Tag: دوا

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف مددگار

    کووڈ 19 کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے مختلف دواؤں کا استعمال کروایا جارہا ہے، اب حال ہی میں ایک اور دوا اس وبائی مرض کے خلاف مددگار ثابت ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور اضطراب وغیرہ کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ایک سستی دوا کووڈ 19 کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد میں اسپتال میں داخلے اور سنگین پیچیدگیوں کا امکان کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    ایک بڑے کلینکل ٹرائل کے نتائج میں پتہ چلا کہ فلوووکسامائن نامی دوا اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر (او سی ڈی) کے علاج کے لیے لگ بھگ 30 سال سے تجویز کی جارہی ہے، مگر ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس کے اثرات پر جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس دوا کے انتخاب کی وجہ اس دوا کی ورم کم کرنے کی صلاحیت ہے۔

    کینیڈا، امریکا اور برازیل کے ماہرین کے گروپ کی اس تحقیق کے نتائج یو ایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سے شیئر کیے گئے اور عالمی ادارہ صحت سے بھی اسے تجویز کرنے کی توقع ظاہر کی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے اس دوا کو تجویز کیا تو اس کا زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکے گا۔

    کووڈ 19 کے علاج کے لیے اس کے ایک کورس کی لاگت 4 ڈالرز ہوگی جبکہ اینٹی باڈی 4 ٹریٹ منٹس کی لاگت 2 ہزار ڈالرز جبکہ مرسک کی تجرباتی اینٹی وائرل دوا کا ایک کورس 700 ڈالرز کا ہوگا۔

    فلوووکسامائن کی آزمائش لگ بھگ ڈیڑھ ہزار برازیلین افراد پر کی گئی تھی جن میں حال ہی میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس کے باعث ان میں بیماری کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ تھا۔

    ان میں سے نصف کو گھر میں 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا جبکہ باقی افراد کو ڈمی دوا کھلائی گئی۔ ان کا جائزہ 4 ہفتوں تک لیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کن مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا یا ایمرجنسی روم کا رخ کرنا پڑا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال کرنے والے گروپ کے 11 فیصد افراد کو اسپتال یا ایمرجنسی روم میں قیام کرنا پڑا جبکہ یہ شرح ڈمی دوا استعمال کرنے والوں میں 16 فیصد تھی۔

    نتائج اتنے ٹھوس تھے کہ اس تحقیق سے منسلک خودم ختار ماہرین نے اس پر کام جلد روکنے کا مشورہ دیا کیونکہ نتائج واضح تھے۔ ابھی خوراک کی مقدار کے تعین، کوووڈ کی پیچیدگیوں کے کم خطرے سے دو چار افراد کے لیے اس کے فوائد جیسے سوالات ابھی باقی ہیں۔

    اس ٹرائل میں 8 موجودہ ادویات کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی جن میں سے ہیپاٹائٹس سی کی ایک دوا پر کام ابھی بھی جاری ہے، اس ٹرائل کے نتائج طبی جریدے جرنل لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

  • ایک عام دوا کووڈ 19 کی شدت کم کرنے میں معاون

    ایک عام دوا کووڈ 19 کی شدت کم کرنے میں معاون

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کولیسٹرول کم کرنے والی ایک عام دوا سے کووڈ 19 کی علامات کو 70 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بلڈ کولیسٹرول کم کرنے کے لیے عام استعمال ہونے والی ایک دوا کووڈ 19 کو 70 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔

    برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی، کیلی یونیورسٹی اور اٹلی کے سان ریفیلی سائنٹیفک انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ خون میں موجود کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے لیے کھائی جانے والی دوا فینو فائبریٹ انسانی خلیات میں کووڈ کو نمایاں حد تک کم کرسکتی ہے۔

    لیبارٹری ٹیسٹوں میں دریافت کیا گیا کہ اس دوا کی عام خوراک سے بیماری کی شدت کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کے لیے دستیاب اس دوا کو عموماً خون میں کولیسٹرول اور چکنائی والے مواد کی شرح کو کم کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔

    تحقیقی ٹیم نے اب اسپتال میں زیر علاج کووڈ کے مریضوں میں دوا کے کلینکل ٹرائلز کا مطالبہ کیا ہے، امریکا اور اسرائیل میں اس دوا کے کووڈ کے مریضوں پر اثرات کے ٹرائلز پہلے سے جاری ہیں۔

    کرونا وائرس اپنے اسپائیک پروٹین کو انسانی جسم میں موجود ایس 2 ریسیپٹر کو جکڑ کر خلیات میں داخل ہوتا ہے اور اس تحقیق میں پہلے سے استعمال کی منظوری حاصل کرنے والی ادویات بشمول فینو فائبریٹ کی آزمائش کی گئی تھی۔

    اس کا مقصد ایسی ادویات کی شناخت کرنا تھا جو ایس ٹو ریسیپٹر اور اسپائیک پروٹین کے درمیان تعلق میں مداخلت کرسکے۔ مذکورہ دوا کی شناخت کے بعد تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری میں انسانی خلیات میں اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔

    اس مقصد کے لیے خلیات کو کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ دوا بیماری کو 70 فیصد تک کم کر دیتی ہے۔

    اب تک شائع نہ ہونے والے اضافی ڈیٹا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ مذکورہ دوا کرونا وائرس کی نئی اقسام بشمول ایلفا اور بیٹا کے خلاف بھی اتنی ہی مؤثر ہے، جبکہ ڈیلٹا پر اس کی افادیت کے حوالے سے تحقیق ابھی جاری ہے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا وائرس کی نئی اقسام سے کیسز اور اموات کی شرح میں مختلف ممالک میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اگرچہ ویکسین پروگرامز طویل المعیاد بنیادوں پر کیسز کی شرح میں کمی کے لیے حوصلہ افزا ہیں، مگر اب بھی فوری طور پر بیماری کے علاج کے لیے ادویات کو شناخت کرنے کی ضرورت ہے۔

  • امریکی خاتون کے خلیے جو 70 سال بعد بھی فروخت کیے جا رہے ہیں

    امریکی خاتون کے خلیے جو 70 سال بعد بھی فروخت کیے جا رہے ہیں

    دنیا میں کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے خود نہایت تکلیف دہ زندگی گزاری لیکن ان کی زندگی انسانیت کی محسن ثابت ہوئی، امریکا کی ہنریٹے لیکس بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جن کی وجہ سے دنیا کو بے شمار بیماریوں کا علاج ملا۔

    افریقی نژاد امریکی خاتون ہنریٹے لیکس سنہ 1951 میں ایک ٹیومر کا شکار ہوئیں، وہ 30 برس کی تھیں جب ان کے پیٹ میں ٹیومر کا انکشاف ہوا۔

    ڈاکٹرز نے علاج کے لیے ان کے ٹیومر سے کچھ خلیے نکالے، اس وقت ایسی ٹیکنالوجی نہیں تھی جن کی مدد سے انسانی جسم سے باہر نکالنے کے بعد خلیات کو زندہ رکھا جاتا، چنانچہ خیال کیا گیا کہ ان خلیات کی موت سے قبل ان پر تحقیق کرلی جائے۔

    لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خلیات نہ صرف 24 گھنٹے زندہ رہے بلکہ آج تک زندہ ہیں۔

    لیکس کے ان خلیات کی مدد سے کینسر اور پولیو جیسی بے شمار بیماریوں پر تحقیق کر کے ان کا علاج دریافت کیا گیا۔

    اس علاج کا سہرا جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سر جاتا ہے جس نے دوائیں ایجاد کر کے بہت پیسہ کمایا۔ لیکس کے خلیات دنیا کی ہر لیبارٹری میں آج بھی تحقیق کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    لیکن بدقسمتی سے خود لیکس کی موت نہایت غربت میں ہوئی، ان کا خاندان 1975 تک غربت کا شکار رہا لیکن اس کے بعد اس خاندان کو ان خلیات کی مدد سے ہونے والی کمائی سے رائلٹی ملنے لگی۔

  • وہ دوا جو کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ کم کرے

    وہ دوا جو کووڈ 19 کے مریضوں میں موت کا خطرہ کم کرے

    کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے ویکسین تو بنا لی گئی تاہم اس کی کوئی حتمی دوائی آج تک نہیں طے ہوسکی، اب حال ہی میں ماہرین نے ایسی دوا کی طرف اشارہ کیا ہے جو کووڈ کے مریضوں میں مرنے کا خطرہ کم کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے ایک ایسی دوا کو دریافت کیا ہے جو کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں موت کا خطرہ 20 فیصد تک کم کردیتی ہے، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریکوری ٹرائل کے دوران اسپتال میں زیر علاج کووڈ مریضوں کی صحت یابی میں مدد دینے والی تیسری دوا کو دریافت کیا گیا۔

    درحقیقت یہ پہلی دوا ہے جو بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں پیدا ہونے والے ورم کی روک تھام کی بجائے براہ راست وائرس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس دوا یا مونوکلونل اینٹی باڈی کا امتزاج ری جینیرون نے تیار کیا ہے اور ان مریضوں پر بھی کام کرتی ہے جن میں کرونا وائرس کی بیماری کے ردعمل میں اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔

    ایسے مریضوں کا علاج نہ ہو تو 30 فیصد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ یہ شرح ان مریضوں میں 15 فیصد ہے جس میں وائرس کے خلاف ایک اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ کے ریکوری ٹرائل کے پروفیسر سر مارٹن لانڈرے نے بتایا کہ یہ بہت اہم ہے، ہم نے جو دریافت کیا ہے، اسے ہم ایک اینٹی وائرل علاج کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، اس طرح ہم ان مریضوں کی اموات کی شرح کم کرسکتے ہیں جن میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈی ردعمل پیدا نہیں ہوتا اور ایسے ہر 3 میں سے ایک کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم اس دوا سے یہ خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ دوا لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے 2 مونوکلونل اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی ہے، جو کرونا وائرس کے 2 مختلف حصوں میں اسپائیک پروٹین کو جکڑ کر اسے خلیات میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔

    اس سے قبل امریکا میں کچھ چھوٹے ٹرائلز میں لوگوں میں اس کی کچھ افادیت کو ثابت کیا گیا تھا اور بتایا گیا کہ بیماری کے آغاز میں اس کے استعمال سے لوگوں کی بیماری کو پھیلنے سے روک کر اسپتال میں داخلے کا امکان کم کیا جاسکتا ہے۔

    برطانوی ٹرائل میں 9 ہزار 785 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 30 فیصد میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، 50 فیصد میں اینٹی باڈیز تھیں جبکہ باقی مریضوں کے بارے کچھ واضح نہیں کیا گیا۔

    ٹرائل میں اینٹی باڈیز سے محروم افراد میں اموات کی شرح 30 فیصد سے گھٹ کر 24 فیصد تک آگئی، یعنی ہر 100 مریضوں میں سے 6 کی زندگیاں بچالی گئیں۔

    ان کا اسپتال میں قیام بھی 4 دن کم ہوگیا اور وینٹی لیٹر پر جانے کا امکان بھی ہوا، تاہم اس دوا کا ان افراد پر کوئی اثر نہیں ہوا جن میں اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے ہسپتال میں داخلے پر کووڈ کے مریضوں کے اینٹی باڈی ٹیسٹ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عام ہوجائیں، تاکہ اس کے مطابق اس نئی دوا کا استعمال کرایا جاسکے۔

  • کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر کام شروع

    کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر کام شروع

    امریکی فارما سیوٹیکل کمپنی فائزر کی کرونا ویکسین دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہے، فائزر نے اب کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے دوا کی تیاری پر بھی کام شروع کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی فارما سیوٹیکل کمپنی فائزر کووڈ 19 کی بیماری کے علاج کے لیے دوا کی تیاری پر کام کر رہی ہے، فائزر کی گولی کی شکل میں اس دوا کے پہلے مرحلے کا کلینیکل ٹرائل بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں جاری ہے۔

    یہ دوا وائرس کے ایک مخصوص انزائمے کو ہدف بنائے گا جو انسانی خلیات میں وائرس کی نقول بنانے کا کام کرتا ہے۔ فائزر کو توقع ہے کہ یہ گولی بیماری ظاہر ہوتے ہی اس کے خلاف مقابلہ کرسکے گی۔

    فائزر کے چیف سائنٹیفک آفیسر اور ورلڈ وائیڈ ریسرچ، ڈویلپمنٹ اینڈ میڈیکل شعبے کے صدر مائیکل ڈولسٹن نے ایک بیان میں بتایا کہ کووڈ 19 کی وبا پر قابو پانے کے لیے ویکسین کے ذریععے اس کی روک تھام اور وائرس کے شکار افراد کے لیے علاج دونوں کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سارس کووڈ 2 جس طرح اپنی شکل بدل رہا ہے اور عالمی سطح پر کووڈ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی اور وبا کے بعد علاج تک رسائی بہت اہم ہے۔

    مائیکل ڈولسٹن کے مطابق مذکورہ دوا منہ کے ذریعے کی جانے والی تھراپی ثابت ہوگی جو بیماری کی پہلی علامت کے ساتھ ہی تجویز کی جاسکے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس تھراپی کے باعث مریضوں کو اسپتال میں داخلے یا آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ فائزر کی جانب سے اسپتال میں زیر علاج مریضوں کے لیے علاج کے لیے بھی نوول ٹریٹمنٹ انٹرا وینوس اینٹی وائرل پر بھی کام کیا جارہا ہے۔

    مائیکل ڈولسٹن کے مطابق ان دونوں سے ان مقامات پر مریضوں کا علاج ہوسکے گا جہاں کیسز موجود ہوں گے۔

    یہ دوا براہ راست وائرل ذرات بننے کی روک تھام کرنے والی گولی ہے، اگر وائرس اپنی نقول بنا نہیں سکے گا تو بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکے گا اور نقصان نہیں ہوگا۔

    اب تک تجربات میں کووڈ 19 اور دیگر کرونا وائرسز کے خلاف اس کے مؤثر ثابت ہونے پر بھی ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ انسانوں میں محفوظ اور مؤثر ہے۔

  • کیا بڑھاپے کو روکنا ممکن ہے؟ سائنسدانوں کا نیا دعویٰ

    کیا بڑھاپے کو روکنا ممکن ہے؟ سائنسدانوں کا نیا دعویٰ

    بڑھتی عمر کو روکنے اور طویل عمر پانے کے لیے انسان ہمیشہ سے جستجو میں رہا ہے، اب ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسی دوا دستیاب ہوسکتی ہے جو زندگی کو طویل کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 5 سے 10 سال میں ایسی دوا ملے گی جو عمر بڑھنے کے عمل کو روکنے اور جسم کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہوگی۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن کے پروفیسر ماکوتو ناکانی کا کہنا ہے کہ 60 سال قبل امریکا کے ایک سائنس دان لیونارڈ بیفلک نے دریافت کیا تھا کہ انسانی جسم کے خلیات کی ایک خاص تعداد کئی بار تقسیم ہوسکتی ہے، جس کے بعد ضعیفی کا عمل آہستہ ہوجاتا ہے۔

    امریکی سائنسدان کی دریافت کے مطابق بڑھتی عمر میں ایسے مضر خلیے جسم میں جمع ہوجاتے ہیں جو سوزش اور جلد کے بڑھاپے کا سبب بنتے ہیں۔ جاپانی سائنسدانوں کے مطابق اگر ان خلیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے تو عمر بڑھنے کی علامات میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے والے خلیے کے زندہ رہنے کے لیے جی ایل ایس 1 انزائم انتہائی ضروری ہے، ایک خاص روک تھام کرنے والے مادے کے استعمال سے عمر کے خلیوں سمیت سوجن کو بھڑکانے والے تمام خلیوں کو ختم کرنا ممکن ہوگا۔

    جاپانی سائنس دانوں نے ایسی دوائی استعمال کرنے کا ارادہ کیا ہے جو اس وقت دستیاب ہے، یہ اس وقت چوہوں میں کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے سے گزر رہی ہے جس میں کینسر کی کچھ اقسام کا علاج ہے اور اس کا نتیجہ مثبت ہے۔

  • اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات کے حیران کن نتائج

    اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات کے حیران کن نتائج

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کو اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات نہ صرف کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے مؤثر ہیں بلکہ یہ اس سے محفوظ لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں شائع شدہ نئی تحقیقی رپورٹس کے مطابق 2 اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی دوا سے کووڈ 19 سے متاثر افراد کے اسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ 70 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    اس تحقیق میں شامل 10 رضا کار کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، مگر ان کو اینٹی باڈیز کی جگہ پلیسبو استعمال کروایا گیا تھا، دوسری جانب ری جینوران فارماسیوٹیکلز نے اپنے ٹرائل کے جزوی نتائج جاری کیے ہیں۔

    اس ٹرائل میں بھی اینٹی باڈیز کے امتزاج کو آزمایا جارہا تھا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ اس کی مدد سے کووڈ 19 کے مریضوں کے ساتھ موجود گھر والوں میں علامات والی بیماری کی روک تھام میں سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی۔

    ان دونوں ٹرائلز کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے جبکہ ری جینوران کے نتائج ٹرائل میں شامل ایک چوتھائی افراد پر مبنی تھے۔

    اینٹی باڈیز ایسے پروٹینز ہوتے ہیں جو وائرس سے منسلک ہو کر اسے خلیات کو متاثر کرنے سے روکتے ہیں، مگر عام طور پر ایسا بیماری کا شکار ہونے یا ویکسی نیشن کے چند ہفتوں بعد ہوتا ہے۔

    ان ادویات کا مقصد ابتدا سے ایسی ایک یا 2 اینٹی باڈیز کے ڈوز فراہم کرنا ہے جو لیبارٹری ٹیسٹوں میں کرونا وائرس کے خلاف مؤثر رہے۔

    ری جینوران کے ٹرائل میں 2 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا اور جو نتائج جاری کیے گئے، وہ 409 افراد پر اس کی آزمائش کے حوالے سے تھے۔

  • کووڈ 19 کے مریضوں کے قریب رہنے والے افراد کے لیے دوا کی تیاری

    کووڈ 19 کے مریضوں کے قریب رہنے والے افراد کے لیے دوا کی تیاری

    لندن: برطانیہ میں ایسی دوا بنائی جارہی ہے جو کووڈ 19 کے مریض کے قریبی افراد کو اس مرض سے بچا سکے گی، مریض کے قریب رہنے والے افراد کو بھی اس وائرس کا شکار ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں سائنسدان ایسی نئی دوا کی آزمائش کر رہے ہیں جو کرونا وائرس سے متاثرہ فرد میں اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو بننے سے روک سکے گی اور ماہرین کو توقع ہے کہ اس سے متعدد زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

    یہ اینٹی باڈی تھراپی اس وبائی مرض کے خلاف فوری مدافعت فراہم کرے گی، جبکہ اسے اسپتالوں میں ایمرجنسی علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

    ایسے گھروں میں جہاں کوئی فرد کووڈ 19 کا شکار ہو، ان کے ساتھ رہنے والوں کو یہ دوا انجیکٹ کرنے سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ وہ بیمار نہ ہو۔

    محققین کے مطابق یہ ایسی جگہوں میں بھی استعمال کروائی جاسکے گی جہاں وائرس کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہو۔

    لندن کالج یونیورسٹی ہاسپٹل کی وائرلوجسٹ ڈاکٹر کیتھیرن ہولیان جو اس دوا پر تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہی ہیں، نے بتایا کہ اگر ہم ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ یہ علاج کارآمد ہے اور وائرس کا سامان کرنے والے افراد میں کووڈ 19 کی روک تھام ہوسکتی ہے، تو یہ اس جان لیوا وائرس کے خلاف جنگ میں ایک بہترین ہتھیار ثابت ہوگا۔

    اس دوا کو لندن کالج یونیورسٹی ہاسپٹل اورسوئیڈن کی دوا ساز کمپنی آسٹرا زینیکا مل کر تیار کررہے ہیں، جو اس سے قبل آکسفورڈ یونیورسٹی کی کووڈ 19 ویکسین کے لیے بھی کام کرچکی ہے۔

    تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی دوا سے لوگوں کو کووڈ 19 سے 6 سے 12 ماہ تک تحفظ مل سکے گا۔

    ٹرائل میں شامل افراد کو اس دوا کے 2 ڈوز استعمال کروائے جارہے ہیں اور اگر اس کو منظوری ملی، تو اس کا استعمال ایسے افراد کو کروایا جائے گا جو گزشتہ 8 دنوں میں کووڈ 19 سے متاثر کسی فرد سے ملے ہوں۔

    محققین کو توقع ہے کہ تحقیق میں شواہد پر نظرثانی کے بعد ریگولیٹری کی منظوری حاصل کی جاسکے گی اور مارچ یا اپریل تک یہ عام دستیاب ہوگی۔

  • کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کرونا وائرس کی دواؤں کے حوالے سے اہم تحقیق

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی دواؤں کی شناخت کرلی، ماہرین کے مطابق ان کی حکمت عملی سے کرونا وائرس کے خلاف ادویات کی دریافت کو تیز کیا جاسکے گا۔

    جریدے جرنل ہیلی یون میں شائع شدہ ایک طبی تحقیق کے مطابق کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اے آئی (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی کی مدد سے کرونا وائرس کا علاج کرنے والی ادویات کی شناخت کی گئی ہے۔

    اس مقصد کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی ایک کمپیوٹر الگورتھم کی مدد لی گئی جو ٹرائل اور غلطیوں سے پیشگوئی کرنا سیکھتا اور خود کو بہتر بناتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ادویات کی شناخت میں مدد گار حکمت عملی نہایت اہمیت رکھتی ہے، تاکہ منظم طریقے سے کووڈ 19 کے علاج کے لیے نئی ادویات کو دریافت کیا جاسکے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظور کردہ ایسی ادویات جو وائرس کے داخلے میں مدد دینے والے ایک یا زیادہ پروٹین کو ہدف بناتی ہیں، مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اضافی ادویات یا چھوٹے مالیکیولز جو وائرس کے جسم میں داخلے اور اس کی نقول بننے کے عمل میں رکاوٹ بن سکیں، کی دریافت کے لیے ان کی حکمت عملی مددگار ثابت ہوسکے گی۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے 65 انسانی پروٹینز کی فہرست کو استعمال کیا گیا جن کے بارے میں علم ہوا کہ وہ کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہتے ہیں، جس کے بعد ہر پروٹین کے لیے مشین لرننگ ماڈلز تیار کیے گئے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان ماڈلز کو وائرس کی روک تھام کرنے والے نئے چھوٹے مالیکیول اور ایکٹیویٹرز کی شناخت کی تربیت دی گئی۔

    اس کے بعد محققین نے ان مشین لرننگ ماڈلز کو ایک کروڑ عام دستیاب چھوٹے مالیکیولز کی اسکریننگ کے لیے استعمال کر کے شناخت کی کہ کونسے کیمیکلز نئے کرونا وائرس کے پروٹینز سے رابطے میں رہنے والے پروٹینز کے لیے بہترین ہیں۔

    اس کے بعد مزید پیشرفت کرتے ہوئے ایسے غذائی مرکبات اور ادویات کو شناخت کیا گیا جن کی منظوری ایف ڈی اے پہلے ہی دے چکی ہے۔

    اس طریقہ کار سے نہ صرف سائنسدانوں کو سنگل انسانی پروٹین کو ہدف بنانے والے امیدواروں کی شناخت میں مدد ملی بلکہ انہوں نے دریافت کیا کہ کچھ کیمیکلز 2 یا اس سے زائد انسانی پروٹینز کو بھی ہدف بناسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیٹا بیس کووڈ 19 اور دیگر امراض کے خلاف فوری اور محفوظ علاج کی حکمت عملیوں کی شناخت کے وسیلے کا کام کرسکے گا جو ان 65 مخصوص پروٹین سے متعلق ہوں۔

  • سنگاپور نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری دے دی

    سنگاپور نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری دے دی

    سنگاپور میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے ریمڈسویئر دوا کی منظوری دے دی گئی، سنگاپور کے علاوہ بھی متعدد ممالک میں یہ دوا استعمال کی جارہی ہے۔

    سنگاپور کے ہیلتھ پروڈکٹس ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ اس دوا کے استعمال کی مشروط اجازت دی گئی ہے، یہ دوا صرف انہی افراد کو دی جائے گی جنہیں کوویڈ 19 کی وجہ سے سانس لینے میں شدید تکلیف کا سامنا ہوگا۔

    سنگاپور میں اب تک کرونا وائرس کے 39 ہزار 387 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ وائرس سے اب تک 25 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سنگاپور میں اس وائرس کے آغاز میں ہی سخت حفاظتی اقدامات اپنانے شروع کردیے گئے تھے۔

    جلیئڈ کمپنی کی تیار کردہ دوا ریمڈسویئر کو سنگاپور کے علاوہ امریکا، بھارت اور جنوبی کوریا میں ایمرجنسی میں تشویشناک حالت میں مبتلا مریضوں پر استعمال کے لیے منظور کیا جاچکا ہے۔

    علاوہ ازیں تائیوان، جاپان اور برطانیہ میں بھی اس دوا کی منظوری دے دی گئی ہے اور کرونا وائرس کے مریضوں کو بڑے پیمانے پر اس کی فراہمی شروع کردی گئی ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں اس دوا کو تیار کرنے والی کمپنی جلیئڈ نے کہا ہے کہ وہ اس دوا کی ایک بڑی مقدار عطیہ کریں گے جس سے کم از کم 1 لاکھ 40 ہزار مریضوں کا علاج ہو سکے گا۔

    حال ہی میں میڈیکل جرنل نیچر میں شائع ایک تحقیق میں اس دوا کے حیران کن اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 12 بندروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا اور ان میں سے نصف کو یہ دوا دی گئی، ماہرین نے دیکھا کہ جن بندروں کو یہ دوا استعمال کروائی گئی ان میں پھیپھڑوں کو (کرونا وائرس سے) ہونے والے نقصان کی شرح کم تھی۔

    اس دوا نے بندروں کو سانس کی بیماری سے بھی محفوظ رکھا۔

    اس دوا کے انسانوں پر اثرات کی فی الحال آزمائش کی جارہی ہے تاہم ابتدائی جائزے میں دیکھا گیا کہ اس دوا کی بدولت کرونا وائرس کے مریض جلد صحتیاب ہوگئے۔