Tag: دہشت بھری دنیا

  • سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سترھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے … دالث شفشا یم…اس کے بعد تم قیمتی پتھر والی جگہ پر پہنچ جاؤ گے۔ ہاں واپس آنے کے لیے اس منتر کے آخر میں ایک اور لفظ بِٹ شامل کرنا ہوگا۔ جہاں سے جاؤ گے، واپسی بھی وہیں پر ہوگی۔ میرے خیال میں منتر تم لوگوں کو یاد ہو گیا ہوگا کیوں کہ یہ بہت آسان ہے۔”

    "ہاں لیکن یہ بے حد عجیب اور اجنبی الفاظ ہیں۔” فیونا بولی۔

    "یہ دراصل بادشاہ کیگان کے آبا و اجداد کی زبان میں لکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے سورج اور سمندر کی طرف دروازہ، اور بِٹ کا مطلب ہے گھر۔ ” اینگس نے کتاب بند کر کے جواب دیا۔ "یہ فونیزی الفاظ لگتے ہیں، پہلے میرا خیال تھا کہ یہ مشرقی یورپ یا روسی الفاظ جیسے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔”

    جبران بولا۔ "ہوشیار ہو جاؤ سب، میں اس منتر کو آزما رہا ہوں، عین ممکن ہے کہ میں ہی ایک وارث ہوں۔” یہ کہ کر اس نے منتر پڑھا… دالث شفشا یم۔”

    لیکن کچھ نہیں ہوا۔ فیونا کے منھ سے ہنسی نکل گئی۔

    "میں تو مذاق کر رہا تھا۔” جبران جھینپ گیا۔ "مجھے پتا ہے کہ میں بادشاہ کیگان کا وارث بھلا کیسے ہو سکتا ہوں۔”

    "یہ ایسے کام نہیں کرے گا۔ اس کے لیے تمھیں کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جانا پڑے گا۔ بغیر کسی تیاری، اور اکیلے۔” اینگس کہنے لگے۔ "مجھے پکا یقین ہے کہ میں ورثا میں سے نہیں ہوں۔ میں قلعہ آذر والوں کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے یہاں کی تاریخ بھی خاصی دل چسپ ہے۔” یہ کہ کر وہ اٹھے اور کتابوں کی طاق سے ایک کتاب کھینچ کر نکال لی۔ "یہ کتاب اس علاقے گیل ٹے کی تاریخ سے متعلق ہے، کتاب میں ذکر ہے کہ دو لڑکیاں قلعے میں آئی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بادشاہ کیگان کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے نام ازابیلا اور آنا تھے۔”

    فیونا نے چونک کر کہا۔ "انکل میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی لیکن میرا درمیانی نام ازابیلا اور میری ممی کا آنا ہے۔ یہ اتنا اہم تو محسوس نہیں ہوتا تھا، صرف ایک اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ تو حیرت ہو رہی ہے کہ کیا ہم ان کے وارث ہیں۔ کیا کتاب میں اس حوالے سے کچھ بتایا گیا ہے؟”

    اینگس نے بتایا "کتاب میں لکھا ہے کہ شہزادیوں کی جن مردوں سے شادی ہوئی تھی، وہ جھیل کے پار دوسرے کنارے والے گاؤں کے عام لوگ تھے۔”

    فیونا اس بار بری طرح چونکی۔ "کیا اس سے مطلب اینوَر ڈروچٹ ہے؟ میری ممی وہیں سے تو ہیں۔”

    "کتاب میں کسی خاص گاؤں کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ یہ دونوں خاندان بعد میں قلعے میں منتقل ہو گئے تھے۔ ان کی نسلیں کئی صدیوں تک وہاں رہیں لیکن پھر برطانیہ کے ساتھ جنگ میں یہ قلعہ تباہ ہو گیا اور اسے پھر سے تعمیر نہیں کیا گیا۔ جو لوگ اس میں رہتے تھے وہ جھیل کے کنارے قریبی دیہات میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو گئے۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک وارث ہو۔” اینگس نے یہ کہ کر کتاب بند کر دی۔

    "اوہ، یہ تو ایک زبردست بات ہو گئی ہے۔” جبران اچھل پڑا۔ "فیونا تم حقیقی وارث ہو، مجھے تو یہی محسوس ہو رہا ہے۔”

    "کیا تم یہ منتر آزماؤ گی فیونا؟” دانیال نے اچانک اسے مخاطب کیا۔

    "ٹھہرو۔” وہ تینوں اینگس کی بدلی ہوئی آواز پر ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔ وہ اٹھے اور الماری کے ایک خانے سے نوٹوں کی گڈی نکال کر فیونا کی طرف بڑھے۔ "فرض کرو، منتر پڑھتے ہی تم غائب ہو گئی تو تمھیں رقم کی ضرورت ہوگی، اسے اپنے پاس رکھو۔ تم کسی بھی بینک سے متعلق ملک کی کرنسی تبدیل کر سکتی ہو۔” فیونا نے یہ سن کر لرزتے ہاتھوں کے ساتھ رقم کی گڈی لے کر جیب میں رکھ لی۔

    "میری ممی کہتی ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد قلعے میں رہتے تھے۔ میں اس منتر کو آزمانا چاہتی ہوں، لیکن یہ معاملہ بہت خطرناک لگ رہا ہے۔ جبران، دانی، تم بھی آ کر میرے قریب کھڑے ہو جاؤ۔ اگر اس نے کام کیا تو میں اکیلے نہیں جانا چاہوں گی۔”

    وہ دونوں فیونا کے کندھوں سے کندھے ملا کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا بڑبڑانے لگی… دالث شفشا یم…

    اور پھر وہ ہوا جس کا ان میں سے کسی کو بھی یقین نہیں تھا، کیوں کہ ابھی تک اس عجیب و غریب کہانی پر وہ دل سے یقین نہیں کر پائے تھے۔ یکاک کمرا رنگ و نور سے بھر گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک رنگین دھواں تیزی سے کمرے میں پھیلنے لگا ہے۔ اس دھوئیں میں دھاتی نیلے، قرمزی سرخ، تیز سبز، گہرے ارغوانی، لیموں جیسے زرد اور نارنجی دائرے جھلملا رہے تھے۔

    "انکل یہ کام کر رہا ہے، ہمارے ساتھ آپ بھی چلیں، جلدی کریں انکل۔” فیونا چلّا کر بولی۔

    "میں نہیں آسکتا۔” اینگس نے کہا۔ "میں یہیں رکوں گا اور جادوئی گولے کی حفاظت کروں گا۔”

    لیکن دیر ہو چکی تھی، جب تک اینگس کے منھ سے نکلے الفاظ ان تک پہنچ پاتے، ان کی آنکھوں کے سامنے کمرا کسی بگولے کی مانند تیزی سے گھومنے لگا۔ جب یہ بگولا رک گیا تو وہ حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگے۔

    (جاری ہے….)

  • سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سولھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا نے پوچھا یہ سیچلز کہاں ہے؟ اینگس بتانے لگے، "یہ بحر ہند میں جزائر کا ایک گروپ ہے جو مشرقی افریقی ساحل سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان علاقوں کے بارے میں تم جلد جان لو گی۔ زیادہ دل چسپی کی بات ان قیمتی پتھروں کے بارے میں ان کی تفصیل ہے۔ ہر پتھر کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے۔ جب بھی کوئی وارث اسے چھوئے گا تو یہ ڈریگن چمکنے لگے گا۔ اسی سے معلوم ہو گا کہ یہ درست پتھر ہے۔ ان پتھروں سے کچھ اس قسم کی لہریں بھی اٹھتی ہیں جو حقیقی وارث محسوس کر سکے گا اور وہ درست مقام تک پہنچ جائے گا۔ ان لہروں کی وجہ سے یا تو وہ خواب میں اس جگہ کو دیکھ لیں گے یا پھر تصور میں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہاں اس معاملے میں ایک پریشانی والی بات بھی ہے۔” اینگس نے ٹھہر کر ان کی طرف دیکھا اور پھر کہا "کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بارہ آدمیوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پتھر چھپائے جانے کی جگہوں کے آس پاس پھندے بھی لگائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اس سلسلے میں کیا کیا، اس کا کچھ پتا نہیں، کیوں کہ وہ اس کے بعد بادشاہ سے پھر کبھی نہیں ملے۔ اب یا تو تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور نے اس کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے یا عین ممکن ہے کہ ان بارہ آدمیوں نے اسے بتایا ہی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ خیال ہو کہ کتاب غلط شخص کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔”

    اینگس کے خاموش ہوتے ہی جبران نے پوچھا "تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور کے ساتھ کیا ہوا؟”

    اینگس نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ چوں کہ اس سے راز داری کا وعدہ لیا گیا تھا، بارہ آدمیوں سے ملنے اور پھر کتاب واپس قلعے میں رکھنے کے بعد وہ کہیں غائب ہو گیا ہوگا اور عام لوگوں کے درمیان گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگا ہو گا۔ اسے جانتا بھی کوئی نہیں تھا۔

    فیونا نے بھی ایک سوال پوچھ لیا "بادشاہ دوگان اور اس کے جادوگر کے ساتھ کیا ہوا؟”

    "میں نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ جادوگر اپنے بادشاہ کے مرنے کے بعد کہیں غائب ہو گیا۔ جب دوگان نے کیگان اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا اور اس نے قلعے میں کسی قیمتی پتھر اور کتاب کو نہ پایا جو اُس وقت آلروئے کے پاس کشتی میں پڑی تھی، تو وہ بہت غصے میں آیا۔ کتاب میں ایک چھوٹی سی تحریر الگ سے لکھی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دوگان کا جادوگر پہلان انتہائی طاقت ور جادو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور جہاں تک اس کتاب کے مصنف کا ذکر ہے تو اس کتاب کے مطابق اس میں شان دار کارکردگی دکھانے کی صلاحیت تھی۔ تو میری نظر میں جو تصویر بن کر سامنے آ رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دوگان آج بھی ممکن ہے کہ زندہ ہو۔ اگر وہ زندہ نہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ساری قوتیں اس کے کسی وارث میں ہوں۔ بہرحال، اس کتاب میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔”

    وہ تینوں یہ سن کر بے اختیار چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے تھوک نگل کر، گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا "اس کا مطلب ہے کہ کوئی شیطان صفت آدمی بادشاہ کیگان کے کسی وارث کی تلاش میں ہے!”

    اینگس نے گلا کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ "وہ کوئی عورت بھی ہو سکتی ہے، اس کا امکان ہے۔ اب مسئلہ اس جادوئی گولے کا ہے۔ یہ تم لوگوں کی نسبت میرے پاس زیادہ محفوظ ہوگا۔ فرض کرو اگر وہ شیطان بادشاہ یا اس کا کوئی جادوگر زندگی کی طرف لوٹنے میں کام یاب ہو جائے اور انھیں اس جادوئی گولے سے متعلق معلوم ہو جائے تو یہ ہمارے لیے بہت سارے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔”

    یہ ایک ایسی بات تھی جس نے تینوں کے بدن میں سنسنی دوڑا دی۔ فیونا کو ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ جبران کو لگا کہ وہ کسی تیز طوفان کی زد میں آ گیا ہو اور دانیال گم سم ہو گیا تھا۔ وہ پھٹی ہوئی نظروں سے اینگس کو دیکھ رہا تھا۔

    فیونا نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا تو اس سے بڑبڑاہٹ جیسی آواز نکلنے لگی۔ "انکل اسے آپ ہی اپنے پاس رکھیں، ہم میں سے کسی کے بھی والدین اسے گھر میں رکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اور پھر کوئی اس کی تلاش میں بھی ہے تو یہ اسے آسانی سے مل سکتا ہے۔ ”

    ایسے میں دانیال کو ایک اہم بات یاد آ گئی۔ اس نے آگے کی طرف جھکتے ہوئے کتاب کو دیکھنے کی کوشش کی۔ "انکل، وہ منتر کیا ہے، جو اس کتاب میں درج ہے؟”

    "منتر… کیسا منتر؟” اینگس کے ماتھے پر لکیریں نمودار ہو گئیں۔

    "ارے ہاں، دانیال ٹھیک کہہ رہا ہے۔” جبران کو بھی یاد آ گیا۔ "آپ ہی نے تو کہا تھا کہ اس میں کوئی منتر لکھا ہوا ہے، یاد ہے آپ نے گزشتہ رات اسے کتاب میں پایا تھا۔”

    "اوہ، مجھے یاد آ گیا۔” اینگس اچھل پڑے، انھیں اپنی یادداشت پر حیرت بھی ہوئی۔ اور پھر وہ جلدی جلدی کتاب کے صفحات الٹنے لگے اور مطلوبہ صفحے پر پہنچ کر ساکت سے ہو گئے، پھر ان کے جسم میں جنبش ہوئی اور ہونٹ ہلنے لگے۔ "تم لوگوں کو یہ الفاظ ادا کرنے پڑیں گے۔”

    (جاری ہے….)