Tag: دماغ

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • کیا اچانک نیند سے اٹھنے پر موت واقع ہوسکتی ہے؟

    کیا اچانک نیند سے اٹھنے پر موت واقع ہوسکتی ہے؟

    آپ نے اکثر ایسے واقعات سنے ہوں گے جس میں کوئی صحت مند بھلا چنگا شخص اچانک موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے، کسی ناگہانی حادثے کے علاوہ یہ موت گھر میں عموماً رات کے وقت ہوتی ہے۔

    ایسے افراد بظاہر بالکل صحت مند ہوتے ہیں اور انہیں کوئی جان لیوا بیماری نہیں ہوتی لہٰذا ان کی اچانک موت نہایت حیران کن ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایک نہایت ہی عام سا عمل بے خبری میں ہمیں موت کا شکار بنا سکتا ہے۔ یہ عمل رات سوتے میں جاگ کر اچانک بستر سے کھڑا ہوجانا ہے۔

    ہم میں سے اکثر افراد رات میں گہری نیند سے جاگ جاتے ہیں کیونکہ ہمیں واش روم جانے یا پانی پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے میں اچانک تیزی سے بستر سے کھڑا ہوجانا نہایت خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔

    رات میں کئی گھنٹے سوتے ہوئے گزارنے کے دوران ہمارے دل کی دھڑکن بہت سست ہوجاتی ہے اور ہمارے دماغ تک خون کا بہاؤ بھی بے حد کم ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اچانک اٹھنے سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوسکتی ہے جبکہ دماغ تک خون کی کم رسائی کی وجہ سے دل اچانک رک بھی سکتا ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نیند سے جاگنے کے بعد فوری طور پر کھڑا ہونے سے گریز کیا جائے۔ اچانک نیند سے اٹھنے کے بعد یہ عمل کریں۔

    جب آپ کی آنکھ کھلے تو کم از کم ڈیڑھ منٹ تک بستر پر ہی لیٹے رہیں۔ اس کے بعد بستر پر اٹھ کر بیٹھ جائیں اور 30 سیکنڈ تک اسی پوزیشن میں بیٹھے رہیں۔ اس کے بعد ٹانگیں بستر سے نیچے لٹکائیں اور اسی حالت میں اگلا آدھا منٹ گزاریں۔

    ان ڈھائی منٹوں کے اندر آپ کے دماغ اور جسم کے دیگر تمام حصوں میں خون کی روانی بحال ہوجائے گی اور کھڑے ہونے پر گرنے یا کسی اور سنگین صورتحال کا خطرہ نہیں ہوگا۔

  • ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی ٹھنڈی یخ شے کھاتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے ہمارا دماغ سن سا ہوجاتا ہے اور کچھ سیکنڈز کے لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس موقع پر سر میں ہلکا سا درد بھی محسوس ہوتا ہے۔

    یہ حالت برین فریز کہلاتی ہے یعنی دماغ کا جم جانا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی یخ شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اس کیفیت کا سامنا تمام افراد کو نہیں ہوتا۔

    امریکا میں صرف 37 فیصد افراد کو اس کیفیت کا سامنا ہوتا ہے، تائیوان میں 4 فیصد بچے اور ڈنمارک میں صرف 15 فیصد بالغ افراد اسے محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 1800 سے یہ کیفیت سائنسدانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی وجہ اور اس کا علاج جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب کسی حد تک وہ اس کی وجہ جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    دراصل جب کوئی ٹھنڈی شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے تو یہ ٹرائی جیمینل نامی عصبیے (نرو) کو فعال کرتی ہے، اس عصبیے کی بدولت ہم سر کے سامنے والے حصے پر سردی یا گرماہٹ محسوس کرسکتے ہیں۔ جب اس عصبیے سے ٹھنڈی چیز ٹکراتی ہے تو سر کے سامنے والے حصے میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    درحقیقت ہمارے سر میں موجود مختلف اعصاب ہمارے سر کے مختلف حصوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان میں تکلیف کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ دانت کا درد جس عصبیے کو متاثر کرتا ہے وہ دماغ کے مرکزی حصے میں تکلیف پیدا کرتا ہے۔

    برین فریز کے وقت سر میں درد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موقع پر دماغ کی رگیں تیزی سے منہ کی چھت کی طرف خون بھیجتی ہیں جس سے رگیں عارضی طور پر چوڑی ہوجاتی ہیں، اس لیے بھی سر میں تکلیف پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق برین فریز کا شکار ہونے والے افراد سر درد کی ایک اور پر اسرار قسم میگرین کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ عصبیہ میگرین پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میگرین کو پراسرار اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاحال اس کی کوئی وجہ اور علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    اگر آپ بھی اکثر و بیشتر برین فریز کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو پریشانی کی بات نہیں، یہ کیفیت صرف 20 سے 30 سیکنڈ تک رہتی ہے اس کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔

  • بہت زیادہ سوچنے سے جان چھڑانے کے طریقے

    بہت زیادہ سوچنے سے جان چھڑانے کے طریقے

    سوچنے اور دماغ سے کام لینے میں کوئی حرج تو نہیں، تاہم بہت زیادہ سوچنا بھی ایک مسئلہ ہے اور بہت سی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

    یہ صورتحال اس وقت مزید پریشان کر سکتی ہے جب آپ سوچتے سوچتے منفی خیالات کے نرغے میں آجائیں اور ایک اچھے کام یا اچھے موقع کو منفی سوچوں کی نذر کردیں۔

    اسی طرح چھوٹی چھوٹی اور بے معنی چیزوں کے بارے میں سوچتے رہنا آپ کا سکون برباد کردیتا ہے اور آپ ہر وقت ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔

    اگر آپ بھی اس عادت کا شکار ہیں تو آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بہت زیادہ سوچنے کی عادت سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کر کے زندگی کے لمحات سے لطف اندوز ہوا جائے اور خوش رہا جائے۔

    مزید پڑھیں: منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    یہ آپ کی زندگی کا آخری سال ہے

    تصور کریں کہ سنہ 2019 آپ کی زندگی کا آخری سال ہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟ یقیناً آپ اپنی وہ خواہشات پوری کرنا چاہیں گے جو آپ کب سے دل میں دبائے بیٹھے ہیں اور آپ کے پاس لوگوں سے لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں ہوگا۔

    اس خیال کو سوچتے ہوئے اپنے پسندیدہ کام کریں، نئے دوست بنائیں، تفریحی مقامات پر جائیں، کتابیں پڑھیں، پرانے دوستوں سے رابطہ کریں، غرض ہر وہ کام کریں جو آپ اپنی زندگی میں کرنا چاہتے ہیں۔

    ان سرگرمیوں میں مصروف ہو کر آپ کے پاس سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور اس کے منفی پہلوؤں پر نظر رکھنے کا وقت کم ہوگا۔

    رسک لیں

    ہم اپنی زندگی میں بہت سے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے خوف یا ’لوگ کیا کہیں گے‘ کی وجہ سے انہیں نہیں کر پاتے۔ اس خوف کو نکال پھینکیں اور رسک لیں۔ وہ کام کریں جو پہلے کبھی نہیں کیے۔

    بالوں اور ڈریسنگ کا نیا انداز اپنائیں، نئے کھانے چکھیں، اسکوبا ڈائیونگ کریں۔ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھائیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کام ہی کیا جائے۔

    بائیک رائیڈنگ، سائیکلنگ، جمنگ، یوگا یا تیراکی وغیرہ بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کھانا پکانا سیکھنا چاہتے ہیں تو فارغ وقت میں یہ کام کریں۔ دراصل یہ تمام کام آپ کو مصروف رکھیں گے اور آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوگا کہ آپ باتوں کو بار بار سوچیں اور ان کے منفی مطالب نکالیں۔

    توقعات کو کم کریں

    لوگوں سے اپنی توقعات لگانا کم کردیں۔ آج کل کی مصروف زندگی میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کو خصوصی طور پر وقت دے۔

    خود بھی لوگوں کی ہر وقت مدد کرنا اور ان کے کام آنا چھوڑ دیں کیونکہ بدلے میں آپ بھی ان سے اسی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو آپ ذہنی دباؤ اور اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا اور سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیں۔ ہنسیں مسکرائیں، زندگی کے معمولی لمحات سے لطف اٹھائیں اور خوش باش رہیں۔

  • دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟

    دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا دماغ دن کے کس حصے میں تخلیقی کام اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا جسم اور دماغ ایک گھڑی کی مانند چلتا اور وقت بدلتا ہے۔

    ان کے مطابق ہمارا دماغ مختلف اوقات میں مختلف کیفیات کا حامل ہوتا ہے اور اس دوران وہ مختلف کام سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دوران ہماری کارکردگی کے معیار میں بھی فرق آجاتا ہے۔

    ایک ماہر کیمیائی حیات کے مطابق ہمارا دماغ اور جسم سب سے زیادہ چاک و چوبند اور فعال صبح کے اختتام پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کے وقت جب ہم صبح اٹھتے ہیں تو اس وقت سے لے کر اگلے چند گھنٹوں تک ہمارا دماغ نیند کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اس دوران ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا ہے اور ہمیں غنودگی محسوس ہوتی رہتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    بالآخر دن کے وسط سے ذرا قبل جسم کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل دوپہر کے کھانے تک جاری رہتا ہے۔

    دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں شوگر کی مقدار میں کمی اور انسولین کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ہمیں تھکن اور غنودگی کا احساس دلاتا ہے اور ہم کچھ دیر آرام کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

    بعد ازاں شام کے وقت ہمارا دماغ نئے سرے سے چاک و چوبند ہوتا ہے، گو کہ یہ فعالیت صبح جیسی نہیں ہوتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر ہمیں پرسکون، آرام دہ اور اپنی پسند کا ماحول میسر آسکے تو یہ وقت تخلیقی کام کے لیے موزوں ترین ہے۔

    مزید پڑھیں: تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے 5 راز

    ان کے مطابق شام کے وقت کسی پر فضا مقام، ساحل سمندر یا پارک میں وقت گزارنا، ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونا اور سبزے سے آنکھوں کو معطر کرنا تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرسکتا ہے۔

  • ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، تاہم ورزش کے دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس بارے میں ماہرین اب تک تذبذب کا شکار تھے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق نے ماہرین کی الجھن دور کردی جس میں پتہ چلا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    برطانوی دارالحکومت لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔

  • بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    آپ کے آس پاس بعض افراد ایسے ہوں گے جو بھوک کی حالت میں چڑچڑانے اور غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ شدید بھوکے ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے غصہ میں آجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر چڑچڑانے لگتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہو۔ آپ بھی بھوک کی حالت میں لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہر کرتے ہوں اور بعد میں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔

    اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجائیں کیونکہ ماہرین نے نہ صرف اس کی وجہ دریافت کرلی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ماہرین نے اس حالت کو بھوک کے ہنگر اور غصہ کے اینگر کو ملا کر ’ہینگری‘ کا نام دیا ہے۔

    اس کی وجہ کیا ہے؟

    ہماری غذا میں شامل کاربو ہائڈریٹس، پروٹین، چکنائی اور دیگر عناصر ہضم ہونے کے بعد گلوکوز، امائنو ایسڈ اور فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ اجزا خون میں شامل ہوجاتے ہیں جو دوران خون کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کی طرف جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے اعضا اور خلیات ان سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمیں کھانا کھائے بہت دیر ہوجاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بہت کم ہوجائے تو ایک خود کار طریقہ سے دماغ یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

    اس کے بعد دماغ تمام اعضا کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے ہارمونز پیدا کریں جن میں گلوکوز شامل ہو تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہو اور دماغ اپنا کام سرانجام دے سکے۔

    ان ہارمونز میں سے ایک اینڈرنلائن نامی ہارمون بھی شامل ہے۔ یہ ہارمون کسی بھی تناؤ یا پریشان کن صورتحال میں ہمارے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں شوگر کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا دماغ کے حکم کے بعد بڑی مقدار میں یہ ہارمون پیدا ہو کر خون میں شامل ہوجاتا ہے نتیجتاً ہماری کیفیت وہی ہوجاتی ہے جو کسی تناؤ والی صورتحال میں ہوتی ہے۔

    جب ہم بھوک کی حالت میں ہوتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجائے تو بعض دفعہ ہمیں معمولی چیزیں بھی بہت مشکل لگنے لگتی ہیں۔ ہمیں کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آتی ہے، ہم کام کے دوران غلطیاں کرتے ہیں۔

    اس حالت میں ہم سماجی رویوں میں بھی بد اخلاق ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود خوشگوار چیزوں اور گفتگو پر ہنس نہیں پاتے۔ ہم قریبی افراد پر چڑچڑانے لگتے ہیں اور بعد میں اس پر ازحد شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    یہ سب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور دماغ کے حکم کے بعد تناؤ والے ہارمون پیدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔

    حل کیا ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دفتر میں ہوں اور ہینگر کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہتے ہوں تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ آپ گلوکوز پیدا کرنے والی کوئی چیز کھائیں جیسے چاکلیٹ یا فرنچ فرائز۔

    لیکن چونکہ یہ اشیا آپ کو موٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں لہٰذا آپ کو مستقل ایک بھرپور اور متوازن غذائی چارٹ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کے جسم کی تمام غذائی ضروریات کو پورا کرے اور بھوک کی حالت میں آپ کو غصہ سے بچائے۔

  • نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    نیند کو عارضی موت بھی کہا جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد نیند میں باتیں کرتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں، لیکن جب وہ جاگتے ہیں تو انہیں ہرگز یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے نیند کے دوران کیا کیا۔

    آج ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا کیا غیر معمولی عوامل پیش آتے ہیں جنہیں جان کر آپ یقیناً حیران ہوجائیں گے۔

    مفلوج ہوجانا

    جب ہم گہری نیند میں ہوتے ہیں تو ہم تقریباً مفلوج ہوجاتے ہیں اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے۔ گو کہ نیند کے دوران ہمیں چلنے پھرنے کی ضروت نہیں ہوتی، لیکن اس کا تلخ تجربہ ان افراد کو ہوتا ہے جو نیند میں چلنے کی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد جب گہری نیند میں اٹھ کر چلنا شروع کرتے ہیں تو چند منٹ تک حرکت کرنے سے معذور ہوتے ہیں اور اس دوران ان کے گرنے اور چوٹ لگنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔

    آنکھوں کی تیز حرکت

    گہری نیند کے دوران بند پپوٹوں کے نیچے ہماری آنکھیں نہایت تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ یہ حرکت دراصل اس خواب پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے ہوتی ہے جو ہم نیند کے دوران دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

    جسم کی نشونما

    سونے کے دوران ہمارے جسم کی نشونما اور افزائش ہوتی ہے۔ اس دوران ہماری ہڈیاں، پٹھے، بال اور خلیات وغیرہ بڑھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سوتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے چاہئیں تاکہ جسم کو بڑھنے اور نشونما پانے میں کوئی دقت نہ ہو۔

    حلق بند ہونا

    ہمارے جاگنے کے دوران حلق کو کھلا رکھنے والے اعصاب دوران نیند سست پڑجاتے ہیں جس سے حلق سے ہوا کی آمد و رفت کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے۔ یہ عمل خراٹوں سمیت دیگر ناخوشگوار آوازوں کا سبب بنتا ہے۔

    دانت پیسنا

    بعض افراد جب نیند سے سو کر اٹھتے ہیں تو ان کے جبڑوں میں شدید درد ہوتا ہے او وہ سوجے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ نیند کی حالت میں دانت پیسنے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں جسے برکسزم کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ عمل ہر شخص کے ساتھ رونما نہیں ہوتا۔

    دماغ کی کہانیاں

    سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود نیند کے دوران آنے والے خواب تاحال ایک اسرار ہیں۔ تاہم ماہرین اس کی ایک سادہ سی توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ نیند کی حالت میں جب ہمارا دماغ پرسکون ہوتا ہے تب وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے۔

    ہمارا دماغ ہمارے اندر موجود مختلف معلومات، ماضی کی یادیں، حال میں گزرے ہوئے واقعات، مستقبل کے خوف اور لاشعور میں بیٹھی ہوئی باتیں، ان سب کو ملا کر ایک نئی کہانی تخلیق دے ڈالتا ہے جو خواب کی صورت ہمیں نظر آتی ہیں۔

    زور دار دھماکے کی آواز

    بعض افراد نیند کے دوران محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک زوردار دھماکے کیی آواز سنی ہے۔ اس آواز سے ان کی آنکھ کھل جاتی ہے اور جاگنے کے بعد وہ بے حد خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، ایسے موقعے پر حقیقی زندگی بالکل معمول کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ ایک قسم کا سنڈروم ہے جو جسمانی طور پر تو نقصان نہیں پہنچاتا البتہ نفسیاتی و دماغی طور پر بہت سی الجھنوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    دماغی آرام

    نیویارک کی روچسٹر یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جب ہم سوتے ہیں تو اس دوران ہمارا دماغ دن بھر میں جمع کی گئی معلومات کا جائزہ لیتا ہے۔ دماغ ان تمام معلومات میں سے بے مقصد معلومات کو ضائع کردیتا ہے۔

    اس طرح دراصل دماغ اپنے آپ کو چارج کرتا ہے تاکہ اگلے دن تازہ دم ہو کر آپ کے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرسکے۔

  • کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟ نوجوان کا آپریشن کے دوران ڈاکٹروں سے سوال

    کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟ نوجوان کا آپریشن کے دوران ڈاکٹروں سے سوال

    لندن : سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑی تعداد نے برطانوی نوجوان کیمرون رے کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا ہے جو ڈاکٹروں کے مطابق دماغ میں رسولی کے مسئلے سے دوچار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں کیمرون نامی نوجوان دوران آپریشن ڈاکٹروں سے مزاح کرتا رہا، برطانوی نشریاتی ادارے نے کیمرون کے دماغ کے آپریشن کے مناظر نشر کیے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران برطانوی نوجوان ہوش میں نظر آیا اور ایسی حالت میں جب ڈاکٹرز دورانِ آپریشن کیمرون کے سر میں بائیں جانب موجود رسولی کو نکالنے میں مصروف تھے، نوجوان نے ازراہ مذاق یہ سوال پوچھ کر ڈاکٹروں کو حیران کر دیا کہ کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نوجوان نے کچھ لمحے بعد پھر کہا کہ میں بھول گیا تھا کہ میرا آپریشن ہو رہا ہے، یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا حساس اور نازک ترین آپریشن ہوتا ہے۔

    کیمرون کے دماغ کا آپریشن کرنے والے نیورو سرجن ڈاکٹر اسماعیل اوگریٹڈیر کے مطابق آپریشن کے دوران سرجن اگر ایک ملی میٹر بھی دائیں یا بائیں ہل جائے تو اس کا نتیجہ دماغ کے دائمی نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

    ڈاکٹر اسماعیل نے بتایا کہ آپریشن کے درمیان ایک موقع پر ہم نے کیمرون کو آنسوﺅں میں ڈوبا ہوا پایا کیوں کہ اس وقت وہ ایک لفظ فٹبال کو یاد کرنے پر بھی قادر نہیں رہا تھا۔

    یاد رہے کہ آپریشن کامیاب ہونے اور دماغ سے 95% رسولی نکال پھینکنے کے باوجود کیمرون کے دماغ کا سرطان ناقابل علاج شمار کیا جاتا ہے۔