Tag: ذائقے کی حس

  • اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟

    اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟

    کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟ اس حوالے سے محققین کا نیا انکشاف سامنے آ گیا ہے۔

    3 مئی کو ایک امریکی طبی جریدے ‘اوٹو لیرنجولوجی – ہیڈ اینڈ نیک سرجری’ میں شائع شدہ مقالے میں کہا گیا ہے کہ کووڈ-19 کے دیگر ویرینٹس کے مقابلے میں اومیکرون کے سلسلے میں سونگھنے یا ذائقے کی حس کے ختم ہو جانے کی علامت سامنے آنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    محققین نے ریسرچ اسٹڈی کے بعد معلوم کیا کہ وہ لوگ جو اومیکرون سے متاثر ہوتے ہیں ان میں سونگھنے یا ذائقے کی حس کے چلے جانے کے امکانات ان لوگوں کی نسبت کم ہوتے ہیں جو ڈیلٹا اور دیگر ابتدائی ویرینٹس سے متاثر ہوئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون ویرینٹ میں سونگھنے اور ذائقے کی حس چلے جانے کی علامات کے امکانات صرف 17 فی صد تھے، جب کہ 2020 میں وبا کے ابتدائی دور میں ان علامات کے سامنے آنے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ امریکا کی ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی سمیت تمام محققین کا کہنا تھا کہ ان علامات کی شرح ڈیلٹا اور ایلفا ویرینٹ میں بہت زیادہ یعنی بالترتیب 44 فی صد اور 50 فی صد تھی۔

    ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے رہنما مصنف ڈینیئل کولہو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اب جانتے ہیں کہ ہر ویرینٹ کے خطرے کے مختلف عوامل تھے، جن کا تعلق سونگھنے اور ذائقے کی حس کے کھو جانے سے تھا، اور اس بات کو ماننے کی وجہ بھی ہے کہ نئے ویرینٹس کے ان حسوں کو اثر انداز کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

  • کرونا میں ذائقے کی حس کے خاتمے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ویڈیوز میں خوفناک انکشاف

    کرونا میں ذائقے کی حس کے خاتمے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ ویڈیوز میں خوفناک انکشاف

    کرونا وائرس کی عام علامات میں بخار، خشک کھانسی اور تھکن شامل ہیں تاہم ہمارے جسموں پر اس وائرس کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بہت کچھ باقی ہے، جیسا کہ ایک حالیہ تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ کرونا سے صحت یاب مریضوں کے دماغوں پر اس کے اثرات دس برس تک رہ سکتے ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی ایک کم عام ذائقے کے خاتمے کی علامت کی بھی دنیا بھر میں کو وِڈ 19 کے لاکھوں لوگوں نے شکایت کی ہے، تاہم چند مریضوں کے لیے یہ علامت بہت شدید ہو سکتی ہے، اگرچہ یہ کم وقت کے لیے ہو۔

    اس سلسلے میں کرونا میں مبتلا ہونے والے ایک امریکی شخص رُسل ڈونلی نے اپنی ویڈیوز کے ذریعے یہی دکھانے کی کوشش کی ہے جب کو وِڈ نائنٹین میں ذائقہ کی حس کام کرنا چھوڑتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے۔

    یہ حیرت انگیز ویڈیوز رُسل ڈونلی نے آئسولیشن پیریڈ کے دوران بنائیں، جس میں وہ ایک کے بعد ایک کر کے کچے اور نہایت تیکھی چیزیں کھاتا ہے لیکن انھیں منہ میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔

    امریکی کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے کہتے تھے کہ کچھ گندی چیزیں کھاؤ تاکہ پتا چلے واقعے کی ذائقے کی حس نہیں رہی، لیکن گھر میں ایسی کوئی چیز نہ تھی اس لیے میں نے سوچا کہ کچھ تیز ذائقے والی تیکھی چیزیں آزماؤں، چناں چہ سب سے پہلے انھوں نے سرخ کچا پیاز چھیلا اور اس سے ایک بڑا ٹکڑا کھا لیا۔

    اگلے ہی لمحے انھوں نے لیموں کا رس پی لیا، اور پھر ایک چمچ لہسن کا پیسٹ کھا لیا۔ جب انھیں منہ میں کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوا تو انھوں نے کہا ’نہیں کوئی ذائقہ نہیں، یہ تو پاگل وائرس ہے۔‘

    ان چیزوں کے کھانے کے بعد امریکی کا کہنا تھا کہ پیاز سے نتھنوں میں بس تھوڑا سا احساس ہوا تھا، لہسن تو بہت آسانی سے کھا لیا اور کچھ محسوس نہیں ہوا، لیمن جوس میں دراصل کئی مرتبہ پی چکا ہوں اور اگر میں کچھ دیر کے لیے اسے منہ میں ہی رکھوں تو منہ جیسے سوکھ اور سکڑ سا جاتا ہے جیسا کٹھی چیزوں سے ہوتا ہے، تاہم ذائقہ بالکل محسوس نہیں ہوتا۔

    مریکی شہری رُسل ڈونلی نے ذائقے پر تجربات پر مبنی کچھ اور ویڈیوز بھی بنائیں جو انھوں نے انسٹاگرام پر شیئر کیں، ان میں ایک خاص قسم کی تیز جڑی بوٹی بھی شامل تھی جس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ اسے معدے میں تو محسوس کر رہے ہیں لیکن منہ میں کوئی احساس نہیں ہوا۔

    اگرچہ یہ دل چسپ ویڈیوز ہیں لیکن یہ یاد دلاتی ہیں کہ کرونا وائرس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، ورنہ ایسے ہی کسی تجربے سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔

  • کرونا مریضوں میں ذائقے اور سونگھنے کی حس کتنے عرصے میں بحال ہوگی؟

    کرونا مریضوں میں ذائقے اور سونگھنے کی حس کتنے عرصے میں بحال ہوگی؟

    روم: محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کو وِڈ نائٹین کے 10 فی صد مریضوں میں ممکن ہے کہ ایک ماہ بعد بھی ذائقے اور سونگھنے کی حس بحال نہ ہو۔

    اس سلسلے میں اطالوی شہریوں کے ایک چھوٹے سے گروپ پر ریسرچرز نے تحقیق کی جنھیں کرونا وائرس کی بیماری لگ چکی تھی تاہم اتنی شدید نہیں تھی کہ انھیں اسپتال میں داخل کیا جاتا، معلوم ہوا کہ ان میں سے چند مریض بیماری کے ایک ماہ بعد بھی سونگھنے اور ذائقے کے مسائل سے دوچار تھے۔

    اسٹڈی میں کہا گیا کہ کرونا وائرس میں متبلا 10 میں سے ایک فرد کو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر بھی ذائقے اور سونگھنے کی حس واپس نہ پا سکے۔ خیال رہے کہ مسلسل کھانسی اور بخار کے ساتھ ساتھ اب کو وِڈ 19 کی علامات میں ذائقے اور سونگھنے کی حس میں تبدیلی بھی اہم علامت کے طور پر شامل ہو چکی ہے۔

    یہ تحقیقی مطالعہ امریکی طبی جریدے JAMA Otolaryngology – Head and Neck Surgery میں شایع ہوا، جس میں کرونا وائرس میں مبتلا 187 اطالویوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ محققین نے انھیں کرونا کی تشخیص کے فوراً بعد کہا کہ وہ سونگھنے اور ذائقے کی حس کے بارے میں ریٹنگ کریں، اور پھر ایک ماہ بعد پھر ان سے یہی کرنے کے لیے کہا گیا۔

    گروپ میں سے 60 فی صد یعنی 113 افراد نے کہا کہ ان کے سونگھنے اور چکھنے کی حس میں تبدیلی آ چکی ہے، ان میں سے 55 نے کہا کہ وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئے ہیں، 46 نے کہا علامات میں بہتری آئی ہے، جب کہ 12 نے کہا کہ علامات تبدیل نہیں ہوئیں یا بڑھ گئیں۔

    اس مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ ایک ماہ میں صرف نصف تعداد کی چکھنے اور سونگھنے کی حس بحال ہو سکی، 40 فی صد کی علامات میں بہتری آئی جب کہ 10 فی صد کی علامات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

    اٹلی کی پاڈوا یونی ورسٹی کے ڈاکٹر پاؤلو باسکولو ریزو نے بتایا کہ جن لوگوں کو شدید علامات لاحق تھیں انھیں بہتر ہونے میں زیادہ وقت لگا۔ ڈاکٹر پاؤلو اور ان کی ٹیم نے اپنے مقالے میں لکھا کہ عالمی سطح پر کرونا وائرس کیسز کی جتنی بڑی تعداد ہے اس کے پیش نظر یہ امکان ہے کہ بڑی تعداد میں مریض مذکورہ حسیات کی عدم بحالی کا شکار ہوں۔

    یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں ڈاکٹرز کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے برطانوی قومی ادارہ صحت (NHS) نے کو وِڈ 19 کی علامات کی فہرست میں سونگھنے اور چکھنے کی حس میں تبدیلی کو بھی بہ طور علامت شامل کیا تھا، بتایا گیا کہ 4 میں سے ایک کرونا مریض کھانسی اور بخار کی علامتیں نہ ہونے کے سبب اپنی بیماری سے لاعلم رہے، تاہم انھیں سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلی لاحق ہو چکی تھی۔

    این ایچ ایس کے مطابق سونگھنے یا ذائقے کی حس میں تبدیلی یا ان کا خاتمہ طبی طور پر anosmia کہلاتا ہے، اور یہ حسیات چند دن، یا ہفتوں یا چند ماہ میں بحال ہو جاتی ہیں۔ ایک برطانوی ڈاکٹر کلیر ہاپکنز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وائرل بیماریوں سے متعلق اور حالیہ وبا کا ڈیٹا جمع کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کی مذکورہ علامات ٹھیک ہو جائیں گی تاہم چند لوگوں میں بحالی کا عمل بہت سست رفتار ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ وائرس نے صرف ان کی ناک کے اندر کی سطح کے خلیات کو متاثر کیا ہے، جب کہ وہ لوگ جو آہستگی سے ٹھیک ہوتے ہیں، ان میں وائرس بو سے متعلق اعصاب کو متاثر کر دیتا ہے۔