Tag: دمہ

  • اسلام آباد کے حوالے سے اہم خبر، پیپر ملبیری پولن کی مقدار 97 فی صد تک پہنچ گئی

    اسلام آباد کے حوالے سے اہم خبر، پیپر ملبیری پولن کی مقدار 97 فی صد تک پہنچ گئی

    اسلام آباد: محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ اسلام آباد میں پیپر ملبیری پولن کی مقدار 97 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی میں پولن کا پھیلاؤ شروع ہو گیا ہے، مارچ کے تیسرے ہفتے میں پولن کی شدت بڑھنے کا امکان ہے، اسلام آباد میں پیپر ملبیری پولن کی مقدار ستانوے فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

    موسمیات کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پیپر ملبیری پولن کی مقدار 45 ہزار فی مکعب میٹر تک پہنچ گئی ہے، باقی 3 فی صد پولن میں اکیشیا، یوکلپٹس، پائنز، گھاس اور دیگر شامل ہیں، کینابِس، ڈینڈیلین اور آلٹرناریا پولن بھی فضا میں موجود ہیں۔

    محکمہ موسمیات نے اسلام آباد میں فضائی پولن کی نگرانی کا نظام فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد میں 4 مقامات پر پولن مانیٹرنگ کے لیے سرویلنس ڈیوائسز نصب کر دیے گئے۔

    براؤن رائس : اگر آپ یہ چاول کھاتے ہیں تو اس بات سے خبردار رہیں

    محکمے کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ دمہ اور سانس کے مریضوں کو پولن کے اضافے سے خطرہ ہے، اس لیے شہری پولن کی شدت میں محتاط رہیں۔

  • دمہ زیادہ تر کن لوگوں کو ہوسکتا ہے؟ اہم معلومات

    دمہ زیادہ تر کن لوگوں کو ہوسکتا ہے؟ اہم معلومات

    دمہ ایسی بیماری ہے جو انسان کے پھیپھڑوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے، اس بیماری میں پھیپھڑوں میں ہوا کی گزرگاہیں سکڑ جاتی ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ ڈاکٹر وقاص رشید نے بیماری سے متعلق اہم معلومات اور اس کے بچاؤ کیلئے متعدد مشورے بھی دیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ کسی کو دمہ ہے، خاص طور پر 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں دمہ کا امکان ہوسکتا ہے لیکن بالغ افراد کو بھی دمہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دمہ کی بڑی وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی سرفہرست ہے کیونکہ موسم کی صورتحال مختلف انفیکشنز کی پیداوار کا سبب ہیں، جس کے بعد الرجی شروع ہوتی ہے اور نزلہ زکام کھانسی وغیرہ سے اس بیماری کا آغاز ہوتا ہے اور لوگ اس سے بے خبر رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر وقاص رشید کا کہنا تھا کہ اس مرض کا کوئی حتمی علاج تو نہیں ہے لیکن اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خصوصاً تمباکو کا دھواں مضر ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو سانس کی نالیوں میں سوزش بڑھاتی ہیں اور دمہ میں شدت لا سکتی ہیں۔

    اس مرض کی علامات میں رات میں یا صبح سویرے سینے میں خرخراہٹ، سانس میں تنگی، سینے میں جکڑن اور کھانسی شامل ہے ویسے تو یہ عام سی بیماریوں ہیں لیکن یہ اگر مستقل ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ آپ کو دمہ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ عام طور پر دمہ کا علاج ادویات کی مدد سے کیا جاتا ہے تاہم کچھ اس کی علامات کو کم کرنے کے لیے کچھ گھریلو غذائیں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں صفائی کا خاص خیال رکھا جائے جہاں تک ہوسکے گھر کو گرد مٹی وغیرہ سے پاک رکھیں۔

  • دمے سے حفاظت کس طرح ممکن ہے؟

    دمے سے حفاظت کس طرح ممکن ہے؟

    دمہ یا استھما ایک دائمی مرض ہے جو تا عمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال اندازاً ساڑھے 4 لاکھ لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔

    اس مرض سے آگاہی اور اس کے مریضوں کی مدد کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے ہر سال مئی کے پہلے منگل کو دمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    دمہ کیا ہے؟

    سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیاں باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ یا استھما کہا جاتا ہے۔ دمہ کے مرض کی کئی علامات ہیں جیسے سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آنا، کھانسی، سانس پھولنا، سینے کا درد، نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا اور تھکان وغیرہ۔

    اگر آپ چھوٹے بچوں میں دودھ پینے کے دوران ان میں بے چینی محسوس کریں، دودھ پینے کے دوران وہ تکلیف میں دکھائی دیں تو یہ بچوں میں دمہ کی علامت ہوسکتی ہے اور انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    دمہ کا کوئی خصوصی علاج تو نہیں ہے، تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

    دمے کا سب سے فائدہ مند علاج انہیلر کا استعمال ہے جس میں دمہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ ان دوائیوں کے ذریعے استھما کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اور مریض کی تکلیف کم ہوتی ہے۔

    ایک عام مغالطہ ہے کہ ان انہیلرز کا مستقل استعمال جسم کے لیے نقصان دہ ہے، یہ نشہ آور ہیں، یا یہ جسم کو اپنا عادی بنا سکتی ہیں۔ یہ تمام خیالات نہایت غلط ہیں۔

    دمہ کے مریض کے لیے انہیلر نہایت فائدہ مند ہیں، اور یہ جسم کو اپنا عادی تو بنا لیتی ہیں، تاہم یہ عادت ایسے ہی فائدہ مند ہے جیسے روزانہ کھانا کھانا، یا غسل کرنا۔

    انہیلرز میں شامل دواؤں کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا کیونکہ ان ادویات کی بہت معمولی مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہ دوائیں سانس کی نالی میں اس جگہ اثر کرتی ہیں جہاں خرابی ہوتی ہے۔

    انہیلر چھوڑنے والے افراد کا مرض بہت تیزی سے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    دیگر احتیاطی تدابیر

    دمے کے مریض کسی بھی قسم کے نشے بشمول سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔

    مریض نہ صرف خود سگریٹ کے دھوئیں سے بچے بلکہ سگریٹ پینے والے افراد سے بھی دور رہے اور ایسے مقام پر جانے سے گریز کرے جہاں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا ہو۔

    دھول، مٹی میں جانے سے بچا جائے۔

    گھر سے نکلنے سے قبل ماسک کا استعمال کریں۔

    موسم کی تبدیلی کے دنوں میں خاص طور پر احتیاط کریں تاکہ نزلہ زکام وغیرہ سے بچیں۔

  • کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے فائدہ مند سانس کی مشق

    کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے فائدہ مند سانس کی مشق

    کووڈ 19 کا شکار ہوجانے کے بعد پھیپھڑوں پر سخت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جنہیں سانس کی مشقوں سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ سانس کو درست طریقے سے لینا بہت سے جسمانی مسائل سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گہری سانس لینے کی ورزش بتائی گئی۔

    ماہر صحت کے مطابق کووڈ 19 کا شکار افراد پھیپھڑوں کے مسائل میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کے لیے گہری سانس کی مشق ان کی صحت بہتر بنا سکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو دن میں کچھ وقت کے لیے پیٹ کے بل لٹایا جائے کیونکہ ہمارے پھیپھڑوں کا زیادہ تر حصہ کمر کی طرف ہوتا ہے اور کمر کے بل لیٹنے سے پھیپھڑوں پر زور پڑتا ہے اور سانس کی تکلیف مزید بدتر ہوسکتی ہے۔

    کووڈ 19 کے شکار ہر عمر کے مریض کچھ وقت کمر کے بل لیٹیں تاہم اگر کوئی دل کا مریض ہے تو وہ اس سے پرہیز کرے۔

    سانس کی یہ مشق دمہ، سانس اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض میں مبتلا افراد کے لیے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ اس میں پھیپھڑے اپنی تمام استعداد سے کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے شہری جو عام حالات میں بھی فضائی آلودگی سے پریشان رہتے ہیں ان کے لیے بھی یہ ورزش فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔

    سب سے پہلے فرش پر آلتی پالتی مار کر، یا کرسی پر آرام دہ حالت میں بیٹھ جائیں، کمر سیدھی رکھیں، اس کے بعد آہستگی سے سانس اندر کی طرف کھینچیں، جتنی دیر اسے اندر روک سکتے ہیں روکے رکھیں، اس کے بعد آہستگی سے منہ کے ذریعے باہر خارج کریں۔

    گہری سانس کی اس مشق سے زیادہ مقدار میں آکسیجن اندر جاتی ہے، جس سے ڈپریشن میں کمی سمیت ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے، دوران خون تیز ہوتا ہے جس سے جسم کے تمام اعضا بہتر طور پر کام کرنے لگتے ہیں۔

  • سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (cardiopulmonary resuscitation) جسے مختصراً "سی پی آر” بھی کہتے ہیں، کسی انسان کی جان بچانے کے لیے اپنایا جانے والی ہنگامی طبی امداد ہوتی ہے۔

    یہ دراصل کسی وجہ سے اپنا کام انجام نہ دینے والے دل اور پھیپھڑوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش ہوتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار حادثے یا بیماری کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

    یہ عمل کارڈیو پلمونری اریسٹ کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی فرد کا دل بند اور اس کا سانس لینے کا عمل رک گیا ہے۔

    اگر معالج محسوس کرے کہ وہ ہنگامی طبی امداد کے ذریعے کسی فرد کے دل کی دھڑکن اور سانس بحال کرسکتا ہے تو وہ یہ طریقہ اپنا سکتا ہے۔

    سی پی آر کے دوران معالج متاثرہ فرد کے سینے کو زور زور سے نیچے کی طرف دباتا ہے۔

    ایسے فرد کے دل کو بجلی کے جھٹکے دیے جاسکتے ہیں جس سے اس کی دھڑکن بحال ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    منہ کے ذریعے متاثرہ فرد کی سانس کی نالی کو ہوا پہنچانا یا پھیپھڑوں تک سانس پہنچانے کی کوشش کرنا۔

    سی پی آر کا طریقہ اس وقت اپنایا جاتا ہے جب کسی کو شدید چوٹ لگی ہو یا دل کا دورہ پڑا ہو اور اس کی دھڑکن بند ہو اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مریض کو بروقت اسپتال لایا گیا ہو۔ تاہم سی پی آر مریض کی حاالت اور ڈاکٹر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ معالج یہ بہتر بتا سکتا ہے کہ اس طریقے سے دل اور سانس کی بحالی کے کتنے امکان ہیں۔

    طبی محققین کے مطابق دل اور سانس کو بحال کرنے کی اس کوشش کے کبھی ضمنی اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں جن میں سینے پر نیل پڑجانا، پسلیوں کا ٹوٹ جانا یا پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جانا شامل ہیں۔ اسی طرح بعض مریض طبی امداد میں کام یابی کے بعد کوما میں جاسکتے ہیں یا ان کی ذہنی حالت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح بعض دوسری طبی پیچیدگیاں بھی سر اٹھا سکتی جو کسی کو چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ سی پی آر کا سہارا لینے کے باوجود دل کی دھڑکن یا سانس بحال کرنے میں اکثر کام یابی نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کا دل اور سانس لینے کا عمل کیوں بند ہوا تھا اور متاثرہ فرد کی عام صحت کیسی ہے۔

  • موسمَ سرما اور سانس کا مرض

    موسمَ سرما اور سانس کا مرض

    موسمِ سرما میں جہاں صحت مند اور نارمل افراد بھی سینے کے عام امراض اور نزلہ، کھانسی کا شکار ہوسکتے ہیں اورانھیں اس موسم میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، وہیں سانس کے مختلف امراض خاص طور پر دمہ جیسی بیماری میں مبتلا افراد کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

    سانس کی بیماریوں میں دمہ ایک تکلیف دہ مرض ہے اور سردیوں میں دمہ کے دائمی مریضوں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ ہر سال کئی اموات کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں بھی سانس کی یہ بیماری عام ہے۔

    دمہ میں سانس کی نالیوں میں سوزش کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔
    یہ مرض بچپن یا کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتا ہے۔ تاہم اکثریت کم عمری میں ہی میں اس کا شکار ہو جاتی ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔

    دمہ یا سانس کی نالی کا یہ مسئلہ عمومی ہو تو اس کی وجوہات میں سردی، مستقل نزلہ زکام، سینے کا انفیکشن، دھواں، گرد و غبار اور ہوا کی آلودگی شامل ہیں جب کہ وہ لوگ جن کا زیادہ تر وقت پالتو جانوروں اور پرندوں کے ساتھ گزرتا ہے، وہ بھی ان کے بالوں، پروں اور ان کی گندگی، مختلف اقسام کی پھپھوندیوں کی وجہ سے سانس کے مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سانس کی تکلیف کا مسئلہ بعض ادویات، پرفیوم کے استعمال کی وجہ سے بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

    مسلسل کھانسی، بلغم کی شکایت اور سینے کی جکڑن کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف کو عام انفیکشن یا سانس کی نالی کا عام مسئلہ تو کہا جاسکتا ہے۔ تاہم جلد آرام نہ آنے کی صورت میں مستند اور ماہر معالج سے رابطہ کرنا ضروری ہے جو طبی تشخیص کے بعد ہی بتا سکتا ہے کہ یہ دائمی مرض ہے یا موسم اور بے احتیاطی کی وجہ سے یہ پیچیدگی لاحق ہوئی ہے۔

    دمہ کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کرے اور اس کے دھوئیں سے بھی بچے۔ گرد و غبار سے بچنے کے ساتھ ساتھ ایسے مریض‌ کے کمرے میں دبیز پردے، قالین استعمال نہ کریں۔ تکیہ اور بستر وغیرہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔ مختلف کیمیکلز اور خوشبوؤں کے استعمال سے بچیں۔ سردی سے بچنے کا انتظام کریں۔ سرد موسم میں غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ جائیں۔ گھر سے باہر کام کے لیے جانا ہو تو ماسک استعمال کریں تاکہ گرد و غبار سے بچ سکیں۔ اگر کھانے پینے کی کسی چیز سے دمہ کی شدت میں اضافہ نوٹ کیا ہو تو اس سے مکمل پرہیز کریں کیوں کہ یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    گھر کے دیگر افراد کو چاہیے کہ وہ مریض کا تولیا، اس کا تکیہ، بستر کی چادر صاف رکھیں اور خود یا بچوں کو استعمال نہ کرنے دیں۔ اسی طرح مریض کے کمرے میں رنگ و روغن کروانا ہو، کسی خوشبو یا جراثیم کُش ادویہ کا اسپرے کرنے کی ضرورت ہو تو مریض کو دوسری جگہ منتقل کردیں۔

    دمہ کے مریض کو چاہیے کہ وہ اپنے معالج کے مشورے اور طبی ہدایات پر سختی سے کاربند رہے۔ دوا کا استعمال ترک نہ کرے اور ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر دوا تبدیل بھی نہ کی جائے۔ باقاعدہ اور مستقل علاج سے سانس کی عام بیماری سے مکمل نجات ممکن ہے۔

  • روزانہ ایک ہزار افراد کی جانیں لینے والا مرض ۔ دمہ

    روزانہ ایک ہزار افراد کی جانیں لینے والا مرض ۔ دمہ

    دمہ یا استھما ایک دائمی مرض ہے جو تاعمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں 33 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال اندازاً ڈھائی لاکھ لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔

    روزانہ تقریباً 1 ہزار افراد کی جانیں لینے والے اس مرض سے آگاہی اور اس کے مریضوں کی مدد کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے آج دمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    دمہ کیا ہے؟

    سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیاں باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ یا استھما کہا جاتا ہے۔ دمہ کے مرض کی کئی علامات ہیں جیسے سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آنا، کھانسی، سانس پھولنا، سینے کا درد، نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا اور تھکان وغیرہ۔

    اگر آپ چھوٹے بچوں میں دودھ پینے کے دوران ان میں بے چینی محسوس کریں، دودھ پینے کے دوران وہ تکلیف میں دکھائی دیں تو یہ بچوں میں دمہ کی علامت ہوسکتی ہے اور انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    دمہ کا کوئی خصوصی علاج تو نہیں ہے، تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

    دمے کا سب سے فائدہ مند علاج انہیلر کا استعمال ہے جس میں دمہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ ان دوائیوں کے ذریعے استھما کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اور مریض کی تکلیف کم ہوتی ہے۔

    ایک عام مغالطہ ہے کہ ان انہیلرز کا مستقل استعمال جسم کے لیے نقصان دہ ہے، یہ نشہ آور ہیں، یا یہ جسم کو اپنا عادی بنا سکتی ہیں۔ یہ تمام خیالات نہایت غلط ہیں۔

    دمہ کے مریض کے لیے انہیلر نہایت فائدہ مند ہیں، اور یہ جسم کو اپنا عادی تو بنا لیتی ہیں، تاہم یہ عادت ایسے ہی فائدہ مند ہے جیسے روزانہ کھانا کھانا، یا غسل کرنا۔

    انہیلرز میں شامل دواؤں کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا کیونکہ ان ادویات کی بہت معمولی مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہ دوائیں سانس کی نالی میں اس جگہ اثر کرتی ہیں جہاں خرابی ہوتی ہے۔

    انہیلر چھوڑنے والے افراد کا مرض بہت تیزی سے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    دیگر احتیاطی تدابیر

    دمے کے مریض کسی بھی قسم کے نشے بشمول سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔

    مریض نہ صرف خود سگریٹ کے دھوئیں سے بچے بلکہ سگریٹ پینے والے افراد سے بھی دور رہے اور ایسے مقام پر جانے سے گریز کرے جہاں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا ہو۔

    دھول، مٹی میں جانے سے بچا جائے۔

    گھر سے نکلنے سے قبل ماسک کا استعمال کریں۔

    موسم کی تبدیلی کے دنوں میں خاص طور پر احتیاط کریں تاکہ نزلہ زکام وغیرہ سے بچیں۔

  • دمہ ۔ 30 کروڑ افراد کو نشانہ بنانے والا دائمی مرض

    دمہ ۔ 30 کروڑ افراد کو نشانہ بنانے والا دائمی مرض

    دمہ ایک دائمی مرض ہے جو تاعمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہیں جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال اندازاً ڈھائی لاکھ لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔

    اس مرض سے آگاہی اور اس کے مریضوں کی مدد کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے آج دمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    دمہ کیا ہے؟

    سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیاں باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ یا استھما کہا جاتا ہے۔

    دمہ کے مرض کی کئی علامات ہیں جیسے سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آنا، کھانسی، سانس پھولنا، سینے کا درد، نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا اور تھکان وغیرہ۔

    اگر آپ چھوٹے بچوں میں دودھ پینے کے دوران ان میں بے چینی محسوس کریں، دودھ پینے کے دوران وہ تکلیف میں دکھائی دیں تو یہ بچوں میں دمہ کی علامت ہوسکتی ہے اور انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    دمہ کا کوئی خصوصی علاج تو نہیں ہے، تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

    دمے کا سب سے فائدہ مند علاج انہیلر کا استعمال ہے جس میں دمہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ ان دوائیوں کے ذریعے استھما کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اور مریض کی تکلیف کم ہوتی ہے۔

    ایک عام مغالطہ ہے کہ ان انہیلرز کا مستقل استعمال جسم کے لیے نقصان دہ ہے، یہ نشہ آور ہیں، یا یہ جسم کو اپنا عادی بنا سکتی ہیں۔ یہ تمام خیالات نہایت غلط ہیں۔

    دمہ کے مریض کے لیے انہیلر نہایت فائدہ مند ہیں، اور یہ جسم کو اپنا عادی تو بنا لیتی ہیں، تاہم یہ عادت ایسے ہی فائدہ مند ہے جیسے روزانہ کھانا کھانا، یا غسل کرنا۔

    انہیلرز میں شامل دواؤں کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا کیونکہ ان ادویات کی بہت معمولی مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہ دوائیں سانس کی نالی میں اس جگہ اثر کرتی ہیں جہاں خرابی ہوتی ہے۔

    انہیلر چھوڑنے والے افراد کا مرض بہت تیزی سے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    دیگر احتیاطی تدابیر

    دمے کے مریض کسی بھی قسم کے نشے بشمول سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔

    مریض نہ صرف خود سگریٹ کے دھوئیں سے بچے بلکہ سگریٹ پینے والے افراد سے بھی دور رہے اور ایسے مقام پر جانے سے گریز کرے جہاں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا ہو۔

    دھول، مٹی میں جانے سے بچا جائے۔

    گھر سے نکلنے سے قبل ماسک کا استعمال کریں۔

    موسم کی تبدیلی کے دنوں میں خاص طور پر احتیاط کریں تاکہ نزلہ زکام وغیرہ سے بچیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔