Tag: دھمکی آمیز مراسلہ

  • عمران خان  کا صدر مملکت اور چیف جسٹس  کو خط ، دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کا مطالبہ

    عمران خان کا صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط ، دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کا مطالبہ

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت عارف علوی  اور چیف جسٹس کو خط لکھ دیا، جس میں دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی دھمکی پر پاکستانی سفیر کے موصول مراسلے کی تحقیقات کے معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو الگ الگ خط تحریر کردیا۔

    عمران خان نے خط میں صدرسے بطورسربراہ ریاست اور کمانڈر انچیف افواجِ فوری کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری و جمہوریت کو لاحق خطرے کی عوامی تحقیقات کی استدعا کی۔

    خط میں کہا گیا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ نے دیگر حکام کے ساتھ سفیر سے ملاقات کی، پاکستانی سفیر کیجانب سے اس ملاقات سے متعلق تفصیل بھجوائی گئی ، تمام تفصیلات ایک خفیہ مراسلےکی شکل میں آپ کے پاس موجودہیں۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مراسلےکی رپورٹ میں امریکی انڈرسیکرٹری آف اسٹیٹ کی گفتگوواضح ہے، آخری کابینہ اجلاس میں پی ٹی آئی حکومت ایک نتیجے پر پہنچی ، نتیجہ تھا مراسلے کے مندرجات میں سازش کے آثار نمایاں ہیں۔

    خط میں کہا کہ سازش کا مقصد مجھے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانا تھا، یہ ایک نہایت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے،حکومت کو سازش پر مبنی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کیا گیا، عمران خان

    چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ تحقیقات تک ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھانے کی اجازت نہ دی، رائے شماری سے قبل کیا عدالت کو مندرجات کاجائزہ نہیں لینا چاہیے تھا، لازم ہے چیف جسٹس مراسلے کے بیرونی سازش پر مشتمل مندرجات کا جائزہ لیں۔

    خط میں کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کیلئے میموگیٹ کی نظیر موجود ہے، عدالت سازش کے کرداروں کے تعین کیلئے کمیشن تشکیل دے اور کمیشن کھلے عام معاملے کی تحقیقات کرے۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام بیرونی سازش کے کرداروں کے بارے میں جاننا چاہتےہیں، ایوان صدر اور عدالت عظمیٰ کی خاموشی سے مایوسی پھیل رہی ہے، بیرونی سازش کی شکل میں پڑنے والے ڈاکے پرعوام سراپا احتجاج ہیں۔

    عمران خان نے کہا کہ عوام عدالت عظمیٰ و سربراہ ریاست کیجانب نظریں لگائے ہوئے ہیں، صدر اور چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں۔

  • دھکمی آمیز مراسلہ: پی ٹی آئی کابینہ نے کمیشن سے کیا سوالات پوچھے؟

    دھکمی آمیز مراسلہ: پی ٹی آئی کابینہ نے کمیشن سے کیا سوالات پوچھے؟

    اسلام آباد: واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو دھکمی آمیز مراسلے سے متعلق پوچھے گئے پی ٹی آئی کابینہ کے سوالات سامنے آ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کابینہ نے کمیشن سے دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق اہم سوالات پوچھے تھے، اور کہا تھا کہ کمیشن بنایا جائے جو ان سوالوں کا جواب دے۔

    کابینہ نے سوال کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دستاویز دوسرے ملک میں متعین نمائندے کے پیغام پر مشتمل ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مذکورہ دستاویز میں ایک باضابطہ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں؟

    کابینہ نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا گیا؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کی معافی کو عمران خان کو ہٹانے کی شرط کے طور پر رکھا گیا؟

    کمیشن کے سامنے کابینہ نے یہ سوال بھی رکھا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار نہیں دیا؟ اور کیا سفیر کے مشورے کی روشنی میں مذکورہ ملک کو دیمارش دینے کا فیصلہ نہیں ہوا؟ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے اہم نہ جانا کہ اسے پارلیمان سلامتی کمیٹی میں لایا جائے؟

    کابینہ نے کہا کہ ان نکات پر تحقیقات کی جائے، اور مراسلے میں دھمکی اور مقامی کرداروں میں گٹھ جوڑ کا سراغ لگایا جائے، مخصوص سفارت کاروں کی حزب اختلاف اور منحرف اراکین سے ملاقاتوں کی چھان بین کرنا ہوں گی۔

    کابینہ نے کہا کہ تحقیق کار سلامتی کمیٹی اجلاس کے شرکا میں سے ہر ایک کے خیالات کی چھان بین کے بعد رائے دیں گے، تحقیق کار کی رائے کے بعد ہی مختلف کرداروں کے حقیقی عزائم اور باہم تعلقات واضح ہوں گے۔

    ادھر آج پیر کو ترجمان دفتر خارجہ سے بریفنگ کے دوران امریکی سازش اور مراسلے پر سوالات کی بوچھاڑ کی گئی، ترجمان نے کہا سلامتی کمیٹی کے دونوں بیان ایک دوسرے سےملتے ہیں، پریمئیر انٹیلیجنس ایجنسی نے کمیٹی کو بریفنگ دی، اور ایجنسی نے تصدیق کی کہ کسی بیرونی سازش کےثبوت نہیں ملے۔

    ترجمان نے مزید کہا اسد مجید پر کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا ایسی خبریں من گھڑت ہیں، دفتر خارجہ نے قانون کے مطابق احتجاجی مراسلہ حوالے کیا، مراسلے کئی روز تک دبانے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ٹیلی گرام دفتر خارجہ پہنچا اور قانون کے مطابق متعلقہ حکام کے حوالے کیا گیا، مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی میں زیر بحث لایا گیا اور پھر ڈیمارش دیا گیا۔