Tag: دوبارہ زندگی

  • سائنس دانوں نے لاش کی آنکھیں دوبارہ زندہ کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی

    سائنس دانوں نے لاش کی آنکھیں دوبارہ زندہ کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی

    یوٹاہ: امریکی ریاست یوٹاہ میں سائنس دانوں نے حیران کن کارنامہ انجام دیتے ہوئے مردہ آنکھوں کو زندہ کر کے ’موت کو پلٹا دیا‘ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یوٹاہ یونیورسٹی کے موران آئی سنٹر کی مصنفہ ڈاکٹر فاطمہ عباس نے کہا ہے کہ ہم انسانی میکولا میں فوٹو ریسیپٹر سیلز کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو کہ ریٹنا کا حصہ ہے اور جو ہمارے مرکزی بصارت اور ٹھیک تفصیل اور رنگ دیکھنے کی ہماری قابلیت کے لیے ذمہ دار ہے۔

    موت کے پانچ گھنٹے بعد اعضا کے عطیہ دہندگان سے لی گئی آنکھوں پر جب تجربہ کیا گیا، تو ان آنکھوں نے روشنی پر ردِ عمل دیا، حالاں کہ اب تک اس طرح کی برقی سرگرمی صرف زندہ آنکھوں ہی میں دیکھی گئی ہے۔ مصنفین کا اس پر کہنا ہے کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دماغی موت، جیسا کہ اس کی فی الحال تعریف کی گئی ہے، واقعی ناقابل واپسی ہے؟

    خیال رہے کہ دماغی موت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص لائف سپورٹ کے بغیر زندہ نہیں رہ پاتا، اور خود سانس لینے سے قاصر رہتا ہے، اس حالت کو ناقابل واپسی سمجھا جاتا ہے اور اس لیے کسی شخص کو مردہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر میں شائع شدہ مقالے کے مطابق سائنس دانوں نے امید ظاہر کی کہ جو طریقہ کار اس تجربے میں آزمایا گیا، اسے مرکزی اعصابی نظام میں دماغ یا ریڑھ کی ہڈی کی طرح دوسرے ٹشوز کا مطالعہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اس تجربے کے بعد سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ موت کو پلٹا کر مردہ انسان کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔

    سائنس دانوں نے بتایا کہ اعضاء عطیہ کرنے والے کی موت کے پانچ گھنٹے بعد حاصل کی جانے والی آنکھوں میں دیکھا گیا کہ آنکھوں کے خلیات نے تیز روشنی، رنگین روشنی اور حتیٰ کہ ہلکی سی روشنی پر بھی رد عمل دیا، حالاں کہ موت کا ایک مطلب نیوران کی سرگرمی کا خاتمہ بھی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس تجربے کے دوران آنکھ کے ریٹینا میں نیورونز کو فائر کیا اور انھیں زندہ لوگوں سے ریکارڈ کیے گئے مشابہ سگنل بھیجتے ہوئے دیکھا۔

    یوٹاہ یونیورسٹی میں اوپتھلمولوجی اور ویژول سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرانس ونبرگ نے دل چسپ نتائج کے ساتھ عضو عطیہ کرنے والوں کی آنکھوں میں آکسیجن کو دوبارہ بحال کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا، ان کی ٹیم نے برقی سگنل دیکھے جو صرف زندہ آنکھوں میں ہوتے ہیں، جنھیں ‘b wave’ کہا جاتا ہے، اور یہ مرنے والوں کی آنکھوں میں پہلی بی لہر کی ریکارڈنگ ہے۔ ڈاکٹر فرانس ونبرگ نے کہا ہم ریٹینل سیلز کو ایک دوسرے سے بات کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جس طرح وہ زندہ آنکھ میں کرتے ہیں۔

  • دوبارہ زندہ ہونے کی امید پر رکھی گئی سینکڑوں لاشیں

    دوبارہ زندہ ہونے کی امید پر رکھی گئی سینکڑوں لاشیں

    انسان کو ایک زندگی، دنیا کو دریافت کرنے اور اسے تسخیر کرنے کے لیے کم لگتی ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پھر سے جینا چاہتے ہیں اور دوبارہ زندگی پر یقین رکھتے ہیں۔

    امریکا میں موجود ایک لیبارٹری میں 200 افراد کی لاشیں اور سر اس امید پر رکھے گئے ہیں کہ انہیں مستقبل میں دوبارہ زندہ کیا جا سکے گا۔

    الکور لائف ایکسٹینشن فاؤنڈیشن کو امید ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اس مرحلے تک ضرور پہنچے گی، جہاں مردہ انسان کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا۔

    الکور پورے جسم کو تقریباً 2 لاکھ ڈالرز یا صرف سر اور دماغ کو 80 ہزار ڈالرز میں کرائیونکس کا عمل اپناتے ہوئے محفوظ کردیتی ہے۔

    یہ کمپنی اسکاٹس ڈیل ایریزونا میں واقع ہے، جہاں لاشوں کو کئی دہائیوں یا صدیوں تک شدید منجمد درجہ حرارت پر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

    اس کی بنیاد سنہ 1972 میں لنڈا اور فریڈ چیمبرلین نے 1970 کے اوائل میں کرائیونکس کانفرنس میں ملنے کے بعد رکھی تھی، اس وقت وہ کالج میں تھے اور فریڈ ناسا کے انجینئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

    لنڈا چیمبرلین کا کہنا تھا کہ ہمارے اہداف ایک ایسی تنظیم شروع کرنا تھے جو لوگوں کی زندگیوں کو بچا سکے اور انہیں صحت اور کام کرنے کا موقع فراہم کر سکے۔

    انہوں نے کہا کہ ااگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ کتنا مشکل ہونے والا ہے، تو شاید ہم ایسا کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ لیکن ایک بار جب آپ زندگی بچانے کے بارے میں کچھ شروع کر دیتے ہیں، تو آپ ہار نہیں مان سکتے۔

    الکور جسموں کے درجہ حرارت کو آہستہ آہستہ کم کرکے مائع نائٹروجن کے بڑے برتنوں میں منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر محفوظ رکھتا ہے۔

    عام لفظوں میں کہیں تو جسم کو برف میں پیک کر کے منجمد کر دیا جاتا ہے، تاہم اس سے پہلے خون کو کرائیو پروٹیکٹنٹ محلول سے تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ آئس کرسٹل کی تشکیل کو روکا جا سکے۔

    کرائیونکس کے حامیوں کا اصرار ہے کہ موت صرف دل کے کام بند کردینے کا عمل ہے، لیکن اس صنعت کو طویل عرصے سے کوئک سائنس یا یہاں تک کہ دھوکہ دہی کے طور پر مسترد کیا گیا ہے۔

    الکور کے پاس رکھی لاشوں میں سے ایک میتھرین نووارٹپونگ نامی بچی کی ہے، جسے آئنز کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ بچی 2015 میں اپنی تیسری سالگرہ سے عین قبل دماغ کے کینسر سے مر گئی تھی۔

    تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے والدین نریرت اور سہاتورن نے اپنی مرحوم بیٹی کے دماغ کو محفوظ رکھنے کا انتخاب کیا۔

    یہ حقیقت جانتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، سہاٹورن نے اپنی بیوی کو اس بات پر قائل کرنے کی امید میں کرائیونکس پر تحقیق کرنا شروع کی کہ یہ ان کی بیٹی کو مستقبل میں نئی زندگی فراہم کر سکتی ہے۔

    پہلے تو پورا خاندان اس خیال کے خلاف تھا لیکن سہاتورن نے انہیں قائل کرنے میں مہینوں گزارے۔ جوڑے نے اپنی بیٹی کے لیے ویڈیوز ریکارڈ کرنا شروع کیں، اس امید میں کہ وہ مستقبل میں یہ ویڈیوز دیکھے گی۔

    کرائیونکس کے ممکنہ حد تک کامیاب ہونے کے لیے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی دھڑکن بند ہونے کے 60 سیکنڈ کے اندر منجمد کرنے کا عمل شروع کرنا بہتر ہے۔

    اس کا مطلب یہ تھا کہ آئنز کے گھر والوں نے دیکھا کہ اس کے جسم کے درجہ حرارت کو ان کے سامنے کم کر دیا گیا تھا، اس سے پہلے کہ اس کے جسم کو منجمد کر کے ایریزونا لے جایا جائے۔

    کرائیونکس کیسے کام کرتا ہے؟

    موت کے فوراً بعد ایک ٹیم ری سسیٹیٹر کے ذریعے دل اور پھپڑوں سے دماغ تک خون اور آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے، اس کے بعد مردہ جسم میں خون پتلا کرنے والا کیمیکل شامل کر کے فوری طور پر برف میں پیک کردیا جاتا ہے، تاکہ پلانٹ تک لایا جاسکے۔

    کرائیونکس پلانٹ میں جسم سے پانی کو نکالا جاتا ہے اور اسے ہیومن اینٹی فریز سے بھردیا جاتا ہے۔ پھر مردہ جسم کو ڈرائی آئس کے ایک بیڈ پر رکھا جاتا ہے تاکہ درجہ حرارت کو منفی 130 ڈگری تک لایا جاسکے۔

    لیکویڈ نائیٹروجن کے ایک ٹینک میں ایک ساتھ 6 مردہ جسم منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھے جاتے ہیں، اور کسی بھی لیکیج کی صورت میں سر کو بچانے کے لیے انہیں ٹینک میں الٹا ڈالا جاتا ہے۔