Tag: ذوالفقار بھٹو

  • ذوالفقار بھٹو کی برسی: لاڑکانہ جلسے کے لیے پولیس کا سیکورٹی پلان جاری

    ذوالفقار بھٹو کی برسی: لاڑکانہ جلسے کے لیے پولیس کا سیکورٹی پلان جاری

    سکھر: پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر لاڑکانہ جلسے کے لیے پولیس نے سیکورٹی پلان جاری کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذوالفقار بھٹو کی برسی کے موقع پر پولیس نے 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش، نو ڈیرو کے لیے فول پروف سیکورٹی پلان تشکیل دے دیا ہے۔

    ایڈشنل آئی جی سکھر ڈاکٹر جمیل نے بتایا کہ برسی کے موقع پر سیکورٹی معاملات سنبھالنے کے لیے گڑھی خدا بخش، نوڈیرو میں 6 ہزار 300 پولیس اہل کاروں تعینات ہوں گے۔

    ڈاکٹر جمیل نے کہا کہ مختلف اضلاع کے 26 ایس ایس پیز گڑھی خدا بخش میں ڈیوٹی دیں گے، 6 ایس پی ٹریفک اور 700 ٹریفک اہل کار تعینات کیے جائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ذوالفقاربھٹو نے جان دیدی لیکن نظریے سے یوٹرن نہیں لیا ، بلاول بھٹو

    ایڈیشنل آئی جی کے مطابق اسپیشل برانچ کے 700 اہل کار بھی اپنے فرائض انجام دیں گے، سکھر و دیگر ریجنز کی لیڈیز پولیس اہل کار بھی جلسہ گاہ میں تعینات ہوں گی، جب کہ پارکنگ زون جلسہ گاہ سے ڈیڑھ کلو میٹر دور بنائے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ چھبیس مارچ کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ذوالفقار بھٹو نے جان دے دی لیکن نظریے سے یو ٹرن نہیں لیا، کچھ لوگ آج بھی بھٹوشہید کے نظریے اور فکر سے ڈرتے ہیں، قومی اسمبلی میں ذوالفقار بھٹو کا نام لیا جاتا ہے تو وزیر جل جاتے ہیں۔

  • 5 جولائی ۔ منتخب حکومت پر شب خون کو 40 سال مکمل

    5 جولائی ۔ منتخب حکومت پر شب خون کو 40 سال مکمل

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 40 سال بیت گئے ہیں۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لا نافذ کیا تھا۔

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لا نافذ کیا، پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں قید کیا اور بعد ازاں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دورِ حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو کہ آٹھ سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیا نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیا کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔


    جنرل ضیا الحق کے دورکے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 17 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیا الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنہ 1981 میں جنرل ضیا الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اوراسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیا نے ریفرینڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔