Tag: دیمک

  • سندھ میں ہزاروں من سرکاری گندم کو دیمک لگ گئی

    سندھ میں ہزاروں من سرکاری گندم کو دیمک لگ گئی

    سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں سرکاری گوداموں کے باہر رکھی گندم کو دیمک لگ گئی ہزاروں من اناج ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے ممتاز آریسر کے مطابق سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں سرکاری گوداموں سے باہر پڑی گندم کو دیمک لگ گئی ہے اور انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث ہزاروں من گندم ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے گزشتہ سال عمر کوٹ ضلع میں گندم کی خریداری کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار بوری خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا جس کا 75 فیصد حاصل بھی کر لیا گیا تھا۔

    تاہم سرکاری گوداموں میں گنجائش کم ہونے کے باعث ہزاروں من گندم کھلے آسمان کے نیچے رکھی گئی جسے اب دیمک لگ چکی ہے۔

    محکمہ خوراک حکام کی جانب سے اس گندم کو محفوظ بنانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، جس کے باعث ہزاروں من گندم ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    عمر کوٹ میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کا عہدہ تین ماہ سے خالی ہے جبکہ گندم کی صورتحال پر ڈپٹی کمشنر نوید احمد لاڑک سے موقف لینے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے بات کرنے انکار کر دیا۔

    دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ہونے باعث کاشتکاروں نے اپنی ضرورت کے مطابق گندم کاشت کی ہے جس کے باعث مقامی تاجروں کی گندم کی بلیک مارکیٹنگ کی صورت میں آنے والے دنوں میں ایک بار پھر گندم کے بحران کا خدشہ ہے۔

  • دیمک سے متعلق حیران کن حقائق اور ان سے نجات کے طریقے

    دیمک سے متعلق حیران کن حقائق اور ان سے نجات کے طریقے

    یہ بات اکثر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے کہ دیمک (Termite)کس طرح چیزوں کو تباہ و برباد کرتی ہے، یہ نہ صرف درختوں بلکہ عمارات، دروازوں، کھڑکیوں کے ساتھ ساتھ کتابوں اور فرنیچر پر بھی حملہ آور ہوتی ہے۔

    یہ کیڑا کافی حد تک چیونٹی سے مماثلت رکھتا ہے بلکہ یہ کیڑے چیونٹیوں کی طرح مل جل کر ہی ایک جماعت کی صورت میں بسیرا کرتے ہیں، ان میں بھی کچھ نر اور ایک یا ایک سے زیادہ رانیاں ہوتی ہیں جو اپنے کارکنوں کے ساتھ مل کر کسی بھی چیز پر حملہ آوار ہوتی ہیں۔

    ماہرین نباتات کے مطابق دیمک کی دنیا بھر میں 4 ہزار سے زائد اقسام ہیں جن میں سے پہچانی جانے والی 2600 اقسام کو 4 بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

    اس کی سب سے عام قسم لکڑی کی دیمک ہے جو زیادہ تر دروازوں کھڑکیوں یا لکڑی کی دیگر اشیاء میں پائی جاتی ہے، یہ دیمک گھر سے باہر اپنا ڈیرہ جماتی ہیں لیکن پھر زمین کے اندر چھوٹی چھوٹی سرنگیں بنا کر گھروں میں داخل ہوجاتی ہیں۔

    دیمک روشنی سے نفرت کرتی ہے، اس کی خوراک زندہ اور مردہ نباتات کے ریشے ہیں اور سوکھی لکڑی تو اس کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں کے سامان اور کتابوں کو یہ بری طرح تباہ و برباد کردیتی ہے۔

    ساتھ ہی پورے غلے کو چٹ کر جاتی ہے درختوں کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہیں۔ گنے کے ننھے پودوں اور گیہوں پر ٹوٹ پرتی ہے۔ آم کا درخت اس کو بہت مرغوب ہے۔

    یہ عجیب بات ہے کہ جب تک یہ کیڑے بہت نقصان نہ کر لیں۔ ان کا پتہ نہیں چلتا۔ پہلے زمین کے نیچے بل بناتے ہیں پھر وہاں سے سرنگیں کھود کر حملے کرتے ہیں۔ جب ان کی بنائی ہوئی چھتے دار سرنگ نظر آ جائے تو اس وقت ان کا پتا چلتا ہے۔

    یہ کیڑے صرف ایک ہی چیز سے گھبراتے ہیں اور وہ چیز مٹی کا تیل ہے، جہاں جہاں یہ ظاہر ہوں وہاں مٹی کے تیل میں نیلا تھوتھا ڈال کر پمپ کر دینا چاہیے۔ فصل پر مٹی کا تیل ہرگز نہ ڈالا جائے۔ کھیتوں میں ان کے بل تلاش کرکے کھودے جائیں اور ان کے بل جلا دیے جائیں۔

    دیمک کے گھر میں داخل ہونے کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، دیواروں پر مٹی کی باریک نالیاں یا جھاڑیاں نما نشانات دیمک کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    جب کوئی ٹھوس لکڑی کو بجانے سے کھوکھلی آواز نکلے تو اس کا مطلب ہے کہ لکڑی کو دیمک نے اندر سے کھایا ہوا ہے۔

    بچاؤ کے کیا طریقے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی عمارت بناتے ہوئے بنیادیں کھودنے کے بعد ان کے کچھ حصوں میں زہرکا سپرے کروائیں جس کی مقدار ایک چوتھائی لیٹر فی مربع میٹر ہونی چایے اور پکی بنیاد مکمل ہونے کے بعد سلیب پڑ جائے تب دوسرا سپرے ضرور کروائیں۔

    اس کے بعد عمارت کی بنیاد میں مٹی ڈلوانے کے بعد جب مٹی کو دبانے کے لیے پانی چھوڑا جائے تو اس پانی کے ساتھ زہر ملادیا جائے تاکہ وہ مٹی میں یکساں طور پر جذب ہوسکے۔

    اس کے علاوہ گھروں میں پیدا ہونے والی دیمک سے نجات حاصل کرنے کیلیے کچھ خاص طریقوں پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

    دیمک زدہ چیز کو دھوپ میں رکھیں:

    اگر کسی فرنیچر میں دیمک لگ گئی ہے تو فرنیچر ایسی جگہ رکھیں جہاں براہ راست دھوپ پڑتی ہو، الٹرا وائلیٹ ریز دیمک کو فرنیچر سے نکلنے پر مجبور کردیں گی۔

    کارڈ بورڈ ٹریپ:

    گتے میں سیلیلوس ہوتا ہے جو دیمک شوق سے کھاتی ہے، گتے کے ڈبے کو گیلا کرکے ان جگہوں پر رکھیں جہاں دیمک موجود ہو، گیلے گتے کی بو دیمک کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔

    نارنگی کا تیل:

    جن جگہوں پر دیمک موجود ہو وہاں نارنگی کا تیل کچھ دنوں تک روزانہ لگائیں۔ متاثرہ حصوں میں چھوٹے سوراخ کر کے یا سرنج کے ذریعے بھی کھوکھلی جگہ میں تیل ڈال سکتے ہیں اور جب تک دیمک کا خاتمہ نہ ہوجائے تیل ڈالتے رہیں۔

    نیم کا تیل:

    نیم کا تیل دیمک کو بڑھنے نہیں دیتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کا خاتمہ کردیتا ہے اگر براہ راست دیمک پر لگے۔ اس کیلئے روئی پر نیم کا تیل لگا کر متاثرہ فرنیچر یا دروازے کھڑکیوں پر لگائیں۔ دیمک اس تیل کو چاٹ کر ختم ہوجاتی ہے۔

    بوریکس:

    دیمک کو ختم کرنے کے لیے بوریکس بھی کارآمد ہے۔ دیمک لگے حصے پر بوریکس کی تہہ لگادیں، بوریکس کا سلوشن بنا کر بھی لکڑی کی سطح پر اسپرے کیا جاسکتا ہے، سلوشن بنانے کے لیے 8اونس گرم پانی میں ایک چائے کا چمچ بوریکس ملا کر اسپرے کریں۔

  • دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

    دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

    ایک زمانہ تھا جب میرا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گزرتا تھا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ علم کی دولت آدمی کے پاس ایک بار آجاتی ہے تو پھر کبھی نہیں جاتی۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ اپنے اندر یہ جو علم کا افلاس ہے اسے کسی طرح باہر نکالوں اور اس کی جگہ جہالت کی دولت سے اپنے سارے وجود کو مالا مال کردوں، مگر یہ کام نہ ہوسکا۔

    یہ اور بات ہے کہ ایک عرصہ تک علم سے لگاتار اور مسلسل دور رہنے کی وجہ سے میں نے تھوڑی بہت ترقی کر لی ہے، مگر پچھلے دنوں بات کچھ یوں ہوئی کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستہ میں اسے اچانک ایک ضروری کام یاد آگیا۔ اس نے کہا کہ وہ دو گھنٹوں میں واپس آجائے گا۔ تب تک میں یہیں اس کا انتظار کروں۔

    سامنے ایک پارک تھا۔ سوچا کہ یہاں وقت گزار لوں، لیکن اس عمر میں نوجوانوں کی خوش گوار مصروفیتوں اور ناخوش گوار حرکتوں میں مخل ہونا پسند نہ آیا۔ سامنے ایک ہوٹل تھا جہاں نہایت اونچی آواز میں موسیقی کو بجا کر گاہکوں کو ہوٹل کے اندر آنے سے روکا جا رہا تھا۔ اب وہ پرانی لائبریری ہی برابر میں رہ گئی تھی جس میں، مَیں اپنے زمانہ جاہلیت میں نہایت پابندی سے جایا کرتا تھا۔

    خیال آیا کہ چلو آج لائبریری میں چل کر دیکھتے ہیں کہ کس حال میں ہیں یارانِ وطن۔افسوس ہوا کہ اب بھی وہاں کچھ لوگ علم کی دولت کو سمیٹنے میں مصروف تھے۔ چوں کہ علم کی دولت چرائی نہیں جاسکتی۔ اسی لیے ایک صاحب ضروری علم کو حاصل کرنے کے بعد اپنے سارے گھوڑے بیچ کر کتاب پر سَر رکھ کر سو رہے تھے۔ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ بہت دنوں بعد لسانُ العصر حضرت شیکسپئیر، مصورِ فطرت علامہ ورڈ سورتھ، شمس العلماء تھامس ہارڈی، مصورِغم جان کیٹس وغیرہ کی کتابوں کا دیدار کرنے کا موقع ملا۔

    میں نے سوچا کہ ان کتابوں میں اب میرے لیے کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اردو کتابوں کی ورق گردانی کی جائے۔ چناں چہ جب میں لائبریری کے اردو سیکشن میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے میں کسی بھوت بنگلہ میں داخل ہوگیا ہوں۔ میں خوف زدہ سا ہو گیا، لیکن ڈرتے ڈرتے میں نے گرد میں اٹی ہوئی ’کلیاتِ میر‘ کھولی تو دیکھا کہ اس میں سے ایک موٹی تازی دیمک بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں اسے مارنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک دیمک نے کہا،

    ’’خبردار! جو مجھے ہاتھ لگایا تو۔ میں دیمکوں کی ملکہ ہوں۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار۔ ابھی ابھی محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ کا خاتمہ کر کے یہاں پہنچی ہوں۔ جس نے ’آبِ حیات‘ پی رکھا ہو اسے تم کیا مارو گے۔ قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔‘‘

    دیمک کے منہ سے اردو کے مصرع کو سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ میں نے حیرت سے کہا،’’تم تو بہت اچّھی اردو بول لیتی ہو بلکہ اردو شعروں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’اب تو اردو ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا بن گیا ہے۔‘‘

    پوچھا، ’’کیا اردو زبان تمہیں بہت پسند ہے؟‘‘

    بولی،’’پسند ناپسند کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ زندگی میں سب سے بڑی اہمیت آرام اور سکون کی ہوتی ہے جو یہاں مجھے مل جاتا ہے۔ تم جس سماج میں رہتے ہو وہاں آرام، سکون اور شانتی کا دور دور تک کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔ امن و امان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو۔ اب اگر میں یہاں آرام سے رہنے لگی ہوں تو تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا،’’لیکن تمہیں یہاں سکون کس طرح مل جاتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے اب یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ ساری کتابیں میرے لیے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ تم جو اب یہاں آئے ہو تو تم بھی کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہو۔ کہیں تم خود مصنّف تو نہیں ہو؟‘‘

    میں نے حیرت سے پوچھا، ’’تم نے کیسے پہچانا کہ میں مصنّف ہوں۔‘‘

    بولی،’’میں تمہیں جانتی ہوں۔ ایک رسالہ کی ورق نوشی کرتے ہوئے میں نے تمہاری تصویر دیکھی تھی بلکہ تھوڑی سی تصویر کھائی بھی تھی۔ ایک دم بد ذائقہ اور کڑوی کسیلی نکلی۔ حالاں کہ وہ تمہاری جوانی کی تصویر تھی۔ پھر بھی اتنی کڑوی کہ کئی دنوں تک منہ کا مزہ خراب رہا۔ میں تو بڑی مشکل سے صرف تمہاری آنکھیں ہی کھا سکی تھی کیوں کہ تمہارے چہرے میں کھانے کے لیے ہے ہی کیا۔ تم اردو کے مصنّفوں میں یہی تو خرابی ہے کہ تصویریں ہمیشہ اپنی نوجوانی کی چھپواتے ہو اور تحریریں بچوں کی سی لکھتے ہو۔

    اور ہاں خوب یاد آیا تم نے کبھی سرسیّد احمد خان کو بغیر داڑھی کے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا تو ’آثارُالصّنادید‘ کی وہ جلد دیکھ لو جو سامنے پڑی ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ سر سیّد داڑھی اور اپنی مخصوص ٹوپی کے بغیر کیسے لگتے ہوں گے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے بڑے جتن کے ساتھ سر سیّد احمد خان کی ساری داڑھی نہایت احتیاط سے کھالی۔ پھر ٹوپی کا صفایا کیا۔ اب جو سر سیّد احمد خان کی تصویر دیکھی تو معاملہ وہی تھا۔ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔ اب یہ تصویر میرے آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے۔

    مجھے تصویروں میں مسکراہٹیں بہت پسند آتی ہیں۔ مونا لیزا کی مسکراہٹ تو اتنی کھائی کہ کئی بار بد ہضمی ہو گئی۔ زمانے کو اس کی مسکراہٹ آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ مجھے اس کا ذائقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ عجیب کھٹ میٹھا سا ذائقہ ہے۔ کھاتے جاؤ تو بس کھاتے ہی چلے جاؤ۔ پیٹ بھلے ہی بھر جائے، لیکن نیّت نہیں بھرتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم تو آرٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’جب آدمی کا پیٹ بھرا ہو تو وہ آرٹ اور کلچر کی طرف راغب ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیڑوں مکوڑوں کا پیٹ بھر جائے تو وہ بھی یہی کرتے ہیں۔ تب احساس ہوا کہ انسانوں اور کیڑوں مکوڑوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ خیر اب تو تم لوگ بھی اپنی زندگی حشرات الارض کی طرح ہی گزار رہے ہو۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اردو ادب پر تو تمہاری گہری نظر ہے۔‘‘

    بولی، ’’اب جو کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہی نہیں تو سوچا کہ کیوں نہ میں ہی نظر رکھ لوں۔‘‘

  • کیتھیڈرل ٹرمائٹ: حیرت انگیز حد تک ذہین کیڑا

    کیتھیڈرل ٹرمائٹ: حیرت انگیز حد تک ذہین کیڑا

    یہ کوئی پہاڑی یا چٹان نہیں، نہ ہی مٹّی کا قدرتی ٹیلا ہے بلکہ یہ کیتھیڈرل ٹرمائٹ (Cathedral Termite) کا گھر ہے جو دیمک کی ایک قسم ہے۔ یہ دیمک آسٹریلیا میں‌ پائی جاتی ہے۔ یہ مٹّی کے کئی فٹ اونچے گھروندے (Mound) بناتی ہے۔ اس مخلوق کو سائنس دان Nasutitermes triodiae کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔

    مٹّی، پانی، لعاب اور گوبر سے بنائے گئے یہ گھروندے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس ننھی، بظاہر حقیر اور معمولی مخلوق کی ذہانت اور سوجھ بوجھ کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ گھروندے مٹّی کا اونچا ڈھیر یا ٹیلا معلوم ہوتے ہیں، لیکن ایسا نہیں‌ ہے۔ اس کے اندر ہزاروں اور اکثر لاکھوں کی تعداد میں‌ دیمک موجود ہوتی ہیں۔

    یہ عام گھروندے نہیں‌ بلکہ حیرت انگیز طور پر دیمک کا یہ ٹھکانہ ایک قسم کے ائیرکنڈیشننگ سسٹم کا حامل ہوتا ہے جس میں ہوا اور روشنی کا معقول انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ دیمک اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ اس کے گھر میں‌ نمی کا تناسب برقرار رہے۔

    جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق گھروندے 15 فٹ تک بھی اونچے ہوسکتے ہیں اور اسے بنانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔

    دیمک کی اس کاری گری کو دیکھنے اور علم کے زور پر اس تکنیک کو سمجھنے کے بعد اگر حضرتِ انسان اس پر صرف حیرت اور تعجب کے اظہار تک محدود رہتا تو یہ واقعی اسے زیب نہیں دیتا۔ مِک پیئرس نے اس بات کو محسوس کیا اور جہاں اس ننھی مخلوق کی کاری گری سے مرعوب ہوئے، وہیں اس کی تیکنیک کو بھی آزمایا۔

    وہ ایک معمار ہیں جنھوں‌ نے زمبابوے کی ایک کثیر منزلہ عمارت کو قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنے کے نظام کا تجربہ اسی کیڑے کے گھروندے سے متاثر ہوکر کیا ہے۔ ان کا تعمیر کردہ ایسٹ گیٹ سینٹر، ایئرکنڈیشنر (اے سی) کے بغیر بھی نسبتا ٹھنڈا رہتا ہے۔ یہ زمبابوے کا ایک جدید کاروباری مرکز ہے جہاں‌ دفاتر اور دکانیں‌ موجود ہیں۔

    سائنس دانوں‌ کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کیتھیڈرل ٹرمائٹ انتہائی منظّم طریقے سے اپنے گھروندوں میں اپنی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہتی ہیں۔

    آسٹریلیا میں‌ پائی جانے والی یہ دیمک چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح باقاعدہ نظام کے تحت اپنی کالونی میں مختلف کام انجام دیتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ہر کالونی میں ملکہ دیمک موجود ہوتی ہے جب کہ باقی دیمک محنت کش یا مزدور ہوتی ہیں جن میں ایک گروہ باقاعدہ کاشت کاری پر مامور ہوتا ہے، یہ زیادہ تر فنجائی اگاتی ہیں جس سے کیتھیڈرل ٹرمائٹ کی خوراک کی طلب پوری ہوتی ہے۔

    سائنسی تحقیق کے مطابق ملکہ دیمک کئی سال تک زندہ رہ سکتی ہے، لیکن مزدور دیمک کی زیادہ سے زیادہ عمر دو سال ہوتی ہے۔ ملکہ دیمک مخصوص حفاظتی چیمبر میں رہتی ہے اور سارا سال انڈے دیتی ہے جس سے کیتھیڈرل ٹرمائٹ کی افزائشِ نسل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عظیم لطیف)

  • مسلمان مہاجرین دیمک کی طرح ہیں، انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیں گے، امیت شاہ

    مسلمان مہاجرین دیمک کی طرح ہیں، انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیں گے، امیت شاہ

    نئی دہلی : بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے سربراہ نے غیر قانونی مسلمان مہاجرین کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جاعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سربراہ اور مودی کا دایاں بازو سمجھے جانے والے امیت شاہ نے مسلمانوں کے ہزرہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین دیمک کی طرح ہیں انہیں ایک ایک کرکے اٹھائیں گے اور خلیج بنگال میں پھینک دیں گے۔

    مقامی خب رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امیت شاہ کے اس بیان پر اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے تنقید کی گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس بیان کو ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

    بھارتی ٹی وی کے مطابق بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے مشرقی ریاست بنگال میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کے مہاجرین کو دیمک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیرونی لوگ بنگال کی سرزمیں میں دیمک کی طرح ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی دراندازوں کو ایک ایک کرکے اٹھائے گی اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دے گی، کیرالا کرسچن فورم کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ بیان ایک سیکیولر ریاست قوم کی شناخت اور خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے۔

    بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے پارٹی صدر کی تقریر پر اپنا ردعمل دینے سے گریز کیا۔

    کانگریس کے ترجمان سنجے جھاکا کہنا تھا کہ امیت شاہ کا بیان ووٹرز کو تعصب کی جانب دھکیلنے کی براہ راست کوشش ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بی جے پی کا سیاسی ماڈل نفرت کے ٹمپریچر کو بڑھانے اور اس ٹمپریچر میں بھارت کو مذہبی طور پر تقسیم کرنے کےلئے ہے۔

    مزید پڑھیں : بی جے پی رہنما مانیکا گاندھی کی مسلمان ووٹرز کو دھمکی

    خیال رہے کہ گزشتہ روز بی جے پی کی رہنما مانیکا گاندھی نے جلسے کے دوران پنڈال میں موجود تمام ووٹرز کو کہا تھا کہ وہ ان کا پیغام ہر جگہ پھیلا دیں کہ وہ مسلمان ووٹرز کے بغیر جیتنا نہیں چاہتیں، اگر ایسا ہوگیا تو مسلمان مشکل میں آجائیں گے۔