ریاض : سعودی عرب کی کابینہ نے اجلاس کے دوران عالمی برادری پر زور دیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی اور خطے میں جاری ایران کی قبیح سرگرمیوں کے خلاف سعودی حکومت کا ساتھ دے۔
تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز کی سربراہی میں جاری اجلاس میں کابینہ نے سعودی عرب کی ثالثی میں برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ایتھوپیا اور اریٹریا کے مابین امن معاہدے کی تعریف کی اور سلمان بن عبد العزیز نے امن معاہدے کے لیے ولی عہد کی کوششوں کو سراہا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں عالمی برادری کے خطے میں جاری ایرانی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایرانی رجیم عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں کئی عرصے سے مداخلت کررہی ہے اور خطے میں سرگرام دہشت گرد تنظیموں کی معاونت بھی کررہی ہے۔
سعودی کابینہ کا جاری بیان میں کہنا تھا کہ عالمی برادری کو ایران کی سپاہ پاسداران کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے سیسہ پلائی دیوار بننا ہوگا، دنیا کو سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ریاست کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
سعودی عرب کے وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر صالح العواد کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس کے دوران مشرق وسطیٰ جاری مسائل اور عالمی برادری کی مشکلات پر غور کیا گیا۔
یاد رہے کہ ایک ماہ قبل سعودی عرب کی وفاقی کابینہ کا اجلاس نیوم سٹی میں حاکم وقت شاہ سلمان بن عبد العزیز کی زیر صدرات منعقد ہوا تھا، جس میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کی سعودی عرب کے تیل بردار جہازوں پر حملے اور خطے میں بڑھتی ہوئی ایرانی مداخلت پر گفتگو کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران سعودی عرب کی وفاقی کابینہ نے سرحد پار سے جاری ایران نواز حوثیوں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور دیگر عالمی مسائل پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
کراچی : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عالمی یوم جمہوریت پر کہا ہے کہ جمہوریت تاحال دنیا اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں کمزور ہے۔
تفصیلات کے مطابق رکن قومی اسمبلی و پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جمیوریت ہی مضبوط و خوشحال وفاقی پاکستان کی ضمانت ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ جمہوریت تاحال دنیا اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں کمزور ہے، ماحاصل یہی ہے کہ آخری فتح عوام کی ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری کا عالمی یوم جمہوریت پر کہنا تھا کہ پاکستانی عوام جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہوئی، قربانیاں دیں، پاکستان میں جمہوریت اور عوام کے لیے مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں، پیپلز پارٹی وفاقی مسلم جمہوری ریاست کے لیے سرگرم رہے گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو ہر صورت عوام کی توقعات پرپورا اترنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ تھراوردیگرعلاقوں میں حالات اور مسائل پرنظررکھی جائے اور وہاں جاری منصوبوں کا جائزہ لیا جائے.
پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بہترحکمت عملی اورحکمرانی سےحالات بہتر بنائے جائیں، سندھ کوترقی یافتہ اورخوشحال صوبہ دیکھناچاہتا ہوں.
کہتے ہیں کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر اثر رکھتی ہے۔ جو بات آپ ہزار لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے، وہ کیمرے سے کھینچی گئی ایک تصویر لمحوں میں بیان کردیتی ہے۔
آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ حیران کن تصاویر دکھا رہے ہیں جنہیں پہلی نظر میں دیکھ کر آپ کو ان پر فوٹو شاپ کیے جانے کا گمان ہوگا۔
لیکن جیسے جیسے آپ ان تصاویر پر غور کریں گے، ان تصاویر کی خوبصورتی اور معنویت آپ پر وا ہوتی چلی جائے گی اور آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کارخانہ قدرت میں کیسے کیسے عجائبات موجود ہیں جن کا کم از کم ایک عدد زندگی میں مشاہدہ کرلینا تو ناممکن ہے۔
غروب آفتاب اور گرہن کا بیک وقت رونما ہونا
زمین سے خلا میں لانچ کی جانے والی شٹل کا منظر تو آپ نے دیکھا ہوگا، لیکن خلا سے یہ منظر کیسا دکھائی دیتا ہے؟ ذرا دیکھیں
آسمان سے گرنے والے شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا
اور یہ بھلا کیا ہورہا ہے؟
ایک مشین کے ذریعے اینٹوں سے بنی ہوئی سڑک بچھائی جارہی ہے اور یہ طریقہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عام ہوچکا ہے۔
پرتگال میں ایک بازار کو دھوپ سے بچانے کے لیے رنگین چھتریوں سے سجا دیا گیا۔
کیا یہ اڑن طشتری ہے؟
جی نہیں کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا یہ شخص بادلوں کے بننے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
تھائی لینڈ کے ایک متروک شدہ شاپنگ مال میں جب پانی بھر گیا تو وہاں مچھلیاں بھی پیدا ہوگئیں۔
2 لیٹر کی پلاسٹک بوتل اپنی تیاری سے قبل کچھ اس حالت میں ہوتی ہے جو بعد ازاں بے شمار کیمیائی عوامل سے گزاری جاتی ہے۔
کیا اس جانے پہچانے جانور کو پہچان سکتے ہیں؟
یہ کچھ اور نہیں بلکہ ایک ننھی سی گلہری ہے جسے قدرت نے نہایت خوبصورت، بڑی اور نرم و ملائم سی دم عطا کی ہے۔
سمندر میں تیرتا ہوا گھوڑا
امریکی شہر مین ہٹن سنہ 1609 اور سنہ 2017 میں
یہ گوبھی جیومیٹری کا شاہکار لگتی ہے۔
اوپر وہ اندھیرا ہے جو ہم اور آپ روز دیکھتے ہیں۔
لیکن نیچے کا منظر ایک بلی کی آنکھ کا ہے کہ وہ اندھیرے میں کس طرح دیکھتی ہے۔
ایک سمندری کچھوا جیلی فش کی مدد سے حرکت کر رہا ہے۔
پولینڈ کی ایک جھیل کا فضائی منظر، آس پاس خزاں کے باعث بھورے رنگوں میں تبدیل درخت جھیل کو گھیرے کھڑے ہیں۔
کیا آپ ٹائم ٹریول پر یقین رکھتے ہیں؟
پہلی تصویر 1970 کی ہے جس میں ایک مشہور برازیلین بزنس مین کچھ چارجنگ پر لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت کے موبائل فون کچھ اس شکل کے ہوتے تھے۔
دوسری تصویر مشہور باکسر مائیک ٹائسن کی ایک فائٹ کی ہے اور پیچھے بیٹھا ایک مداح فلیش والے اسمارٹ فون سے ان کی تصویر کھینچتا دکھائی دے رہا ہے۔ سنہ 1995 میں کھینچی جانے والی اس تصویر کے وقت اسمارٹ فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
عظیم اور قوی الجثہ جانوروں کی معدومی کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہوئے کیا آپ کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ ہم انسان بھی معدوم ہوسکتے ہیں؟
یقیناً یہ خیال ہمیں کبھی نہیں آیا، کیونکہ ہم زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوسکتا ہے لیکن انسان نہیں، اور اگر انسان ختم ہوگیا تو یہ اس زمین کا بھی آخری دن ہوگا۔
تو پھر آئیں آج اس غلط فہمی کو دور کرلیتے ہیں۔
اگر کبھی ایسا ہو، کہ زمین پر موجود تمام انسان اچانک غائب ہوجائیں اور ایک بھی انسان باقی نہ رہے تو سب سے پہلے زمین کو جلاتی برقی روشنیاں بجھ جائیں گی اور زمین کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی سینکڑوں سالوں میں تعمیر کی گئی ہماری یہ بلند و بالا دنیا آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گی۔
امریکی شہر نیویارک کا سب وے اسٹیشن انسانوں کے خاتمے کے بعد صرف 2 دن قائم رہے گا، اس کے بعد یہ زیر آب آجائے گا۔
انسانوں کے قائم کیے گئے ایٹمی و جوہری بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے والے جنریٹرز بند ہوجائیں گے جس کے بعد تمام بجلی گھروں میں آگ بھڑک اٹھے گی اور آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
تپش اور تابکاری کا یہ طوفان کم از کم چند ہزار سال تک زمین کو اپنے گھیرے میں لیے رہے گا جس کے بعد آہستہ آہستہ زمین سرد ہونا شروع ہوجائے گی۔
اس دوران گھر اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی اور ان پر خود رو پودے اور بیلیں اگ آئیں گی۔
پھل اور پھول اپنی پہلے والی جنگلی ساخت پر واپس آجائیں گے جنہیں انسان مصنوعی طریقوں سے مزیدار اور خوش رنگ بنا چکے ہیں۔
انسانوں کے ختم ہوتے ہی جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
ہمارے خاتمے کے 300 سال بعد بڑے بڑے پل ٹوٹ جائیں گے۔
سمندر کنارے آباد شہر ڈوب کر سمندر ہی کا حصہ بن جائیں گے۔
بڑے بڑے شہروں میں درخت اگ آئیں گے اور صرف 500 سال بعد ہمارے بنائے ہوئے شہروں کی جگہ جنگل موجود ہوں گے۔
صرف ایک لاکھ سال کے بعد زمین کا درجہ حرارت اس سطح پر آجائے گا جو انسانوں سے قبل ہوا کرتا تھا، نہ تو اس میں زہریلی گیسیں شامل ہوں گی اور نہ ہی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا آلودہ دھواں۔
گویا ہماری زمین ہمارے ختم ہوجانے کے بعد بھی قائم رہے گی، یعنی زمین کو ہماری کوئی ضروت نہیں۔ البتہ ہمیں زمین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ رہنے کو اور کوئی گھر موجود نہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ہمارے ماحول میں 5 میگا ٹن سیاہ کاربن پھیل جائے گا۔
یہ کاربن فضا سے سورج کی شدید حرارت اپنے اندر جذب کرتا ہوا زمین پر آئے گا اور زمین اور آسمان کا مشاہداتی رابطہ منقطع ہوجائے گا۔
دوسرا ہفتہ
سیاہ کاربن کی وجہ سے زمین گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے گی کیونکہ کاربن سورج کی روشنی کو بھی زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔
بموں میں موجود کیمیائی اجزا ہمارے سروں کے اوپر قائم اوزون تہہ، جو ہمیں سورج کی تابکار شعاعوں سے بچاتی ہے، کو بالکل کھا جائے گی۔
اس کے بعد سورج اور خلا سے زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں میں 80 سے 120 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔
دو ماہ بعد
دو ماہ بعد زمین کا درجہ حرارت اس قدر کم ہوجائے گا کہ ہر جگہ کا درجہ حرارت اوسطاً منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ رہے گا جو گرم علاقوں کے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
درجہ حرارت میں اس قدر کمی کی وجہ سے بارشوں کی مقدار بھی بے حد کم ہوجائے گی۔
زمین سے ہر قسم کی نباتات (پودے اور درخت) ختم ہوجائیں گے اور ان کے ڈی این اے بھی مرنا شروع ہوجائیں گے جس کے بعد اگلے کئی عشروں تک مزید کسی نباتات کی افزائش کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔
دو سال بعد
زمین سے ہر طرح کے پودے ختم ہوجانے کے بعد صرف 2 سال کے اندر 2 ارب افراد غذائی قلت، بھوک اور پھر موت کا شکار ہوجائیں گے۔
زمین کا زیادہ تر حصہ نہایت سرد اور ناقابل رہائش ہوگا۔
پانچ سال بعد
زمین کی فضا کے اوپر قائم اوزون تہہ خود بخود رفو ہونا شروع ہوجائے گی مگر اب جو اوزون تہہ ہمارے پاس ہوگی وہ پہلی والی اوزون تہہ سے 25 فیصد پتلی ہوگی۔
ان عظیم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والے افراد بڑی تعداد میں جلد کے جان لیوا کینسر کا شکار ہوجائیں گے۔
دس سال بعد
اوزون کی رفو گری کا عمل جاری رہے گا اور اس کی موٹائی میں کچھ اضافہ ہوجائے گا اور یہ پرانی تہہ سے صرف 8 فیصد پتلی رہ جائے گی۔
بیس سال بعد
زمین کا درجہ حرارت گرم ہونا شروع ہوگا تاہم ابھی بھی یہ موجودہ درجہ حرارت کے مقابلے میں بے حد سرد ہوگا۔
بیس سال بعد پودے بھی اگنا شروع ہوجائیں گے تاہم ان کی افزائش کی رفتار نہایت سست ہوگی اور ایک معمولی پودے کی افزائش میں 5 سال کا طویل عرصہ لگے گا۔
تیس سال بعد
زمین پر اب بارشیں بھی کچھ معمول کے مطابق ہونے لگیں گی۔
پچاس سال بعد
اب فطرت دوبارہ زمین پر اگنا شروع ہوگی اور جا بجا خود رو پھول پودے اگ آئیں گے۔
تاہم 50 سال بعد بھی زمین کے کچھ علاقے تابکاری کی زد میں ہوں گے اور وہاں رہائش رکھنا ناممکن ہوگا۔
یہ تمام خوفناک صورتحال صرف 100 ایٹم بم پھٹنے کی صورت میں ہوگا۔
اور ایک بار پھر آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ اس وقت زمین پر 16 ہزار سے زائد فعال ایٹمی یا جوہری بم، میزائل اور دیگر اسلحہ موجود ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
دنیا بھر میں نئے سال کی آمد پر جہاں لوگ اپنے نئے اہداف اور منصوبہ بندی ترتیب دیتے ہیں وہی دنیا بھر میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں نئے سال کی آمد سے جڑی رسومات ادا کی جاتی ہیں تاہم دلچسپ بات یہ رسمیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی ادا کی جاتی ہیں۔
چین
نئے سال کو چین میں ’’جشن بہاراں‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو شمسی اور قمری کلینڈر کے حساب سے ہوتا ہے، نئے سال شروع ہوتے ہی چین میں خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جو جنوری کے آخر اور فروری کے وسط میں اچانک شروع ہوتی ہیں۔ خصوصی تقاریب شروع ہوتے ہی چین کے لوگ اپنے گھروں کی دیواروں کو صاف کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تاہم جمع ہونے والی گرد کو خاص طور پر گھر کے پچھلے دروازے سے ہی باہر پھینکتے ہیں۔
ایکواڈور
نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ رات کے درمیانی پہر اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور ایک پتلے کو نذآتش کرتے ہیں۔ جس کا مقصد پرانی سال کی تلخ یادوں کا خاتمہ اور نئے سال میں مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔
لاطینی امریکا
لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ رات کو خالی سوٹ کیس گھر کے کونے میں رکھ دیتے ہیں جبکہ بعض افراد خالی سوٹ کیس کو گھروں میں گھماتے بھی ہیں جس کا مقصد نئے سال میں رزق اور سفر کی بہترین مواقع حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اسپین
اسپین اور لاطینی امریکا میں 31 دسمبر کی رات کو انگور کھانے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اور جیسے ہی یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتی ہے اس کام کو ختم کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عمل کرنے سے پورے سال خوراک کے حصول میں مدد ملتی ہے۔
بیلا روس
نیا سال شروع ہوتے ہی کنواری لڑکیاں ایک میدان میں دائرے کی صورت میں اپنے سامنے مکئی کے دانے رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں پھر اس کے درمیان ایک مرغا چھوڑا جاتا ہے اور وہ جس لڑکی کے سامنے جاکر مکئی چگتا ہے اُسے نئے سال میں دلہن بننے کی ایڈوانس مبارک باد دی جاتی ہے۔
ڈنمارک
ڈنمارک میں نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ اپنے گھر کے برتن (پلیٹیں) توڑ کر پڑوسی کے گھر پر پھینکتے ہیں اس کام میں دونوں پڑوسیوں کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس عمل کا مقصد بھی پورے سال مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔
رومانیہ
رومانیہ میں کرسمس اور نئے سال کی آمد کے درمیان کسی بھی وقت ریچھ کی کھال پہن کر رقص کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے، جس کا مقصد پورے سال نحوست سے محفوظ رہنا ہے۔
جنوبی افریقا
جنوبی افریقا میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ پرانے فرنیچر کو گھروں کی کھڑکیوں سے باہر پھینکتے ہیں ، خاص طور پر جوہانسبرگ میں بلند و بالا عمارتوں میں رہائش پذیر گھرانے بھی یہی عمل کرتے ہیں جس کے باعث نیو ائیر کے موقع پر ہر سال سینکٹروں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں اور ہرسال پولیس و امدادی اداروں کو طلب کرنا پڑتا ہے۔
برازیل
برازیل میں نئے سال کی پہلی صبح سمندر میں سفید پھول چھوڑے جاتے ہیں، جس کا مقصد فرضی دیوی ’’یمانجہ‘‘ کو نئے سال کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے،ایسا کرنے والوں کا ماننا ہے کہ نئے سال پر دیوی کو یاد رکھنے سے پورا سال مسائل اور مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
سال 2016ء کے دوران شعبہ صحت میں عالمی اور پاکستان کی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، کن بیماریوں پر قابو پایا گیا اور کونسی نئی ادویات سامنے آئیں، حکومتوں نے طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کیا اقدامات کیے ؟ آئیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
نگلیریا، پولیو، زکا وائرس، کانگو وائرس نے اس سال بھی دنیا بھر اور پاکستان میں کئی افراد کو متاثر کیا تاہم اس حوالے سے اقدامات بھی سامنے آئے جبکہ ایڈز کے مریضوں کی مجموعی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
عالمی اداروں کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ دنیا بھر میں نمونیا کی وجہ سے کروڑوں بچے جاں بحق ہوئے جن کی عمر 5 سال سے کم تھی جبکہ ان میں سے بیشتر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا، سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنرانیہ شامل تھے۔
انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں پاکستانی نوجوانوں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو ہر پاکستانی کے زخموں کا مرہم بن گیا، نوجوانوں کی جانب سے اگست 2016 میں اسمارٹ فون کی ایک ایپلی کیشن ’’مرہم‘‘ کے نام سے تیار کی گئی جہاں کسی بھی بیماری کے حوالے سے ماہرین مشورہ دینے کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔
طبی ماہرین نے جسم کے مطلوبہ مقام پر دوا پہنچانے کے لیے دنیا کی سب سے چھوٹی روبوٹک ’نینو مچھلی‘ تیار کی جو ریت کے ایک ذرے سے بھی 100 گنا چھوٹی ہے۔ نینو مچھلی کے ذریعے غیرضروری چیر پھاڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے جسم کے اندر چند خلیات تک انتہائی درستگی کے ساتھ دوا پہنچانے کے لیے استعمال کیا رہا ہے اور کینسر کے علاج میں یہ بہت مدد گار ہے۔
اس مچھلی کو جست اور سونے کی پنیوں سے تیار کر کے اس میں چاندی کے جوڑ لگائے گئے ہیں۔ سونے کے ذرات پتوار اور دم کا کام کرتے ہیں جس سے مچھلی تیرتی ہے۔ مچھلی کی لمبائی 800 نینو میٹر ہے۔
اکتوبر کی 21 تاریخ کو امریکن کالج آف سرجنز نے پاکستان کے مایہ ناز سرجن ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو ان کی طبی مہارت اور انسانیت کی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا، امریکی سائنسی ماہرین نے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے بانی اور روحِ رواں ڈاکٹر ادیب رضوی کو امریکن کالج آف سرجنز نے اعزازی فیلو شپ دی۔
یاد رہے کہ اعزازی فیلو شپ کسی بھی شخص کی قابلیت کے اعتراف میں دیا جانے والااعلیٰ ترین ایوارڈ ہے جو کسی ادارے کی جانب سے دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں نومبر 2016ء کو اچانک گرد آلود ہوائیں چلیں جسے اسموگ کا نام دیا گیا، ان گرد آلود ہواؤں کے باعث شہریوں کو آنکھوں اور سینے کی بیماریوں لاحق ہوئیں جس سے بچے بڑی تعداد میں متاثر ہوئے تاہم صوبائی حکومت نے فوری طور اس وبا سے جان چھڑانے کے اقدامات کیے اور خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔
حکومتِ پنجاب نے ریسکیو 1122 کی پہنچ کو گنجان آباد علاقوں میں یقینی بنانے کے لیے نومبر کے ماہ میں پانچ شہروں میں موٹر سائیکل ایمبولینسیں چلانے کا اعلان کیا، یہ تجربہ پہلے ہی دنیا کے کئی ممالک میں کیا جاچکا ہے۔ حکومت کی جانب سے موٹر سائیکل ایمبولینسس گوجرانوالہ، فیصل آباد، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں چلانے کا اعلان کیا گیا۔
پنجاب حکومت نے نومبر کے ماہ میں تھلیسیمیا کے مرض کو قابو کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل مکمل کیا‘ اس مقصد کے لیے پنجاب تھلیسیمیا پریوینشن ایکٹ 2016ء تیار کیا گیا جس کے تحت شادی سے قبل تھلیسیمیا ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کی تجویز بھی دی گئی۔
اس قانون سازی کا مقصد ملک سے تھلیسیمیا کے مرض کا خاتمہ تھا کیونکہ اس وقت ملک میں تقریباً 1 کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جس میں سے نصف تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے اور ہر سال تقریباً 6 ہزار بچوں میں مرض رونما ہوتے ہیں۔
اسلامک یونیورسٹی بہاول پور کے ہونہار طالب علم فائز رضا نے آنکھوں کے ذریعے کنٹرول ہونے والی وہیل چیئر ایجاد کی،یہ وہیل چیئر ہاتھ پاؤں سے معذور افراد کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی جسے آنکھوں کی مدد سے بآسانی چلایا جا سکے گا۔
نابینا اور کلر بلائنڈنیس کا شکار افراد کے لیے مائیکرو سافٹ نے ایسی ایپلی کیشن تیار کی جو رنگوں کے درمیان فرق بتانے اور نابینا افراد کو چیزوں کی پہچان کروانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ خصوصی ایپ بینائی سے محرومیت اور رنگ کی شناخت نہ کرنے کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے مائیکرو سافٹ نے ایک ایسی ایپلی کیشن تیار کی۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے ملیر میں رواں سال دسمبر کے آخری عشرے میں اچانک پراسرار بیماری چکن گنیا نمودار ہوئی جس کے باعث سیکڑوں افراد متاثر ہوئے جس کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے ہیلتھ ایمرجنسی لگا دی گئی۔
اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس بیماری کی تشخیص کو تلاش کرنے لگی جبکہ وفاقی صحت برائے ایڈوائزری کی جانب سے ایک بیماری کی علامات اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تمام صوبوں میں چکن گنیا پھیلنے کے پیش نظر خطرات سے آگاہ کیا گیا۔
زیکا وائرس کے مچھر کی افزائش روکنے کے لیے برطانوی سائنس دانوں نے رات دن محنت کر کے اس کے روک تھام کے لیے موڈیفائڈ مچھر فضا میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی آکسی ٹیک لیب میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ موڈیفائڈ مچھر زیکا وائرس کے مچھر کی افزائش کو روکنے میں 90 فیصد کامیاب رہا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ وہ سال میں کم از کم 12 دن حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے اپنی خدمات فراہم کریں اور ان کا مفت علاج کریں۔ یہ بات نریند مودی نے اپنی دوسری سالگرہ کی تقریب کے موقع پر بھارتی ریاست اتر پردیش کی۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا، ’کیا میرے ڈاکٹر دوست ایک کام کر سکتے ہیں؟ ہر ماہ کی 9 تاریخ کو ان کے پاس جو بھی غریب اور حاملہ عورت آئے، وہ اس کا مفت علاج کریں‘۔
برازیل کے شہر ساؤ جوز میں ایک شہری کو عجیب مچھر کے کاٹنے کے بعد مہلک بیماری ہوئی جسے ماہرین کی جانب سے ’’ہاتھی پیر‘‘ کا نام دیا گیا، یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور انفکیشن کی صورت میں متاثرہ شخص کا پیر بالکل ہاتھی کے پاؤں کی طرح ہوجاتا ہے۔ اس بیماری میں ابتدائی دنوں میں متاثرہ حصے میں سوجن دیکھنے میں آئی تاہم علاج نہ کروانے والے افراد کے جسم مفلوج بھی ہوئے۔
دنیا کے ممتاز ترین ماہر طبیعیات ’اسٹیفن ہاکنگ‘ نے انسان کے دماغ کو سوفیصد تک اہل رکھنے کے لیے سائنسی تاریخ کا بڑا کارنامہ سرانجام دیا، انہوں نے ایک دوا ایجاد کی جو انٹیلی جن کے نام سے ہے، اس کے استعمال سے انسانی دماغ پہلے سے بڑھ کرتیز، صاف اور مرکوز ہوجاتا ہے۔
دن بھر ایک جیسی روٹین کے کام کرتے ہوئے، صبح شام کے چکر میں شاید کچھ لوگوں کو لگتا ہو کہ دن بہت چھوٹے ہوگئے ہیں اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے، یا یوں کہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔
اور یہ خیال صرف آپ کا ہی نہیں، مشہور بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان نے بھی کچھ روز قبل دن اور رات کے گھٹنے بڑھنے کا شکوہ کر ڈالا۔
Some days and nights just don’t seem to end & Some have such few hours…
لیکن آپ کو یہ جان کر جھٹکا لگے گا کہ دن چھوٹے نہیں ہو رہے، بلکہ درحقیقت بڑے ہو رہے ہیں، یعنی ان کے دورانیے میں اضافہ ہورہا ہے۔
حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کے دن کے دورانیے یا وقت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ اضافہ اس قدر معمولی ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 33 لاکھ سال میں صرف ایک منٹ کا اضافہ ہوتا ہے۔
برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پچھلے 27 سال میں ہمارے دن میں 1.8 ملی سیکنڈز کا اضافہ ہوا۔ رائل گرین وچ آبزرویٹری سے منسلک ایک ہیئت دان کے مطابق یہ ایک نہایت سست رفتار عمل ہے جو لاکھوں سال بعد واضح ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔
سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔
اس سے قبل بھی اسی بارے میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں دن کے دورانیے میں چند ملی سیکنڈز کا فرق دیکھا گیا تھا۔ ماہرین نے اس کی وجہ چاند کی زمین کے گرد گردش کو قرار دیا تھا جو سمندر میں جوار بھاٹے کا سبب بنتی ہے۔
حالیہ تحقیق میں ماہرین نے زمین کی کشش ثقل، زمین کی سورج کے گرد گردش، چاند کی زمین کے گرد گردش، اور اس دوران پیش آنے والے چاند اور سورج گرہنوں کا مطالعہ کیا۔
تحقیق کے لیے ماہرین نے قدیم چینی، یونانی، عربی اور قرون وسطیٰ کے یورپی ادوار کے علم فلکیات اور تاریخ دانوں کے سفر ناموں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے اس بات کو بھی مد نظر رکھا کہ قدیم ادوار سے اب تک گرہنوں کا نظارہ کس مقام سے اور کس زاویے سے کیا جاتا رہا اور ان میں کیا کیا تبدیلی آئی۔
ماہرین نے بتایا کہ زمین اور فلکیات کا باقاعدہ مطالعہ 720 قبل مسیح سے شروع کیا گیا۔ ماہرین نے اس وقت سے زمین کی گردش اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے ہم چند سالوں بعد اپنی گھڑیوں کا وقت بھی زمین کے حساب سے تبدیل کریں تاکہ ہم وقت کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
کچھ عرصے قبل ایک حیرت انگیز تحقیقی رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آسٹریلیا اپنے محل وقوع میں تبدیلی کر چکا ہے اور اپنی جگہ بدل رہا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے 50 سال میں ایسا کئی بار اور پوری دنیا میں ہوچکا ہے۔
حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پچھلے 50 سال کے اندر آسٹریلیا اپنی جگہ کم از کم 4 بار تبدیل کر چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا دنیا کی سب سے زیادہ تیز رفتار ٹیکٹونک پلیٹس پر واقع ہے جو ہر سال تقریباً 2.7 انچ شمال کی جانب حرکت کرتی ہیں۔ اس کے برعکس امریکا کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس کی رفتار کہیں کم ہے اور وہ سالانہ ایک انچ سے بھی کم جگہ تک حرکت کرتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق زمین کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹ بہت ساری تعداد میں مل کر تقریباً اتنی ہی رفتار سے حرکت کرتی ہیں جتنی تیزی سے ہماری انگلیوں کے ناخن بڑھتے ہیں یعنی سالانہ 5 سے 10 سینٹی میٹر۔
واضح رہے کہ زمین کی تہہ کے نیچے موجود مختلف مرکبات مل کر ایک ٹھوس شکل اختیار کرلیتے ہیں جو ٹیکٹونک پلیٹ کہلاتی ہے۔ یہ اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہیں اور ان کی حرکت تیز رفتار ہو تو یہ زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔
دنیا بھر میں زمین کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس مختلف رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مختلف مقامات پر موجود ہوتی ہیں۔ ان کی حرکت کا انحصار دراصل اس مقام پر ہے کہ وہاں انہیں کھسکنے کے لیے کتنی جگہ میسر ہے۔
ہوسکتا ہے آپ کو ان چند سینٹی میٹرز کا فرق بے حد معمولی لگتا ہو لیکن یہ ہمارے نقشوں کے لیے بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کے باعث اب مختلف ٹیکنالوجیز میں درد سری کا سامنا ہوگا۔ جیسے بغیر ڈرائیور کی کار جس میں محل وقوع کو فیڈ کردیا جاتا ہے اور وہ اسی فیڈ کیے ہوئے ڈیٹا کے مطابق حرکت کرتی ہیں۔
یا پھر جی پی ایس ٹریکنگ جو سفر کے دوران راستوں کے حوالے سے آپ کی رہنمائی کرتی ہے۔
یہ فرق ہماری زمین کے طول و عرض میں بھی تبدیلی کر رہا ہے۔ سنہ 1994 میں زمین اور مختلف مقامات کی جو پیمائش تھی ان سب میں مجموعی طور پر اب 200 میٹرز کا فرق آچکا ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ اس وقت سے اب تک ایک ہی گھر میں مقیم ہیں تو یقین جانیں، اس کے درست پتے میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔
دنیا کو بچانے کے لیے ایسے کردار کا تصور تو بہت پرانا ہے جو عموماً مرد ہوتا ہے اور سپر ہیرو کی خصوصیات رکھتا ہے، لیکن کیا کبھی کوئی عورت بھی دنیا کو بچا سکتی ہے؟
اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یقیناً آپ کی غلط فہمی ’ونڈر وومن‘ کے اس نئے ٹریلر کو دیکھ کر دور ہوجائے گی جس میں ایک عورت دنیا کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
سپر وومن یا ونڈر وومن کا آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 1941 میں سامنے آیا جب ایک امریکی کامک سیریز میں ایک خاتون کو جادوئی اور ماورائی قوتوں کا حامل دکھایا گیا۔
امریکی پرچم سے مشابہہ لباس میں ملبوس اس ونڈر وومن نے نہ صرف اس وقت خواتین کے بارے میں قائم تصورات کو کسی حد تک تبدیل کیا بلکہ اس کی تخلیق خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک اہم قدم تھی۔
اس کامک کردار کو اب بڑے پردے پر ’ونڈر وومن‘ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے جس کا ایک اور ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔
پیٹی جینکنز کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں مرکزی کردار گیل گیڈٹ نبھا رہی ہیں جو اس سے قبل مشہور فلم فرنچائز ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ کے کئی حصوں میں بھی جلوہ گر ہوچکی ہیں۔
ان کے مدمقابل ’اسٹار ٹریک‘ سے شہرت پانے والے کرس پائن بھی اہم کردار ادا کر ہے ہیں۔
فلم کی کہانی دور دراز جزیرے میں پرورش پانے والی عورت ڈیانا کی ہے جس کی ملاقات اتفاقاً اسٹیو (کرس پائن) سے ہوتی ہے۔ اسٹیو جہاز کریش ہونے کے باعث اس جزیرے تک پہنچتا ہے۔
اس کے بعد وہ ڈیانا کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے اور یہیں سے فلم اور ڈیانا کی زندگی کا نیا رخ شروع ہوتا ہے۔
ڈیانا کو پتہ چلتا ہے کہ دنیا ایک ہولناک جنگ کا شکار ہونے والی ہے جس کے بعد وہ دنیا کو بچانے والے افراد کی پہلی صف میں جا کھڑی ہوتی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے سب کو دنگ کردیتی ہے۔
ٹریلر میں وہ کئی بار اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کے باعث اسٹیو اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی جانیں بچاتی نظر آتی ہے۔
اسی طرح اسے ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی ایک روایتی عورت کا روپ اختیار کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
فلم کے ٹریلر میں خواتین کی غیر معمولی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بظاہر دھان پان نظر آنے والی عورت اپنی زمین اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے جان کی بازی بھی لگا سکتی ہے اور ایسے میں وہ ایسا غیر مرئی صلاحیتوں کا حامل کردار بھی بن سکتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے مرد کو کئی نسلوں تک محنت کرنی پڑے۔
فلم ’ونڈر وومن‘ اگلے برس جون میں سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔