Tag: دنیا کی تاریخ

  • دنیا کی تاریخ کی عجیب وغریب وبا، ناچتے ناچتے درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے

    دنیا کی تاریخ کی عجیب وغریب وبا، ناچتے ناچتے درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے

    دنیا میں لاتعداد وبائیں سامنے آئیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا لیکن آج ہم آپ کو دنیا کی تاریخ کی عجیب وغریب وبا کے بارے میں بتائیں گے۔

    دنیا جب سے وجود میں آئی ہے تب سے اب تک لاتعداد ایسی وبائیں بھی سامنے آئیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    حالیہ تاریخ میں لگ بھگ ایک صدی قبل اسپین میں آنے والے انفلوئنزا کی وبا نے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا تھا۔ چند سال قبل کووڈ 19 کے نام سے وبا نے پوری دنیا میں ہلچل مچائی اور لاکھوں انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اب بھی اس وبا کے مختلف ویرینٹ سامنے آ رہے ہیں۔

    لیکن ہم آپ کو دنیا کی ایک ایسی عجیب وغریب وبا کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جو کوئی بیماری نہیں تھی، مگر جو بھی اس کی لپیٹ میں آیا اس میں سے اکثر نے موت کو گلے لگایا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس وبا میں لوگ بغیر کسی وجہ کے سڑکوں پر ڈانس کرنے لگ گئے تھے اور اسی مناسبت سے اس وبا کو "Dancing plague” یا ناچنے کی وبا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ عجیب وغریب وبا جولائی 1518 میں فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں پھیلی۔

    رپورٹ کے مطابق ایک فراؤ ٹروفیا نامی خاتون نے اس دن بلا وجہ اچانک سڑک پر ناچنا شروع کر دیا۔ خاتون کو دیکھ کر وہاں موجود افراد جن کی تعداد 400 کے قریب بتائی جاتی ہے، وہ بھی ڈانس کرنے لگے۔

    یہ ڈانس چند منٹ، گھنٹے نہیں بلکہ کئی ہفتوں تک بغیر رکے جاری رہا اور یہ لوگ مسلسل ناچتے رہے۔ یہ رقص اتنا وحشیانہ اور جنونی انداز میں کیا گیا کہ لوگ گھروں، بازاروں، چرچوں میں تیزی سے اچھل کود کر ناچتے رہے۔

    اس مسلسل جنونی ڈانس کی وجہ سے تھکاوٹ کے آثار نے جسمانی اعضا کو متاثر کیا اور درجنوں لوگ وہیں گر کر ہلاک ہوگئے۔ موت کی وجہ دل کا دورہ یا فالج بنا۔

    اگرچہ اس عجیب و غریب ’وبا‘ کے حتمی سبب آج تک پتہ نہیں لگایا جاسکا ہے، لیکن یہ واقعہ اب بھی ماہرین تاریخ، نفسیات اور طب کے لیے دلچسپ موضوع ہے۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈانس کی وبا نفسیاتی اور سماجی دباؤ، کسی بیماری کا ردعمل، قحط، اس زمانے میں ہونے والی جنگوں کا خوف اور اجتماعی ذہنی دباؤ کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

    کچھ مورخین اس وبا کو خوراک سے بھی جوڑتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ روٹی میں ایک خاص قسم کے فنگس (ergot) پائی جاتی تھی جس کے کھانے سے ایل ایس ڈی جیسی علامات پیدا ہو سکتی تھیں۔

  • 2024 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال قرار

    2024 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال قرار

    یورپی یونین کی کوپرنکس کلائمیٹ چینج سروس نے 2024 کو دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دے دیا ہے۔

    موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آہستہ آہستہ زمین کو آگ کے گولے میں تبدیل ہو رہی ہے اور ہر گزرتا دن اور سال زندگی رکھنے والے اس واحد سیارے کو گرم سے گرم تر کرتا جا رہا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سال 2024 نے گرمی کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے اور یورپی یونین کی کوپرنکس کلائمیٹ چینج سروس نے 2024 کو دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل 2023 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق سال 2016 کے بعد خطِ استوا پر گرم اور ٹھنڈی ہوا میں تبدیلی کا عمل بدل گیا ہے جس نے 2024 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال بنا دیا۔ اس سال جنوری سے نومبر تک عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینیٹی گریڈ سے زائد رہا۔

    بڑھتے عالمی درجہ حرارت کے باعث دنیا کے مختلف شہروں کو یکے بعد دیگرے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔

    ایک طرف اٹلی اور جنوبی امریکا کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف اسپین، نیپال، سوڈان اور یورپ میں طوفانی بارشوں اور سیلابوں نے سال بھر تباہی مچائے رکھی۔ امریکا اور فلپائن میں تباہ کن طوفانوں نے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔

    ایک طرف زمین کا خطہ بارشوں کا مرکز اور برف کا گولہ بنا ہوا تھا تو دوسرا خطہ شدید گرمی کے باعث آگ کا گھر۔ ریکارڈ ساز گرمی کی وجہ سے میکسیکو، مالی اور سعودی عرب میں گرمی کی لہر کے باعث ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    سال 2024 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔

  • دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم دن ریکارڈ

    دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم دن ریکارڈ

    اتور کو پڑنے والی گرمی نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے، ماہرین نے اب تک دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم ترین دن ریکارڈ کیا۔

    یورپی یونین کی کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اتوار 21 جولائی عالمی سطح پر ریکارڈ کیا گیا دنیا کی تاریخ کا اب تک کا گرم ترین دن تھا، کیا پاکستان اور کیا امریکا اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔

    اتوار کو عالمی سطح پر ہوا کا اوسط درجہ حرارت 17.09 ڈگری سیلسیس یعنی 62.76 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا تھا جس نے لوگوں کے چھکے چھڑا دیے۔

    گزشتہ سال جولائی میں 17.08 ڈگری سیلسیس یعنی 62.74 فارن ہائیٹ گرمی ریکارڈ کی گئی تھی تاہم، اس سال کی گرمی نے پچھلے ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    گرمی کی لہروں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران امریکا، یورپ اور روس جیسے ٹھنڈے خطے کے بڑے حصے کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔

    کوپرنیکس نے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ 1940 سے اب تک جو اعداد و شمار ریکارڈ کیے گئے ہیں، اس کے مطابق یومیہ درجہ حرارت کا اوسط ریکارڈ اس سال اتوار 21 جولائی کو ٹوٹ گیا ہے۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال لگاتار چار دن تک گرمی نے تمام ریکارڈ توڑے تھے ، 3 جولائی سے 6 جولائی تک شدید گرمی پڑی تھی جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور فوسل ایندھن کو جلانا تھا۔

    اس سے قبل ماہرین پہلے ہی یہ خدشا ظاہر کرچکے تھے کہ دنیا کی اب تک کی تاریخ میں 2024 گرم ترین سال ثابت ہوسکتا ہے۔