Tag: ذوالفقار علی بھٹو

  • بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 39 برس بیت گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بر طرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی آج یوم سیاہ منائے گی۔

    جنرل ضیاء الحق
    اخباری شہ سرخی
    جنرل ضیاء الحق کے حکم نامے کا عکس

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل میں قید کردیا اور بعد ازاں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دور حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو 8 سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیاء نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیاء کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔

    حادثے کا منظر

    جنرل ضیاء الحق کے دور کے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو 7 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنن 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اور اسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیاء نے ریفرنڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    محمد خان جونیجو

    سنہ 1988 میں 29 مئی کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


     ٹوئٹر پر ’یوم سیاہ‘ مقبول

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی یوم سیاہ کا ٹرینڈ مقبول رہا اور مختلف شخصیات نے اس دن کو مختلف انداز سے یاد کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے

    بھٹو کا جیل سے بے نظیر کو آخری خط، پڑھنے والے رو گئے

    ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1978 کو اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سالگرہ کے موقع پر ’’میری سب سے زیادہ پیاری بیٹی ‘‘کے عنوان سے خط لکھا تھا۔

    post-7

    یہ خط انتہائی جذباتی تھی جس میں بھٹو نے بحیثیت باپ ایسا جذباتی خط لکھا تھا جسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

    post-6

    ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں قید میں ہوں اور اپنی بیٹی کو کیا تحفہ دے سکتا ہوں۔

    post-5

    ایسے موقع پر جب بیٹی اور اس کی ماں بھی نظر بند ہو، ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے تک محبت کا پیغام کیسے پہنچے

    post-4

    میں تمہیں تحفہ تک نہیں دے سکتا لیکن عوام کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں۔

    post-3

    بھٹو نے بیٹی کو مخاطب کیا اور کہا کہ دادا اور دادی نے مجھے فخر اور غربت کی سیاست سکھائی جو میں اب تک تھامے ہوئے ہوں۔

    post-2

    میں تمہیں پیغام دیتا ہوں کہ صرف عوام پر یقین رکھو اور ان کی فلاح کے لیے کام کرو اور جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے

    post-1

  • ابھی جوان ہوں زیادہ کام کرسکتا ہوں، قائم علی شاہ

    ابھی جوان ہوں زیادہ کام کرسکتا ہوں، قائم علی شاہ

    لاڑکانہ: سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ جب تک ہاتھ پاؤں سلامت ہیں اسی طرح قوم کی خدمت کرتا رہوں گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اپنی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے ہمراہ سخت سیکیورٹی میں گڑھی خدا بخش پہنچے، جہاں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔

    مزار پر حاضری دینے کے بعد سید قائم علی شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ابھی جوانوں سے بھی زیادہ جوان ہوں اور اُن سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں‘‘۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے سے منصب سے مستعفیٰ ہونے کے بعد قائم علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’جب تک زندہ ہوں قوم کی خدمت کرتا رہوں گا ‘‘۔

    قائم علی شاہ کا کہنا تھا ’’، پاکستان پیپلزپارٹی عوامی جماعت ہے اور ایک سمندر کی مانند ہے، جس میں سب سما سکتے ہیں، انہوں نے مراد علی شاہ سمیت سندھ کابینہ کے ممبران کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا‘‘۔

    قائم علی شاہ نے کہا ’’میں پیپلزپارٹی کا کارکن ہوں قیادت کا ہر فیصلے کے آگے سرخمِ تسلیم کروں گا کیونکہ پی پی صوبے کی فلاح اور عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے‘‘۔

     

  • آصف زرداری کا سانحہ کاساز کے شہدا کو خراج عقیدت

    آصف زرداری کا سانحہ کاساز کے شہدا کو خراج عقیدت

    کراچی: سابق صدر آصف علی زرداری نے سانحہ کاساز کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہدا نے جمہور یت کے خاطر اپنی جانوں کی قر بانی دی ۔

    اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نےذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے مشن کو آ گے بڑھایا,اس مشن کو دہشتگردی کے خاتمہ اور ہر قسم کی آ مر یت کیخلاف جاری رکھیں گے ۔

     آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ آمر یت کا مکروہ چہر ہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا ہے۔

  • آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    نوڈیرو: سابق صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ سعودی عرب اورخلیج کےملکوں میں لاکھوں پاکستانی کام کرتےہیں،وہاں سیاسی تبدیلی پاکستان کےمفادمیں نہیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کوشہیدوں کےلہوکی ضرورت ہے،آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے،ہمارے بچوں کوماضی کی آگ سے آج بھی خطرہ ہے، بھٹو نے لکھا تھا کہ میرے جانے کے بعد ہمالیہ روئیں گے۔

    یمن کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ  پارلیمنٹ میں بات کی جائے ، اسلامی دنیا میں ہر ملک آخر کیوں پریشان ہے،انہوں نے کہا کہ بیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب اوردس لاکھ گلف میں کام کرتےہیں،ان ملکوں کی سلامتی پاکستان کی اقتصادی ضرورت ہے، کسی کوسعودی عرب کی سلامتی خطرےمیں ڈالنےکی اجازت نہیں دے سکتے،حرمین شریفین کی ہم سب عزت اورخدمت کرتے ہیں، ہرمسلمان حرم شریف کے لیے اپنی جان دے سکتا ہے۔

    آصف زرداری نےکہا کہ مسلمانوں کولڑانےوالوں کےاپنےعزائم ہیں،انہیں اپنےہتھیاربھی بیچنا ہیں،انہوں نے حکومت کومشورہ دیا کہ مدد اتنی ہی کریں جتنا بوجھ اٹھاسکیں۔

    انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سےشکوہ کیا کہ وہ چھوٹے صوبوں سےزیادتی بھی کرتے ہیں اورمشورہ بھی نہیں کرتے، سندھ میں اٹھارہ گھنٹےلوڈشیڈنگ کرائی جارہی ہے۔

    آصف زردری نے عمران خان کومشورہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں،الیکشن کمیشن کومالی لحاظ سےخودمختاربنانےکے لیے اپوزیشن کاہاتھ بٹائیں۔

    اس سے قبل پیپلزپارٹی کےرہنمااعتزازاحسن نے کہا کہ وزیراعظم صرف ترکی ہوکر آگئے،امت مسلمہ کو بھٹو جیسے رہنما کی ضرورت ہے جوتمام مسلم ملکوں کومتحد کرکے یمن کامسئلہ حل کرتا۔

    تقریب میں وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ نےعلامہ اقبال کامسلمانوں کےلیےکہا گیا شعرجیالوں کےلیےپڑھ دیا، انہوں نے کہا آصف زرداری جب مشورہ دیتےہیں توسب انہیں سلام کرتےہیں۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

     ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

     پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو کا 87واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    ذوالفقارعلی بھٹو کا 87واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آج ستاسی ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

    سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جنوری انیس سو اٹھائیس کو سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں دولت کی ریل پیل تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے عوامی مسائل کے حل کے لیے خارزار سیاست کا انتخاب کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو تہتر میں ملک کو نہ صرف پہلا متفقہ آئین دیا بلکہ ان کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو بھی آج تک ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔

    اتنی عوامی مقبولیت کے باوجود ذوالفقار بھٹو نے جلد بازی نہ کی اور تقریبا ڈیڑھ سال بعد عوام کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا تاریخی نعرہ دیا۔

    پاکستان کی سياسی تاریخ میں جو مقام ذوالفقارعلی بھٹو اور پیپلزپارٹی کو ملا وہ کسی اور رہنما يا جماعت کو حاصل نہيں ہوسکا، اپنی مدت پوری کرنے کے بعد مارچ 1977 میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت لیتے ہوئے 155 نشستیں حاصل کیں جبکہ نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے حصے میں صرف 36 نشستیں آئیں لیکن پی این اے نے انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    اس دوران ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہ نما مفتی محمود کے درمیان دو اور تین جولائی کو مذاکرات ہوئے، جنہیں نتیجہ خیز بھی قرار دیا جاتا رہا لیکن پھر چار جولائی کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل نافذ کر کے 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کو دو بار نظر بند کر کے رہا کر دیا گیا تاہم انہیں تیسری بار حراست میں لے کر قتل میں اعانت کا مقدمہ چلایا گیا اور پھر اس مقدمے میں 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔

    پاکستان میں چار جرنیلوں نے بزور قوت حکومت کی مگر اپنے پیش رو حکمران کا تختہ الٹ کر قتل کے سیاسی مقدمے میں پھانسی دینے کے واقعہ 34 سال گزرنے کے بعد آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

  • پی پی کے سینتالیس سالہ سیاسی کیریئرکی باگ ڈور اب تیسری نسل سنبھالے گی

    پی پی کے سینتالیس سالہ سیاسی کیریئرکی باگ ڈور اب تیسری نسل سنبھالے گی

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کےسینتالیس سالہ سیاسی کیریئرکی  باگ ڈور تیسری نسل نے سنبھال لی۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول بھٹوزرداری تک کے طویل سفرمیں کئی نشیب و فراز آئے تاہم پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہر معاملے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

    بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری نسل پارٹی کی قیادت کے لئے سرگرم عمل ہے،طویل جدوجہد اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، شاہ نواز بھٹو کا سازشی قتل، مرتضیٰ بھٹو کا سامراجی قتل اور منظم سازش کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل، ان واقعات نے پاکستان پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے بجائے دوام بخشا۔

    تیس نومبر انیس سو سڑسٹھ کو پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کےبعدانقلابی منشور اور بین الاقوامی شہرت کی حامل جرأت مند قیادت کی بدولت پارٹی نے بہت کم عرصے میں زبردست عوامی حمایت اور مقبولیت حاصل کرلی۔

    ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصے کے بعد پارٹی کی باگ ڈور بینظیر بھٹو نے سنبھالی اور مارشل لاء کے بعد الیکشن کے نتیجے میں وہ وزیراعظم بنیں۔ بے نظیر دوہزارآٹھ میں آصف علی زرداری پپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بنے۔ پیپلزپارٹی کی تیسری نسل میں پارٹی کی قیادت نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو سیاست میں آئے اور چھا گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ نوجوان قیادت کہاں تک بھٹوکادیاہوا درس کارکنان تک پہنچاتی ہے۔

  • پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنے کوئی نئی بات نہیں

    پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنے کوئی نئی بات نہیں

    کراچی: پاکستان میں سیاسی تاریخ وقفے وقفے سے خودکو دہراتی رہی ہے، دھرنوں اور لانگ کے نتائج میں پہلے بھی حکومتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

    آج کےسیاسی منظرنامے پرنظر ڈالی جائےتو اندازہ ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی تاریخ تھوڑےتھوڑےوقفےبعدخود کو دہراتی ہے۔ 1977ء کے انتخابات میں چند حلقوں پر ہونے والی دھاندلی نے سیاسی افق پر پہلی بار نئی تاریخ رقم کی، پاکستان نیشنل الائنس کی تحریک اورذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات کامیابی کے نزدیک تھے، پی این اے تحریک کے اہم رکن اصغر خان نےفوج کو عوام کی مدد کے لئے بلانے کا بیان داغ دیا۔

    اس وقت بھی آرٹیکل دوسوپینتالیس کی بازگشت سنائی دی اور پھر 5 جولائی سن 1977ء میں مارشل لاء نافذ ہوگیا، بے نظیر بھٹو کی 1996ء میں جانے والی حکومت بھی کچھ اسی قسم کی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، 27 اکتوبر سن 1996ء میں حکومتی پالیسی سےاختلاف کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے دھرنا دیا، جس کے نو روز بعد5 نومبر کوپیپلزپارٹی کےصدر فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا۔

    سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کےخلاف چلائی جانے والی وکلا تحریک نےبھی حکومت کوافتخارچوہدری سمیت تمام معزول ججزکی بحال کرنےپر مجبورکردیا، اب ایک بار پھر2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور الیکشن کمیشن نے بھی تسلیم کیا، اب ایک بار پھر اسلام آبادمیں آرٹیکل دوسوپینتالیس ہے، پھر شہراقتدارمیں دھرنوں کا موسم ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت جاتی ہے یا جاتی امرا والے سیاسی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

    پاکستان کی تاریخ میں اگرچہ کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سول نافرمانی چلانے کی دھمکی تو دی گئی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف ایک بار ہی سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی، 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ 1977ء کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلی کی دو سو نشستوں میں سےسو پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں صرف چھتیس نشستیں حاصل کیں ۔ الائنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع کردی۔

    انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ، اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، اس کے علاوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے دوبارہ کرانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

    عمران خان نے بھی سول نافرمانی کا اعلان کردیا ہے،سول نافرمانی کا مطلب حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے احکامات اور ہدایات نہ ماننا ہے، جس میں ٹیکس، لگان یا موجودہ دور میں بجلی، گیس اور پانی کے بل نہ دینا شامل ہیں تاکہ حکومت کی آمدنی روک کر اسے اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباؤ میں لایا جاسکے اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان اپنے مطالبات مناوانے میں کہاں تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔