Tag: ذمہ دار کون

  • شاہین آفریدی کے برے رویے کا ذمہ دار کون ہے؟ کامران اکمل نے بتا دیا

    شاہین آفریدی کے برے رویے کا ذمہ دار کون ہے؟ کامران اکمل نے بتا دیا

    لیفٹ ہینڈ فاسٹ بولر شاہین آفریدی کے برے رویے کا ذمہ دار کون ہے، سابق ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل نے راز سے پردہ اٹھا دیا۔

    اے آر وائی کے اسپورٹس پروگرام میں شاہین آفریدی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق پاکستانی وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل نے کہا کہ آپ کسی ایسے بندے پر کیسے یقین کرسکتے ہیں جس نے ایک ماہ پہلے ٹیم کو جوائن کیا ہو۔

    انھوں نے کہا کہ کچھ چییزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں مینجمنٹ آسانی سے پلیئر پر ڈال کر سائیڈ پر ہوجاتی ہیں، یہ چیزیں ہمارے ساتھ ہوئی ہیں اس لیے ہمیں پتا ہے۔

    کامران اکمل نے کہا کہ ٹیم کے ساتھ اتنے دنوں سے اظہر محمود اور وہاب ریاض موجود ہیں انھوں نے تو ایسی بات نہیں بتائی نہ کبھی بابر اعظم نے اس حوالے سے کچھ کہا؟

    سابق کرکٹر نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ایسی چیزیں آنی چاہئیں، مجھے نہیں پتا کہ یہ چیزیں ہوئیں تھیں یا نہیں مگر اگر ایسا ہوا تھا تو اس وقت کیوں نہیں روکا گیا، اس وقت کیوں نہیں کھلاڑی کو باہر بٹھایا، مضبوط مینجمنٹ ہی یہ چیزیں کرسکتی ہیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسٹار فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی پر کوچز سے برا رویہ رکھنے کا الزام بھی سامنے آیا تھا۔

    پی سی بی نے وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو فارغ کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ دونوں نے حالیہ ٹورز کے دوران شاہین شاہ آفریدی کو غیر ضروری طور پر سپورٹ کیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کا حالیہ ٹورز پر منیجمنٹ کے ساتھ رویہ برا رہا لیکن منیجرز نے فاسٹ بولر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

    فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کی دورہ انگلینڈ میں بیٹنگ کوچ محمد یوسف سے تلخی ہوئی تھی، اس تلخی کے بعد شاہین آفریدی نے معاملے پربیٹنگ کوچ سے معافی مانگی تھی۔

    ذرائع نے دونوں کی تلخی کہ وجہ بتائی کہ ہیڈنگلے میں شاہین کی بولنگ پریکٹس کے دوران محمد یوسف نو بالز کی نشاندہی کررہے تھے، بار بار نشاندہی پر شاہین آفریدی نے کہا تھا مجھے ابھی پریکٹس کرنے دیں، بیچ میں نہ بولیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ جس کے بعد شاہین آفریدی نے محمد یوسف سے معافی بھی مانگی اور بعد میں ٹیم مینجمنٹ نے معاملے کو رفع دفع کردیا تھا، واقعے پر ٹیم مینجمنٹ نے شاہین آفریدی کی سرزنش کی تھی۔

  • گندم درآمد کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

    گندم درآمد کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

    لاہور : پنجاب بھر کے کسان گزشتہ دو ہفتوں سے سڑکوں پر بے یارو مددگار رُل رہے ہیں کیونکہ حکومتیں ان کی گندم خریدنے کو تیار نہیں۔

    اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ نگراں حکومت کی جانب سے گندم برآمد کرنے کی اجازت کے باعث گوداموں میں وافر مقدار میں موجود ہے اس لیے مزید گندم خریدنے سے انکار کردیا گیا ہے۔

    اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں وفاقی اداروں کو غیر ضروری گندم درآمد کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتیں فوڈ سیکیورٹی اور کامرس پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی نے گندم کی اس غیر قانونی درآمد کو روکنا تھا،

    پنجاب میں گندم ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلے سے موجود تھے، گندم کو 2600 سے 2900فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہر کی گئی۔

    گندم درآمد سے متعلق انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ درآمدات26ستمبر 2023سے شروع ہوئی اور 31مارچ 2024 تک جاری رہی جو لگ بھگ 6 ماہ کا عرصہ بنتا ہے۔

    اس حوالے سے رانا تنویر حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بدقسمتی سے جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس سلسلے میں کمیٹی بنا دی ہے اس کی رپورٹ کا انتظار کریں۔

    کیا حکومتی ذمہ داران کا اتنا کہہ دینا کافی ہے ؟ ہدگز نہیں کیونکہ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے غریب لوگوں کے روٹی کھانے کے بھی حالات نہیں ایسے میں بھی اشرافیہ اپنا داؤ لگانے سے باز نہیں آرہی۔

    قابل ذکر بات یہ ہے کہ گندم کا بحران آج کا نہیں بلکہ گزشتہ 11 سال سے زائد عرصے میں مختلف ادوار میں یہ بحران شدت سے پیدا کیا گیا یا پیدا ہوا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران اس صورتحال سے کچھ سیکھ پائے ہیں یا نہیں؟

  • 4 ہزار روپے کے عوض زندہ شخص کا ڈیتھ سرٹیفکٹ بنوانا ممکن

    4 ہزار روپے کے عوض زندہ شخص کا ڈیتھ سرٹیفکٹ بنوانا ممکن

    کسی شخص کے برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکٹس نہ صرف اس کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ یہ کسی ملک کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے کسی شخص کی شہریت ثابت ہوتی ہے۔

    تاہم یہ اہم سرٹیفکٹس کوئی بھی شخص رشوت کے عوض بنوا سکتا ہے۔

    اس بات کا انکشاف اے آر وائی نیوز کے پروگرام ذمہ دار کون کی ٹیم کے اسٹنگ آپریشن میں ہوا۔

    اس حوالے سے اطلاعات موصول ہونے کے بعد، کہ رشوت دے کر کسی زندہ شخص کا بھی ڈیتھ سرٹیفکٹ بنوایا جاسکتا ہے، ذمہ دار کون کی ٹیم نے نیو کراچی کے ٹاؤن آفس میں خفیہ کارروائی کی۔

    ٹیم کا ایک شخص فرضی کردار بن کر ایک زندہ شخص کا ڈیتھ سرٹیفکٹ بنوانے کے لیے پہنچا جہاں تھوڑی رد و کد کے بعد اسے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوسرا راستہ بتا دیا گیا۔

    دفتر کے سیکیورٹی انچارج منصور نے 4 ہزار روپے کے عوض سرٹیفکٹ بنوانے کی ہامی بھری اور اس کے لیے مذکورہ شخص کی بیوہ کی شخصی تصدیق کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔

    یہ اس قدر حساس معاملہ ہے کہ اس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے، ملک دشمن عناصر پیسے دے کر اس طرح کے سرٹیفکٹ بنوا کر تخریب کار سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

  • کراچی، وائٹ سیل بلڈ کے نام پر پلازمہ کی فروخت کا انکشاف

    کراچی، وائٹ سیل بلڈ کے نام پر پلازمہ کی فروخت کا انکشاف

    کراچی: شہر قائد میں وائٹ سیل بلڈ کے نام پر پلازمہ کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ کے اسٹنگ آپریشن میں کراچی میں وائٹ سیل بلڈ کے نام پر پلازمہ کی فروخت کا انکشاف ہوا، کے کے ایف اور پٹیل اسپتال کے نام سے میگا یونٹ کی فروخت کی جانے لگی۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق ہمیں اطلاعات موصول ہوئی تھیں کراچی میں ایک ایسی مافیا سرگرم ہے جو کہ میگا یونٹ کی فروخت کررہی ہے۔

    اسٹنگ آپریشن کے دوران اے آر وائی کی ٹیم نے شہر کے مختلف مقامات سے میگا یونٹ 16 سے 20 ہزار روپے میں خریدے، جس میں حیران کن طور پر سیل موجود ہی نہیں تھے یا کچھ ایسے میگا یونٹ تھے جس میں سیل کی مقررہ مقدار موجود نہیں تھی۔

    اسٹنگ آپریشن میں انکشاف ہوا کہ ڈینگی کے مریضوں کو جو میگا یونٹ لگائے جارہے تھے اس سے ان کو فائدہ نہیں ہورہا تھا، ایسے پلازمہ بھی ملے جن میں سیل کی مقدار کم تھی۔

    رپورٹ کے مطابق کراچی کے 2 ایسے بلڈ بینک تھے جنہیں ماضی میں بند کیا جاچکا ہے ان کے نام سے بھی میگا یونٹ فروخت کیے جارہے تھے۔

    کے کے ایف، پٹیل اسپتال کا موقف ہے کہ میگا یونٹ آج کل تیار ہی نہیں ہورہے جبکہ ایس بی ٹی اے حکام کی جانب سے غیرمعیاری خون کی فروخت پر آپریشن کرنے کے بجائے سرسری کارروائیاں کی گئیں۔

  • اسلام آباد کے بعد کراچی میں بھی لڑکیوں کے آئس نشے کی لت میں مبتلا ہونے کا انکشاف

    اسلام آباد کے بعد کراچی میں بھی لڑکیوں کے آئس نشے کی لت میں مبتلا ہونے کا انکشاف

    کراچی: شہرِ قائد میں کالجز اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ میں آئس نشے کے استعمال میں تشویش ناک اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں آئس نشے کے خلاف اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’ذمہ دارکون‘‘ کی ٹیم نے اسٹنگ آپریشن کرتے ہوئے سنسنی خیز انکشافات کر دیے ہیں۔

    [bs-quote quote=”تعلیمی اداروں میں آئس نشہ پھیلانے والوں کا سراغ لگانے کے لیے اے آر وائی ٹیم نے تین ماہ تک کارروائی کی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پروگرام ذمہ دار کون کے ہوسٹ کامل عارف نے اسٹنگ آپریشن میں انکشاف کیا کہ کراچی میں آئس کا نشہ کرنے والوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔

    ذمہ دار کون کی ٹیم نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ تعلیمی اداروں میں آئس کیسے پھیلائی جا رہی ہے، تین مہینے تک کراچی میں آئس نشے کے خلاف کارروائی کی اور سراغ لگا لیا۔

    ٹیم نے اسٹنگ آپریشن کر کے آئس فروخت کرنے والوں کو پکڑوا دیا، معلوم ہوا کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں، مختلف اپارٹمنٹس اور بنگلوز میں یہ نشہ کروایا جاتا ہے۔

    ڈیفنس میں لڑکیوں کے آئس منشیات فروخت کرنے کا بھی انکشاف ہوا۔


    یہ بھی پڑھیں:  بڑے بڑے اسکولوں کے کیفوں میں آئس ہیروئن بک رہی ہے: شہریار آفریدی

    اسے بھی ملاحظہ کریں:  طلبہ منشیات کے عادی ہونے کے تشویش ناک بیان پر وزارتِ داخلہ سے رپورٹ طلب


    اسٹنگ آپریشن میں معلوم ہوا کہ آئس نشہ کالج اور یونی ورسٹی جانے والے لڑکے لڑکیوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بلوچستان کے راستے سے آئس کراچی پہنچائی جاتی ہے، اور پھر ڈیفنس کے مختلف علاقوں میں فروخت کے لیے پہنچا دیا جاتا ہے۔

    [bs-quote quote=”کراچی کے علاقے ڈیفنس میں، مختلف اپارٹمنٹس اور بنگلوز میں آئس کا نشہ کروایا جاتا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پروگرام میں بتایا گیا ہے کہ کراچی یونی ورسٹی کا ایک نوجوان پکڑا گیا تھا اس سے پوچھ گچھ میں معلوم ہوا کہ وہ آئس نشے کی لت میں آہستہ آہستہ مبتلا ہوا، اور پھر اس حد تک آیا کہ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے اسے خود آئس کرسٹل بیچنے کا کام کرنا پڑا۔

    پکڑے جانے والے نوجوان نے بتایا کہ وہ خود آئس کا نشہ کرتا ہے، آج وہ بیچنے آیا تھا اور پکڑا گیا، اس نے بتایا کہ آج اس نے نو گرام آئس کرسٹل بیچے۔

    پکڑے جانے والے ایک اور ملزم نے بتایا کہ آئس کرسٹل بلوچستان کے ایک علاقے لوڑی پاڑہ سے لاتے ہیں، جہاں بیچنے والے بہت سارے ہیں، اور گھروں میں عام فروخت ہوتا ہے، یہ علاقہ منشیات کے حوالے سے بد نام ہے۔

    ملزم نے بتایا کہ آئس نشہ کراچی بسوں اور موٹر سائیکلوں پر لایا جاتا ہے۔

  • سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ حکومت ہر سال اربوں روپے کا بجٹ پیش کرتی ہے، اس بجٹ میں مخصوص رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر ہو سکیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہے، آئیے اس رپورٹ میں دیکھتے ہیں۔

    سندھ کے طبی مراکز میں کرپشن عروج پر ہے، بچوں کی ویکسی نیشنز تک نہیں چھوڑی جاتیں اور وہ اسپتال کے ملازمین باہر فروخت کردیتے ہیں، اے آر وائی ٹیم نے اس پر اسٹنگ آپریشن کر کے یہ ویکسی نیشن خریدیں اور چوروں کو بے نقاب کیا۔

    قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ جس کی زمین میں معدنی ذخائر کے مجموعے کا تخمینہ کھربوں روپے سے بھی زائد ہے، بندرگاہوں، صنعتوں، اور دیگر کاروباری مراکز سے ملک کو کروڑوں روپے کی محصولات موصول ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس صوبے کے عوام غربت اور کسمپرسی کی اس آخری سطح سے بھی نیچے جا رہے ہیں جہاں عوام کو مفت سرکاری علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔

    صوبائی حکومت شعبہ صحت پر کتنا پیسا لگا رہی ہے، سرکاری کھاتے میں ہیلتھ یونٹس اور مضافاتی اسپتالوں کا نظام کس طرز کا ظاہر کیا گیا ہے، اور دیہی مراکز صحت ضلعی اسپتالوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے، یہ آپ ہماری اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نہایت مخدوش ہے، ان دنوں سکھر سول اسپتال کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس کی حالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اسپتال انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔

    ذمہ دار کون کی ٹیم سکھر سول اسپتال پہنچی تو وہاں ایمرجنسی میں اے سی ٹوٹا ہوا تھا، مریضوں کو لٹانے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس کے برعکس اسپتال کے ایم ایس کے کمرے میں وزیر اعلیٰ آفس طرز کا اعلیٰ فرنیچر موجود تھا، اے سی لگا تھا، جب کہ اسپتال میں طبی ساز و سامان سب خراب پڑا ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ جب چیف جسٹس نے سکھر اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز نہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وینٹی لیٹرز نہیں۔ اسپتال میں جگہ جگہ گندگی پڑی تھی، دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد اسپتال کی حالت زار بدلنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔

    اسی طرح بدین کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال 14 سال سے زیر تعمیر ہے، اس کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ تیس کروڑ روپے تھا، جس کے خرچ ہونے کے بعد اب اسپتال کی تعمیر رک چکی ہے، اور اب اس کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ تک پہنچ چکا ہے، یہ اسپتال اب انڈس اسپتال کی زیر نگرانی دوبارہ بن رہا ہے۔

    مفت سرکاری علاج


    امیر صوبے کی غریب عوام مفت سرکاری علاج سے بھی محروم ہے، دنیا کے دیگر 115 ممالک کی بہ نسبت پاکستان کے تمام صوبائی اور وفاقی آئین میں مفت سرکاری علاج کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں غریب عوام کو مفت سرکاری علاج کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی جماعتوں نے 72 برسوں میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں بنایا، جس میں واضح طور پر مفت سرکاری علاج کو شہریوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہو۔

    دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اقوام متحدہ کے کسی خصوصی پروگرام یا وباؤں کے پھوٹ پڑنے پر ہیلتھ سے متعلق اپنے قوانین میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔

    گزشتہ 72 برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر چھوٹے بڑے طبی ادارے قائم کرتی رہی ہے، سندھ کی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد ایک ہزار 782 ہے، جن میں 125 دیہی ہیلتھ سینٹرز، 757 بیسک ہیلتھ یونٹس، 792 ڈسپنسریاں، 67 مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز، تین سب ہیلتھ سینٹرز یا کلینکس، ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری، ایک اربن ہیلتھ سینٹر، اور 36 یونانی دواخانے شامل ہیں۔

    سیکنڈری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد 90 ہے، جن میں 14 ضلعی اسپتال، 79 تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال، اور 27 بڑے یا اسپیشلائزڈ اسپتال شامل ہیں۔ ہر سال بجٹ میں ان اسپتالوں کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، بجت 2018-19 میں صحت کے لیے 96 ارب 38 کروڑ مختص کیے گئے۔

    کیوں؟


    صوبے کے 1782 ہیلتھ کیئر کیئر یونٹس این جی اوز کو دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت کی تحویل میں صرف 655 طبی مراکز رہ گئے ہیں دوسری طرف چند ایک کے علاوہ کہیں بھی این جی اوز عملا فعال نہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 1127 طبی مراکز این جی اوز کے حوالے ہیں تو بجٹ کم کیوں نہیں ہوا؟ ہر سال بجٹ میں پندرہ بیس کروڑ کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

    ٹنڈو محمد خان کے طبی مراکز پر سالانہ 49 کروڑ سے زائد خرچ ہوتے ہیں، کھنڈر نما اسپتال میں سات روز سے بجلی غائب، ادویات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ تعلقہ ہیڈ کوارٹر اسپتال کوٹ ڈیجی میں اسپتال کا ایک بھی اسٹاف موجود نہ تھا۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔

    سندھ حکومت نے 2016 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نظام متعارف کرایا، اس نظام کا مقصد تعلیم و صحت کے شعبوں میں جدت اور بہتری لانا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدترین کرپشن اور بد انتظامی کا شکار ہوگیا۔

  • پاک کالونی سے بھاری مقدارمیں منشیات اوراسلحہ برآمد

    پاک کالونی سے بھاری مقدارمیں منشیات اوراسلحہ برآمد

    کراچی : رینجرز نے ’’اے آر وائی‘‘ کے  پروگرام ’’ذمہ دار کون‘‘ کی ٹیم کے ہمراہ پاک کالونی میں منشیات فروشوں کے خلاف کامیاب آپریشن میں بھری تعداد میں منشیات،اسلحہ اور گولیاں برآمد کرلی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز کے کمانڈوزکی بھاری نفری نے آپریشن میں حصہ لیا اور پاک کالونی کے علاقے میں لیاری ندی کے اطراف کئی سالوں سے منشیات کے بڑے اڈوں کے خلاف 5 گھنٹوں تک کامیاب آپریشن کیا۔

    آپریشن کے دوران پاک کالونی میں قائم منشیات کی فیکٹریوں سے بھاری مقدار میں منشیات، گولیاں اور اسلحہ برآمد کرلیا،آپریشن کی زد میں آنے والے گھر اورمنشیات کی فیکٹریاں خالی تھیں جس کے باعث کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

    واضح رہے رینجرزنے یہ کارروائی ’’اے آر وائی‘‘ کے پروگرام ’’ذمہ دارکون‘‘ کی ٹیم کی اطلاع پر کیا گیا اور آپریشن کے دوران ’’ذمہ دار کون‘‘ کی ٹیم بھی موجود تھی۔

    یاد رہے پاک کالونی کے علاقے میں لیاری ندی کے ساتھ آباد قائم کچی آبادی منشیات اورغیراخلاقی کاموں کی آماجگاہ بن گئی تھی،علاقہ مکینوں کی شکایتوں کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکا تھا لیکن ’’اے آر وائی‘‘ کے پروگرام ’’ذمہ دارکون‘‘ کی جانب سے معاملہ اُٹھانے پر رینجرز کی کارروائی پر عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔