Tag: دماغ

  • ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    آج کل کے دور میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    تاہم اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ اسے کام کی زیادتی یا حالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

    اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی عام اور ابتدائی علامات

    اس مرض کی ایک علامت اداسی ہے تاہم اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور یہ صرف ایک ابتدائی علامت ہے۔

    آج ہم آپ کو ڈپریشن کی کچھ غیر معمولی علامات بتا رہے ہیں۔ یہ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ڈپریشن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اب یہ وہ وقت ہے کہ مریض کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروی ہے۔

    اگر آپ اپنے یا اپنے آس پاس موجود افراد میں سے کسی کے اندر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے۔


    پشیمانی یا شرمندگی کا احساس

    3

    ڈپریشن کا شکار افراد شدید پشیمانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہر برے کام کے لیے اپنے آپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

    یہ عمل انفردای شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر کافی عرصے تک احساس کمتری اور بلا وجہ کی پشیمانی کا شکار رہتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔


    منفی سوچ

    4

    ڈپریشن کے مریض ہر بات میں منفی پہلو دیکھنے اور اس کے بارے میں منفی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد خوشی کے مواقعوں پر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال کر سب کو ناخوش کردیتے ہیں۔


    تھکاوٹ

    5

    ڈپریشن کے شکنجے میں جکڑے افراد ہر وقت تھکن اور غنودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں، منفی سوچتے ہیں اور منفی نتائج اخذ کرتے ہیں۔

    یہ عمل انہیں دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور وہ ہر وقت غنودگی محسوس کرتے ہیں۔


    عدم دلچسپی

    6

    اس مرض کا شکار افراد ہر چیز سے غیر دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک انہیں نہایت پرجوش کردینے والی چیزیں بھی ان کے لیے کشش کھو دیتی ہیں اور انہیں کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔

    ان کا عمومی رویہ بظاہر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لگتا ہے کیونکہ وہ کسی کام کو کرنے میں دلچسپی محسوس نہیں کر پاتے۔


    قوت فیصلہ میں کمی

    7

    ڈپریشن کی ایک اور علامت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہونا بھی ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے کسی بھی شے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ان کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ ہو، یا پھر روز یہ فیصلہ کرنا کہ آج چائے پی جائے یا کافی۔

    ایسے افراد بعض دفعہ کوئی فیصلہ کر بھی لیں تو وہ انہیں غلط محسوس ہوتا ہے اور کوئی مشکل وقت آنے سے قبل ہی وہ پچھتاووں کا شکار ہوجاتے ہیں۔


    جذبات میں تغیر

    1

    ڈپریشن کے شکار افراد کے جذبات اور موڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچانک بہت زیادہ غصہ یا چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کبھی نہایت خوش اخلاق اور مددگار بن جاتے ہیں۔

    ان کے جذبات کا یہ تغیر ان کے رشتوں اور دیگر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔


    خودکش خیالات

    2

    خودکشی اور موت کے بارے میں سوچنا کوئی عام عادت نہیں بلکہ ذہنی انتشار کی علامت ہے اور فوری طور پر علاج کی متقاضی ہے۔

    ایسے خیالات اس وقت آتے ہیں جب کوئی شخص زندگی سے بالکل مایوس اور نا امید ہوجائے اور اسے لگے کہ اب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون بھی لازمی درکار ہے۔


    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے یہ ورزشیں کریں

    دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے یہ ورزشیں کریں

    آپ نے دماغ کو زنگ لگنے کا محاورہ سنا ہے؟

    یہ بات کئی بار تحقیق سے ثابت کی جاچکی ہے کہ دماغ کو جتنا زیادہ فعال رکھا جائے اتنا ہی زیادہ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دماغ کو کم استعمال کیا جائے تو آہستہ آہستہ اس کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے اور ہماری ذہانت میں فرق آنے لگتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کئی دماغی بیماریوں جیسے ڈیمینشیا، الزائمر اور خرابی یادداشت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوائل عمری ہی سے دماغی مشقیں اپنا کر ان بیماریوں سے کسی حد تک حفاظت ممکن ہے۔

    دراصل دماغ ایک ہی چیزوں اور ایک ہی معمول سے ’بور‘ ہوجاتا ہے لہٰذا اس کی ’کام میں دلچسپی‘ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے نئی نئی چیزوں سے روشناس کروایا جائے۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ماہرین دماغ کو فعال اور سرگرم رکھنے کے لیے کچھ ورزشیں بتاتے ہیں جو آپ بغیر کسی محنت کے دن کے کسی بھی حصہ میں کر سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ ورزشیں کیا ہیں۔


    دماغی حساب

    11

    جب بھی پیسوں یا اعداد و شمار کا حساب کرنا ہو تو کاغذ قلم یا کیلکولیٹر کے بجائے زبانی حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ فعال ہوگا۔


    نئی زبان سیکھیں

    2

    نئی زبان سیکھنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔ نئے نئے الفاظ، ان کے مطلب اور تلفظ سننا، بولنا اور سمجھنا آپ کے دماغ کی سستی کو دور کردے گا اور آپ اپنی ذہانت میں اضافہ محسوس کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دو زبانیں بولنے والوں کا دماغ زیادہ فعال


    غیر بالادست ہاتھ کا استعمال

    3

    اگر آپ سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی تو اپنے الٹے، اور الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی ہیں تو دن میں کچھ کام سیدھے ہاتھ سے ضرور نمٹائیں۔ یہ جسمانی طور پر مشکل کام ہوسکتا ہے مگر دماغ کے لیے یہ ایک بہترین مشق ہے۔

    ہم جو ہاتھ استعمال کرتے ہیں ہمارے دماغ کا وہی حصہ زیادہ فعال ہوتا ہے۔ دوسری طرف کے حصہ کو فعال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس طرف کے ہاتھ کو حرکت دی جائے۔ ماہرین اس کے لیے بہترین ورزش غیر بالا دست ہاتھ سے دانت برش کرنا بتاتے ہیں۔


    مختلف طریقہ سے مطالعہ

    9

    جب بھی مطالعہ کریں مختلف طریقے اپنائیں۔ کبھی باآواز بلند، کبھی ہلکی آواز میں پڑھیں۔ کبھی صرف دل میں پڑھیں۔ کبھی کسی دوست سے کہیں کہ وہ آپ کو پڑھ کر سنائے۔


    خوشبویات سونگھیں

    6

    خوشبو سونگھنا بھی دماغی خلیات کو فعال کرتا ہے۔ اپنے بستر کے قریب کوئی خوشبو رکھیں اور صبح اٹھنے کے بعد اسے سونگھیں۔ اسی طرح اپنے بیگ میں، آفس کی ڈیسک پر بھی خوشبویات رکھیں اور دن بھر مختلف کاموں کے دوران اسے سونگھتے رہیں۔


    صبح کی روٹین بدلیں

    4

    صبح کی ایک ہی روٹین کو لمبے عرصہ تک چلانے کے بجائے تھوڑ ے تھوڑے دن بعد اس میں کچھ تبدیلی لائیں۔

    مثلاً کسی دن ناشتہ کرنے کے بعد تیار ہوں، کسی دن چائے کی جگہ کافی کا استعمال کریں، کسی دن صبح خبریں دیکھنے کے بجائے کوئی ٹی وی شو (سرسری سا) دیکھ لیں۔ یہ سارے کام آپ کے دماغ کو سرگرم کرکے اسے فعال کریں گے۔


    کھانے کے لیے جگہ کی تبدیلی

    5

    ہر روز ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے جگہ تبدیل کریں۔ ڈائننگ ٹیبل پر کرسی بھی تبدیل کریں۔

    کسی دن اگر آپ کھانے کے قریب بیٹھے ہیں اور ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے تو کسی دن کھانے سے دور بیٹھیں۔ کھانے کی اشیا، نمک، چینی وغیرہ لینے میں دقت آپ کے دماغ کو چست کردے گی۔


    نئی چیزیں دیکھیں

    7

    سفر کے دوران گاڑی کے شیشہ بند رکھنے کے بجائے کھلے رکھیں اور باہر ہونے والے کاموں، آوازوں اور خوشبوؤں کا تجربہ کریں۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد


    سپر مارکیٹ میں جائیں

    8

    سپر مارکیٹ میں بے شمار ورائٹی موجود ہوتی ہے۔ جب بھی سپر مارکیٹ جائیں کسی شیلف کے قریب رک کر اوپر سے نیچے تک دیکھیں۔ آپ ایک ہی شے کو مختلف ڈبوں اور پیکنگ میں بند دیکھیں گے۔ اس میں جو چیز آپ کے لیے اجنبی ہو اسے اٹھائیں اور اس کے اجزا پڑھیں۔

    یہ کچھ نیا سیکھنے جیسا ہوگا اور آپ کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔


    کچھ نیا کھائیں

    10

    اپنی ذائقہ کی حس کو فعال کریں اور نئی نئی چیزیں کھانے یا چکھنے کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ روٹین کے کھانے کھانا دماغ کو سست کردیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پھلوں کا استعمال بہتر دماغی نشونما میں معاون

    پھلوں کا استعمال بہتر دماغی نشونما میں معاون

    اگر آپ دو کھانوں کے درمیان کے وقفے میں مختلف اسنیکس اور غیر صحت مند اشیا سے اپنا دل بہلاتے ہیں، تو انہیں چھوڑ کر پھل کھانا شروع کردیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں کا استعمال دماغ کی نشونما میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    نیویارک یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق پھلوں کا باقاعدہ استعمال دماغ کو بڑا کر دیتا ہے۔ دماغ کا حجم بڑا ہونے کا مطلب اس کی کارکردگی اور ذہانت میں اضافہ ہے۔

    fruits-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ایک اور تحقیق کے نتائج کے بعد کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ وہ جانور جو پھل کھاتے تھے ان کا دماغ ان جانوروں سے ایک تہائی فیصد بڑا تھا جو گوشت خور تھے یا پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں میں دیگر خوراک کی نسبت زیادہ توانائی موجود ہوتی ہے جو دماغی نشونما کو بہتر کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: پھلوں کا استعمال امراض قلب سے بچاؤ میں مفید

    تحقیق میں شامل پروفیسر ایلکس کا کہنا ہے، ’ہمارا دماغ ایک مہنگا عضو ہے۔ یہ ہمارے جسم کے کل وزن کا صرف 2 فیصد وزن کا حامل ہے، لیکن یہ ہمارے جسم کی 25 فیصد توانائی استعمال کرتا ہے‘۔

    fruits-3

    اس سے قبل کی جانے والی ایک اور تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ پھل کھانا صرف طبی اور جسمانی طور پر ہی فائدہ مند نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بہتری کا سبب بن سکتا ہے۔

    باقاعدگی سے پھلوں کا استعمال ہمارے اندر مسرت اور خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے جبکہ ہمیں جذباتی اور نفسیاتی طور پر مستحکم بھی بناتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دماغی طور پر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی عادات و رویوں کے عادی ہوتے ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری دماغی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ان عادات و رویوں سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی عوامل جیسے کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آئیے ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ان سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔


    ڈپریشن

    2

    مستقل ڈپریشن کا شکار رہنا آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔

    ایک طویل عرصے تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بالآخر اسی کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے


    تنقید کا نشانہ بننا

    11

    آپ نے اب تک اسکول بلنگ کا نام سنا ہوگا جس میں کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے نتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کی جگہوں پر بھی لوگ بلنگ یا تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں بلنگ کا نشانہ بننا دماغی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس کے اثرات سے نجات کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔


    کاموں کو ٹالنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ناکامی کے خوف یا سستی کے باعث اسے ٹال دیتے ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    یاد رکھیں پہلا قدم اٹھانے کا مطلب کسی کام کو نصف پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ جب آپ کام شروع کریں گے تو خود اسے مکمل کرنا چاہیں گے۔


    ناپسندیدہ رشتے

    ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشروں یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچوں کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور ہوجانا ہی بہتر ہے۔


    لوگوں میں گھرے رہنا

    5

    محبت کرنے والے دوست، احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

    تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغ کو خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد


    جھک کر چلنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں اور کاندھوں کو جھکا کر بیٹھتے ہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔


    ہر چیز کی تصویر کھینچنا

    7

    معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔

    ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیا کہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔


    زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا

    8

    زندگی مسائل، دکھوں، پریشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشیوں کانام ہے۔

    یہ سوچنا احمقانہ بات ہے کہ کسی کی زندگی میں مصائب یا دکھ نہ ہوں۔ انہیں سنجیدگی سے لے کر ان پر افسردہ اور ڈپریس ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ان کا حل سوچنا چاہیئے۔


    ورزش نہ کرنا

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ویک اینڈ پر ورزش کرنا زیادہ فوائد کا باعث


    ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

    9

    ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔

    یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریاں


    بیک وقت کئی کام کرنا

    10

    ماہرین کی نظر میں ملٹی ٹاسکنگ ایک اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

    اس کے برعکس ایک وقت میں ایک ہی کام پوری یکسوئی اور دلجمعی سے کیا جائے۔ ملٹی ٹاسکنگ دماغی خیالات کو منتشر کر کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    دماغی امراض کی آگاہی کے لیے برٹش کونسل کے زیر اہتمام پروگرام

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برٹش کونسل کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں دماغی امراض کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی۔

    یہ پروگرام برٹش کونسل اور ایک مقامی اسکول کے تعاون سے منعقد کیا گیا جس میں ہر عمر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ذہنی الجھنوں کا شکار افراد کو مدد کی ضرورت

    پروگرام میں ماہرین دماغی امراض نے شرکت کی اور شرکا کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں، ان کی علامات اور علاج کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

    اس دوران شرکا سے مختلف سرگرمیوں جیسے مراقبے اور آرٹ تھراپی میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا جس کے بعد کئی افراد نے خود کو لاحق ذہنی مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔

    خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی امراض کی اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    ہماری زندگی کے مصروف ترین معمولات ہمارے دماغ کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں اور ہم ذہنی طور پر تھکاوٹ محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    بہت سے کام، گھر اور باہر کی بہت سی ذمہ داریاں، اہل خانہ کی ضروریات کو یاد رکھنا اور انہیں پورا کرنا، اس کے ساتھ ساتھ اسمارٹ فونز میں سوشل میڈیا کا استعمال اور ان کے ذریعے دوستوں سے جڑے رہنا، یہ سب ہمارے دماغ پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے جس سے ہمارے دماغ کی کارکردگی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی عمر، طویل عرصے تک یکساں معمولات سر انجام دینا اور ان میں کوئی تبدیلی نہ کرنا بھی دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: بند دماغ کو کھولیں

    ایسی صورتحال میں ہم معمولی معمولی چیزیں بھولنے لگتے ہیں۔ ہم بہترین دماغی کارکردگی کا مظاہر نہیں کر پاتے اور بعض اوقات ہمیں سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے میں بھی مشکل پیش آرہی ہوتی ہے۔

    تاہم اس صورتحال کو مخصوص ورزشوں اور غذاؤں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہاں آپ کو کچھ ایسی غذائیں بتائی جارہی ہیں جو آپ کی دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔


    مچھلی

    دماغ کے لیے سب سے بہترین غذا مچھلی ہے۔ ہفتے میں 2 بار مچھلی کھانا آپ کی جسمانی و دماغی صحت کے لیے بہترین ہے۔


    خشک میوہ جات

    خشک میوہ جات بھی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں لہٰذا ان کا معمولی مقدار میں استعمال کیا جائے البتہ روزانہ استعمال ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں: روزانہ خشک میوہ جات کا استعمال بے شمار بیماریوں سے بچائے


    چاکلیٹ

    چاکلیٹ کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ دماغی صلاحیت کو بڑھانا بھی ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ ناشتے میں یا دن کے آغاز میں چاکلیٹ کھانا دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتا ہے اور آپ اپنا کام بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔

    لیکن بہت زیادہ چاکلیٹ موٹاپے کا سبب بھی بن سکتی ہے لہٰذا اسے صرف صبح کے وقت اور تھوڑی مقدار میں کھایا جائے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت کھائی جانے والی غذا جسم کے بجائے دماغ کو توانائی پہنچاتی ہیں اور جزو بدن ہو کر موٹاپے کا سبب نہیں بنتی۔

    مزید پڑھیں: چاکلیٹ کے فوائد


    بیریز

    مختلف اقسام کی بیریز جیسے بلو بیریز، بلیک بیریز، اسٹرابیریز میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور مختلف امور پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔


    ناشتہ نہ چھوڑیں

    دماغ کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے ناشتہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ناشتہ چھوڑ دینا اور طویل عرصہ تک اس معمول پر کاربند رہنا دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ 8 گھنٹے کی نیند کے بعد ہمارا دماغ سست ہوجاتا ہے اور اسے فوری طور پر توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں غذائیت سے بھرپور ناشتہ ہمارے دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے اور ہم ذہنی طور پر بہت فعال ہوجاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ناشتہ وزن میں کمی کا سبب بھی بنتا ہے کیونکہ ناشتہ کرنے کے بعد ہم دن بھر ایک معمول کے مطابق کھاتے پیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناشتہ دماغ کو چاک و چوبند رکھنے کے لیے ضروری


    متوازن غذا

    ان غذاؤں کے علاوہ روزانہ متوازن غذا کا استعمال کریں۔ دودھ، دہی، انڈے، سبزیوں، گوشت اور پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ جنک فوڈ اور باہر کے کھانوں سے پرہیز کریں۔ متوازن غذا جسمانی و ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔

    دماغی صحت کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیاہ کافی کے حیرت انگیز فوائد

    سیاہ کافی کے حیرت انگیز فوائد

    سردیوں کا موسم ہے اور ایسے موسم میں گرم مشروبات کی طلب بے حد بڑھ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ افراد جو عام دنوں میں چائے کافی پینا پسند نہیں کرتے وہ بھی اس موسم میں چائے یا کافی سے حرارت حاصل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

    کچھ افرد سیاہ کافی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ بغیر چینی کی تلخ کافی پینے میں تو مشکل لگتی ہے لیکن درحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ بھی ہر روز سیاہ کافی پینا چاہیں گے۔


    جگر کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ جانتے ہیں کسی بھی مشروب سے زیادہ کافی جگر کے لیے فائدہ مند ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ 3 سے 4 کپ کافی پینے والے افراد میں جگر کے مختلف امراض کا خطرہ 80 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ ان میں جگر کا کینسر ہونے کے امکانات بھی بے حد کم ہوجاتے ہیں۔


    دماغی امراض میں کمی

    سیاہ کافی آپ کے دماغ میں ڈوپامائن نامی مادے کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ مادہ آپ کے دماغ کو جسم کے مختلف حصوں تک سنگلز بھجنے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔

    ڈوپامائن میں اضافے سے آپ پارکنسن جیسی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ اس بیماری کا شکار افراد کے اعصاب سست ہونے لگتے ہیں اور ان کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور ہاتھوں میں تھرتھراہٹ ہونے لگتی ہے۔

    یہی نہیں ڈوپامائن کی زیادتی اور دماغی خلیات کا متحرک ہونا آپ کو بڑھاپے کے مختلف دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا سے بچا سکتا ہے۔


    کینسر کا امکان گھٹائے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ 3 سے 4 کپ کافی پینے والے افراد میں مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ کافی جگر کے کینسر سمیت آنت اور جلد کے کینسر کے خطرات میں بھی کمی کرتی ہے۔


    ڈپریشن سے نجات

    طبی ماہرین کافی کو پلیژر کیمیکل یعنی خوشی فراہم کرنے والا مادہ کہتے ہیں۔ چونکہ کافی آپ کے دماغی خلیات کو متحرک اور ڈوپامائن میں اضافہ کرتی ہے لہٰذا آپ کے دماغ سے منفی جذبات پیدا کرنے والے عناصر کم ہوتے ہیں اور آپ کے ڈپریشن اور ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔


    ذہانت میں اضافہ

    کافی میں موجود کیفین آپ کے نظام ہضم سے خون میں شامل ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ آپ کے دماغ میں پہنچتی ہے۔

    وہاں پہنچ کر یہ آپ کے دماغ کے تمام خلیات کو متحرک کرتی ہے نتیجتاً آپ کے موڈ میں تبدیلی آتی ہے اور آپ کی توانائی، ذہنی کارکردگی اور دماغی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔


    امراض قلب میں کمی

    ایک تحقیق کے مطابق دن میں 2 سے 3 کپ کافی پینا دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنے کے برابر ہے۔ یہ فالج اور امراض قلب کے خطرے میں بھی کمی کرتی ہے۔


    ذیابیطس کا خطرہ گھٹائے

    سیاہ کافی آپ میں ذیابیطس کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی کافی میں کریم اور چینی ملائیں گے تو یہ بے اثر ہوجائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انسانی جسم حیران کن صلاحیتوں کا مجموعہ

    انسانی جسم حیران کن صلاحیتوں کا مجموعہ

    انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے۔ یہ اپنے دماغ اور جسم کو ایسے ایسے طریقوں سے استعمال کرسکتا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔

    ایک عام انسان زندگی بھر میں اپنے دماغ کا صرف 1 یا 2 فیصد حصہ استعمال کرتا ہے۔ جن افراد کا شمار ذہین ترین افراد میں ہوتا ہے ان کے دماغ کے صرف 8 سے 10 فیصد سے زائد خلیات متحرک ہوتے ہیں جس کی بنا پر وہ سائنس دان بنتے ہیں یا نئی دریافتیں کرتے ہیں۔

    دنیا میں آج تک کوئی بھی شخص اپنے دماغ کا 100 فیصد حصہ استعمال نہیں کرسکا۔ معروف سائنس دان آئن اسٹائن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے دماغ کے 13 فیصد خلیات متحرک تھے۔

    بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دماغ بہت کم عمری میں اس قدر کام کرنے لگتا ہے کہ ان کا جسم ان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور وہ شخص موت کا شکار ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے ورزشیں

    ایسی ہی ایک مثال فخر پاکستان ارفع کریم کی بھی ہے جس نے صرف 9 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

    کہا جاتا ہے کہ اس کا دماغ اس قدر تیز رفتار اور متحرک تھا کہ اس کا ننھا جسم دماغ کے اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پایا اور صرف 17 سال کی عمر میں ارفع دل کے اچانک دورہ پڑنے کے بعد دنیا سے ناتا توڑ بیٹھی۔

    اسی طرح ہمارا جسم بھی ہمارے دماغ کے تابع ہے۔ کیا آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے بیک وقت کام کرسکتے ہیں؟ یا پھر ہمالیہ کے پہاڑوں میں بغیر لباس کے مراقبہ کرسکتے ہیں؟

    یقیناً نہیں کرسکتے لیکن دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والا انسان جسمانی طاقت و ہمت کے ایسے ایسے مظاہرے کر سکتا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔

    زیر نظر ویڈیو میں دیکھیں کہ انسان کیا کیا کر سکتا ہے۔

    بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ صوفیا اور اور اولیا کے خدا سے قریبی رابطے کے باعث ان کے دماغی خلیات اس قدر متحرک ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنی دل کی دھڑکن کو روک سکتے ہیں۔ دل کی دھڑکن رک جانے کا مطلب سمجھتے ہیں؟ کلینکل موت واقع ہوجانا یعنی اب آپ زندہ نہیں رہے۔

    لیکن ان اولیا پر خدا کی خاص رحمت ہوتی ہیں کہ ان کی پوشیدہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اور وہ اپنے دل کی دھڑکن کو دوبارہ بحال کرسکتے ہیں، اسے کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔

    اسی طرح بعض افراد ماحول کے مطابق اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم یا زیادہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    گویا انسان چاہے تو کیا کچھ نہیں کرسکتا، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنی ان پوشیدہ دماغی و جسمانی صلاحیتوں کو جگائے جس کے لیے کسی استاد کا ہونا ضروری ہو۔

    ذہنی یا جسمانی طور پر طاقتور بننے کے لیے کسی تجربہ کار استاد کی رہنمائی از حد ضروری ہے ورنہ بغیر کسی مشورے کے کیا جانے والا کوئی بھی کام الٹا آپ کے گلے میں پڑسکتا ہے اور آپ کو ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار بھی بنا سکتا ہے۔

    یاد رکھیں اپنے جسم کی پوشیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آپ کا دماغ یا جسم کس حد تک کتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے جس کا اندازہ اس میدان کا ماہر کوئی استاد ہی بتا سکتا ہے۔

    بعض افراد جسم کو بھاری بھرکم بنانے کے لیے بغیر کسی رہنمائی کے اچانک بے تحاشہ ورزشیں یا مشکل کام کرنا شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ معذور ہو سکتے ہیں، کوما میں جاسکتے ہیں، اور ہلاک بھی ہوسکتے ہیں۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔

  • کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    آج دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی رویوں کے حامل ہیں اور انہیں عموماً نفسیاتی یا پاگل کہا جاتا ہے، تاہم نفسیاتی یا پاگل سمجھ یا کہہ کر جان چھڑا لینا اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترداف ہے۔

    ذہنی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جبکہ سنہ 2020 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا مرض بن جائے گا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض ہیں کیا، یہ کس حد تک ہمارے معاشرے کو متاثر کر چکے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں پائے جانے والے 5 عام ذہنی امراض

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں ماہرین نفسیات و دماغی امراض سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دماغی امراض کی شرح کیا ہے اور کون سے افراد ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی میں فرق

    معروف اسپتال برائے نفسیاتی امراض کاروان حیات سے منسلک ڈاکٹر سلیم احمد نے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کی۔ ان کے مطابق ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی، جسے ہم ذہنی معذوری بھی کہتے ہیں، میں فرق ہے۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی پیدائشی ہے اور اس کا دارو مدار بچے یا والدین کی جینز پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ بچے پیدا ہی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ والدین کا بلڈ گروپ بھی ہوتا ہے جو ملاپ کے بعد جب نئی زندگی وجود میں لاتا ہے تو وہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح بعض دفعہ بچہ پیدا ہونے کے کافی دیر بعد روتا ہے، 5 سے 7 منٹ تک سانس نہیں لے پاتا یا نیلا پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کیونکہ دماغ کو فوری طور پر آکسیجن نہیں ملتی۔

    ایسے بچے عمر بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق ایسی معذوری کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ بہت شدید طور پر ذہنی معذوری، جس میں بچے کو کچھ بھی سکھانا ناممکن ہو، ایسے بچے عموماً زیادہ نہیں جی پاتے اور جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

    درمیانی یا کم شدت کے ذہنی معذور بچوں کے لیے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی طور پر اسپیشل ایجوکیشن دی جاتی ہے جہاں ان کے ذہن کی حد تک ان کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ پیدائشی ذہنی معذور بچوں میں مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ عام بچوں کے مقابلے میں اپنی افزائش کا عمل دیر سے شروع کرتے ہیں۔

    جیسے 8 سے 9 ماہ کی عمر کے بچے کا بیٹھنا، 16 یا 18 ماہ کی عمر کے بچے کا بولنا شروع کرنا، 1 سال کی عمر سے قبل قدم اٹھانا شروع کردینا وغیرہ معمول کا عمل ہے تاہم اگر اس عمل میں تاخیر ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچوں میں ذہنی پسماندگی یا معذوری کی ایک مثال ڈاؤن سنڈروم کا مرض ہے جو تا عمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں جانیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    دماغی امراض کیا ہیں؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق دماغی امراض کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سائیکوٹک سنڈروم اور دوسرا نیوروٹک سنڈرمز۔

    سائیکوٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق سائیکوٹک سنڈروم میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کا بچپن نارمل گزرا ہو لیکن اوائل نوجوانی میں ان کے ساتھ نفسیاتی مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں۔

    مثال کے طور پر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے جذبات میں تبدیلی اور اس کی وجہ سے غصہ، ڈپریشن یا کسی قسم کے خوف کا بڑھ جانا۔ اگر کوئی شخص حساس ہے تو اس عمر میں وہ حد سے زیادہ حساس ہوگا اور معمولی باتوں کو بھی ذہن پر سوار کرلے گا۔

    اس درجہ بندی کے مریضوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

    سائیکوٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    الزائمر

    ڈیمینشیا

    شیزو فرینیا

    مندرجہ بالا 2 امراض میں مبتلا افراد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً 50 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا اور کیوں کرنے جارہا ہے۔

    اسی طرح شیزو فرینیا بھی مختلف توہمات و خیالات کے ذہن میں بیٹھ جانے یا اپنے آپ کو کوئی دوسری شخصیت سمجھنے کی بیماری ہے اور اس میں بھی مریض تقریباً اپنے مرض سے بے خبر اور ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق نیوروٹک سنڈروم وہ ذہنی امراض ہیں جن میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    اینگزائٹی ۔ بے چینی کا مرض

    پینک ڈس آرڈر ۔ شدید گھبراہٹ، اداسی، رقت طاری ہوجانا

    اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر ۔ اس مرض میں مریض کوئی کام بار بار سرانجام دیتا ہے یا جنون کی حد تک نفاست پسند ہوجاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مرض کا شکار ہیں۔

    فوبیا ۔ کسی جانور، چوہے یا بلی سے خوف آنا

    اونچائی کا خوف

    بند جگہوں کا خوف

    اس نوعیت کے امراض میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے لیکن وہ اس کے آگے بے بس ہوتا ہے اور خود کو لاشعوری طور پر نقصان دہ کام کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایک عام مرض بن چکا ہے جو اب اس مرحلے پر آگیا ہے کہ اس کا شکار افراد کو باقاعدہ ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق ہر وہ شے جو آپ کی دماغی کارکردگی کو متاثر کرے، ڈپریشن کہلاتی ہے۔

    مثال کے طور پر آپ کی کسی سے نوک جھونک ہوگئی اور آپ کا موڈ خراب ہوگیا، تو یہ بھی ڈپریشن کی ایک قسم ہے تاہم یہ عارضی ہوتی ہے اور مذکورہ شخص کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے پر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

    اسی طرح آپ کسی سے برے رویے یا دھوکے کی امید نہ رکھتے ہوں، لیکن اس شخص کا رویہ آپ کو غیر متوقع طور پر دکھ پہنچائے تو یہ بھی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر چند دن، یا چند ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ ڈپریشن میں دراصل بیرونی عوامل زیادہ کار فرما ہوتے ہیں جو ہر شخص پر الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2 افراد ایک جیسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی ڈپریشن کی مختلف اقسام (کم یا شدید) میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ڈپریشن سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    کیا اذیت پسندی بھی ذہنی مرض ہے؟

    بعض افراد خود کو یا دوسروں کو اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسا نہ صرف جنسی تعلقات میں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مواقعوں پر بھی ایسے افراد اذیت پسندی سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ بھی کسی ذہنی مرض کی علامت ہے؟

    ضیا الدین یونیورسٹی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمیہہ علیم اس بارے میں بتاتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرنا سیڈ ازم کہلاتا ہے جبکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا کسی دوسرے کے ذریعے خود کو تکالیف دلوانا میکوس ازم کہلاتا ہے۔

    اس علامت کے حامل افراد لازماً کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ’یہ دونوں اصطلاحیں صرف جنسی عمل سے منسلک نہیں ہیں، عام زندگی میں بھی ان افراد کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق اگر یہ اپنے لیے، کسی دوسرے کے لیے یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے نقصان دہ، متشدد اور جان لیوا ثابت ہونے لگے تو پھر یہ خطرناک بن جاتا ہے جس کا علاج ضروری ہے۔

    آپ خصوصاً مغرب میں پائے جانے والے ایسے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے جو کسی کو قتل کرنے سے قبل اسے مخصوص تکلیف پہنچاتے تھے۔

    اس مرض کا آغاز بھی بچپن سے ہوتا ہے اور جب یہ مرض بڑھ جائے تو مریض اپنے لاشعور میں دبی کسی شے کی وجہ سے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔

    جیسے بچپن میں ماں کا برا رویہ سہنے والا شخص عورتوں کو قتل یا نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ کسی مخصوص رویے یا رنگ سے اس کی کوئی ناخوشگوار یاد منسوب ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی وہ اشتعال میں آجاتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے افراد بچپن میں بے ضرر اشیا یا اپنے سے کمزور افراد کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ مرض نشونما پانے لگتا ہے۔

    بعض افراد اداسی یا غم کو بھی اپنے اوپر سوار کرلیتے ہیں اور خوش نہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور ایسی طبیعت کے افراد منفی سوچ اور مضمحل طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔

    شخصیت کے مختلف پہلو بھی ذہنی امراض کی علامت

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق شخصیت کے بعض مختلف پہلو جب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بھی ذہنی امراض کی علامت ہوتے ہیں جنہیں پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    جیسے کسی کی شخصیت حاکمانہ ہے اور وہ سب پر اپنا حکم چلانے کا عادی ہے تو یہ اس کی شخصیت کا پہلو ہے۔ لیکن اگر یہی پہلو اس کے ارد گرد موجود افراد کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے لگے تو یہ ڈس آرڈر کہلائے گا جس کا علاج ضروری ہے۔

    ظلم و زیادتی کو برداشت کرنا بھی ذہنی مرض؟

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے کہ لڑکیوں کا شادیاں ان کی پسند اور رضا مندی کے بغیر کردی جاتی ہیں، گو کہ یہ ظلم ہے تاہم ثقافتی اور سماجی طور پر لوگ اس ظلم کو سہنے کے عادی ہیں۔

    مذہبی یا ثقافتی رسوم و رواج کو نہ چاہتے ہوہے قبول کرلینا اطاعت گزاری یا فرمانبرداری کا نام ہے جس کے پیچھے معاشرتی، خاندانی و سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

    تاہم اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دباؤ سے بالکل آزاد ہو، تب بھی وہ ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا پسند کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ لوگ اسے تکلیف پہنچائیں، شخصیت کے اس پہلو کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

    اس بارے میں ڈاکٹر سمیہہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بچپن میں پیش آنے والے حالات و ماحول سے ہے جو لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

    بظاہر آپ کے سامنے ایک خود انحصار اور پر اعتماد شخص موجود ہوگا، لیکن اگر سب کے سامنے اس کا اچھے الفاظ میں بھی تذکرہ کیا جائے تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔

    ایسے شخص کو کسی ادارے میں کسی شعبے کا سربراہ بنانے پر غور کیا جائے تو وہ شخص ڈر جاتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکے گا، یا لوگ اسے اس روپ میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہیں ہوتیں اور یہ پس منظر میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: احساس کمتری سے نجات حاصل کریں

    دراصل ایسے افراد کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو مظلوم بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو نہ صرف انہیں قبول کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت بھی کی جائے گی۔ ایسے لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں بے شمار خوف و توہمات موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق یہ بھی شخصیت کا ایک پہلو ہے، تاہم منفی پہلو ہے۔

    ذہنی امراض کا علاج کیا ہے؟

    کراچی نفسیاتی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر روحی افروز کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی کا تو کوئی علاج نہیں۔ اس میں مریض کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور مختلف تربیتی سیشنز کے ذریعے ذہنی معذور افراد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    البتہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے علاج کا انحصار ان کے مرض کی شدت پر ہوتا ہے کہ اسے کس نوعیت کی دواؤں یا تھراپی سے کنٹرول کیا جاسکے۔

    کراچی نفسیاتی اسپتال ڈاکٹر سید مبین اختر کا قائم کیا ہوا ہے جہاں پاکستان میں ہی بننے والی دواؤں سے ذہنی امراض کا نہایت مؤثر علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر سمیہہ کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کو تھراپی کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی لیے ضروری ہے کہ مریض خود اپنی اس کیفیت کو سمجھے اور علاج کروانے پر رضا مند ہو۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب رہنا دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    بعض افراد کو علم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو بڑھ کر ذہنی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے، ایسے افراد خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیم احمد نے اس بارے میں بتایا کہ ماہرین نفسیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کو براہ راست ڈیل نہ کریں۔

    وہ چاہتے ہیں کہ مریض کے ساتھ اس کا کوئی بے حد قریبی عزیز چاہے وہ اہل خانہ میں سے ہو، کوئی دوست ہو، یا دفتر کا کوئی ساتھی جس سے وہ بہت قریب ہوں، وہ ان کے ساتھ آئے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    وہ مریض سے زیادہ اس کے ساتھ آئے شخص سے گفتگو کر کے مریض کی مختلف کیفیات و علامات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ مرض کی جڑ کو پکڑ کر اس کا علاج کیا جا سکے۔

    ذہنی امراض اور مذہب

    ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض میں اضافے کی اصل وجہ اپنی بنیاد یعنی مذہب سے دور ہوجانا ہے۔ ’قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘۔

    ان کے مطابق نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کو زندگی کا حصہ بنا لینا ذہنی امراض سے بچاتا ہے۔ اپنی زندگی میں خدا سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے افراد (بذریعہ نماز و تلاوت) جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ یہی بات دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتی ہے، ’کیونکہ ہیں تو سب آدم کی اولاد، تمام انبیا بھی خدا کے حکم سے اس عہدے پر فائز ہوئے چنانچہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس ایک خدا سے ضرور جا ملتا ہے جو واحد اس کائنات کا مالک ہے‘۔

    ان کے مطابق خدا کے سامنے رونا اور گڑگڑانا کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے جو سکون آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر نفسیات بھی آپ کو نہیں دے سکتا۔


    دماغ ہمارے جسم کا سب سے طاقتور عضو ہے جسے صحت مند رکھنے کے لیے سب سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    کیا آپ کو مختلف دماغی و نفسیاتی مسائل خصوصاً اینگزائٹی (بے چینی) کا سامنا ہے، تو اس ضمن میں بھاری ورزشیں کرنا آپ کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    یہ دعویٰ حال ہی میں کی جانے ایک تحقیق میں سامنے آیا جس میں دیکھا گیا کہ وہ افراد جو مسلز بنانے والی بھاری بھرکم ورزشیں جیسے ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں، وہ افراد اینگزائٹی کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آئر لینڈ میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ باقاعدگی سے ورک آؤٹ کرنے والے افراد مختلف اقسام کے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دور رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ گو کہ ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی اور نفسیاتی صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اس کا تعلق ہمیشہ سے ہلکی اقسام کی ورزش سے جوڑا جاتا رہا ہے جن میں سانس کی مشقیں بھی شامل ہیں۔

    ان کے مطابق ورک آؤٹ دراصل دماغ کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیتا ہے اور وہ پریشان کن چیزوں کو چھوڑ کر سخت ورزش کی طرف مبذول ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ورک آؤٹ کرنے سے قبل یہ غذائیں کھائیں

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ورزش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ورزش کے دوران ادھر ادھر کے بارے میں سوچنے کے بجائے دماغ کو بھی ورزش پر مرکوز رکھا جائے اور بھاری ورزش اس ضمن میں معاون ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ محنت آپ کو دماغی اور جسمانی دونوں طور پر مشغول رکھے گی۔

    تحقیق میں تجویز کیا گیا کہ اینگزائٹی کے علاج کے لیے مہنگی دوائیں کھانے کے بجائے ورک آؤٹ کرنا آسان علاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس تحقیق پر مزید کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ابھی مزید جامع نتائج جاری کیے جائیں گے۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔