Tag: دوا

  • دوا کھانے کا صحیح وقت کون سا ہے؟

    دوا کھانے کا صحیح وقت کون سا ہے؟

    ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ جس طرح ایک درست دوائی، درست استعمال سے کسی مرض کو ختم کرسکتی ہے یا اس کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح اس دوا کو کھانے کا وقت بھی اہمیت رکھتا ہے۔

    بعض دوائیں ہم نادانستگی میں غلط وقت پر لیتے ہیں جو اس طرح اثر نہیں کر پاتیں جس طرح سے انہیں کرنا چاہیئے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم دواؤں پر اپنا پیسہ ضائع کرتے جاتے ہیں، اور مرض جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دوا کھانے کا صحیح وقت دوا کی تاثیر پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ صحیح وقت دوا کی کارکردگی کو بھی بہترین بنا دیتا ہے۔

    آئیں آج ہم کچھ عام دواؤں کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں کہ انہیں کس وقت لینا چاہیئے۔

    نیند کی دوائیں

    نیند کی دوائیں بے خوابی کا مرض لاحق ہونے کی وجہ سے لی جاتی ہیں، یہ زیادہ تر بڑی عمر کے افراد لیتے ہیں جبکہ بعض کم عمر افراد کو بھی کسی بیماری کے سبب دماغ کو سکون پہنچانے کے لیے نیند کی دوائیں استعمال کروائی جاتی ہیں۔

    نیند کی گولی رات 9 بجے سے قبل لے لینا چاہیئے، اور اس کے بعد ایسے وقت بستر پر جانا چاہیئے کہ اس کے بعد صبح اٹھنے میں کم از کم 9 سے 10 گھنٹے کا وقت ہو۔

    یعنی اگر آپ کو صبح 7 بجے اٹھنا ہے تو آپ کو 10 بجے لازمی سوجانا چاہیئے، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ نیند کی دوا کو اپنا کام کرنے کا وقت مل سکے اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔

    اگر دوا لینے کے بعد صرف 5 یا 6 گھنٹے سویا جائے تو دوا کا اثر باقی رہے گا اور اگلے دن غنودگی محسوس ہوگی۔

    یہ اس وقت اور بھی ضروری ہے جب صبح بھی آپ کو کوئی دوا لینی ہو۔ دواؤں میں عموماً غنودگی کا احساس دلانے والا عنصر شامل ہوتا ہے لہٰذا صبح کی دوا اور رات کی دوا کے اثرات مل کر آپ کو پورا دن غنودہ رکھیں گے۔

    اسپرین

    ایک ڈچ تحقیق کے مطابق خون کو پتلا کرنے والی دوائیں جن میں اسپرین سرفہرست ہے، انہیں لینے کا بہترین وقت رات ہے۔ اگر ان ادویات کو صبح لیا جائے تو اس سے دل کا دورہ پڑنے اور فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    بلڈ پریشر کی دوا

    بلند فشار خون یا بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے کی ادویات کو کھانے کا بہترین وقت رات ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ ادویات صبح لی جائیں تو یہ متوقع اثرات نہیں دکھا سکیں گی۔

    تیزابیت کی دوا

    سینے میں جلن یا تیزابیت کی ادویات کو لینے کا بہترین وقت شام 6 بجے ہے، ہمارا معدہ 7 بجے کے بعد مزید تیزاب بناتا ہے تو شام میں دوا کھانے سے تیزاب بننے کا عمل معتدل ہوجاتا ہے۔

    جوڑوں میں تکلیف کی دوا

    جوڑوں میں تکلیف کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات کو کھانے کا صحیح وقت دن ہے۔ دن میں ان دوائیوں کو کھانے سے صحت پر زیادہ اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

  • شیزو فرینیا کی دوا ایک اور دماغی مرض کے لیے معاون

    شیزو فرینیا کی دوا ایک اور دماغی مرض کے لیے معاون

    امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن (ایف ڈی اے) نے دماغی مرض شیزو فرینیا کے لیے استعمال کی جانے والی دوا کو ایک اور دماغی مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے لیے بھی موزوں قرار دے دیا ہے۔

    ورالئر نامی یہ دوا سنہ 2015 میں بالغ افراد میں شیزو فرینیا کے علاج کے لیے منظور کی گئی تھی، تاہم تب سے ہی اسے بنانے والے اس دوا پر مختلف ریسرچ کر رہے تھے کہ آیا یہ دوا کسی اور مرض کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    اب ان کی ریسرچ کے کامیاب نتائج کو دیکھتے ہوئے ایف ڈی اے نے اس دوا سے بائی پولر ڈس آرڈر کے علاج کی بھی منظوری دے دی ہے۔

    ایف ڈی اے نے بائی پولر مریضوں کے لیے اس دوا کی روزانہ ڈیڑھ سے 3 ملی گرام مقدار کی منظوری دی ہے۔ شیزو فرینیا کے لیے اس کی 6 ملی گرام مقدار روزانہ استعمال کی جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

  • بیمار ہونے کے بعد سب سے پہلا کام کیا کرنا چاہیئے؟

    بیمار ہونے کے بعد سب سے پہلا کام کیا کرنا چاہیئے؟

    بدلتا ہوا موسم اور کام کی زیادتی اکثر اوقات ہمیں بیمار کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے، کیا آپ جانتے ہیں بیمار ہونے کی صورت میں سب سے پہلا کام کیا سرانجام دینا چاہیئے؟

    بعض افراد کا خیال ہے کہ بیماری کی علامت محسوس ہوتے ہی فوراً دوا لے لینی چاہیئے تاکہ بیماری شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے، لیکن کیا یہ واقعی درست ہے؟

    امریکی ماہرین اس کی جگہ ایک اور ترکیب بتاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیماری محسوس ہونے کی صورت میں آپ کو دوا لینے کے بجائے بستر پر لیٹ کر آرام کرنا چاہیئے۔

    دا جرنل آف ایکس پیری مینٹل میڈیسن میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق اس کا تجربہ 10، 10 افراد کے 2 گروہوں پر کیا گیا۔ ایک گروہ کے افراد کو نصف رات تک جاگنے کو کہا گیا جبکہ دوسرے گروہ کے افراد نے معمول کے مطابق اپنی نیند پوری کی۔

    بعض ازاں ماہرین نے ان کے قوت مدافعت کے خلیات (ٹی سیلز) کا تجزیہ کیا، ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جنہوں نے اپنے نیند پوری کی ان کے ٹی سیلز نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں ان میں بیماری سے لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

    اس کے برعکس وہ افراد جن کی نیند پوری نہیں ہوئی ان کے ٹی سیلز اتنے فعال نہیں تھے کہ بیماری کے جراثیم کا مقابلہ کرسکیں نتیجتاً ان کی بیماری میں شدت پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ بیماری محسوس ہونے کی صورت میں دوا لینے سے قبل کچھ وقت آرام کرنا چاہیئے، اس کے بعد بھی اگر بیماری برقرار ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

  • جنوبی افریقہ میں 10 لاکھ شہد کی مکھیاں ہلاک

    جنوبی افریقہ میں 10 لاکھ شہد کی مکھیاں ہلاک

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں فصلوں پر زہریلی دوا کے چھڑکاؤ کے باعث شہد کی مکھیوں کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے جن کی تعداد 10 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔

    جنوبی افریقہ میں شراب کے کسانوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی دوا فپرونل نے ممکنہ طور پر بے شمار شہد کی مکھیوں کو ہلاک کردیا۔

    کیپ ٹاؤن کے آس پاس موجود ایسے مقامات جہاں ان مکھیوں کی افزائش کی جاتی ہے، بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں، تاہم ابھی حتمی طور پر کہا نہیں جاسکتا کہ اس دوا سے کتنی مکھیاں ہلاک ہوئی ہیں۔

    یہ دوا اس سے قبل یورپ میں بھی بے شمار مکھیوں کی ہلاکت کی وجہ بن چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق فپرونل ان مکھیوں کے لیے بے حد خطرناک ہے اور سنہ 2013 میں یورپ میں اس پر پابندی بھی عائد کی جاچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: شہد کی مکھیاں خطرے میں

    شہد کے کاروبار سے وابستہ کیپ ٹاؤن کے قریب رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اس کے پاس موجود 35 سے 40 فیصد چھتوں کی مکھیاں اس سے متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ ہر روز اپنے چھتوں کے آگے بے شمار مکھیاں مردہ حالت میں پاتے ہیں۔

    ایک اور شخص کے مطابق اس واقعے سے شہد کی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا اور رواں برس کرسمس کے موقع پر شہد کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ ہمیں ان مکھیوں کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ امریکی ماہرین معیشت کے مطابق امریکا میں شہد کی مکھیاں ہر برس اندازاً 19 بلین ڈالر مالیت کی افزائش زراعت کا باعث بنتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: شہد کی مکھیاں فٹبال کھیل سکتی ہیں

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    واضح رہے کہ یہ عمل اس وقت انجام پاتا ہے جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوسنے کے لیے پھولوں پر آتی ہیں۔

    دوسری جانب ان مکھیوں سے ہمیں شہد بھی حاصل ہوتا ہے جو غذائی اشیا کے ساتھ کئی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

  • دماغ کو دھوکہ دے کر شفایاب کرنے والا خطرناک زہر

    دماغ کو دھوکہ دے کر شفایاب کرنے والا خطرناک زہر

    کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شے بیکار نہیں ہوتی، ویسے تو خدا نے جانوروں کو خطرناک زہر اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرسکیں اور دشمن کو مار گرائیں، لیکن خدا نے اپنی اشرف المخلوقات یعنی انسان کے لیے اس میں بھی فائدے رکھے ہیں۔

    آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیں دی جانے والی بہت سی دوائیں کسی نہ کسی جانور کے زہر سے تیار شدہ ہوتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک اور دوا سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    اپنی سستی کے لیے مشہور جانور گھونگھے کا زہر دنیا کے خطناک ترین زہروں میں سے ایک ہے، تاہم اس سے ان مریضوں کے لیے ایسی درد کش دوا پرایالٹ بنائی جاتی ہے جو اپنے مرض کے آگے بالکل بے بس ہوچکے ہوں اور کوئی دوا ان پر اثر نہ کرے۔

    کسی بھی درد کو ختم کرنے کے لیے مورفین ایک عام درد کش دوا ہے تاہم اس کے سائیڈ افیکٹس بھی بہت زیادہ ہیں جبکہ یہ انسانی جسم کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔

    اس کے برعکس گھونگھے کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا، مورفین سے 100 گنا زیادہ طاقتور اور نہایت کم خوارکوں میں اپنا اثر دکھانے والی ہے جبکہ جسم کو کسی قسم کا نقصان بھی نہیں پہنچاتی۔

    یہ زہر آبی گھونگھے کی ایک نسل کے زہر میں موجود ایک جز سے تیار کی جاتی ہے۔ اس زہر کے اندر موجود زیادہ تر اجزا انسانی جسم کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔ صرف یہی ایک جز ایسا ہے جو فائدہ مند ہے۔

    اس کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گھونگھا مچھلیوں کو اپنا شکار بناتا ہے تو پہلے وہ ان پر اپنا زہر پھینکتا ہے جس سے وہ مفلوج ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد گھونگھا باآسانی انہیں کھا لیتا ہے۔

    یہ دوا اس وقت دی جاتی ہے جب مورفین اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ اس دوا کو بہت شدید قسم کے درد کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔

    پرایالٹ نامی اس دوا میں صرف ایک خرابی یہ ہے کہ یہ اس جھلی کو پار نہیں کرسکتی جو خون میں موجود مضر اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔ اس جھلی کو بلڈ برین ممبرین کہا جاتا ہے۔

    یہ جھلی خون میں موجود مضر اور زہریلے اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔

    پرایالٹ جب تک دماغ میں نہیں جاتی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ چنانچہ اس دوا کو براہ راست ریڑھ کی ہڈی کے اس حصے میں لگایا جاتا ہے جہاں سے یہ دماغ تک باآسانی پہنچ سکے۔

    ماہرین نے اس طریقے کو آسان کرنے کے لیے ایک اور طریقہ ’ٹروجن ہارس کی حکمت عملی‘ کو بھی اپنایا ہے۔

    یہ حکمت عملی ایک تاریخی واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ بارہویں صدی قبل مسیح میں جب ایک تاریخی شہر ٹرائے کی شہزادی ہیلن کو اغوا کرلیا گیا تھا تو اس کے لوگوں نے اسے بچانے کے لیے ایک بڑا سا لکڑی کا گھوڑا تیار کیا۔ اس گھوڑے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں سپاہی موجود تھے۔

    یہ گھوڑا دشمن بادشاہ کے لیے ایک تحفے کی صورت بھیجا گیا جسے قبول کر کے قلعے کے اندر لے آیا گیا۔ رات کی تاریکی میں گھوڑے کے دروازے کھلے اور اندر سے لاتعداد جنگجو سپاہیوں نے برآمد ہو کر جنگ شروع کردی اور اپنی شہزادی کو واپس چھڑا لے آئے۔

    طب میں بھی یہ حکمت عملی استعمال کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بچھو کا زہر حاصل کرنے کے لیے مشین تیار

    پرایالٹ کو دماغ تک پہنچانے کے لیے نینو کنٹینر نامی ننھے سے اجزا میں اس دوا کو ڈالا جاتا ہے۔ یہ ننھے اجزا ہر قسم کی جھلی کو پار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں چنانچہ یہ دماغ کی جھلی کے پار جا کر دوا کو دماغ کے اندر داخل کر دیتے ہیں۔

    ماہرین اب اس پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس کو کیپسول کی شکل دی جائے تاکہ یہ عام دواؤں کی طرح کھایا جاسکے۔

  • دہشت گردوں میں تشدد ابھارنے والی دوا کا انکشاف، بھارتی کھیپ پکڑی گئی

    دہشت گردوں میں تشدد ابھارنے والی دوا کا انکشاف، بھارتی کھیپ پکڑی گئی

    ہیگ: دہشت گردوں کی جانب سے لڑنے کی صلاحیت بڑھانے اور وحشیانہ تشدد و سفاکیت ابھارنے والی ادویات کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے، نیدر لینڈ کی لیبارٹری میں ایسی ایک دوا کی کھیپ پکڑی گئی جس کے بعد پولیس دو مشکوک افراد کو تلاش کررہی ہے۔

    بی بی سی کے مطابق نیدر لینڈ(ہالینڈ) کے شہر ہیگ کی پولیس کو گزشتہ ماہ اس دوا کے متعلق علم ہوا تھا، پولیس کو شبہ ہے کہ یہ دوا ’’کیپٹاگون‘‘ شدت پسندوں کو فائدہ دیتی ہے تاہم ابھی اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ یہ دوا مشرق وسطی بھیجی جارہی تھی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ’’کیپٹاگون‘‘ کی گولیاں ملک کے جنوبی صوبے لیمبرگ سے ملی تھیں جس کے بعد فارنزک لیبارٹری میں ان گولیوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

    شدت پسندوں کی ایک دوا ٹراما ڈال لیبیا بھیجی جارہی تھی

    اسی ضمن میں اٹلی کی پولیس نے بھی انکشاف کیا ہے کہ اسے ایک دوسری ’’ٹراماڈال‘‘ نامی دوا کی 3 کروڑ 75 لاکھ گولیاں ملی ہیں جنھیں شدت پسند استعمال کرتے ہیں ، یہ گولیاں کارگو کے ذریعے لیبیا بھیجی جا رہی تھیں۔

    ٹراما ڈال بھارت سے آئی، جنگجوؤں کی مزاحمت بڑھاتی ہے

    خیال رہے کہ ’’ٹراماڈال‘‘ نامی منشیات درد کش دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہیں،پولیس کے مطابق یہ کھیپ بھارت سے آئی تھی اور اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں، پہلا مقصد دہشت گردوں کی مالی مدد اور دوسرا جنگجوؤں کی مزاحمت بڑھانا ہے۔

    دوا وحشیانہ تشدد اور سفاکیت پیدا کرتی ہے

    رواں برس جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ٹراماڈال‘‘ کے استعمال کا مقصد نائجیریا میں سرگرم بوکو حرام کے جنگجوؤں کی صفوں میں وحشیانہ تشدد ابھارنا اور سفاکیت کو بڑھانے میں کردار ادا کرنا ہے۔

    غیر قانونی منشیات ساز ادارے تیار کرتے ہیں

    ‘کیپٹاگون’ نامی ادویات کا مرکزی ترکیبی جزو عام طور پر ایمفیٹامین ہوتا ہے لیکن غیر قانونی منشیات ساز اکثر اس میں کیفین یا دوسرے مادے شامل کرتے ہیں۔

    کیپٹا گون نامی دوا سے لڑنے کی صلاحیت بڑھتی ہے

    اطلاعات ہیں کہ ‘کیپٹاگون’ نامی ادویات کھانے سے جنگجوؤں کی لڑنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔

  • اسپرین کے 5 حیرت انگیز استعمالات

    اسپرین کے 5 حیرت انگیز استعمالات

    اسپرین ایک ایسی دوا ہے جو ہر گھر میں پائی جاتی ہے اور چھوٹی موٹی بیماریوں کا بآسانی علاج کردیتی ہے۔

    لیکن اسپرین کے کچھ ایسے استعمالات بھی ہیں جن سے آپ واقف نہیں ہوں گے۔ اگر یہ آپ کے گھر میں موجود ہے تو بخار اور سر درد کے علاوہ یقیناً آپ کے کئی مسائل حل کر سکتی ہے۔

    :جلدی مسائل کا حل

    health-post-5

    اسپرین آپ کی جلد کے مختلف مسائل کا حل ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ خراب جلد کا مؤثر علاج ہے۔ اسپرین کو پیس کر لیموں کے پانی کے ساتھ ملا کر چہرے پر لگایا جائے تو یہ جلد پر بہترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    :بالوں کی خشکی دور کریں

    health-post-2

    اگر آپ کے بالوں میں خشکی ہے تو اس کا آسان حل اسپرین کا استعمال ہے۔ شیمپو کرنے کے بعد دو اسپرین پانی میں گھول کر اس پانی سے سر دھو لیں۔ یہ نہ صرف بالوں کی خشکی دور کرتی ہے بلکہ بالوں کو چمکدار اور مضبوط بھی بناتی ہے۔

    :پھٹی ایڑھیوں کا علاج

    health-post-1

    پھٹی ہوئی ایڑھیوں کے لیے اسپرین کی 7 گولیوں کو پیس کر ایک چمچ لیموں کے رس میں آمیزش کرلیں۔ اس آمیزے کو ایڑھیوں پر لگا کر نیم گرم کپڑے سے ایڑھیوں کو ڈھانپ لیں۔ صرف 10 منٹ میں یہ ایڑھیوں کی مردہ جلد کو صاف کر کے انہیں نرم و ملائم بنادے گی۔

    :کیڑوں اور مچھروں کے کاٹنے کا علاج

    health-post-3

    کسی کیڑے یا مچھر کے کاٹنے کے باعث اگر آپ کی جلد سرخ اور سوزش کا شکار ہے تو اسپرین کی گولیوں کو پیس کر پانی کے ساتھ ملا کر متاثرہ حصہ پر لگائیں۔ یہ فوری طور پر سوجن اور تکلیف کو کم کردے گا۔

    :پودوں کی افزائش

    plants

    اسپرین کو کوٹ کر پودوں کی جڑوں میں ڈالنے سے پودوں کی افزائش اور صحت میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • جسم میں دوا کی ترسیل کے لیے مختصر ترین روبوٹک مچھلی تیار

    جسم میں دوا کی ترسیل کے لیے مختصر ترین روبوٹک مچھلی تیار

    سان ڈیاگو: سائنس دانوں نے جسم کے مطلوبہ مقام پر دوا پہنچانے کے لیے دنیا کی سب سے چھوٹی روبوٹک ’نینو مچھلی‘ تیار کی ہے جو ریت کے ایک ذرے سے بھی 100 گنا چھوٹی ہے۔

    اس روبوٹک مچھلی کو سان ڈیاگو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے بنایا ہے جو طبی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس نینو مچھلی کے ذریعے غیرضروری چیر پھاڑ کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے جسم کے اندر چند خلیات تک انتہائی درستگی کے ساتھ دوا پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور کینسر کے علاج میں یہ بہت مدد گار ہوسکتی ہے۔

    اس مچھلی کو جست اور سونے کی پنیوں سے تیار کر کے اس میں چاندی کے جوڑ لگائے گئے ہیں۔ سونے کے ذرات پتوار اور دم کا کام کرتے ہیں جس سے مچھلی تیرتی ہے۔ مچھلی کی لمبائی 800 نینو میٹر ہے۔

    واضح رہے کہ ایک میٹر کے ایک ارب برابر ٹکڑے کیے جائیں تو ایک حصہ نینو میٹر یعنی ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوگا۔

    اس مچھلی پر جب تھرتھراتا ہوا مقناطیسی میدان ڈالا جاتا ہے تو جست کے مقناطیسی ذرات ایک طرف سے دوسری جانب کھسکتے ہیں، یوں مچھلی کا سر اور دم ہلتے ہیں وہ آگے بڑھتی ہے۔ مقناطیسی میدان کی کمی و زیادتی اور رخ بدل کر اس مچھلی کی سمت اور رفتار قابو کی جاسکتی ہے۔

    اس سے قبل بھی کئی ماہرین نے ننیو تیراک جیسی اشیا تیار کی ہیں اور یہ مچھلی بھی انہی ایجادات میں سے ایک ہے۔ اس میں دوا بھر کر اسے انجکشن کے ذریعے جسم میں داخل کر کے مطلوبہ مقام تک پہنچایا جاسکتا ہے۔