Tag: دوا

  • کرونا وائرس کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے مختلف دوائیں استعمال کی جارہی ہیں اور ریمڈسویئر بھی ان میں سے ایک ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ دوا پھیپھڑوں کو کرونا وائرس کے باعث ہونے والے نقصان سے محفوظ رکھتی ہے۔

    جلیئڈ کمپنی کی تیار کردہ دوا ریمڈسویئر کو امریکا، بھارت اور جنوبی کوریا میں ایمرجنسی میں تشویشناک حالت میں مبتلا مریضوں پر استعمال کے لیے منظور کیا جاچکا ہے، دیگر ممالک میں بھی اس دوا کو مختلف شرائط کے تحت استعمال کیا جارہا ہے۔

    حال ہی میں میڈیکل جرنل نیچر میں شائع ایک تحقیق میں اس دوا کے حیران کن اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    اس تحقیق کے لیے 12 بندروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا اور ان میں سے نصف کو یہ دوا دی گئی، ماہرین نے دیکھا کہ جن بندروں کو یہ دوا استعمال کروائی گئی ان میں پھیپھڑوں کو (کرونا وائرس سے) ہونے والے نقصان کی شرح کم تھی۔

    اس دوا نے بندروں کو سانس کی بیماری سے بھی محفوظ رکھا۔

    اس دوا کے انسانوں پر اثرات کی فی الحال آزمائش کی جارہی ہے تاہم ابتدائی جائزے میں دیکھا گیا کہ اس دوا کی بدولت کرونا وائرس کے مریض جلد صحتیاب ہوگئے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں اس دوا کو تیار کرنے والی کمپنی جلیئڈ نے کہا ہے کہ وہ اس دوا کی ایک بڑی مقدار عطیہ کریں گے جس سے کم از کم 1 لاکھ 40 ہزار مریضوں کا علاج ہو سکے گا۔

    تائیوان، جاپان اور برطانیہ میں اس دوا کی منظوری دے دی گئی ہے اور کرونا وائرس کے مریضوں کو اس کی فراہمی شروع کردی گئی ہے۔

  • تائیوان نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری دے دی

    تائیوان نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری دے دی

    تائی پے: تائیوان نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے ریمڈسویئر دوا کی منظوری دے دی، تائیوان میں سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے کرونا وائرس کے پھیلنے کی شرح نہایت کم ہے۔

    تائیوان کی حکومت نے کہا ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے ریمڈسویئر دوا کی منظوری دے دی ہے۔

    تائیوان کے سینٹرل ایپی ڈیمک کمانڈ سینٹر کا کہنا ہے کہ تائیوان کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے کرونا وائرس کے حوالے سے اس دوا کے اثرات کو جانچا ہے، اس کے بعد اس دوا کی منظوری دی گئی ہے۔

    یہ دوا وائرس سے شدید متاثر مریضوں کو بھی دی جاسکے گی۔

    تائیوان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے آغاز میں ہی ملک میں سخت حفاظتی اقدامات نافذ کردیے تھے جس کی وجہ سے تائیوان میں وائرس کے پھیلنے کی شرح نہایت کم رہی۔

    پورے ملک میں اب تک کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد صرف 442 ہے جن میں سے 7 مریض ہلاک ہوچکے ہیں۔

    دوسری جانب امریکی ریاست کیلی فورنیا میں اس دوا کو تیار کرنے والی کمپنی جلیئڈ نے کہا ہے کہ وہ اس دوا کی ایک بڑی مقدار عطیہ کریں گے جس سے کم از کم 1 لاکھ 40 ہزار مریضوں کا علاج ہو سکے گا۔

    امریکا میں اس دوا کے وسیع استعمال کی منظوری نہیں دی گئی، جبکہ جاپان اور برطانیہ میں اس دوا کی منظوری دے دی گئی ہے اور مریضوں کو اس کی فراہمی شروع کردی گئی ہے۔

  • کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    کرونا وائرس: وہ دوا جو ویکسین کا کام بھی کر سکتی ہے

    بیجنگ: چین میں کرونا وائرس کے خلاف ایسی دوا کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے جو نہ صرف مریضوں کو صحتیاب کرے گی بلکہ ویکسین کی طرح کام کر کے انہیں وائرس کے آئندہ حملے سے بھی تحفظ دے گی۔

    چین کی پیکنگ یونیورسٹی میں ٹیسٹ کی جانے والی اس دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک طرف تو متاثرہ شخص کی بیماری کے عرصے کو کم کر کے اسے جلد صحتیاب ہونے میں مدد دے گی تو دوسری طرف مریض کو اس مرض سے کچھ عرصے کے لیے محفوظ بھی کردے گی۔

    یونیورسٹی کے ایڈوانسڈ انوویشن سینٹر فار جینومکس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مذکورہ دوا کی جانوروں پر آزمائش کا مرحلہ کامیاب ہوگیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب ایک متاثرہ چوہے میں مخصوص اینٹی باڈیز داخل کی گئیں تو وائرس کے افعال میں بے حد کمی آئی۔ یہ اینٹی باڈیز انسانی جسم کے مدافعتی نظام کی پیدا کردہ ہوتی ہیں اور یہ وائرس کو، خلیات کو متاثر کرنے سے روکتی ہیں۔

    ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہماری مہارت ایک خلیے پر کام کرنے کی ہے اور ہم مدافعتی نظام یا وائرولوجی پر کام نہیں کر رہے، جب ہمیں علم ہوا کہ صرف ایک خلیہ بھی اینٹی باڈیز کے ساتھ مل کر اس وائرس کے خلاف کام کرسکتا ہے تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دوا رواں برس کے آخر تک تیار ہوجائے گی اور موسم سرما میں اس وائرس کے ایک اور ممکنہ حملے میں کام آئے گی، دوا کے کلینکل ٹیسٹ آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں ہوں گے۔

    دوسری جانب چین میں کرونا وائرس کے خلاف اب تک 5 ویکسینز تیار کی جاچکی ہیں جو انسانی آزمائش کے مرحلے میں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس: افریقہ میں تیار کردہ دوا آخر کار جرمنی کی لیبارٹری پہنچ گئی

    کرونا وائرس: افریقہ میں تیار کردہ دوا آخر کار جرمنی کی لیبارٹری پہنچ گئی

    مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر میں تیار کردہ جڑی بوٹیوں کے مشروب، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ کرونا وائرس کا مؤثر ترین علاج ہے، کا جرمنی میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    افریقی رہنماؤں اور خصوصاً مڈغاسکر کے صدر ایندرے رجولین کے بار بار زور دینے پر بالآخر اس افریقی مشروب کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے جسے کوویڈ اورگینک کا نام دیا گیا ہے۔

    جرمنی کے میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین سمیت ڈنمارک اور امریکی محققین نے اس مشروب کے اہم جزو ارٹیمیسیا پودے کا ٹیسٹ شروع کردیا ہے۔ اس پودے کو ایک طویل عرصے سے ملیریا کے علاج میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    تحقیق کے ابتدائی مرحلے میں صرف اس پودے کو ٹیسٹ کیا جارہا ہے جس میں ماہرین اس پودے کے افعال اور کرونا وائرس سے اس کے تعلق کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    مڈغاسکر نے ابھی اس دوا کے فارمولے کو ظاہر نہیں کیا ہے اور اس حوالے سے صدر رجولین کا کہنا ہے کہ وہ مشروب بنانے کے حقوق محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس پودے پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج مئی کے آخر تک سامنے آجائیں گے، تاہم اگر اس کی افادیت ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے بنے مشروب کے کلینکل ٹیسٹ کیے جائیں گے جس میں مزید وقت لگے گا۔

    مڈغاسکر میں تیار کردہ یہ مشروب کوویڈ اورگینک افریقہ میں بے حد مقبولیت پارہا ہے، مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس مشروب کے استعمال سے کرونا وائرس کے مریض تیزی سے صحتیاب ہورہے ہیں۔

    مڈغاسکر کے صدر کا کہنا ہے کہ اس مشروب کی ایک ہی خوراک سے 24 گھنٹوں کے اندر کرونا وائرس کے مریض کی حالت میں بہتری آتی ہے، جبکہ اگلے 7 سے 10 دن میں مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوجاتا ہے۔

    دیگر افریقی ممالک نے بھی بڑی مقدار میں اس مشروب کو مڈغاسکر سے منگوایا ہے۔

  • جاپان میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری

    جاپان میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی منظوری

    ٹوکیو:جاپان نے اینٹی وائرل دوا ریمیڈی سیور کو کرونا کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان نے ریمیڈی سیور کو کرونا وائرس کے علاج کے لیے استعمال کی اجازت دی ہے اور یہ کرونا مریضوں کے علاج کے لیے جاپان کی پہلی منظور کردہ دوا ہے۔ ریمیڈی سیور وائرس کے جین میں شامل ہو کر اس کے پھیلنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔

    امریکا کے بعد جاپان ریمیڈی سیور کو کرونا مریضوں کے علاج کے استعمال کے منظور کرنے والا دوسرا ملک بن گیا ہے، اس سے قبل امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس کے استعمال کی منظوری دی تھی۔

    جاپان میں 16 ہزار سے زائد کرونا سے متاثرہ افراد ہیں اور 800 سے کم اموات ہیں جبکہ دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں جاپان میں کم کسیز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ کورونا وائرس کا اب تک کوئی مستند علاج موجود نہیں اور یہ منظوری عارضی طور پر دی گئی ہے تاکہ مریضوں اور معالجین کو ریلیف فراہم کیا جائے اور اسپتال مریضوں سے نہ بھر جائیں۔

    اس سے قبل جاپان کے وزیراعظم آبے شنزو نے کرونا وائرس کی وجہ سے ملک گیر ہنگامی حالت میں 31 مئی تک توسیع کی تھی۔جاپان کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر صورت حال بہتر ہوگی تو یہ ہنگامی حالت مذکورہ تاریخ سے قبل بھی ختم کی جاسکتی ہے۔

    آبے شنزو کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کم ہو کر پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی ہوگئی۔جاپان کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو قابو میں لانے کے لیے درست سمت پر ہے۔

  • کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ہونے کے دعوؤں کے بعد، آسٹریلوی ماہرین نے ایک اور دوا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جوڑوں کے درد کی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن کرونا وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    آسٹریلوی شہر میلبرن کے ماہرین طب کا کہنا ہے کہ قوت مدافعت کو متاثر کرنے والی بیماری لیوپس، اور جوڑوں کے درد آرتھرائٹس (گٹھیا) میں استعمال کی جانے والی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    ان کے مطابق لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات کے دوران اس دوا نے موذی وائرس کا مکمل خاتمہ کردیا۔

    اب وہ اس کی انسانی آزمائش پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، دوا کی آزمائش 22 سو 50 افراد پر کی جائے گی جن میں ڈاکٹر اور نرسز بھی شامل ہیں۔

    والٹر الیزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ڈاؤگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ اس دوا کے نتائج 3 سے 4 ماہ میں سامنے آجائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ دوا اس وائرس کا علاج کر سکتی ہے تاہم یہ بطور ویکسین، یعنی وائرس کے حملہ آور ہونے سے قبل حفاظت کے لیے استعمال نہیں کی جاسکے گی۔

    ڈاکٹر ہلٹن کے مطابق اس دوا کے بہترین اثرات اس وقت سامنے آئیں گے جب مریض اسے روزانہ استعمال کرے گا۔

    خیال رہے کہ ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے حوالے سے ایک امریکی سرمایہ کار جیمز ٹوڈرو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دوا کرونا وائرس کا اہم علاج ثابت ہو رہی ہے تاہم گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کلورو کوئن کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جو کرونا کے علاج سے متعلق ہو۔

    کلورو کوئن 85 سال پرانی دوا ہے جسے جنگ عظیم دوم کے وقت استعمال کیا گیا تھا، یہ سنکونا درخت کی چھال سے تیار کی جاتی ہے اور نہایت کم قیمت دوا ہے۔

  • کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے ایسے میں امریکی ماہرین نے اس موذی وائرس کے ایک اور طریقہ علاج کی طرف توجہ دلائی ہے۔

    امریکی ریاست میزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ وہ افراد جو اس وائرس سے لڑ کر صحتیاب ہوچکے ہیں، آیا ان کے خون کا پلازمہ اس وائرس کے شکار دیگر افراد کی بھی مدد کرسکتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد اپنا خون عطیہ کریں اور یہ خون اس مرض سے لڑتے افراد کو چڑھایا جائے تو ان میں بھی اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

    یہ طریقہ علاج اس سے پہلے سنہ 1918 میں اسپینش فلو کی وبا کے دوران استعمال کیا گیا تھا جب طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

    واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج نیا نہیں ہے، اسے ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ خاصا مؤثر بھی ہے۔

    ماہرین نے امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو درخواست دے دی ہے جس کی منظوری ملنے کے بعد اس طریقہ علاج کو استعمال کیا جاسکے گا۔

    ایف ڈی اے کی اجازت کے بعد ڈاکٹرز اس طریقہ علاج سے کرونا وائرس کے ان مریضوں کا علاج کرسکیں گے جن کی علامات شدید ہیں اور انہیں موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہے۔

    ان کے مطابق یہ طریقہ علاج فوری طور پر ان مریضوں پر استعمال کیا جائے گا جن میں وائرس کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں گی جس کے بعد ان کے مرض کو شدید ہونے سے روکا جاسکے گا۔

  • صرف 20 منٹ میں کرونا وائرس کا علاج حتمی مراحل میں: امریکی ڈاکٹر کا دعویٰ کتنا سچ؟

    صرف 20 منٹ میں کرونا وائرس کا علاج حتمی مراحل میں: امریکی ڈاکٹر کا دعویٰ کتنا سچ؟

    واشنگٹن: ایک امریکی ڈاکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی دوا بنانے میں اگلے 3 سے 4 ہفتوں میں کامیاب ہوجائیں گے، ان کی بنائی گئی دوا صرف 20 منٹ میں اس موذی وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کرسکتی ہے۔

    امریکا کے ڈاکٹر جیکب گلینول کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی لیبارٹری کرونا وائرس کی دوا بنانے میں تقریباً کامیاب ہوچکی ہے اور یہ دوا اگلے 3 سے 4 ہفتوں میں دستیاب ہوگی۔

    ڈاکٹر گلینول کا کہنا ہے کہ ان کی بنائی دوا جسم میں موجود اینٹی باڈیز کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ کرونا کے وائرس سے مطابقت کرلیں گے جس کے بعد کرونا وائرس انسانی جسم کے لیے بے ضرر بن جائے گا۔

    یہی نہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ دوا صرف 20 منٹ میں اپنا اثر دکھا سکے گی۔

    ڈاکٹر گلینول کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ دوا امریکا کے آرمی میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف انفیکشیئس ڈیزیز کو بھیجی جارہی ہے جو اسے کرونا وائرس کا شکار امریکی فوجیوں پر ٹیسٹ کرے گا۔

    علاوہ ازیں اسے امریکا کی چارلس ریور لیبارٹریز کو بھی بھیجا جارہا ہے جہاں اسے مختلف مریضوں پر ٹیسٹ کروایا جائے گا۔ دونوں جگہ سے آنے والے نتائج کو دیکھا جائے گا اور ان کی بنیاد پر تعین کیا جائے گا کہ دوا کس حد تک مؤثر ہے۔

    ڈاکٹر گلینول کا کہنا ہے کہ اب تک کرونا وائرس کے خلاف جتنی بھی دواؤں پر کام کیا جارہا ہے وہ سب سال کے آخر تک دستیاب ہوسکیں گی، لیکن اس وائرس کی ہلاکت خیزی اس بات کی متقاضی ہے کہ جلد سے جلد اس کا توڑ تیار کیا جائے۔

  • وہ دوا جو کرونا وائرس کے خلاف ’مؤثر‘ ثابت ہو رہی ہے

    وہ دوا جو کرونا وائرس کے خلاف ’مؤثر‘ ثابت ہو رہی ہے

    بیجنگ: چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف فیوی پیراویر نامی ایک دوا مؤثر ثابت ہو رہی ہے، اس دوا کی اب تک کلینیکل آزمائش کی جارہی تھی۔

    چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک عہدیدار زینگ شن من کا کہنا ہے کہ فیوی پیراویر نامی جاپانی اینٹی وائرل دوا کے اثرات چین کے شہروں ووہان اور شینزن میں کلینکل ٹرائلز کے دوران حوصلہ افزا رہے ہیں۔

    ان کے مطابق اس دوا کو 340 مریضوں کو استعمال کروایا گیا اور یہ وائرس کے خلاف محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے علاج میں بھی واضح طور پر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق شینزن میں جن مریضوں کو یہ دوا استعمال کروائی گئی ان میں ٹیسٹ مثبت آنے کے 4 دن بعد وائرس ختم ہو گیا، جبکہ اس دوا کے بغیر مرض کی علامات کے لیے دیگر ادویات کے استعمال سے صحتیابی میں اوسطاً 11 دن درکار ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ایکسرے سے علم ہوا کہ اس نئی دوا کے استعمال سے 91 فیصد مریضوں کے پھیپھڑوں کی حالت میں بھی بہتری رونما ہوئی، جبکہ دیگر ادویات میں یہ شرح 62 فیصد کے قریب ہوتی ہے۔

    جاپان میں بھی ڈاکٹروں کی جانب سے اس دوا کو کرونا وائرس کے معمولی سے معتدل علامات والے مریضوں پر ہونے والے کلینیکل ٹرائلز کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹرز کو توقع ہے کہ اس کے استعمال سے مریضوں میں وائرس کی نشوونما کی روک تھام ممکن ہے۔

    جاپانی وزارت صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دوا سنگین علامات والے مریضوں کے لیے ممکنہ طور پر زیادہ مؤثر نہیں کیونکہ ایسے مریضوں پر اس کا اثر دیکھنے میں نہیں آیا جن میں یہ وائرس زیادہ پھیل چکا تھا۔

    ان کے مطابق اس نئی دوا کو کرونا وائرس سے ہونے والے بیماری کووڈ 19 کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کے لیے حکومتی اجازت کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ بنیادی طور پر فلو کے علاج کے لیے تیار کی گئی تھی۔

    اس دوا کو فیوجی فلم ٹویاما کیمیکل نے سنہ 2014 میں فلو کے لیے تیار کیا تھا تاہم کمپنی نے چین کے حالیہ دعوے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، البتہ چینی عہدے دار کے بیان کے بعد کمپنی کے حصص میں بدھ کو 14 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    دوسری جانب امریکی شہر سیئٹل میں واقع واشنگٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کرونا وائرس کی ویکسین کے تجربے کا آغاز کیا جاچکا ہے۔

    اس ویکسین کی آزمائش 45 صحت مند انسانوں پر کی جائے گی اور اس کے حتمی نتائج جاننے میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگے گا۔ اس کے بعد ہی یہ تعین کیا جاسکے گا کہ ویکسین وائرس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہے۔

  • کرونا وائرس: پہلی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع

    کرونا وائرس: پہلی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع

    واشنگٹن: امریکا میں دنیا بھر کو متاثر کرنے والے کرونا وائرس کی حفاظتی ویکسین کا تجربہ شروع کردیا گیا، ابتدائی طور پر 4 افراد کو یہ ویکسین دی گئی ہے۔

    امریکی شہر سیئٹل میں واقع واشنگٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس وقت کرونا وائرس کی ویکسین کا تجربہ کیا جارہا ہے، ویکسین کا 4 صحت مند افراد پر تجربہ کیا جارہا ہے۔

    اس ویکسین کی آزمائش 45 صحت مند انسانوں پر کی جائے گی اور اس کے حتمی نتائج جاننے میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگے گا۔ اس کے بعد ہی یہ تعین کیا جاسکے گا کہ ویکسین وائرس کے خلاف کس حد تک مؤثر ہے۔

    ویکسین کی کامیابی کی صورت میں مزید افراد پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔

    ماہرین نے کچھ رضا کاروں کو اس ویکسین کی زیادہ اور کچھ کو کم مقدار دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین جسم میں پروٹینز تیار کرے گی جس سے اینٹی باڈیز پیدا ہونے کی رفتار بڑھ جائے گی اور یوں قوت مدافعت میں بہتری آئے گی۔

    مذکورہ ویکسین چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنس میں ریکارڈ 42 دن کی مدت میں تیار گئی ہے۔

    یہ ویکسین کرونا وائرس کے مریضوں پر بے اثر ہوگی تاہم اگر یہ کامیاب ثابت ہوتی ہے تو اس کے استعمال سے کرونا وائرس سے محفوظ رہا جاسکے گا۔