Tag: دوسری جنگ عظیم

  • سَر آرتھر ٹیڈر نے ‘برلن’ کے بارے میں کیا دعویٰ کیا تھا؟

    سَر آرتھر ٹیڈر نے ‘برلن’ کے بارے میں کیا دعویٰ کیا تھا؟

    وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارُالحکومت برلن اپنی تاریخ و ثقافت، فنونِ لطیفہ کی قدر دانی اور میلوں ٹھیلوں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور ہے۔

    تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو جرمنی دنیا میں ہٹلر اور نازی ازم کے ساتھ یوارِ برلن کے لیے مشہور و بدنام ہوا۔ یہ شہر اپنی مختلف تاریخی عمارتوں اور اُن یادگاروں کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے جن کا تعلق زمانۂ جنگ اور قتل و غارت گری سے ہے۔ یہاں ہم ایک ایسے ملبے کے ڈھیر کا تذکرہ کررہے ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کی تباہی اور ہولناکی کا ایک نشان ہے۔

    اسے پہاڑی کہا جاسکتا ہے، جو شہر کے وسط میں موجود ہے اور تقریباً 400 فٹ بلند ہے۔ یہ دراصل اُن شان دار عمارتوں کا ملبا ہے جنھیں دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی طیّاروں کی بم باری اور فوجی ٹینکوں سے داغے گئے بارود نے پتّھروں کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ اس ملبے پر بارود سے تباہ ہونے والی ایک عمارت کا ڈھانچا بھی نظر آتا ہے۔

    برلن کا رخ کرنے والے سیّاحت اس پہاڑی کو ضرور دیکھنے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں جنگ میں‌ خوب تباہی مچانے والے برطانیہ کی فضائیہ کے سربراہ سر آرتھر ٹیڈر نے برلن کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ’’یہ شہر دوبارہ آباد نہیں ہو سکتا۔‘‘

    وقت نے آرتھر کا یہ دعویٰ غلط ثابت کردیا اور شہریوں نے برلن کو نہ صرف دوبارہ تعمیر کیا بلکہ دنیا بالخصوص یورپ میں اسے ہر لحاظ سے شان دار اور ترقّی یافتہ شہر بنا کے چھوڑا۔ آج برلن بین الاقوامی شہرت کا حامل ایسا شہر ہے جو علم و فنون میں‌ آگے اور اپنی ثقافت میں‌ متنوع ہے۔

    تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو معلوم ہو گاکہ 1871ء میں اس شہر کو جرمنی کا دارُالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اسے دیگر صوبوں کے مقابلے میں‌ امتیاز و اعزاز بخشا گیا تھا۔

    1940ء سے 1990ء تک برلن دو حصّوں میں منقسم رہا۔ ایک دیوار نے کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا اور پھر وقت نے سیاست اور طاقت کی بنیاد پر کی گئی اس تقسیم کو مسترد کردیا۔ دیوارِ برلن گرا دی گئی اور یہ شہر دوبارہ نئی ریاست کا دارُالحکومت بنا اور تجارت، معشیت، صنعت و حرفت، سائنس سے لے کر ادب تک ہر شعبے میں‌ بے مثال ترقّی کی۔

  • ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب امریکی فوج نے جاپان کی سَرزمین پر اترنے کا فیصلہ کیا تو اوکیناوا ان کا انتخاب تھا۔

    یہ ایک جزیرہ ہے جس پر قبضہ کرکے اتحادی افواج منصوبہ بندی کے تحت جاپان کو بھرپور نقصان پہنچانا چاہتی تھیں۔ اس جزیرے پر قدم رکھنے سے پہلے امریکی فوج کی جانب سے وہاں‌ بے دریغ بم باری کی گئی۔

     

     

    ایک خوف ناک اور انتہائی ہلاکت خیز معرکہ سَر پر تھا۔ امریکا نے اس مشن کو ‘‘آئس برگ’’ کا نام دیا تھا۔ ایک لاکھ 83 ہزار امریکی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان کے 77 ہزار جوان مورچہ بند تھے۔

     

     

    اس جزیرے پر جاپانی فوج کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل میتسورو اوشی جیما کر رہے تھے۔ یکم اپریل 1945 کو امریکی فوجی جزیرے پر اُترے تو کسی کو مزاحم نہ پایا۔ دراصل جاپانی فوج نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی تھی اور خندق میں‌ امریکیوں‌ کی پیش قدمی کا انتظار کررہے تھے۔ اطلاع تھی کہ ساحل پر موجود امریکی بحریہ پر حملہ کرنے کے بعد خشکی پر موجود فوج کے مقابلے کا حکم دیا جائے گا۔

     

     

    ان دنوں موسم خراب تھا، ہر طرف بادل اور کہرا تھا جس کی وجہ سے دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ جاپانی فوج نے ساحل پر حملہ کیا تو اتحادی فضائیہ نے انھیں شدید نقصان پہنچایا اور چاروں سمت سے جزیرے کی طرف بڑھتے ہوئے شمالی اوکیناوا کے کئى حصوں پر قبضہ کرلیا۔ جاپانی افواج کی جانب سے سخت مزاحمت اور بھرپور دفاع کیا جارہا تھا۔

     

     

    ہفتے مہینوں میں ڈھل رہے تھے۔ ہر طرف لاشیں، فوجی ساز و سامان، تباہ شدہ جہازوں کا ملبا بکھرا ہوا تھا۔ جاپانی فوج نے حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور یہ کام اس منظم انداز سے کیا کہ کئی دن تک امریکی اسے سمجھنے میں ناکام رہے۔ تاہم اتحادی افواج اور امریکی حملوں نے جاپانی جنرل کو ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

    اٹھارہ جون کی شام جنرل اوشی جیما نے جاپانی فوج کے نائب چیف کو الوداعی پیغام بھیجا جس کے اختتام پر چند اشعار بھی رقم کیے۔ ان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جزیر ے کی سرسبز و شاداب گھاس جو خزاں کے انتظار میں سو کھی ہے، وہ بہار میں دوبارہ معززینِ وطن کے لیے ہری ہوگی۔

     

     

    اس کمانڈر نے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے آخری دَم تک لڑنے کا حکم دیا جس کا مطلب تھا کہ یا تو جوان لڑیں یا پھر خودکُشی کرلیں۔ یہ حکم 19 جون کو دیا گیا تھا، اور چند روز بعد یعنی جون کی بائیس تاریخ کو لیفٹیننٹ جنرل اوشی جیما نے خود کُشی کرلی۔

    یہ ہارا کیرے تھا، یعنی وہ موت جسے باعزت تصور کیا جاتا ہے۔

  • جرابیں‌ نہ ہوں تو ٹانگوں‌ کو رنگ لیں!

    جرابیں‌ نہ ہوں تو ٹانگوں‌ کو رنگ لیں!

    کہتے ہیں دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب نائلون کی قلت ہو گئی تو اوڑھنے پہننے کی مختلف مصنوعات کی تیاری کا عمل بھی متاثر ہوا اور نائلون سے تیار کردہ ملبوسات اور آرائش و زیبائش کی مختلف مصنوعات بازار سے غائب ہوتی چلی گئیں۔

    سادہ الفاظ میں‌ ہم پلاسٹک کی ایک قسم کو نائلون کہہ سکتے ہیں جو مختلف مصنوعات کی تیاری میں کام آتا ہے۔ نائلون کی تیار کردہ لاتعداد اشیا اور بے شمار مصنوعات دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہیں‌ اور یہی نائلون لباس کی تیاری میں بھی کام آتا ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں مغربی ملکوں اور یورپ کی خواتین میں نائلون کی لمبی جرابیں پہننے کا فیشن عام تھا۔

    وہاں کے فیشن اور ثقافت کے مطابق عورتیں اسکرٹ کے ساتھ اپنی ٹانگوں پر نائلون کی مہین جرابیں پہنتی تھیں۔ گھر سے باہر نکلنے اور خاص طور پر تقریبات میں شرکت کے لیے ان جرابوں کو لباس کا لازمی جزو تصور کیا جاتا تھا۔

    تب خواتین نے نائلون کی قلت کا ایک زبردست حل نکالا۔ انھوں نے ٹانگوں کو ڈھانپنے کے لیے رنگوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ عورتیں پسندیدہ رنگ کا انتخاب کرکے نہایت مہارت سے مخصوص برش یا کسی کپڑے کی مدد ٹانگوں کو رنگنے کے بعد گھر سے باہر جانے لگیں۔ یہ کام اس قدر مہارت سے کیا جاتا تھا کہ پہلی نظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھاکہ کسی عورت نے نائلون کی جرابیں پہنی ہوئی ہیں یا جلد کو رنگا گیا ہے۔

    ایک طرف تو خواتین نے اس طرح فیشن اور اپنی ضرورت پوری کی اور دوسری جانب مختلف اقسام کے رنگ بنانے والی کمپنیوں کی بھی چاندی ہو گئی۔ اس زمانے میں اشتہارات کے ذریعے ہر کمپنی عورتوں کو یہی یقین باور کرواتی تھی کہ ان کا تیار کردہ پینٹ استعمال کرنے دیکھنے والے کو یہی گمان گزرے گا کہ آپ نے نائلون کی جرابیں پہن رکھی ہیں۔

  • نازیوں کے خلاف فتح : روس میں جشن کی تقریبات کا انعقاد

    نازیوں کے خلاف فتح : روس میں جشن کی تقریبات کا انعقاد

    ماسکو : دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کوشکست دینے پر روس میں فتح کا جشن منایاجارہاہے،کیوباکےصدر راؤل کاسترو روس کی کامیابی پر اظہار یکجہتی کےلیےماسکو پہنچ گئے۔

    دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کوستر سال بیت گئے،نازیوں کے خلاف فتح حاصل کرنے پر آج روس میں جشن منایا جارہا ہے۔

    یوم فتح پر تقریبات اور ملٹری پریڈ منعقد کی جارہی ہیں،ماسکو کےریڈ اسکوائر پر مسلح افواج کےسولہ سو اہلکاروں پر مشتمل دستےمارچ کریں گے۔

    جدید ٹینک اورلیزر گائیڈڈ میزائل بھی پریڈ میں شامل ہوں گے،جیٹ طیارے سلامی پیش کرتے ہوئے کرتب دکھائیں گے، کیو باکےصدر راؤل کاسترو بھی روس سےاظہار یکجہتی کے لیے ماسکو پہنچے جہاں انہوں نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی۔

    جرمنی اور روس کے وزراءخارجہ نے جنگ عظیم دوم کی یادگارکادورہ کیا جہاں جنگ کےدوران دس لاکھ سےزائد افرادہلاک ہوئے تھے۔وزرائے خارجہ نے یادگار پر پھولوں کےگلدستے پیش کئے۔

  • ڈرامہ فلم ’’دی امیٹیشن گیم‘‘ کا نیا ٹریلر ریلیز

    ڈرامہ فلم ’’دی امیٹیشن گیم‘‘ کا نیا ٹریلر ریلیز

    ہالی ووڈ: دوسری جنگ عظیم کے سچے واقعات پر مبنی برٹش ڈرامہ فلم دی امیٹیشن گیم کا نیا ٹریلر ریلیز کردیا گیا ہے

    ایکشن اور سنسنی سے بھرپور فلم کی کہانی دوسری جنگ عظیم کے اہم کردار اور بابائے کمپیوٹر سائنس کا اعزاز حاصل کرنے والے سائنسدان ایلن ماتھیسن کے گرد گھومتی ہے، جنہوں نے نازی پارٹی کے خلاف بننے والے اتحاد کو فنی مدد فراہم کی ۔نورا گراس مین کی پروڈکشن میں بننے والی فلم کی تشہیری کیلئے سات ملین ڈالر خرچ کئے گئے ہیں ۔

    ایکشن سے بھرپور فلم اکیس نومبر کو سنیما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جائے گی۔