Tag: ذہنی امراض

  • فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا، سی این این کی رپورٹ

    فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ’ذہنی عذاب‘ میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس حوالے سے سی این این کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی اہلکار شدید ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگے ہیں، غزہ میں کیے گئے مظالم واپس جانے والے صہیونی فوجیوں کے اعصاب پر طاری ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق نہتے فلسطینی بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والے صہیونی فوجیوں کو احساسِ جرم نے گھیر لیا ہے، اور وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، اور خود کشی کرنے لگے ہیں، یہ فوجی غزہ سے تو نکل آئے لیکن غزہ ان کے ذہنوں سے نہیں نکل سکا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے واپس گھروں کو جانے والے اسرائیلی فوجیوں میں خود کشیوں کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے، اور وہ دوبارہ غزہ جانے کے لیے کسی قیمت تیار نہیں ہیں، واپس آنے والے ان فوجیوں میں ایک تہائی سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق احساسِ جرم اُن کے دل و دماغ کو گھیرے ہوئے ہے، نہتے شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی شہادت کا کریڈٹ لینا اب انھیں سوہانِ روح محسوس ہو رہا ہے۔

    حزب اللہ کی اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پر بمباری، شہر میں‌ ایمرجنسی نافذ

    سی این این کے مطابق 40 سالہ ایلیران مزرہی چار بچوں کا باپ تھا، جو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں تعینات ہوا، جب چھ ماہ بعد وہ لوٹا تو اس کے خاندان کے مطابق وہ ’پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD)‘ کا شکار ہو گیا، اسے دوبارہ غزہ بھیجا جا رہا تھا لیکن اس نے خود کشی کر لی۔ اس کی ماں جینی مزرہی نے کہا ’’وہ غزہ سے نکل آیا، لیکن غزہ اس سے نہیں نکلا، اور وہ بعد از جنگ کے صدمے سے مر گیا۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ان ہزاروں فوجیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے، جو جنگ کے دوران صدمے کی وجہ سے پی ٹی ایس ڈی یا ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کتنے لوگ اپنی جانیں لے چکے ہیں، کیوں کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے کوئی سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے حملوں کے بعد ایک سال کے عرصے میں غزہ میں 42,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے، اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

    اسرائیل نے اب جنگ لبنان تک پھیلا دی ہے، اور اسرائیلی فوجی مزید خوف زدہ ہو گئے ہیں، غزہ میں چار ماہ تک خدمات انجام دینے والے ایک IDF طبیب نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے سی این این کو بتایا ’’ہم میں سے بہت سے لوگ لبنان میں دوبارہ جنگ کے لیے بھیجے جانے سے بہت خوف زدہ ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے۔‘‘

    اسرائیلی فوج نے غزہ کو صحافیوں کے لیے بند کر رکھا ہے، لیکن وہاں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں نے CNN کو بتایا کہ انھوں نے ایسی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، جسے بیرونی دنیا کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتی۔

  • ذہنی امراض کی علامات اور اس کا علاج

    ذہنی امراض کی علامات اور اس کا علاج

    پاکستان میں اس وقت کروڑوں افراد کسی نہ کسی نوعیت کے ذہنی امراض کا شکار ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    ان بیماریوں میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں جن کی بنیادی وجوہات میں گھریلو اور معاشی حالات کے ساتھ ساتھ والدین کی عدم توجہی بھی شامل ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ علی نے دماغی امراض سے متعلق اس کی علامات اور علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    انہوں نے بتایا کہ نئی نسل میں مقابلے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے سن بلوغت (نوعمری) میں لڑکے لڑکیاں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ ان کی ہرطرح سے حوصلہ افزائی کریں۔

    اضطراب (انزائٹی) سے مراد وہ کیفیت ہے جو ہم پریشانی تناؤ یا خوف کی صورت میں محسوس کرتے ہیں خاص طور پر ان چیزوں کے بارے میں جو ہونے والی ہیں یا جو ہمارے خیال میں مستقبل میں ہوسکتا ہے۔

    انزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    ڈاکٹر عظمیٰ علی نے مرض کے علاج کیلیے بتایا کہ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اگر کوئی پریشانی آئے بھی تو اس کا ہر ممکن مقابلہ کریں اور مایوس نہ ہوں۔

    اپنے معاملات اور پریشانی کو خاص اور قریبی لوگوں سے ڈسکس کریں اور سسنے والوں کو بھی چاہیے کہ ایسے افراد کی بات غور سے سن کر ان کی دلجوئی کریں۔

  • فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے

    فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے

    تل ابیب: فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کا ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطینیوں پر ظلم کرنے والے اسرائیلی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہونے لگے ہیں، اس سلسلے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے فوجیوں کے لیے ایک پوسٹ ٹراما سیشن منعقد کیا۔

    سیشن میں فوجیوں نے بتایا کہ فلسطینیوں پر ظلم کرنے کے بعد انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی اور ہر وقت ایک خوف سا چھایا رہتا ہے، دی یروشلم پوسٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں کئی اسرائیلی فوجی خودکشیاں کر چکے ہیں جس کے بعد اس مسئلے کی طرف توجہ دی گئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہوئے انھیں علاج کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں، بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھا ہی نہیں گیا، جس کی وجہ سے وہ خود کشی پر مجبور ہوئے۔

    آئی ڈی ایف اہلکار بار کلاف نے وزارت دفاع کو درخواست دی تھی کہ اسے ’معذور فوجی‘ کے طور پر تسلیم کیا جائے، تاہم درخواست مسترد ہونے پر اس ماہ کے شروع میں اس نے خود کو نذر آتش کر دیا، جو اگلے دن چل بسا۔ اگلے ہی دن ایک اور فوجی اورڈونیو نے بھی اسی سبب خود کو مار ڈالا۔

    واضح رہے کہ رواں سال صہیونی فورسز 220 فلسطینی شہید کر چکی ہے، ٹوئٹر پر ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کو سڑکوں پر کم عمر نہتے فلسطینیوں کو بھی گولیاں مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • آٹزم، ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار

    آٹزم، ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار

    کراچی: آٹزم اور ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی ہدایت پر ملک میں آٹزم اور ذہنی امراض کے بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار کر لیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وزارت صحت چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سینٹرز کے قیام میں مدد کرے گی، اور آٹزم مرض میں مبتلا بچوں کے لیے اسلام آباد میں جدید سینٹر قائم کیا جائے گا، جس میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ٹریٹمنٹ بھی دیا جائے گا۔

    قادر پٹیل نے کہا آٹزم اور ذہنی امراض میں مبتلا بچوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے گی، اور ان بچوں کا ملک بھر میں سروے کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔

    وزیر صحت کے مطابق یونیسیف بھی اس سلسلے میں وزارت صحت پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے، انھوں نے کہا ہم صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے عملی اور مؤثر اقدامات کو یقینی بنا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا، اور انسان کی ذہنی استعداد کا عمل متاثر ہوتا ہے، اس کا تعلق دراصل دماغ کی نشوونما سے ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر 100 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے، ابتدائی بچپن میں اس کی علامات کا پتا لگایا جا سکتا ہے، لیکن آٹزم کی تشخیص اکثر کافی دیر سے ہوتی ہے۔ آٹسٹک لوگوں کی صلاحیتیں اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اگرچہ آٹزم کے شکار کچھ لوگ آزادانہ طور پر زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن بعض لوگ شدید معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

  • دنیا میں تیزی سے پھیلتی بیماری جس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    دنیا میں تیزی سے پھیلتی بیماری جس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    دنیا بھر میں ذہنی مسائل اور بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ دنیا میں تقریباً 1 ارب افراد کسی نہ کسی باقاعدہ ذہنی مسئلے کا شکار ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 1 ارب افراد ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں، ڈبلیو ایچ او کے یہ تازہ ترین اعداد و شمار اس حوالے سے اور بھی زیادہ پریشان کن ہیں کہ ان ایک ارب افراد میں سے ہر ساتواں شخص نوجوان ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال میں ڈپریشن اور بے چینی جیسے مسائل کی شرح میں 25 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔

    رواں صدی میں ذہنی صحت کے سب سے وسیع جائزے میں عالمی ادارہ صحت نے مزید ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کریں۔

    عالمی ادارہ صحت نے مثبت اور پائیدار ترقی کے لیے ذہنی صحت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے اور ان کی مثالیں دیتے ہوئے انہیں جلد از جلد لاگو کیے جانے کی ترغیب دی۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈ روس ایڈہانوم نے کہا کہ ہر ایک فرد کی زندگی کسی نہ کسی کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اچھی ذہنی صحت، اچھی جسمانی صحت کی عکاس ہوتی ہے اور یہ نئی رپورٹ ہمارے رویوں میں تبدیلی کو ناگزیر بناتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت اور صحت عامہ، انسانی حقوق اور سماجی اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق کو ختم نہیں کیا جاسکتا جس کا مطلب ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسی اور حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہیئے تاکہ ہر جگہ افراد، کمیونٹیز اور ممالک کو حقیقی اور اہم فوائد میسر آسکیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے 2019 کے تازہ ترین دستیاب عالمی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس وبا کی آمد سے پہلے ہی ذہنی صحت کے علاج کے ضرورت مند افراد کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو مؤثر، سستی اور معیاری سہولیات تک رسائی حاصل تھی۔

    ڈبلیو ایچ او نے مثال پیش کی کہ دنیا بھر میں نفسیاتی امراض میں مبتلا 70 فیصد سے زائد افراد کو وہ مدد نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔

    امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق، صحت کی دیکھ بھال تک غیر مساوی رسائی سے بھی نمایاں ہوتا ہے، زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح صرف 12 فیصد ہے۔

  • ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ذہنی امراض کی ایک عام قسم بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی، ماہرین نے اس سلسلے میں اہم تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس، سوئٹزر لینڈ اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے برسوں کی محنت کے بعد ایک بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے جو پائی پولر ڈس آرڈر کی کیفیت شناخت کرسکتا ہے، اس سے دنیا بھر کے کروڑوں مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

    پیرس کی یونیورسٹی آف مونٹ پیلیئر، سوئٹزر لینڈ میں واقع لیس ٹوائسس سائیکائٹری مرکز، اور امریکا میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ سمیت فرانس کی ایک بائیو ٹیکنالوجی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی خون میں 6 بائیو مارکر یا اجزا ایسے ہیں جو بائی پولر ڈس آرڈر کو ظاہر کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے اسی بنا پر ایک آسان بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے، توقع ہے کہ اس طرح نہ صرف کروڑوں افراد مستفید ہوں گے بلکہ ان میں بائی پولر اور یونی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن کی شناخت بھی آسان ہوجائے گی۔

    بائی پولر ڈس آرڈر میں موڈ اور مزاج تیزی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کبھی بے پناہ خوشی، کبھی غیر معمولی اداسی اور کبھی ڈپریشن یا گہری سنجیدگی کا راج ہوتا ہے۔

    یہ رویہ اس شخص کے اطراف رہنے والے لوگوں اور اہلخانہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی شخصیت اور مزاج کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔

    ماہرین کے مطابق بائی پولر ڈس آرڈر کو کونسلنگ کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے، بعض مریضوں میں تو اس کی شناخت 5 یا 7 برس تک نہیں ہو پاتی اور یوں معاملہ تیزی سے بگڑتا جاتا ہے۔

    توقع ہے کہ خون میں 6 بائیو مارکرز سے اس کیفیت کی شناخت اور علاج میں مدد ملے گی۔

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    کووڈ 19 امراض قلب اور ذہنی بیماریوں میں اضافے کا سبب

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ گیا۔

    انٹر ماؤنٹین ہیلتھ کیئر کی اس تحقیق میں 4 ہزار 633 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ 19 کی وبا سے قبل اور اس کے دوران ڈپریشن سے متعلق اسکریننگ کی گئی۔

    لگ بھگ 40 فیصد مریضوں نے کووڈ کی وبا کے پہلے سال کے دوران ڈپریشن کی نئی یا پہلے سے موجود علامات کے تجربے کو رپورٹ کیا، ماہرین نے بتایا کہ نتائج بہت اہم ہیں، وبا کے پہلے سال کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مریضوں کی ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو دیکھا۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا، ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن میں ڈپریشن کی تاریخ نہیں تھی یا وہ اس ذہنی عارضے کو شکست دے چکے تھے جبکہ دوسرا گروپ ڈپریشن کے مریضوں پر مشتمل تھا۔

    ان افراد کی اولین اسکریننگ کووڈ کی وبا سے قبل یکم مارچ 2019 سے 29 فروری 2020 کے دوران ہوئی تھی جبکہ دوسری بار یکم مارچ 2020 سے 20 اپریل 2021 کے دوران اسکریننگ ہوئی۔

    تحقیق کے نتائج میں کرونا کی وبا کے ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ڈپریشن کے نتیجے میں مریضوں میں ذہنی بے چینی کے علاج کے لیے ایمرجنسی روم کا رخ کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت ڈپریشن کے مریضوں میں اینگزائٹی یا ذہنی بے چینی کے شکار افراد کی جانب سے طبی امداد کے لیے رجوع کرنے کا امکان 2.8 گنا زیادہ دریافت ہوا۔

    اسی طرح اینگزائٹی کے ساتھ سینے میں تکلیف کا خطرہ مریضوں میں 1.8 گنا بڑھ گیا۔

    سائنسی شواہد میں ڈپریشن اور امراض قلب کے درمیان ٹھوس تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے۔

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق ڈپریشن، اینگزائٹی اور تناؤ کا طویل عرصے تک سامنا کرنے والے افراد کی دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافے، دل کی جانب سے خون کے بہاؤ میں کمی اور کورٹیسول نامی ہارمون کی شرح بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ان نفسیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بتدریج شریانوں میں کیلشیئم کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی اضافہ ہوا، ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی 7 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ڈپریشن کے 5 کروڑ 30 لاکھ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں، بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ملازمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار نہیں رکھ سکے، جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران شائع ہونے والی 48 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔

    اس کے بعد تمام تر تفصیلات کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو دیکھا جا سکے۔

    اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔

    تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ 2020 کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے 24 کروڑ 60 لاکھ جبکہ اینگزائٹی کے 37 کروڑ 40 لاکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں 28 فیصد اور اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے 68 فیصد اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے، بالخصوص 20 سے 24 سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے، ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

  • پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟ جانیے

    پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟ جانیے

    ناگہانی آفت یا اچانک کوئی افتاد ٹوٹ پڑے تو ہم پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے اور ہماری ذہنی صحّت متاثر ہوسکتی ہے۔ کوئی حادثہ یا زندگی میں‌ پیش آنے والی کوئی مشکل بھی ہمارے ذہن پر حاوی ہوسکتی ہے اور اس کا ہم پر منفی اثر پڑسکتا ہے جس کی ایک مثال اچانک کسی سنگین بیماری کی تشخیص ہونا ہے۔

    کبھی سڑک پر کوئی خوف ناک حادثہ پیش آیا ہو یا ایسا کوئی حادثہ دیکھا ہو، کسی قریبی دوست یا پیارے کی اچانک موت اور ایسے ہی کئی حادثات اور واقعات ذہنی اذیّت کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اس قسم کے کیسز میں‌ علامات چند ہفتوں تک بر قرار رہ سکتی ہیں اور اکثر لوگ اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پا لیتے ہیں، لیکن طبّی محققین اور ماہرینِ نفسیات کے مطابق تین میں سے ایک فرد میں آنے والے کئی مہینوں بلکہ برسوں تک ایسے حادثے کے بعد پیدا ہونے والا مسئلہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(post traumatic stress disorder) یا مختصراً پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں۔

    اکثر مرد اور عورت گھر میں جسمانی تشدد یا بدسلوکی کا نشانہ بننے کے بعد اور کسی قریبی عزیز کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بھی اس مسئلے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی کب شروع ہوتا ہے؟
    عام طور پر اذیّت ناک حادثے یا تجربے سے گزرنے کے بعد چھے ماہ کے اندر اندر یا بعض اوقات چند ہفتوں کے اندر اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

    متاثرہ فرد کیا محسوس کرتا ہے؟
    جذباتی دھچکا اور صدمہ متاثرہ فرد کو یاسیت، اضطراب، ذہنی دباؤ، احساسِ جرم یا غصّے کا شکار بناسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہن میں اسی تکلیف دہ صورتِ حال کو لانا، یا اسی حادثے کو تصوّر کرنا اور بار بار اسی بارے میں سوچنا اور اس کا تذکرہ کرنا بھی اس کی علامات ہیں۔

    اسے کیا کرنا چاہیے؟
    اگر ایسا فرد اس حوالے سے کسی کی مدد لے، جیسے کسی دوست سے اپنی کیفیات بیان کرے، ماہر معالج سے رجوع کرے تو یہ بہت بہتر ہوگا، لیکن اپنی سطح پر کوشش کرنا چاہیے کہ اس اندوہ ناک واقعے کے بارے میں نہ سوچے، ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے اپنی دل چسپی کے کاموں‌ میں مصروف رہے، اور کسی بھی ایسی چیز یا لوگوں اور اس مقام پر جانے سے گریز کرے جس سے اس واقعے کی یاد ذہن میں تازہ ہو سکتی ہے۔

    اس مسئلے میں بعض جسمانی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں، جیسے درد اور تکلیف، اسہال، دل کی دھڑکن تیز ہوجانا، سَر درد، خوف اور انجانے خطرے کا احساس وغیرہ۔

    ناگہانی آفت اور حادثے کا بار بار تصور بہت زیادہ ہیجان اور دباؤ کا شکار کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ جھنجھلاہٹ، بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت رہتی ہے جس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔

    پی ٹی ایس ڈی سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے؟
    اپنے روزمرّہ کے معمولات میں نئی توانائی کے ساتھ دل چسپی کا اظہار اور اس حوالے سے ناکامی کے باوجود کوشش جاری رکھنا بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ کسی قریبی دوست سے اس واقعے اور اپنی ذہنی کیفیت شیئر کریں اور ورزش کریں۔ اپنی پسند کے کام کریں اور ممکن ہو تو نئی دل چسپیاں ڈھونڈ لیں، جیسے کتب بینی، باغ بانی یا کوئی ایسا کام جس سے مالی فائدہ بھی جڑا ہو۔ اہلِ خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور اپنے ڈاکٹر سے رابطہ رکھیں۔

    ماہرین کے مطابق مذکورہ علامات آپ کی شخصیت کی کم زوری اور کسی مستقل بیماری کو ظاہر نہیں‌ کرتیں اور ایسا ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی اذیت ناک اور گہرے صدمے سے دوچار ہوئے ہوں، لیکن اسے نظرانداز نہ کریں‌ بلکہ نفسیاتی معالج سے اس کا علاج (سائیکو تھراپی) کروائیں جو دوائیں بھی تجویز کرسکتا ہے۔