Tag: دہلی

  • اومیکرون کا خوف: بھارت میں کرفیو نافذ

    اومیکرون کا خوف: بھارت میں کرفیو نافذ

    نئی دہلی: کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر بھارت کے کئی علاقوں میں کرفیو لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں ایک ہی دن میں 37 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد پنجاب اور مرکز کے زیر انتظام دہلی کی ریاستوں نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات نافذ کر دیے ہیں۔

    دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے منگل کو قومی دارالحکومت میں ویک اینڈ کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کرفیو کے دوران صرف ضروری نقل و حرکت کی اجازت ہوگی، تمام سرکاری دفاتر میں گھر سے کام کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ نجی دفاتر کو 50 فی صد حاضری پر کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

    اس دوران پنجاب حکومت نے بھی ضروری سروسز کو چھوڑ کر رات 10 بجے سے صبح 5 بجے تک ریاست میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے، تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے، ج بکہ آن لائن کلاسز جاری رہیں گی۔

    بھارت میں کرونا کا پھیلاؤ تیز، وزیراعلیٰ نئی دہلی بھی متاثر

    مزید برآں، بارز، سینما ہالز، مالز، ریسٹونٹس اور اسپاز کو 50 فی صد حاضری کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہوگی، اس کے ساتھ عملے کی مکمل ویکسینیشن بھی کی جائے گی۔

    ریاست تلنگانہ میں 8 اور 16 جنوری کے درمیان ریاست بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے ہندو مکر سکرنتی تہوار کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے، ممبئی میں بھی اسکول بند کر دیے گئے ہیں،۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست بہار میں 3 دن میں 168 ڈاکٹرز میں کرونا کی تشخیص ہو چکی ہے، بھارت میں ممبئی سے گوا جانے والے کروز جہاز کے تمام مسافروں کو بھی واپس بھیج دیا گیا ہے، جس میں 2 ہزار مسافروں میں سے 66 میں کرونا کی تشخیص ہوئی تھی۔

  • بھارت: پٹاخے پھوڑنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا

    بھارت: پٹاخے پھوڑنے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا

    نئی دہلی: بھارت کے دارالحکومت میں صوتی آلودگی پھیلانے پر جرمانے میں اضافہ کر دیا گیا ہے، اب ایک لاکھ روپے تک وصول کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق نئے احکامات کے بعد اب دہلی کے رہائشی یا صنعتی علاقوں میں کسی نے پٹاخہ چلایا تو اسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے، متعلقہ محکموں کو اس سلسلے میں سختی سے عمل درآمد کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دہلی پلوشن کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) شہر میں شور کی بڑھتی آلودگی کے خلاف سخت اقدامات اٹھا رہی ہے، اسی ضمن میں ہفتے کے روز صوتی آلودگی پھیلانے والوں پر عائد ہونے والے جرمانے میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

    نئے احکامات کے مطابق صوتی آلودگی پھیلانے والوں کو ایک ہزار سے ایک لاکھ تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    جرمانے بتدریج بڑھانے کا ایک طریقہ کار بھی ترتیب دیا گیا ہے، جس کے مطابق مقررہ وقت کے بعد کسی بھی شخص کے رہائشی اور صنعتی علاقے میں پٹاخہ چلانے پر بالترتیب ایک ہزار اور تین ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    اگر کسی ریلی، شادی یا مذہبی تقریب میں پٹاخہ سے متعلق اصول کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تو منتظمین کو رہائشی اور صنعتی علاقوں میں 10 ہزار روپے اور سائلنٹ زون میں خلاف ورزی کرنے پر 20 ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

    اگر ایک ہی علاقے میں دوسری مرتبہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، تو جرمانے کی رقم بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دی جائے گی، اور اگر 2 مرتبہ سے زیادہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، تو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ وصول کیا جائے گا، اس جگہ کو بھی سیل کر دیا جائے گا۔

    نیز، جنریٹر جیسے آلات کے ذریعے بھی صوتی آلودگی پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ایسی صورت میں آلات ضبط کیے جائیں گے۔

  • پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    میری بڑی آپا ملکہ زمانی صاحبہ،
    آداب!

    میں اصل خیر سے دلّی پہونچ گئی اور سب چھوٹے بڑوں کو تن درست دیکھ کر اور ان سے مل جل کر خوش بھی ہو لی، مگر اللہ جانتا ہے کہ میرا دم آپ میں ہی پڑا ہے۔

    کیا کروں آپا جان! سسرال والوں کا پاس آن پڑا، نہیں تو زچہ خانہ میں آپ کو چھوڑ کر خدائیوں میں بھی نہ آتی۔ ویسے تو خدا رکھے دولہا بھائی نے نوکر چاکر، ماما اصیلیں آپ کی ٹہل کے لیے بہت سی لگا رکھی ہیں مگر جو ہم دردی ماں بہنیں کرتی ہیں وہ نوکریں کب کرسکتی ہیں۔ خیر بہت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب کے اٹھوارہ کو سلامتی سے آپ بڑا چلّہ نہا لیں گی اور پلنگ کو لات مار کر کھڑی ہو جائیں گی۔

    میاں ننّھے مجھے ہر وقت یاد آتے ہیں اور ان کی ہُواں ہُواں میرے کانوں میں بسی ہوئی ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے گا جب میں اسے پھر موٹا تازہ آپ کی گود میں دیکھوں گی۔

    نوشابہ کے بیاہ کا حال تو پیچھے لکھوں گی، پہلے آپ یہ سن لیجیے کہ میں کن توائیوں سے دلّی پہونچی۔ اوّل تو پندرہ میل بگّی میں چلنا پڑا۔ بیٹھے بیٹھے نگوڑا دم گھبرا اٹھا۔ ڈگڈگیوں دن ہوگا جو پشاور کے اسٹیشن پر پہونچی۔ بگّی کا دروازہ کھول کر آپ کے بہنوئی بولے:

    “برقعہ اوڑھ کر اتر پڑو۔” میں نے کہا: “ڈولی ذری پاس لگوا دو تو میں جھپ سے اس میں بیٹھ جاؤں۔”

    ہنس کر کہنے لگے: “یہ دلّی کا اسٹیشن نہیں ہے جہاں ہر وقت ڈولیاں مستعد رہتی ہیں۔ یہاں تو بس اللہ کا نام ہے۔ بے ڈولی کے ہی چلنا پڑے گا۔” مرتا، کیا نہ کرتا۔ برقع اوڑھ لپیٹ کر بگّی سے اتر، ان کے ساتھ ہو لی، مگر مارے شرم کے چلنا دوبھر تھا۔ کہیں پیر ڈالتی تھی اور کہیں پڑتا تھا۔

    اسٹیشن کے اندر پہونچی تو وہ دھوم دھام اور آدمیوں کی چلت پھرت کہ الٰہی توبہ۔ لمبی ساری ایک کرسی بچھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔ مجھے بیٹھے ہوئے دو ہی گھڑی گزری ہوں گی جو ایک موٹا سا مردوا کالے کپڑے پہنے جھپ سے میرے پاس آن ٹُھسا۔ وہ میری دہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اشارہ سے کہا:

    “ یہ ظلم ہے، اس پر خدا کی مار ہے جو پرائی عورت کے پاس آن گھسڑا۔” انھوں نے چپکے سے جواب دیا۔

    “اس بینچ پر بیٹھنے کا حق سب کو حاصل ہے، عورت ہو یا مرد، کچھ برا ماننے کی بات نہیں۔” ڈاک گاڑی کے آنے کا وقت تو رات 9 بجے مقرّر تھا، مگر معلوم ہوا رستہ بگڑ گیا ہے، اس لیے دس بجے آئے گی۔

    میں نے اپنے دل میں کہا غریبوں نے روزہ رکھے دن بڑے آئے۔ وہ جو مثل مشہور تھی، ہنوز دلّی دور، آج اصل ہوگئی۔ کس کا کھانا، کس کا پینا۔ انھوں نے کہا بھی کہ کھانا کھالو، مگر میں نے الٹ کر انھیں یہی جواب دیا کہ صاحب میرا تو ستّر سے بہتّر مردوؤں میں ہواؤ نہیں پڑتا کہ بیٹھ کر نوالے ماروں۔ ریل میں بیٹھنے کو کوئی کونا مل جائے گا تو کھا لوں گی، نہیں فاقہ ہی بھلا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے ٹانگیں شل ہوگئیں۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں مگر ریل نہ آنی تھی پر نہ آئی؛ اور غضب یہ ہوا کہ اسٹیشن میں قدم قدم پر بجلی کے ہنڈے روشن ہوگئے؛ رات کا دن بن گیا۔ وہ اجالا کہ زمین پر سوئی پڑے تو الگ دکھائی دے۔

    فرنگی، ریل کے بابو، چپراسی، خلاصی، قلی، مسافر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پڑے پھرتے ہیں۔ کیا مقدور جو کوئی ڈھب پردہ کا نکل آئے۔ جوں جوں ریل کے آنے کا وقت قریب آتا جاتا تھا، اسٹیشن کے اندر مسافر بھرے چلے آتے تھے۔

    ڈاک گاڑی کے آنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں گے جو اسٹیشن کا سارا چبوترہ آدمیوں سے بھر گیا۔ گھنٹی بجی اور ریل اس قہر کے ساتھ دندناتی ہوئی اسٹیشن میں داخل ہوئی کہ در و دیوار لرز گئے۔ میں سمجھی یہ لوہے کا سائبان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں، دہل سے ٹوٹ کر اور اُڑ اُڑا کر سر پر آرہے گا۔ پھر جو مسافر بھاگے ہیں اور آپا دھاپی مچی ہے تو حشر برپا ہوگیا۔ تُو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ سب سے آگے تو چار قُلی، اُن کے سروں پر ہمارے ٹرنک، بکس، بچھونے، اِن کے پیچھے وہ، اُن کے پیچھے مَیں۔

    ابھی ریل کا درجہ کوئی پانچ قدم پر ہوگا جو آگے سے ریلا آیا تو آپ کے بہنوئی الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ ان کا ہٹنا کہ میں پیچھے سَرکی۔ اگر اگلے آدمی اور ذرا دھکیلیں تو میں پس ہی گئی ہوتی، مگر خدا نے بال بال بچالیا۔

    بارے ہزار مشکل اور مصیبت کے ساتھ ریل کے اندر پہونچی تو معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے اس درجہ میں دس آدمی اور ٹھسے بیٹھے ہیں۔ بیٹھنے کیا کھڑے رہنے کا بھی ٹھکانہ نہیں۔ وہ الگ بغلیں جھانک رہے ہیں، میں جدا حیران کھڑی ہوں۔ اس میں انھیں کچھ خیال آیا اور ساتھ ہی ایک بھلے مانس نے کہا:

    “حضرت ان کو اوپر والے پلنگ پر چڑھا دیجیے۔” کیا بیان کروں کس مصیبت سے اوپر پہونچی۔ وہ پلنگ دو موٹی موٹی لوہے کی زنجیروں میں پڑا جھول رہا تھا۔ میری سلیم شاہی جوتی کی نوک جو ایک زنجیر میں اٹکی تو جوتی پنجہ سے نکل، نیچے جو ایک بوڑھے آدمی بیٹھے تھے اُن کی سفید ڈاڑھی پر جا گری۔

    وہ بیچارے جھینپ کر یہ کہنے لگے: “ریل کے سفر میں پردہ نشین عورتوں کے لیے انگریزی جوتی اچھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس سے چلا اچھا جاتا ہے، دوسرے بھاگ دوڑ میں پاؤں سے نکلنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔”

    ابھی میں سنبھل کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی، جو ایک اور آفت کا سامنا ہوا۔ آگے آگے ایک بابو، اس کے پیچھے ایک فرنگن بھبوکا رنگ، سادہ پن میں لاکھ لاکھ بناؤ، چھلّا جیسی کمر اور وہ بھی چمڑے کی پیٹی سے کسی ہوئی، گلے میں ڈھیلا سا ایک کوٹ جس کی سنجاف سمور کی تھی، سیاہ سایہ گھیر دار سر پر ٹوپی اور ٹوپی میں دو تین گلاب کے پھول اوڑھے ہوئے، مگر گلاب کے لال لال پھول اس کے چہرہ کی بہار کے سامنے بالکل پھیکے دکھائی دیتے تھے۔ ہاتھ میں ننھا سا کالے چمڑے کا ایک بیگ۔ ان کے پیچھے ان کے صاحب۔

    بابو نے ٹکٹ کاٹنے کی قینچی گاڑی کے کواڑ میں زور سے مار کر کہا: “تم ہندوستانی دیکھتا ہے، نہ بھالتا ہے، گاڑی میں یونہی گھس جاتا ہے۔ اترو اس میں سے، یہ صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا گاڑی ہے۔”

    اس صدا کو سن کر میرا تو جی چھوٹ گیا۔ نیچے جو لوگ بیٹھے تھے پہلے وہ اپنا اپنا اسباب سنبھالتے ہوئے نکل کر بھاگے۔ آپ کہیں گی کہ جو کمرا صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا ہوتا ہے، اس پر لکھا ہوا ہوتا ہے اور تمہارے میاں تو انگریزی پڑھے ہیں، وہ تمہیں انجانوں کی طرح اس کمرے میں لے کر کس طرح گھس گئے؟

    آپا جان! مسافروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ رات کا وقت، ہول جول میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ بندریا کی طرح پھر اس پلنگ پر سے نیچے اتری۔ یہ بھلا ہوا تھا کہ قُلیوں کو ابھی چُکایا نہیں تھا اور وہ ریل سے لگے کھڑے تھے۔ نہیں تو اسباب کا اتارنا دوبھر ہو جاتا اور ریل ہنک جاتی۔ نکلتے نکلتے بابو نے ہمارے پیچھے دھیری لگا دی۔ “ڈاک گاڑی جاتا ہے جلدی اترو۔”

    اب کی دفعہ مجھے ایک زنانہ کمرا مل گیا۔ جس میں میرے سوائے عورت کیا کوئی چڑیا بھی نہ تھی۔ پاس ہی مردانہ کمرا تھا وہ اس میں بیٹھ گئے۔ ڈاک گاڑی چل دی۔ چلتی ریل میں ہمارا اسباب دھر دیا اور ایک قلی ریل کے پٹرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مزدوری لے کر جھپ سے کود گیا۔

    اب کیا تھا، بلی کے بختوں چھینکا ٹوٹا۔ بے مہتا اکیلا کمرا مل گیا۔ کھانا بھی کھایا، پان بھی کھائے۔ اگلے اسٹیشن پر انھوں نے آکر بستر بند میں سے میرا بچھونا کھول کر بچھا دیا اور جو میں پاؤں پھیلا کر سوئی ہوں تو دلّی تک مجھے ہوش نہ ہوا۔ جب ریل اسٹیشن پر آکر ٹھہر گئی تو انھوں نے مجھے آکر جگایا کہ اٹھو گھر آگیا۔

    اسی میں میاں ناصر بھی آن پہونچے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر کہنے لگے: “باجی جان! آداب۔ میں ڈولی لے آیا ہوں۔ ”میں نے کہا شکر ہے۔


    (یہ افسانہ نما بیانیہ (خط) ہے جس میں پشاور سے دلّی جانے والی بلقیس زمانی نے اپنی بہن کو ٹرین کے سفر کا احوال لکھا ہے اور کچھ واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ پارہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی کتاب "دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ” سے لیا گیا ہے)

  • بالٹی میں ڈوب کر بچہ جاں بحق، والدین کا رو رو کر برا حال

    بالٹی میں ڈوب کر بچہ جاں بحق، والدین کا رو رو کر برا حال

    دہلی: بھارتی شہر دہلی میں گیارہ سال کا ایک معصوم بچہ گھر والوں کی غفلت کے باعث بالٹی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشرقی دہلی کے علاقے منڈاؤلی میں رفیق نامی گیارہ ماہ کا ایک بچہ افسوس ناک طور پر بالٹی میں گرنے سے موت کا شکار ہو گیا، بالٹی میں موجود پانی میں بچے کا دم گھٹ گیا جس کے باعث وہ جاں بر نہ ہو سکا۔

    یہ واقعہ بھارتی دارالحکومت دہلی میں منڈاؤلی تھانہ علاقے میں گزشتہ روز پیش آیا، بچہ والدین کے ساتھ سو رہا تھا، کہ اس دوران کسی وقت اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ کھیلتے کھیلتے بالٹی تک پہنچ گیا۔

    والدین کو اس وقت پتا چلا جب وہ سو کر اٹھے، انھوں نے رفیق پانی کی بالٹی میں الٹا پڑا دیکھا تو اوسان خطا ہو گئے، انھوں نے بچے کو بالٹی سے نکالا گیا لیکن وہ بے حس و حرکت تھا۔

    بچے کی موت پر والدین غم سے نڈھال ہو گئے، انھوں نے رو رو کر اپنا برا حال کر دیا۔ دوسری طرف پولیس کو بھی واقعے کی اطلاع دی گئی، جس پر پولیس نے بچے کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دی۔

  • غیر متعصب  اور  کشادہ دل لالہ ٹیکا رام تسلیؔ

    غیر متعصب اور کشادہ دل لالہ ٹیکا رام تسلیؔ

    لالہ ٹیکا رام تسلیؔ، بخشی گوپال رائے کے لائق فرزند، نواب شجاع الدولہ کے دیوان، رائے بھولا ناتھ کے بھتیجے تھے۔

    اصل وطن موضع ” کریل“ اٹاوہ تھا، لیکن خاندان، نواب شجاع الدولہ کی سرکار سے وابستگی کے سبب لکھنؤ منتقل ہو گیا تھا۔ پہلے اپنے بزرگوں اور بعد میں لکھنؤ کے اہلِ علم اور مستند ہستیوں سے کسبِ علم و فن کیا۔ بَلا کے ذہین و فہیم تھے۔ صاحبانِ علم و فن کے گرویدہ تھے اور ہر طرح ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔

    علم سے رغبت کا یہ عالم تھا کہ نادر و نایاب کتب کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر کرتے اور زرِ کثیر خرچ کر کے اپنے کتب خانے کے ذخیرہ میں اضافہ کرتے، شعر و ادب کے دل دادہ تھے اور ابتدائے عمر ہی سے شعر گوئی سے دل چسپی رکھتے تھے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں بے تکان شعر کہتے تھے۔

    جب مشق سخن بڑھی تو مصحفی کی شاگردی اختیار کی۔ صاحبِ حیثیت تھے اور مالی خوش حالی ہمیشہ نصیب رہی۔ نہ صرف اپنے استاد مصحفی کو بلکہ اس دور کے بہت سے اہلِ علم کو معاشی الجھنوں سے نجات دلائی۔

    لالہ سری رام نے اپنے مشہور تذکرہ میں ان کا ناتمام اور تشنہ ذکر کیا ہے اور 1848 تک ان کو بقیدِ حیات بتایا ہے۔ ہر ماہ اپنے گھر پر محفل شعر و سخن آراستہ کرتے تھے اور مہمانوں کے طعام و تواضع کا نہایت اعلیٰ انتظام فرماتے تھے۔ غیر متعصب اور کشادہ مشرب انسان تھے۔

    امیر ہونے کے باوجود طبیعت میں حلم و عجز کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کسی کم علم اور نااہل کو شاگرد بنانے سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ تمام عمر ان کی سیرت و کردار پر کوئی شخص انگلی نہ اٹھا سکا۔ ہر طبقہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

    عید اور دوسرے تمام تہواروں پر مسلمانوں کو ان کے گھر جاکر مبارک باد دیتے اور تمام مسلمان شرفا اور اہلِ علم و فن کی اپنے گھر پر نہایت پُرتکلف دعوت کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اخلاق، سیرت و کردار اور وسیع المشربی، علم و فن اور صاحبانِ علم و فن کی گرویدگی کے اعتبار سے اپنے دور کے مثالی انسان تھے۔

    مشکل سے مشکل زمینوں میں شعر کہنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ زبان نہایت شستہ و پاکیزہ اور طرزِ اظہار انتہائی دل نشین ہوتا تھا۔

    کلام ملاحظہ کیجیے:

    باقی اس نیم جان میں کیا ہے
    فائدہ امتحان میں کیا ہے

    دھوپ جیسی تپش جو ہو محسوس
    حاصل اس سائبان میں کیا ہے

    جس میں سب کچھ ہو اور خلوص نہ ہو
    رکھا ہی اس مکان میں کیا ہے
    ٭٭٭

    کیا منہ جو کوئی آئے ترے تِیر کے منہ پر
    اِک ہم ہیں کہ منہ رکھ دیا شمشیر کے منہ پر

    جانے دے تسلی تُو نہ کر فکر سخن کا
    پھبتا ہے سخن مصحفی و میر کے منہ پر
    ٭٭٭

    یہ غم دو چار دن کا ہے، خوشی دو چار دن کی ہے
    مجھے معلوم ہے کُل زندگی دو چار دن کی ہے

    پھر اس کے بعد خاک اُڑتی نظر آئے گی ہر جانب
    چمن میں غنچہ و گل کی ہنسی دو چار دن کی ہے

    (طالب صدیقی کی کتاب سے ایک ورق)

  • دہلی میں بدترین مسلم کُش فسادات، ہندو انتہا پسندوں نے  42  مسلمانوں کی جان لے لی

    دہلی میں بدترین مسلم کُش فسادات، ہندو انتہا پسندوں نے 42 مسلمانوں کی جان لے لی

    نئی دہلی : بھارتی دارالحکومت کی زمین مسلمانوں پرتنگ کردی گئی، مسلم کُش فسادات میں مرنے والوں کی تعداد42 ہوگئی ہے جبکہ فسادات میں 48گھنٹے میں تین مساجد ، ایک مزار جلا دیئےگئے۔

    تفصیلات کے مطابق اتوار سے شروع ہونے والے فسادات کےبعد دہلی کے حالات تاحال کشیدہ ہیں، مسلم ہندو فسادات میں اب تک 42 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ، مرنےوالوں میں زیادہ تر مسلمان تھے جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

    دلی ہائی کورٹ کےجج جسٹس ایس مرلی کی بازپرس انتظامیہ کو اچھی نہیں لگی اور حکومت نےجج کا تبادلہ کردیاہے،جسٹس ایس مرلی نےسیاسی رہنماؤں پر مقدمات درج کرنے کی سفارش کی تھی اور کہا تھا کہ ہم دلی میں دوسرا انیس سو چوراسی نہیں ہونے دیں گے، کم از کم اس عدالت کے ہوتے ہوئے تو ایسا نہیں ہوگا جبکہ شدیدتنقیدکے بعد دلی پولیس کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیاگیا ہے۔

    دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں بڑے اجتماعات پر پابندی دس گھنٹے کے لیے اٹھائی جا رہی ہے، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول ن کےمطابق ہنگاموں کے دوران لوگوں کو پولیس پر اعتماد نہیں تھا جب کہ دہلی کے کمشنر پولیس کا کردار بھی مایوس کن تھا ، دہلی میں اڑتالیس گھنٹے کے دوران تین مساجد ، ایک مزارجلادیئےگئے۔

    مودی سرکار نے متاثرہ علاقوں میں کرفیولگادیا ہے اور نمازجمعہ کے اجتماعات پربھی پابندی عائد ہے،متاثرہ علاقوں میں تجارتی مراکزبھی تاحال بند ہیں جبکہ مسلمانوں کے خاکستر گھر اور تباہ کاروبار ان پر گزری قیامت کاپتہ دے رہے ہیں۔

    خیال رہے بھارت کےگلی کوچوں میں آرایس ایس کےغنڈے سرعام ڈنڈے اور تلواریں لیے مسلمان بستیوں پر حملہ کرتے اور جانیں لیتے رہے ، مسجد شہید کی، مسلمانوں کےگھر اور دکانیں جلاڈالیں۔ پولیس بھی بلوائیوں کے ساتھ تھی، وردی میں ملبوس غنڈوں نے جلاو گھیراو میں ساتھ دیا۔

    جامعہ ملیہ اورجواہرلال نہرویونیورسٹی کےطلبانے وزیراعلی اروند کیجریوال کی رہائشگاہ جانے کی کوشش کی تو پولیس نے طلبا کومنشترکرنےکےلئے آنسوگیس اورواٹرکینن استعمال کی بلوائیوں کو پکڑنے کے بجائےدلی پولیس کو پُرامن مظاہرین کو دیکھتےہی گولی مارنے کاحکم دیا۔

  • دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    دہلی کے سنگم تھیٹر سے متصل اردو منزل والے بھیا احسان الحق

    بھیا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرف عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ءمیں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل “ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔


    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے، یہ سطور ان کے دہلی میں قیام کے دوران اہلِ علم اور صاحبانِ کمال سے ملاقاتوں کے ایک تذکرے سے لی گئی ہیں)

  • کروناوائرس کا خطرہ، چین سے وطن واپس پہنچنے والے 324 مسافر کہاں گئے؟

    کروناوائرس کا خطرہ، چین سے وطن واپس پہنچنے والے 324 مسافر کہاں گئے؟

    نئی دہلی: چین سے خصوصی پرواز کے ذریعے 324 مسافر بھارت پہنچ گئے، مسافروں کو 7 دن کے لیے کروناوائرس سے متعلق قائم کیے گئے کیمپ میں رکھا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سینکڑوں مسافر چینی شہر ووہان سے خصوصی پرواز کے ذریعے دہلی پہنچے ہیں۔ مسافروں کو ایئرپورٹ پر اسکریننگ کے مراحل سے گزارنے کے بعد قائم کیے گئے مخصوص کیمپ میں رکھا گیا ہے، اس دوران انہیں اپنے عزیز واقارب سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے۔

    بھارت میں کروناوائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے یہ اقدامات کیے گئے، دہلی پہنچنے والے مسافروں میں 211 طالب علم اور 110 مزدور شامل ہیں۔ جبکہ طیارے میں کچھ بچے بھی تھے۔ تمام افراد کو خصوصی کیمپ میں رکھا گیا ہے۔

    چین میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 250 سے تجاوز کرگئی

    چین سے بھارت آنے والی خصوصی پرواز میں ڈاکٹروں کا پینل بھی مسافروں کے ساتھ موجود رہا۔

    خیال رہے کہ چین میں کروناوائرس سے 259 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 12 ہزار افراد متاثر ہوئے، چین کے مختلف شہروں میں نظام زندگی مفلوج ہے ، چودہ صوبوں میں چھٹیاں اور لوگ گھروں میں محدود ہیں جبکہ چین کی معشیت کو اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔

    کروناوائرس سے دنیا بھر میں خوف وہراس پھیلا ہوا ہے، اب تک 23 ممالک میں کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں ، امریکا اور اٹلی نے کرونا وائرس کے بعد ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی اور ساتھ ہی چین کے ساتھ فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا ہے جبکہ سوئیڈن میں کرونا وائرس کاکیس سامنے آگیا ہے۔

  • میں تمھیں آزادی دوں گا، انتہا پسند نے جامعہ ملیہ کے طالب علم کو گولی مار دی، ویڈیو دیکھیں

    میں تمھیں آزادی دوں گا، انتہا پسند نے جامعہ ملیہ کے طالب علم کو گولی مار دی، ویڈیو دیکھیں

    نئی دہلی: بھارت کے دارالحکومت میں ایک انتہا پسند ہندو نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر سر عام فائر کھول دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایک انتہا پسند ہندو نے دہلی میں جامعہ ملیہ کے قریب جامعہ نگر میں فائرنگ کرتے ہوئے ایک طالب علم کو زخمی کر دیا، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے مسلح شخص یہ نعرہ لگاتے ہوئے فائر کر رہا تھا ‘میں تمھیں آزادی دوں گا۔’

    بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کہ مسلح شخص سڑک پر دندناتا ہوا آیا اور پستول لہراتے ہوئے چلایا، کون آزادی مانگتا ہے، میں تمھیں آزادی دوں گا، یہ کہہ کر اس نے فائر کھول دیا۔

    پولیس نے مسلح شخص کو موقع ہی پر گرفتار کر لیا، تاہم فائر کر کے طالب علم کو زخمی کرنے والے انتہا پسند ہندو کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مظاہرین راج گھاٹ کی طرف مارچ کر رہے تھے۔

    دہلی کا وہ علاقہ جسے بھارتی میڈیا نے منی پاکستان مان لیا

    واقعے کے بعد زخمی طالب علم کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا، جب کہ مسلح شخص سے پولیس تفتیش کر رہی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح شخص پستول لہراتے ہوئے مارچ کرنے والوں کے آگے جا رہا ہے اور میڈیا کے سامنے کھلم کھلا مظاہرین کی طرف پستول کر کے فائر کر رہا ہے، ساتھ ہی نعرے بھی لگا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ جامعہ ملیہ کے طلبہ نے متنازع قانون کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ متنازع قانون کی منظوری کے بعد بھارت بھر میں پرزور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، بھارتی فلم انڈسٹری اور دیگر شعبہ جات کی معروف شخصیات نے بھی احتجاج کو درست قرار دیتے ہوئے مودی سرکار کی پالیسی کو مسترد کر دیا ہے، تاہم اس دوران ریاستی تشدد کے باعث سیکڑوں شہری زخمی اور متعدد جاں بحق بھی ہوئے ہیں۔

  • نوجوان نے ’’مجھے پریشان نہ کرو‘‘ لکھ کر دروازے پر لگایا اور خودکشی کرلی

    نوجوان نے ’’مجھے پریشان نہ کرو‘‘ لکھ کر دروازے پر لگایا اور خودکشی کرلی

    دہلی: بھارت میں نوجوان نے اپنے کمرے کے دروازے پر ’’مجھے تنگ نہ کرو‘‘ لکھ کرلگایا اور خودسوزی کرلی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی شہر دہلی میں 24 سالہ نوجوان کی لاش 5اسٹار ہوٹل کے کمرے سے ملی، دروازے کے باہر ایک بینر چسپاں تھی جس میں لکھا تھا ’’مجھے پریشان نہ کرو‘‘ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان کی شناخت کرن چاندرا نے نام سے ہوئی۔ ہوٹل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عملے نے کمرے میں کال کی تو رہائش پذیر نوجوان نے کوئی جواب نہیں دیا، کافی انتظار کے بعد روم سے بدبو آنے لگی، بعد زاں پولیس کے ہمراہ دروازہ توڑا تو نوجوان کی لاش سامنے پڑی تھی۔

    لاش کے پاس سے مختلف قسم کی ادویات بھی ملی ہیں، ابتدائی طور پر کہا گیا ہے کوئی زہریلی شے کھانے سے نوجوان کی موت واقع ہوئی، تاہم پولیس نے ہوٹل انتظامہ کو زیر تفیش لے کر کارروائی کا آغاز کردیا۔

    پولیس حکام کے مطابق لاش کو رام مناہر نامی اسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے۔ نوجوان نے 19 جنوری کو فائیو اسٹار ہوٹل کا کمرہ بک کرایا تھا۔ جبکہ موت 20 جنوری کو واقع ہوئی۔ پولیس نے موت کی وجوہات جاننے کے لیے کوششیں تیز کردیں۔