Tag: دولت مند افراد

  • ایک نہیں دو پاکستان! 50 فی صد معیشت پر کس کا کنٹرول ہے؟ چشم کشا رپورٹ

    ایک نہیں دو پاکستان! 50 فی صد معیشت پر کس کا کنٹرول ہے؟ چشم کشا رپورٹ

    پاکستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ یہاں امیر اور غریب کا طرز زندگی قطعی طور پر مختلف ہے، جس کا اثر معاشرے پر منفی انداز میں پڑ رہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ایک فی صد طبقہ اشرافیہ 50 فی صد ملکی معیشت پر کنٹرول رکھتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں دولت کی اس حد تک غیر منصفانہ تقسیم ایک خطرناک رحجان ہے، ماہرین موجودہ پاکستان کی صورت حال کو دو پاکستان سے تشبیہ دیتے ہیں، ایک غریب کا اور ایک امیر کا پاکستان۔

     

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فی صد اشرافیہ نے 2018-19 میں 9 فی صد معیشت کا 314 بلین ڈالرز حاصل کیا تھا، اس کے مقابلے میں ایک فی صد غریب نے صرف 0.15 فی صد حصہ حاصل کیا۔ اسی طرح دنیا کے ایک فی صد امیر ترین افراد پچھلے دو سال میں دنیا کی 63 فی صد دولت کے مالک بن گئے۔

    دولت کا ارتکاز

    پاکستان میں دولت کا ارتکاز اور عام آدمی کی قوت خرید میں کمی سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک میں جاری معاشی بدحالی اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور بے روزگاری سے عوام کی بہت بڑی تعداد ان گنت مسائل کا شکار ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں دولت کے ارتکاز اور غیر مساوی تقسیم میں دو عوامل کا بہت بڑا ہاتھ ہے، کرونا کی عالمگیر وبا اور یوکرین کی جنگ۔

    عالمگیر مالیاتی نظام

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) کی کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے سبب رہن سہن کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال جنگ، خشک سالی، بھوک اور شدید غربت کے اثرات کے ساتھ مل کر ایک ایسا ماحول تخلیق کرتی ہے جو غربت اور نا انصافی کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔

    انھوں نے واضح کیا کہ اس مکمل بحرانی کیفیت کا خاتمہ بڑے پیمانے پر اور پائیدار سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ امیر ممالک کا بنایا عالمگیر مالیاتی نظام ’’’بڑی حد تک انھی کے لیے‘‘ ہی فائدہ مند ہے۔ قرضوں میں مؤثر چھوٹ کی غیر موجودگی میں ایل ڈی سی اپنی حکومتوں کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض کی ادائیگی پر صرف کرنے پر مجبور ہیں۔

    انھوں نے متنبہ کیا کہ جو ملک ترقی کر کے متوسط آمدنی والے ممالک کے درجے میں شامل ہو گئے ہیں، وہ ایل ڈی سی سے مخصوص فوائد کھو دیں گے، جو ان کے لیے جزا کی بہ جائے سزا بن جائے گی۔

    امیروں کے اثاثے مستحکم، معیشت عدم تحفظ کا شکار

    بین الاقوامی تنظیم برائے غربت مٹاؤ ’آکسفام‘ کی 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر طبقے کے اثاثوں میں پچھلے دو سال میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کی بنا پر دنیا بھر میں مہنگائی اور معیشت عدم تحفظ کا شکار ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر امیر ترین شخص نے اس دو سال میں 1.7 ملین ڈالرز اور نچلے طبقے کے فی فرد نے صرف ایک ڈالر کمایا۔

    2022 میں مہنگائی میں اضافے کا فائدہ بھی اسی طبقے کو دولت کے ارتکاز کی وجہ سے ہوا، کیوں کہ دنیا بھر کی خوراک اور توانائی سے وابستہ ادارے اس طبقے کی ملکیت ہیں۔

    پاکستان میں اثرات

    ملک میں 5 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو کچھ ہی عرصے میں مزید 2 کروڑ کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے یہاں متوسط طبقے کو بھی اشیاے خورد نوش تک رسائی سے محروم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں مڈل کلاس یعنی متوسط طبقہ غربت جیسے مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔

  • طلاق کے بعد بل گیٹس کی دولت فیس بک کے زکربرگ سے بھی کم ہو گئی

    طلاق کے بعد بل گیٹس کی دولت فیس بک کے زکربرگ سے بھی کم ہو گئی

    واشنگٹن: طلاق کے بعد بل گیٹس کی دولت میں نمایاں کمی آئی ہے، اور وہ امیر ترین افراد کی فہرست میں نیچے چلے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 27 برس کا ازدواجی تعلق ختم ہونے کے بعد دنیا کی ارب پتی شخصیت بل گیٹس کی دولت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، مائیکروسافٹ کے بانی دنیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں پانچویں نمبر پر چلے گئے۔

    امریکی جریدے فوربز کی مرتب کردہ دنیا کی امیر ترین افراد کی فہرست میں بل گیٹس کا نام پانچویں نمبر پر ہے، بتایا جا رہا ہے کہ ارب پتی شخصیات کی فہرست میں بل گیٹس کا نام ٹاپ تین میں نہ ہونے کی بنیادی وجہ ان کی میلنڈا فرنچ گیٹس سے طلاق ہے۔

    بِل گیٹس 1987 کے بعد سے سرفہرست ارب پتیوں میں سے ایک رہے ہیں، فوربز کی فہرست شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب وہ تیسرے نمبر سے نیچے آ گئے ہیں، اس وقت بل گیٹس کے کُل اثاثوں کی مالیت 129 اعشاریہ 6 بلین ڈالر ہے، جب کہ فیس بُک کے بانی مارک زکربرگ 132 بلین ڈالر کے ساتھ فوربز کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔

    بل گیٹس اور میلنڈا میں باقاعدہ طور پر طلاق ہو گئی، جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟

    واشنگٹن کے قوانین کے مطابق شادی شدہ زندگی کے دوران ایک جوڑا جو بھی جمع کرتا ہے اس پر دونوں کا برابر کا حق ہوتا ہے، تاہم اگر دونوں فریقین اس پر اتفاق کریں اور عدالت اسے مناسب سمجھے تو علیحدگی کے کانٹریکٹ میں تقسیم کا فیصلہ اس سے ہٹ کر کیا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک بِل گیٹس، اور ان کی اہلیہ میلنڈا نے تین مہینے پہلے طلاق کا اعلان کیا تھا، اور اب ان کی 27 سالہ شادی شدہ زندگی کا حتمی طور پر اختتام ہوگیا ہے۔

    واشنگٹن کے قوانین کے تحت طلاق کی درخواست دائر کروانے سے لے کر اس پر حتمی فیصلہ سنائے جانے کے درمیان 90 دن کا دورانیہ ہوتا ہے۔ عدالتی ریکارڈز میں بتایا گیا ہے کہ بل گیٹس اور میلنڈا میں سے کوئی بھی اپنا نام نہیں بدلے گا نہ ہی ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو مالی معاونت دینے کا قائل ہوگا۔

  • دولت مند افراد پرتعیش اشیا سے بیزار، اب ان کا نیا شوق کیا ہے؟

    دولت مند افراد پرتعیش اشیا سے بیزار، اب ان کا نیا شوق کیا ہے؟

    اب سے کچھ عرصے قبل تک مہنگی گاڑیاں، برانڈڈ ہینڈ بیگز اور چمکتی ہوئی قیمتی گھڑیاں دولت مند افراد کی خاص نشانی ہوا کرتی تھی، تاہم اب ان افراد کے اس رجحان میں کمی آرہی ہے۔

    یو ایس کنزیومر ایکس پینڈیچر سروے کے مطابق دولت مند افراد اب مادی اشیا پر اپنی دولت خرچ کرنے کے بجائے غیر مادی اشیا کو ترجیح دے رہے ہیں، یعنی صحت اور تعلیم۔

    ایک امریکی مصنفہ الزبتھ کرڈ نے اپنی کتاب میں مختلف طبقات کے بدلتے ہوئے رجحانات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے دولت مند ترین افراد کی 20 مشترک دلچسپیاں

    الزبتھ کا کہنا ہے کہ دنیا کا وہ طبقہ جسے اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس کہا جاتا ہے، اب کسی حد تک وہ اشیا خرید سکتا ہے جو ایک زمانے میں صرف دولت مند طبقے کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھیں۔ لہٰذا ان اشیا سے امارت کا تعین کرنے کا رجحان اب ختم ہو رہا ہے۔

    کتاب میں کہا گیا کہ امریکا کا وہ ایک فیصد طبقہ جو نہایت دولت مند ہے، دولت کی نمود و نمائش کرنے کو اب دولتمندی کی نشانی نہیں سمجھا جاتا۔

    اس کے برعکس یہ طبقہ اب تعلیم اور صحت پر اپنی دولت خرچ کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں دنیا کی اعلیٰ اور بہترین تعلیم پر خرچ کرنا امارت ظاہر کرنے کا نیا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب صحت کو بھی اب ایک لگژری اسٹیٹس سمبل سمجھا جارہا ہے۔ دولت مند افراد اب مہنگی اور برانڈ  بیوٹی پروڈکٹس خریدنے سے زیادہ صحت کی بہتری پر توجہ دے رہے ہیں۔

    ایک سروے کے مطابق امریکی شہر مین ہٹن کے ایک ہائی کلاس جم کی ممبر شپ میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جس کی ماہانہ فیس 900 ڈالر ہے۔

    کتاب کی مصنفہ کا کہنا ہے کہ یہ رجحان بہت جلد ترقی پذیر ممالک کے دولت مند افراد تک بھی پھیل جائے گا۔