Tag: دیوان سنگھ مفتون

  • مخمل کا کوٹ

    مخمل کا کوٹ

    دیوان سنگھ مفتون نے اردو ادب اور صحافت میں‌ بڑا نام پایا اُن کے کالم، آپ بیتی اور صحافت کی دنیا میں‌ اُن کے زور دار اداریے بہت مشہور ہیں۔

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا تھا اور کہتے ہیں کہ یہ ہر لحاظ سے اعلیٰ پائے کے جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    وہ ایک ایسے اہلِ‌ قلم تھے جس نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے، پیشے اختیار کیے اور اپنی محنت اور لگن سے ادب اور صحافت میں نام وَر ہوئے۔ مفتون نے اپنی تصنیف میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایڈیٹر "ریاست” (دیوان سنگھ مفتون)‌ کی عمر ایک ماہ دس روز تھی جب والد کا انتقال ہو گیا اور یتیمی نصیب ہوئی۔ اُس وقت گھر میں روپیہ، زیورات، زمین اور مکانات کے کاغذ تھے۔ کیونکہ والد صاحب نے اپنی کام یاب زندگی میں کافی روپیہ پیدا کیا تھا۔

    والد کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے زمین اور مکانات پر قبضہ کر لیا۔ اور بارہ سال تک بغیر کسی آمدنی کے ضروریاتِ زندگی اور بڑے بھائی اور بہنوں کی چار شادیوں پر روپیہ صرف ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر ریاست کی عمر جب بارہ سال کی تھی تو گھر میں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اور ایڈیٹر ریاست پانچ روپیہ ماہوار پر حافظ آباد میں ایک بزاز کی دکان پر ملازم ہوا۔ کام یہ تھا کہ اندر سے کپڑوں کے تھان لا کر خریداروں کو دکھائے جائیں۔ اس ملازمت کے دو واقعات مجھے یاد ہیں جن کا میرے کیریکٹر پر بہت نمایاں اثر ہوا۔

    یہ دکان ایک ہندو بزاز کی تھی۔ اور اس دکان پر ایک بوڑھا مسلمان درزی اور اس کا جوان بیٹا کام کرتے تھے۔ یہ باپ اور بیٹا حافظ آباد کے قریب کسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ چند دن کے لئے باپ کسی شادی میں شریک ہونے اپنے گاؤں گیا تو اپنی غیر حاضری کے دنوں کے لئے اپنے بیٹے کو چند کپڑے سپرد کر گیا تا کہ ان کو وہ تیار کر رکھے۔ بوڑھا درزی جب واپس آیا تو بیٹے کے سلے ہوئے کپڑوں کو دیکھا تو ان میں کسی بچے کا سبز رنگ کی مخمل کا ایک کوٹ بھی تھا جو اس کے بیٹے نے سبز رنگ کے تاگے کی بجائے سفید رنگ کے تاگے سے سیا تھا۔ اس غلطی کو دیکھ کر بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا، اور کہا کہ
    نالائق تو دیہات کے رہنے والے جاٹ کے لڑکے (جس کا کوٹ سیا تھا) پر رحم نہ کرتا مگر اس مخمل پر تو رحم کرتا جس کا ستیاناس کر دیا۔

    چنانچہ اس مسلمان بوڑھے باپ نے مخمل کے اس کوٹ کی سلائی کو کھولا، سفید تاگے نکالے اور سبز تاگے سے سیا۔

    اس واقعہ کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ چاہے میں نے چھ روپیہ تنخواہ لی یا بارہ روپیہ یا دو سو روپیہ اور چاہے ملازمت کی یا خود اپنا کام کیا۔ تمام زندگی ہمیشہ کام کو دیکھ کر کام کیا نہ کہ اس کے معاوضہ کو۔ ہمیشہ بارہ گھنٹے سے اٹھارہ گھنے تک کام کیا۔ چاہے تنخواہ کچھ بھی ملتی تھی۔ اور شاید ایک دفعہ بھی ایسا نہ ہوا ہو گا کہ کسی کام کو کرتے ہوئے اُس پر پوری توجہ نہ دی ہو۔ غرض میرے کیریکٹر پر اس واقعہ نے بہت بڑا اثر کیا۔

  • "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    اہلِ علم و دانش، ادیب اور دوسرے بڑے بڑے لوگ ہمیں اپنے مشاہدات اور تجربات سے زندگی کے وہ اسرار و رموز اور ایسی باتیں سکھا گئے ہیں جو ہمارے فکر و شعور کی بلندی اور روحانی ترقّی کا ذریعہ ہیں یہ ایک ایسی ہی تحریر جو بہت سادہ اور ایک عام سے عمل کی ترغیب دیتی ہے، لیکن ہماری زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون کے نام سے ادب کے رسیا اور باذوق قارئین ضرور واقف ہوں گے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوگا۔ برطانوی راج میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے سردار صاحب نے صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ وہ مدیر ریاست اخبار، دہلی رہے اور اس زمانے میں انھوں نے کئی مضامین اور کالم تحریر کیے جو قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ انہی کی ایک خوب صورت تحریر ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بچّوں کی فطرت ہے کہ ان کو دنیا میں صرف دو باتیں متاثر کر سکتی ہیں اور یہ صرف ان دو سے ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ ایک کھانے کے لیے ان کو کچھ دیا جائے۔ دوسرے ان سے اخلاص و محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔

    اگر کسی بچّے کو یہ دونوں اشیا اپنے خاندان کے کسی دشمن سے بھی نصیب ہوں تو یہ بچّہ اپنے گھر والوں کو بھول کر دشمن خاندان کے لوگوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان ہے کہ مالی ، ذہنی اور روحانی خوش حالی کے لیے ضرورت مند غریب لوگوں اور بچوں کی دعائیں بہت ہی پُراثر ہوتی ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے جب تک ضرورت مند دوستوں، غریب لوگوں اور معصوم بچّوں کی امداد کی مجھے روپے پیسے کے اعتبار سے کبھی کمی نہ ہوئی اور میں نے جب بھی ان لوگوں کی خدمت گزاری سے ہاتھ کھینچا میری مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور فاقہ کشی شروع ہوگئی۔ چناں چہ مجھے جب کبھی زیادہ ذہنی کوفت ہو تو میں پانچ، سات یا دس روپے کے اچھے اچھے پھل اور مٹھائیاں منگا کر محلہ کے غریب بچوں میں تقسیم کر دیا کرتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کوفت اور تشویش سے فوراً ہی نجات مل جاتی ہے اور حالات درست ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیفیت تو تشویش یا ذہنی کوفت کو دور کرنے کے متعلق ہے۔ عام طور پر بھی محلّہ اور پڑوسیوں کے بچّے مجھ سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان بچّوں کے والدین سے نہ میں نے کبھی تعلقات پیدا کیے اور نہ میں نے ان لوگوں کے نام اور حالات سے واقف ہونے کی کبھی کوشش کی۔”

    (از قلم سردار دیوان سنگھ مفتون، مدیر ریاست اخبار، دہلی)

  • ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    کئی برس ہوئے نئی دہلی میں کلکتہ کے ایک ہندو بنگالی کلرک تھے۔ تنخواہ ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار کے قریب۔ ان کی بیوی مر چکیں تھیں۔ کوئی لڑکا نہ تھا اور صرف ایک لڑکی تھی جس کا نام شیلا تھا۔

    اس زمانہ میں ہر شے ارزاں تھی اور ان بابو جی کے صرف ایک بچّی تھی۔ اس لیے آپ اس بچّی پر کافی روپیہ صرف کرتے اور آپ نے اس لڑکی کی تعلیم کا انتظام دہلی کے کوئین میری اسکول تیس ہزاری میں کیا تھا جہاں مصارف کی زیادتی کے باعث صرف امراء کی لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیلا جب چودہ برس کی تھی تو ان کے والد انتقال کر گئے اور گھر میں (جو سرکاری کوارٹر تھا) کوئی نہ رہ گیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکی صرف اکیلی رہ جائے تو اس کے دل اور ذہن کی کیا کیفیت ہوگی۔ میرے پاس ایک خاتون کا پیغام پہنچا کہ لڑکی اکیلی رہ گئی ہے۔ اس کے رشتہ دار کلکتہ میں ہیں اور جب تک اس کے چچا اس کو لینے کے لیے نہ آجائیں۔ اس لڑکی کے رہنے کا انتظام کسی خاتون کے ہاں کر دیا جائے۔ لڑکی جوان تھی اور ذمہ داری کا بھی سوال تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی ایک خاتون کے ہاں بھیجوا دیا جائے۔ یہ خاتون بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے خاندان میں سے تھیں اور کوئین میری اسکول ہی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ "ریاست” اور اس کے ایڈیٹر کی مداح تھیں اور اس خاتون کا کبھی کبھی خط آیا کرتا تھا۔ میں نے ظفر احمد صاحب ( جو میرے اخبار ریاست کے پرنٹر و پبلشر تھے اور دفتر میں کام کرتے تھے) کو بھیج کر لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں بھجوانے کا انتظام کر دیا اور اس خاتون نے اس لڑکی کے لیے اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں ایک کمرہ دے دیا اور چوں کہ یہ لڑکی ہندو تھی، اس کے کھانے کا انتظام اس خاتون نے دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل میں کر دیا۔ جہاں سے ہوٹل کا ملازم دونوں وقت کھانا دے جاتا اور میں نے کلکتہ اس کے چچا کو تار بھجوایا کہ شیلا اکیلی ہے۔ اسے آکر لے جائے۔

    دنیا میں زوال کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ شیلا کے چچا نے جب سنا کہ اس کے بھائی کا انتقال ہو چکا ہے اور شیلا دہلی میں اکیلی ہے تو اس نے بھی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور لڑکی کو کلکتہ لا کر رکھنا ایک بوجھ سمجھا اور جب اسے بار بار لکھا گیا تو یہ کئی روز بعد دہلی پہنچا اور شیلا دو ہفتہ کے قریب کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں رہیں۔ اس دو ہفتہ کے قیام میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک واقعہ دل چسپ ہے۔

    میرے پاس اطلاع پہنچی کہ شیلا کو بخار ہے۔ میں نے ظفر صاحب کو بھیجا کہ وہ کسی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا کا انتظام کر دیں۔ ظفر صاحب کوچۂ چیلاں گئے ۔ شیلا کو اس وقت بخار نہ تھا۔ ظفر صاحب نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کو بُلا کر دکھا دیتے ہیں تو شیلا نے کہا کہ ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود ڈاکٹر کے ہاں جا کر نبض دکھا کر دوا لے آئے گی۔ ظفر صاحب نے ڈولی منگائی (اس زمانہ میں دہلی میں ڈولیوں کا رواج بہت تھا اور عورتیں ڈولیوں میں ہی جایا کرتی تھیں)۔ شیلا جب ڈولی میں سوار ہونے لگی تو کمزوری کے باعث یہ کچھ لڑکھڑا سی گئی۔ ظفر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کمزور ہیں تو چاہا کو سہارا دے کر ڈولی میں بٹھا دیں۔ مگر جب ظفر صاحب سہارا دینے لگے تو اس نے بے اختیاری کے عالم میں کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔”

    شیلا ڈولی میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئیں۔ ظفر صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کو نبض دکھائی گئی اور شیلا دوا لے کر واپس کوچۂ چیلاں پہنچ گئی۔ ظفر صاحب جب دفتر میں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ سہارا دینے والے تھے تو شیلا نے کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔” یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہر ہندو عورت کسی غیر مرد کو چھونا بھی پاپ اور گناہ سمجھتی تھی۔ شیلا کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے گھر قیام کیے دو ہفتے ہو گئے تھے کہ اس کے چچا اس کو لینے دہلی پہنچے۔ پہلے اپنے بھائی کے کوارٹر میں گئے۔ وہاں پڑوسیوں نے بتایا کہ شیلا کوچۂ چیلاں فلاں مسلمان خاندان کے گھر رہتی ہے۔ شیلا کے چچا نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ شیلا مسلمان ہوگئی ہے۔ وہ کوچۂ چیلاں میں اس خاتون کے یہاں پہنچا اور دروازہ پر شور پیدا کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے لائے ہو۔ شیلا اوپر کے کمرے میں تھی۔ جب اس نے یہ شور سنا تو نیچے آئی اور چچا کو دیکھا، کہ وہ غصہ کی حالت میں دشنام طرازی کر رہا ہے۔ شیلا نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اس نے اپنے چچا کو تمام اصل حالات بتائے اور کہا کہ دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل سے کھانا آتا ہے، صرف ازراہِ ہمدردی اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ شیلا کے چچا کو جب اصل حالات معلوم ہوئے تو بے حد شرمندہ ہوا، اس نے معافی چاہی اور وہ شیلا کو لے کر رات کی گاڑی سے کلکتہ روانہ ہو گیا۔

    شیلا جب کلکتہ پہنچی تو خاندان میں اس کی شادی کا سوال پیدا ہوا اور لڑکے کی تلاش شروع ہوئی۔ بنگالی ہندوؤں میں بغیر جہیز کے لڑکی کی شادی کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لڑکے والے دس دس پندرہ پندرہ اور بیس تیس ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور اگر کسی کے پانچ لڑکے ہوں تو اس کا خاندان امیر ہو جاتا ہے۔ شیلا کا باپ معمولی کلرک تھا۔ جو اپنی بیٹی پر فراخ دلی کے ساتھ روپیہ صرف کرتا رہا۔ شیلا کے چچا کے پاس بھی روپیہ نہ تھا اور اگر ہوتا تو شاید وہ پھر بھی شیلا کے جہیز میں ہزار ہا روپیہ نہ دیتا۔ جہیز کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث شیلا کے چچا نے اس کی سگائی ایک معمر بنگالی کے ساتھ کر دی جو انبالہ چھاؤنی میں گڈس کلرک تھا۔ شیلا کی شادی ہونے کے چھ ماہ بعد شیلا کا شوہر جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ یہ رخصت لے کر علاج کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں اسپتال میں داخل ہوا اور اسپتال میں ایک ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔

    شیلا کے بیوہ ہوتے ہی گھر کے لوگوں نے اس کو مجبور کیا کہ یہ رواج کے مطابق اپنے بال کٹوا دے تا کہ بدصورت نظر آئے۔ شیلا کوئین میری اسکول کی اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی تعلیم یافتہ خوب صورت اور نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے بال نہ کاٹے جائیں۔ (بنگالی عورتوں کے بال بے حد حسین ہوتے ہیں اور بنگالی عورتیں اپنے بالوں کو لمبے چمکیلے اور خوب صورت بنانے پر کافی محنت کرتی ہیں) مگر گھر والوں نے خاندان کے وقار کے خیال سے شیلا کے بال کاٹ دیے۔ شیلا کو ایک کمرے میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ تا کہ اس کی منحوس صورت شادی شدہ عورتیں نہ دیکھیں اور ان کا سہاگ قائم رہے۔ کیوں کہ بنگالیوں کے خیال کے مطابق سہاگن عورتوں کو صبح ہی صبح بیوہ عورتوں کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ شیلا کی جب یہ کیفیت ہوئی تو اس نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا کیوں کہ وہ اُردو نہیں جانتی تھیں اور میں بنگالی زبان سے واقف نہ تھا جس میں اس کے شادی ہونے اور بیوہ ہونے کے تمام حالات تفصیل سے درج تھے اور لکھا تھا کہ ظفر صاحب کو کلکتہ بھیج دو تا کہ وہ دہلی چلی آئے۔ کیوں کہ اس کی موجودہ زندگی ناقابلِ برداشت حد تک اذیت میں ہے۔

    جب یہ خط پہنچا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نے ظفر صاحب کو کلکتہ بھیجا کہ وہ شیلا کو دہلی لے آئیں اور یہاں اس کا کوئی انتظام کیا جائے ظفر صاحب کلکتہ گئے تو وہاں ان کے پہنچنے سے ایک روز پہلے شیلا زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کر چکی تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کی شادی معمر اور بیمار شخص کے ساتھ کر کے سوسائٹی نے اس پر بہت بڑا ظلم کیا۔ کیوں کہ جہیز کے لیے روپیہ نہ تھا اور جہیز بغیر کوئی اچھا لڑکا شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اس ظلم کے مقابلہ پر موت کو ترجیح دی۔ یہ دن رات کمرہ میں پڑی رہتی۔ جب اس کی موت ہوئی تو اس کے پاس کوئی نہ تھا اور صبح گھر والوں نے دیکھا کہ اس کی لاش چارپائی پر پڑی ہوئی ہے۔ ظفر صاحب یہ حالات سن کر واپس آگئے۔ مجھے حالات سن کر بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر سوائے اخبار میں غم و غصہ اور اظہار افسوس کے کر ہی کیا سکتا تھا۔ چناں چہ اسی ہفتہ شیلا کی موت پر ریاست میں ایک درد ناک نوٹ لکھا گیا۔ جس میں جہیز کی لعنت پر آنسو بہائے گئے۔

    (از قلم دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر "ریاست” اخبار)

  • دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    پروفیسر آذر کی دعوت میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ پنجابی لطائف نے بھی بہت دل چسپی پیدا کر دی اور باتوں باتوں میں آذر صاحب نے سب سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ بتائے کہ دہلی میں آکر اس نے کیا کچھ حاصل کیا یعنی علمی، مالی یا دوسرے اعتبار سے اس نے دہلی میں آکر کیا فوائد حاصل کیے۔

    سب لوگوں نے بتانا شروع کیا، کسی نے کہا کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ پیدا کیا، کسی نے بتایا کہ اس نے علمی اعتبار سے یہ مدارج طے کیے۔ کسی نے ظاہر کیا کہ اس نے فلاں فلاں ترقی و پوزیشن حاصل کی۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا چوں کہ آپ لوگ سچ بتا رہے ہیں اور سچ پوچھ رہے ہیں اس لیے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ دہلی میں آنے کے بعد مالی اعتبار سے میرے قرضہ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن جب دہلی میں آیا تھا تو بے حد مخلص اور مہمان نواز تھا۔ مگر اب طبیعت میں کمینہ پن اور خود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔ چناں چہ پہلے اگر کوئی دوست ایک دو روز کے لیے بھی آجاتا تو اس کو کئی کئی ہفتے تک جانے نہ دیا جاتا۔ مہمان کی خدمت گزاری میں لطف اور حظ محسوس ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چھے چھے ماہ اور ایک ایک سال تک دوست مستقل مہمان کی صورت میں مقیم رہے اور ایک دوست مسٹر محسن ایڈیٹر اودھ اخبار لکھنؤ جو بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس میں ملازم ہو کر دہلی تشریف لائے تھے۔ غالباً دو سال تک بطور مہمان رہے اور جب بھی وہ اپنے لیے مکان لے کر رہنا چاہتے تو ان کو روک لیا جاتا۔ مگر اب کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی دوست دہلی میں تشریف لانے کی اطلاع خط یا تار کے ذریعہ دیتا ہے تو میں اسٹیشن نہیں جاتا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ قیام کر لے۔ اگر وہ پھر بھی آجائے تو مہمان کی خدمت گزاری طبیعت پر بھاری محسوس ہوتی ہے اور اس فرق کی وجہ دہلی کا پانی اور دہلی کی فضا ہے جس کا اثر طبیعت پر ہوا۔

    گو یہ تمام دوست خود بھی دہلی کی فضا کے اس اثر کو اپنے اندر محسوس کرتے تھے مگر تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کیوں کہ ان کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ میں اس کمزوری کا اقرار کروں گا۔ چناں چہ میں نے اس کے ثبوت میں تفصیل کے ساتھ ان کو ذیل کے وہ واقعات بتائے جن کا میری ذات کے ساتھ تعلق تھا۔

    میں جب مانسہ( پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ ان سے خط کتابت تھی۔ ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔

    میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔

    خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔

    یہ کیفیت تو مہمان نوازی کے متعلق دہلی کی فضا کی ہے۔ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ میں جب دہلی آیا تو مہمان نوازی کے اعتبار سے خالص طور پر پنجابی تھا اور دو دو چار چار دن کے عارضی مہمانوں کے علاوہ چھ چھ ماہ اور سال سال تک رہنے والے مستقل مہمان بھی ہوا کرتے اور دوپہر کو لنچ پر اور رات کو ڈنر پر آٹھ آٹھ دس دس اصحاب ضرور ہوتے۔ اگر کوئی مہمان جانا چاہتا تو مختلف طریقوں سے یعنی گاڑی جانے کا وقت غلط بتا کر یا گھڑی کو پیچھے کر کے اسے روک لیا جاتا اور گر کوئی مہمان آجاتا تو دل کو مسرت سی محسوس ہوتی۔ لیکن دہلی کے پانی اور یہاں کی فضا کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔

    پروفیسر آذر صاحب کے ہاں ڈنر پارٹی والے دوستوں کو میں نے یہ واقعات بیان کرنے کے بعد بتایا کہ اگر دہلی کی فضا مہمان نوازی کے خلاف ہے تو اس میں دہلی والوں کا قصور نہیں، یہ پانی کا اثر ہے۔ ہر دریا کے اندر مختلف اجزا ہوتے ہیں اور ان اجزا کا دل دماغ اور قویٰ پر اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہمان نواز صوبہ سرحد کے لوگ ہیں۔ اس کے بعد پوٹھوہار (راولپنڈی، جہلم) کے علاقہ کے لوگ، ان سے کم گوجرانولہ، لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ان سے کم لدھیانہ اور انبالہ کے لوگ۔ اس کے بعد نمایاں فرق شروع ہوتا ہے اور جہاں جہاں جمنا کا پانی سیراب کرتا ہے۔ وہاں مہمان نوازی کے اعتبار سے بالکل ہی صفائی ہے۔ چناں چہ پنجاب کے صوبہ کے لوگوں میں شاید اس بات کا یقین نہ کیا جائے گا کہ دہلی ،لکھنؤ، الہ آباد اور بنارس وغیرہ میں پانی پلانے والے پانی کی قیمت ایک یا دو پیسہ لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ پنجاب میں پانی کی قیمت لینا ایک گناہ اور پاپ سمجھا جاتا ہے اور پانی پلانے والا چاہے کتنا بھی غریب ہو پانی کی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔

    اگر اپنی کمزوری کا اظہار کرنا اس کمزوری کو رفع اور دل میں طہارت پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے تو میں یہ صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہوں کہ جمنا کے پانی کے باعث میں اس خوبی سے محروم ہو چکا ہوں جو اخلاص اور مہمان نوازی کے متعلق مجھ میں چند برس پہلے موجود تھی۔

    (مشہور صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون کے قلم سے)

  • دو ادیبوں‌ میں‌ اختلافات جو منٹو کے قلم سے رقم ہوئے

    دو ادیبوں‌ میں‌ اختلافات جو منٹو کے قلم سے رقم ہوئے

    خواجہ حسن نظامی ایک متنوع اور متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ ادیب، مصنف، مؤرخ اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک صوفی اور پیر بھی تھے. کہتے ہیں ان کے مرید بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے۔

    اسی زمانے میں‌ دیوان سنگھ مفتون نے بھی اپنے قلم اور کھری صحافت کی وجہ سے خوب نام بنا لیا تھا۔ وہ خواجہ حسن نظامی سے صحافت کے گُر سیکھنے والوں‌ میں‌ سے ایک تھے۔ انھوں‌ نے بعد میں‌ اپنی لگن اور تگ و دو سے اردو صحافت میں نام کمایا اور ایک زبردست لکھاری بن کر ابھرے۔ لیکن انہی دو نام وروں‌ کے مابین کچھ اختلاف اور ایسے جھگڑے بھی تھے کہ اس حوالے سے ایسے مضامین لکھے گئے جو کسی کی بھی شہرت خراب کرسکتے تھے۔

    مذکورہ شخصیات سے متعلق مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کی زبانی ایک دل چسپ واقعہ سنیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سردار صاحب (دیوان سنگھ مفتون) نے ایک دن زچ ہو کر مجھ سے کہا: میں نے بڑی بڑی قطب صاحب کی لاٹھوں کو جھکا دیا، مگر یہ حسن نظامی مجھ سے نہیں جھکایا جاسکا۔

    منٹو صاحب! میں نے اس شخص کے خلاف اتنا لکھا ہے، اتنا لکھا ہے کہ اگر ریاست کے وہ تمام پرچے جن میں یہ مضامین چھپتے رہے ہیں، اس پر رکھ دیے جائیں، تو ان کے وزن ہی سے اس کا کچومر نکل جائے، لیکن الٹا کچومر میرا نکل گیا۔

    میں نے اس کے خلاف اس قدر زیادہ اس لیے لکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ بھنا کر قانون کو پکارے، کھلی عدالت میں مقدمہ پیش ہو، اور میں وہاں اس کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دوں … لیکن اس نے کبھی مجھے ایسا موقع نہیں دیا اور نہ دے گا۔

  • مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    مقتول کو مفتون پڑھنے والے دیوان سنگھ کی کہانی

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا جو اپنے مواد اور ہیئت یا صورت و سیرت دونوں کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کے انگریزی جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    یہ اخبار جسے اردو صحافت میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے سال ہا سال تک نکلتا رہا۔ صحافت میں سردار دیوان سنگھ مفتون اس قول پر پوری ایمان داری سے عمل پیرا تھے کہ ”اخبار نویس دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے جو مصائب میں مبتلا ہوں۔ ان لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جو عیش و آرام میں زندگی بسر کررہے ہوں۔“ چنانچہ ان کا اخبار ”ریاست“ مظلوموں کی پناہ گاہ تھا۔

    ستم رسیدہ لوگ اپنی شکایتیں لے کر ان کے پاس پہنچتے تو وہ یہ تحقیق کرلینے کے بعد کہ ان کی شکایت صحیح ہے ان کی حمایت پر کمر بستہ ہوجاتے۔ ”ریاست“ نے دیسی ریاستوں اور رجواڑوں کے حکم رانوں کی سیاہ کاریوں اور سازشوں، حکومت اور پولیس کی چیرہ دستیوں اور معاشرے کی نا ہمواریوں اور ظلم و جبر کو آشکارا کرکے اردو صحافت میں آزادیِ رائے اور بے لاگ تنقید و احتساب کی ایک روشن روایت قائم کی۔

    دیوان سنگھ مفتون نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے اور مختلف پیشے اختیار کیے۔ ساتھ ساتھ حصولِ علم کے لیے ذاتی مطالعہ بھی جاری رہا۔ پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا اور اس شوق کے طفیل صحافت کا ایسا چسکا پڑا کہ پھر ساری عمر کے لیے اِسی کے ہوکر رہ گئے۔ سید جالب دہلوی اور خواجہ حسن نظامی جیسے جید صحافیوں سے انھوں نے صحافت کے گُر بڑی کھکھیڑ اٹھاکر سیکھے اور خود اپنی محنت اور تگ و دو سے اردو صحافت میں تاریخ ساز کارنامے انجام دیے۔

    یہاں یہ اَمر آپ کی معلومات میں دل چسپی میں اضافے کا باعث ہوگا کہ سردار دیوان سنگھ کے ساتھ”مفتون“ کا لاحقہ کیسے لگا۔ کہیں آپ اسے ان کا تخلص تو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں وہ خواجہ حسن نظامی کے صحافت میں شاگرد تھے ان کی کسی تحریر پر اصلاح دینے کے بعد خواجہ صاحب نے، جو خاصے بزلہ سنج واقع ہوئے تھے، ایک تہدیدی نوٹ لکھا جس میں انھیں مخاطب کرتے ہوئے ان کے نام دیوان سنگھ کے ساتھ ”مقتول“ کا لاحقہ لگا دیا۔ انھوں نے ”مقتول“ کو ”مفتون“ پڑھا اور اسے استاد کی طرف سے اپنی عزت افزائی سمجھتے ہوئے اپنے نام کا مستقل جزو بنالیا۔
    (خلیق ابراہیم خلیق کے مضمون سے خوشہ چینی)