Tag: دھات

  • کووڈ 19 کے بعد اب سرمایہ کاری کا رخ کہاں ہوگا؟

    کووڈ 19 کے بعد اب سرمایہ کاری کا رخ کہاں ہوگا؟

    عالمی کاروباری دنیا میں دھات اور تیل کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے, اس تناظر میں تاجر برادری اور بینکنگ کا شعبہ جلد ہی ایک نئی تجارتی کموڈٹی کے مقبول ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

    تجارتی حلقوں میں اس نئی شے کو سپر سائیکل کا نام دیا گیا ہے، اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کاروباری شے کی مارکیٹ ابھرنے کے بعد اس کے دور رس اثرات برسوں قائم رہ سکتے ہیں۔

    عالمی تجارتی منڈیوں میں مختلف اشیا کی قیمتیں توقع کے مطابق بڑھ رہی ہیں اور اس کی ایک وجہ کرونا وائرس کی ویکسین کے متعارف کروانے کے بعد مالی منڈیوں میں پائی جانے والی تیزی اور حکومتوں کی جانب سے اخراجات میں اضافے کے لیے مالی امدادی پیکجز متعارف کروانا ہے۔

    علاوہ ازیں ویکسین کے سامنے آنے کے بعد یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ معاشی و اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوجائیں گی۔

    ایک تجارتی تجزیاتی گروپ اوناڈا (ONADA) کے تجزیہ کار ایڈورڈ مویا کا کہنا ہے کہ عالمی اقتصادی ریکوری کی قیادت چین کر رہا ہے اور اس کے باعث لوہے، تانبے اور خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان پیدا ہوا ہے، رواں برس یہ صورت حال ایسی ہی رہنے کا قوی امکان ہے۔

    مویا کا خیال ہے کہ چین اقتصادی ریکوری میں پہلے امریکا اور پھر یورپ کو پچھاڑ دے گا۔

    تانبے کی اہمیت

    تجارتی منڈیوں میں تانبے کی غیر معمولی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا، اس کی اہمیت کی وجہ سے ماہرین اسے ڈاکٹر کاپر کہتے ہیں اور اس کی ڈاکٹریٹ اکنامکس میں ہے۔

    ان ماہرین کا خیال ہے کہ کاپر دھات کی یہ خاصیت ہے کہ یہ کسی بھی وقت مالی و تجارتی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ پیدا کر سکتی ہے۔ گزشتہ برس مارچ سے عالمی اقتصاد کا 80 فیصد سے زائد انحصار تانبے یا کاپر پر ہے۔

    تانبے کے ایک ٹن کی کم سے کم قیمت بھی ساڑھے 8 ہزار ڈالر کے لگ بھگ رہی ہے، سنہ 2012 کے بعد تانبے کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ہے، تانبے کی ضرورت گھریلو سامان سے لے کر کارخانوں میں کھپت اور موبائل فونز سے بجلی کی سپلائی لائنوں تک میں پائی جاتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ لوہے اور نکل جیسی دھاتوں کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    سپر سائیکل کیا ہے؟

    سپر سائیکل سے مراد ایسی تجارتی شے ہے جس کی طلب کا دائرہ دیگر اشیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اس باعث اس کی قیمت بھی بلند رہتی ہے۔ ایسی کموڈٹی یا شے کی طلب میں کمی بھی ممکن ہے اور پھر یہ اس کی انتہائی زیادہ قیمت میں زوال کا سبب بھی ہوتا ہے۔

    دھاتوں کی طلب کی یہ صورت حال انیسویں سے بیسویں صدی کے عرصے میں امریکا اور پھر عالمی جنگوں کے بعد یورپی اقوام بشمول جاپان میں دہائیوں تک دیکھی گئی۔

    سنہ 1997 کے قریب 4 اقوام میں دھاتوں کی مانگ واضح انداز سے بڑھی ہے، سپر سائیکل کی یہ صورتحال ابھرتی اقتصادیات کے حامل ممالک میں دیکھی گئی۔ ان میں چین کے علاوہ بھارت، برازیل اور روس شامل ہیں۔

    یہ واضح ہے کہ سپر سائیکل سے مراد ایسی صورتحال ہے جس میں صنعتی عمل کی بے پناہ افزائش اور شہروں کا پھیلاؤ ہوتا ہے، اس وقت چین کو دنیا بھر کی فیکٹری قرار دیا جاتا ہے۔ سنہ 16-2015 میں تجارتی اشیا کی قیمتوں میں کمی کے دوران بھی چین نے اپنا معاشی توازن خراب نہیں ہونے دیا تھا۔

    سبز صنعتی انقلاب

    تجزیہ کار منتظر ہیں کہ مجوزہ سبز صنعتی انقلاب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس انقلاب کے سرخیل امریکا اور برطانیہ سمجھے جاتے ہیں تاہم ان کے ساتھ کئی اور ممالک بھی شامل ہیں۔

    یورپی یونین بھی اس صف میں موجود ہے۔ یہ انقلابی صورتحال کووڈ 19 کی وبا کے بعد دیے جانے والے مالی امدادی پیکجز کا نتیجہ ہے تا کہ ان سے ایسی کموڈٹیز اشیا کی طلب میں اضافہ ہو سکے، جو ماحول کے بہتر بنانے کے لیے اہم ہیں۔

    اس میں خاص اہمیت توانائی کے شعبے کو حاصل ہے۔ ایک انرجی کمپنی ووڈ میکنزی کے سینیئر تجزیہ کار سائمن فلاور کا کہنا ہے کہ اگلے 20 برسوں میں توانائی سیکٹر میں کئی اقوام 40 ٹرلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں سبز اقتصاد کے حصول میں تانبے اور فولاد کی طلب بہت بڑھ جائے گی۔

    فلاور کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں الیکٹرک کاروں کی مانگ کی وجہ سے نکل، کوبالٹ اور لیتھیم جیسی دھاتوں کو بھی عالمی تجارتی منڈیوں میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ حیران کن ضرور ہے لیکن ابھی سپر سائیکل کا تعین کرنا قدرے مشکل ہے۔

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • ہیوی مشینری کا کام انسانوں نے ہاتھوں سے کر دکھایا

    ہیوی مشینری کا کام انسانوں نے ہاتھوں سے کر دکھایا

    دھات سے بنے بڑے فارم ہاؤس یا دیوہیکل اسٹورز کی تعمیر اور اس کی مرمت کے لیے ہمیشہ ہیوی مشینری کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مشینوں کے کام انسان کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر ان دنوں ایسی ویڈیو وائرل ہے جس میں 300 لوگوں نے میٹل کے فارم ہاؤس کو ہاتھوں میں اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔

    فارم ہاؤس کی منتقلی کے دوران ایک شخص انہیں ہدایت فراہم کررہا تھا، کیمرے کی آنکھ سے قید کی گئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور اب تک اسے لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔

  • وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے جہاں پر لوہے کے قطروں کی بارش ہوتی ہے اور اس کا درجہ حرارت4 ہزار 400 فارن ہائیٹ ہے۔

    حال ہی میں دریافت کیا گیا یہ سیارہ زمین سے 640 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کا نام واسپ ۔ 76 بی رکھا گیا ہے۔

    اس سیارے کو سوئٹزرلینڈ کی جنیوا یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے جنہوں نے چلی میں نصب یورپی سدرن اوبزرویٹری کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس کا مشاہدہ کیا۔

    جنیوا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کے مطابق دن میں اس سیارے کا درجہ حرارت 4 ہزار 400 فارن ہائیٹ (2 ہزار 426 سینٹی گریڈ) رہتا ہے جبکہ شام کے وقت یہاں بارش ہونے لگتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ بارش دھاتی ہوتی ہے۔

    تصوراتی خاکہ

    سیارہ دن اور رات میں انتہائی موسموں کا حامل ہے۔ یہ سیارہ اس رخ پر گردش کرتا رہتا ہے کہ اس کا ایک حصہ مستقل طور پر اپنے سورج کے سامنے رہتا ہے  نتیجتاً اس حصے پر قیامت خیز گرمی ہوتی ہے جو دھاتوں کو پگھلا دیتی ہے۔

    اس کے بعد ان پگھلی ہوئی دھاتوں کے قطرے اڑ کر سیارے کے دیگر نسبتاً ٹھنڈے حصوں پر گرتے ہیں۔

    دن کے وقت دھاتوں کے بخارات کی طرح اڑ جانے کے بعد شام کے وقت گرمی کم ہونے پر ان کے بادل بن جاتے ہیں اور پھر اس میں سے دھاتوں کے قطروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔

    یہاں چلنے والی ہوا کی رفتار 11 ہزار 784 میل فی گھنٹہ ہے۔ رات کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 18 سو فارن ہائیٹ (982 سینٹی گریڈ) ہوجاتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہاں دن اور رات کا صرف موسم ہی الگ نہیں بلکہ کیمسٹری بھی الگ ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے سیاروں کی دریافت سے ہمیں اپنی کائنات میں پائے جانے والے مختلف موسموں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

  • مرغیوں کی فیڈ میں خطرناک دھاتوں کی موجودگی کا انکشاف

    مرغیوں کی فیڈ میں خطرناک دھاتوں کی موجودگی کا انکشاف

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مرغیوں کی فیڈ کے نمونوں میں خطرناک دھاتوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جس سے مرغی کے صحت پر خطرناک اثرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے شعبہ انوائرمینٹل اسٹدیز کے ماہرین نے کراچی کے 34 علاقوں سے پانی اور پولٹری فیڈز کے 68 نمونے حاصل کیے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد پریشان کن نتائج سامنے آئے۔

    نتائج کے مطابق چکن فیڈ کے 100 فیصد نمونوں میں سیسہ، نکل اور کرومیم کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ مقدار سے کہیں زیادہ پائی گئی۔

    تحقیقی ٹیم کے رکن ڈاکٹر عامر عالمگیر نے بتایا کہ گھریلو اور صنعتی استعمال شدہ پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینکا جا رہا ہے اور زہریلے پانی سے مرنے والی مچھلیوں سے پولٹری فیڈ تیار کی جا رہی ہے۔

    ڈاکٹر عامر کے مطابق کراچی کو سپلائی کیے جانے والے پانی میں بھی دھاتوں کی مقدار نقصان دہ حد تک زائد پائی گئی، یہ دھاتیں مرغی کے جسم میں کلیجی اور پوٹے کے ذریعے فلٹر نہیں ہو پاتیں اور بائیو میگنی فیکشن کے عمل کے بعد ان کے منفی اثرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

    مرغی کی فیڈ میں زہریلی دھاتوں کی موجودگی کے علاوہ بھی اس کی مصنوعی طور پر افزائش کی جارہی ہے جس سے انسانی صحت کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

    انڈوں سے جلدی چوزے نکالنے کے لیے انہیں مصنوعی حرارت دے کر یا انکیوبیٹر کے ذریعے باہر نکالا جاتا ہے جس سے وہ اپنے مقررہ وقت سے قبل نشونما پا کر انڈے سے باہر نکل آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طریقہ استعمال سے وجود میں آنے والے چوزے اور مرغیاں خود بھی بیمار ہوتی ہیں اور ان کا گوشت انسانی صحت کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں مرغیوں کو پانی سے بھرے انجکشن لگانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے مرغیاں بظاہر موٹی اور صحت مند لگتی ہیں۔