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

    فالج کے اثرات

    چہرے کے ایک حصے کا بے حس ہوجانا یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا حرکت نہ کرنا فالج کی علامات ہیں اور فالج کی وجہ برین ٹیومر کا ہونا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے فالج کو بھی برین ٹیومر کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن

    چوںکہ خوشی اور غم کے جذبات کا کنٹرول بھی دماغ کے مخصوص حصوں میں ہوتا ہے اس لیے برین ٹیومر مریض میں ڈپریشن کی علامات پیدا کرنے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔

    اوپر دی گئی علامات کسی اور مرض کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ان علامتوں کے نمودار ہوتے ہی فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کریں اور ضروری ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت مرض کی تشخیص کی جا سکے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھول جانا ذہانت کی نشانی

    چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھول جانا ذہانت کی نشانی

    اکثر اوقات گاڑی کی چابی بھول جانا، یا اپنے کسی دوست کی سالگرہ بھول جانا ہمیں بہت الجھن، پریشانی اور خفت میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    ہمیں لگتا ہے کہ شاید ہماری یادداشت کمزور ہوگئی ہے، لیکن درحقیقت اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھول جانا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا دماغ صحت مند ہے اور درست طریقے سے اپنے افعال انجام دے رہا ہے۔

    حیران ہوگئے نا؟ آئیں جانتے ہیں ایسا کیوں ہے۔

    جرنل نیورون میں شائع ایک تحقیق کے مطابق درحقیقت کچھ بھولنے کا مطلب ہے کہ ہمارا دماغ نئی چیزوں کو سیکھنے کے لیے جگہ بنا رہا ہے اور اس کے لیے غیر ضروری چیزیں ضائع کر رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کمرے میں داخل ہو کر بھول گئے کہ یہاں کیوں آئے تھے؟

    یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے ہم اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں جگہ بنانے کے لیے غیر ضروری ڈیٹا ڈیلیٹ کردیتے ہیں۔

    دراصل ہمارے دماغ کا مقصد تمام چیزیں یاد رکھنا نہیں ہوتا، بلکہ صرف وہی چیزیں یاد رکھنا ہوتا ہے جو مستقبل کے فیصلوں میں مددگار ثابت ہو۔

    ایک تحقیق کے مطابق چھوٹی چھوٹی اشیا بھول جانا ہماری ذہانت میں اضافے کی بھی نشانی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا دماغ اب کچھ نیا سیکھے گا۔

    ماہرین کے مطابق دماغ کا چھوٹی چھوٹی اشیا بھول جانا ایک بالکل نارمل بات ہے اور اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

  • ڈیجیٹل دور میں کچھ نہ کرنے کا فن

    ڈیجیٹل دور میں کچھ نہ کرنے کا فن

    کیا آج کل کے دور میں جب ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے جسے ہر چند منٹ بعد کھول کر چیک کیا جاتا ہے، ’کچھ نہ کرنا‘ ممکن ہے؟ بظاہر ایسا مشکل تو ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

    ایک امریکی مصنفہ جینی اوڈیل کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں کچھ وقت ایسا ضرور نکالنا چاہیئے جس میں کچھ بھی نہ کیا جائے۔

    جینی ’ڈوئنگ نتھنگ‘ نامی کتاب کی مصنفہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے اسمارٹ فون پر مختلف خبروں اور لوگوں سے جڑے رہتے ہیں۔ ہر چند منٹ بعد ہمیں کوئی پیغام موصول ہوتا ہے اور ہم چاہے اسے پسند کریں یا نہ کریں، ہم اس کا جواب دیتے ہیں اور اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

    ان کا ماننا ہے کہ ان سب سے ڈس کنیکٹ ہونا اور رابطہ منقطع کرنا ضروری ہے۔ ’ڈس کنیکٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں سے رابطہ ختم کرلیا جائے، یا ہر لمحہ آتی خبروں سے مکمل طور پر لاتعلق ہوا جائے۔ لیکن کچھ وقت کے لیے ان چیزوں کو ایک طرف رکھ کر ’کچھ نہ کرنا‘ ضروری ہے‘۔

    لیکن جینی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ خود کو اس سب سے ڈس کنیکٹ کرسکے، ’ڈس کنیکٹ ہونے کی صلاحیت ایک پرتعیش سہولت بنتی جارہی ہے‘۔

    دراصل جینی کا اشارہ اس ٹیکنالوجی کے نشہ آور اثرات کی جانب ہے۔

    ماہرین اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ جدید دور کی یہ اشیا لوگوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کی ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ ڈیجیٹل لت کا شکار افراد خصوصاً بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب اس لت سے دور رہا جائے تو طبیعت میں بیزاری، اداسی اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض افراد اس لت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس لت سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی جائے تو ایسی کیا شے ہے جس میں دماغ کو مصروف رکھا جائے؟

    جینی کے مطابق اس کا حل جسمانی سرگرمی ہے۔ ’گھر سے باہر نکلیں، کھلی فضا میں سانس لیں، لوگوں سے ملیں، آس پاس کی اشیا کا جائزہ لیں۔ اور اگر آپ کے نزدیک کوئی پرفضا مقام یا پارک ہے تو آپ سے زیادہ خوش قسمت انسان آج کے دور میں کوئی نہیں‘۔

    باہر نکل کر لوگوں سے (سوشل میڈیا پر نہیں، حقیقی دنیا میں) ملیں، ان سے باتیں کریں، ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لت پر قابو پانے کے لیے فطرت کے درمیان وقت گزارنا بہترین علاج ہے، لیکن تیز رفتار اور بے ہنگم ترقی نے ہمیں کنکریٹ کے جنگلوں کا تحفہ دے کر قدرتی جنگل ہم سے چھین لیے۔ لہٰذا روزانہ نہ سہی لیکن ہفتے میں ایک دن ضرور کسی پرفضا مقام پر، پارک میں، ساحل سمندر پر یا درختوں کے بیچ گزارا جائے۔

    ’اور اگر یہ سب ناممکن ہے تو اپنے گھر کے کھلے حصے میں لیٹ کر آسمان کو تکیں، بادلوں کو دیکھیں، سورج کو ڈھلتا اور چاند کو ابھرتا ہوا محسوس کریں اور تارے گنیں‘، جینی کہتی ہیں۔

    آپ جینی کے اس خیال سے کتنے متفق ہیں؟