Tag: دہلی کی جامع مسجد

  • دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    اردو زبان و ادب کے شائق و شیدا، سنجیدہ اور باذوق قارئین، خاص طور پر ادب کے طالبِ علموں نے "دبستانِ لکھنؤ” کی اصطلاح سن رکھی ہو گی اور اسی طرح لفظ "لکھنویت” سے بھی واقف ہوں گے جو ایک پس منظر رکھتا ہے۔

    دبستانِ لکھنؤ سے ہم شعر و ادب کا وہ رنگ اور انداز مراد لیتے ہیں جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا تھا۔ اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو اور دہلی کی شاعری سے مختلف ہے۔

    دہلی کے حالات بگڑے اور جب لکھنؤ میں اہل ذوق اور شعرا اکٹھے ہوئے تو دیگر مراکزِ علم و ادب کے مقابلے میں دبستانِ لکھنؤ کا چرچا بھی ہونے لگا۔

    ہندوستان میں اس سے پہلے علم و ادب کے لیے دکن اور دہلی بڑے مراکز مانے جاتے تھے، لیکن دہلی میں تاج و تخت کے لیے لڑائی اور وہاں کا امن و سکون غارت ہونے کے بعد اہلِ علم و فضل نے لکھنؤ اور فیض آباد کو اپنی دانش اور سخنوری سے سجایا اور یہاں پر علم و ادب کی محفلوں کو خوب رونق بخشی۔

    میر تقی میر بھی ان شعرا میں شامل ہیں جو حالات بگڑنے پر دہلی چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے۔

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)

  • بھارتی انتہاپسندوں نے زبردستی دہلی جامعہ مسجد پر ترنگا لہرادیا

    بھارتی انتہاپسندوں نے زبردستی دہلی جامعہ مسجد پر ترنگا لہرادیا

    نئی دہلی : بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی مسلمان مخالف غنڈہ گردی بڑھتی جارہی ہے، انتہا پسند کارکنوں نے دہلی کی جامع مسجد میں زبردستی بھارتی جھنڈا لہرادیا اور مسلمان مخالف نعرے بھی لگائے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار میں بی جے پی کے مسلمان دشمن غنڈے بے قابو ہوگئے، بھارت کے یوم آزادی کے دن دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں بی جے پی کے غنڈوں نے زبردستی بھارتی جھنڈا لہرا دیا۔

    بی جے پی کے کارکنوں نے مسجد میں جھنڈا لہرانے سے روکنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔

    بی جے پی کے مقامی لیڈرکا کہنا تھا کہ ہمیں کہیں بھی جھنڈا لہرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انتہا پسند ہندو سوشل میڈیا پرجھنڈا لہرانے کی ویڈیوز شئیر کرکے مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلاتے رہے۔


    مزید پڑھیں : بھارت کو یومِ آزادی پر ہزیمت کا سامنا۔۔ ویڈیو دیکھیں


    ایک جانب ایسی زبردستی ہے تو دوسری جانب یہ حال ہے کہ بھارت کے یوم آزادی کی مناسبت سے پرچم کشائی کی تقریب میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا قومی جھنڈا ہی نہیں سنبھال سکی۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے جھنڈا لہرانے کی کوشش کی تو ترنگا فضاء میں جانے کے بجائے زمین پر آگرا تھا۔