Tag: ذہنی بیماریاں

  • فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا: ایک لاعلاج بیماری

    فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا (frontotemporal dementia) کو مختصراً ایف ٹی ڈی بھی لکھتے ہیں۔ اس مرض کا سبب دماغ کے فرنٹل اور ٹیمپورل لوبز میں مسلسل گھٹتے ہوئے اعصابی خلیات بنتے ہیں۔

    ایف ٹی ڈی کو ماہرین ڈیمنشیا کی ایک عام قسم بھی سمجھتے ہیں۔ ڈیمنشیا کی یوں تو بہت سی اقسام ہیں اور اِن سب میں یادداشت کا متاثر ہونا ایک بینادی علامت ہے، مگر عام طور پر ڈیمنشیا میں کئی دیگر علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، جن میں کسی شخص کے روزمرہ کے کام متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے مزاج یا شخصیت میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی فیصلہ سازی کی اہلیت متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایسا شخص دوسروں پر زیادہ انحصار کرنے لگتا ہے۔

    ایک جیسی علامات والی ذہنی بیماریوں کے لیے استعمال ڈیمنشیا کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس فہرست میں الزائمرز بھی شامل ہے۔ تاہم یہ عام ’ڈیمنشیا‘ سے الگ ہے۔

    ایف ٹی ڈی ایک غیرمعمولی بیماری ہے اور طبّی محققین نے اسے لاعلاج قرار دیا ہے۔ ایف ٹی ڈی 45 سے 65 سال کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس کی بعض اقسام عمر رسیدہ افراد میں بھی پائی جاتی ہیں۔

    طبّی تحقیق کے مطابق ڈیمنشیا کی دیگر اقسام کی طرح ایف ٹی ڈی بھی آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور پھر بدترین صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

    ایف ٹی ڈی کی چند علامات
    اس مرض کی علامات کا اظہار دماغ کے مثاثرہ حصوں پر منحصر ہے لیکن ان علامات میں شخصیت یا طرزِ عمل میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبان، ارتکاز اور یادداشت کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس بیماری کی دیگر علامات جسمانی پیچیدگیوں کی شکل میں‌ سامنے آسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر مثانے یا آنتوں کے مسائل، پٹھوں کی کمزوری یا نگلنے میں دشواری اس کے شکار ہونے والے کو محسوس ہوسکتی ہے۔

    طبّی محققین کسی کے رویے میں تبدیلی کو بھی اس بیماری کی ایک علامت سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں‌ متاثرہ فرد دوسروں سے نامناسب رویہ اور بدسلوکی کرسکتاہے، جب کہ وہ فیصلہ سازی میں کم زور نظر آتا ہے اور عدم ارتکاز کا شکار ہوجاتا ہے۔

    معروف امریکی طبّی ادارے کی تحقیقی رپورٹ مطابق ایف ٹی ڈی سے لوگوں کی شخصیت اور رویے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات اسے ذہنی مرض سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی غلط تشخیص کی بنیاد پر علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لاعلاج ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات کو بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم مستقل نگرانی سے ایسے مریض کو کافی حد تک سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین سمجھتے ہیں‌ کہ بیماری بڑھنے سے اور تشخیص کے بعد اوسطاً لوگ آٹھ سے 10 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم بعض مریض طویل عرصہ بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ایف ٹی ڈی کی تشخیص کیسے ممکن ہے؟
    اس کی تشخیص کے لیے کوئی خصوصی ٹیسٹ موجود نہیں اور یہ جاننے کے لیے کہ کیا طبّی معائنے کے لیے آنا والا ایف ٹی ڈی کا شکار ہے، اس سے بات چیت کے دوران علامات پر غور کرنے کے علاوہ معالج کئی طرح کے ٹیسٹ تجویز کرسکتا ہے اور یہ طویل مدتی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔

  • پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟

    پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کیا ہے؟

    کسی بھی فرد کو اچانک، غیرمتوقع اور حادثاتی طور پر ملنے والی کوئی اطلاع کسی ایسے صدمے سے دوچار کر سکتی ہے جو انتہائی خوفناک اور روح فرسا ہو اور ذہن پر حاوی ہونے کے ساتھ اس کے لیے ناقابلِ‌ برداشت ہو۔

    اس کی مثال کسی سنگین بیماری کی تشخیص ہونا، سڑک پر کسی دل دہلا دینے والے حادثے کا شکار ہونا یا ایسے ہی کسی حادثے کو دیکھنا، غیر متوقع چوٹ یا کسی انتہائی قریبی عزیز کی اذیت ناک موت کا سانحہ، اغوا اور شدید مالی نقصان۔

    اس طرح کے کسی بھی واقعے کے بعد ہم ذہنی اذیت کا شکار ہو سکتے ہیں جو Post-traumatic stress disorder (PTSD) یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کہلاتا ہے۔ اس کی علامات چھے ہفتوں تک بر قرار رہ سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ کسی کی مدد کے بغیر ہی اپنی ذہنی کیفیت پر قابو پا لیتے ہیں۔ تاہم تین میں سے ایک فرد میں کئی مہینوں بلکہ برسوں تک ایسے مسئلے میں گرفتار رہ سکتا ہے۔ کم تکلیف دہ مگر طویل عرصہ تک برقرار رہنے والی ذہنی اذیت کے بھی یہی اثرات ہو سکتے ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی عام طور پر اذیت ناک حادثے یا تجربے کے چھ ماہ کے اندر اندر یا بعض اوقات چند ہفتوں کے اندر شروع ہوجاتا ہے اور کسی بھی فرد میں اس کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

    پی ٹی ایس ڈی میں جذباتی صدمے کے بعد آپ رنج والم، ذہنی دباؤ، اضطراب، احساسِ جرم یا غصے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مندرجہ ذیل احساسات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

    اذیت ناک حادثے کا خیال بار بار ذہن میں آنا، اور آپ ذہنی طور پر اس صورت حال سے بار بار گزرتے ہیں۔ ایسا فرد واقعے کے بارے میں سوچنے سے گریز اور ذہنی پریشانی سے بچنے کے لیے مصروفیات کا سہارا لیتا ہے اور اس میں‌ کسی بھی ایسی چیز یا لوگوں سے گریز کرتا ہے جس سے اس واقعے کی یاد ذہن میں تازہ ہو جائے۔ ارد گرد پر نظر رکھنا اور ہر وقت چوکنا رہنا، سکون نہ ہونا، بے چینی اور بے خوابی۔

    اس طبّی مسئلے سے دوچار افراد جسمانی علامات میں درد، اسہال، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، سر درد، خوف کے احساس کے ساتھ ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم یہ علامات دیگر کئی امراض کی صورت میں‌ بھی سامنے آتی ہیں، اور اس کے لیے معالج سے رجوع کرنا بہتر ہوتا ہے۔

    اس کی ممکنہ وجوہ میں نفسیاتی اثر کے علاوہ جسمانی مسئلہ بھی شامل ہے۔ پی ٹی ایس ڈی کی شدت کم کرنے کے لیے یا اس سے نکلنے کے لیے خود بھی متاثرہ فرد کوشش کرسکتا ہے۔

    حادثے کی تما تکلیف دہ تفصیلات کے بار بار یاد آنے سے فرد بہت زیادہ ہیجان اور دباؤ کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی تناؤ، جھنجھلاہٹ، بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت رہتی ہے۔

    سادہ سا علاج کی بات کریں تو پی ٹی ایس ڈی سے بچنے کے لیے اپنے روزمرہ کام اور معمولات کو اچھی طرح دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کریں۔ کسی قریبی دوست سے اس واقعے کے بارے میں باتیں کریں اور سکون آور ورزشیں کریں۔ کھانا باقاعدگی سے کھائیں، جسمانی ورزش کریں اور دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ اگر کسی شدید حادثے اور دل خراش واقعہ کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا ہو تو دوبارہ اس جگہ جانے کی کوشش کریں اور منطقی جائزہ لیں۔ یہ غور کریں‌ کہ ایسا کچھ دوبارہ ہوا تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے اس صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں۔

    اپنےاوپر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں نہ اپنے آپ سے بہت زیادہ توقعات رکھیں۔ پی ٹی ایس ڈی کی علامات آپ کی شخصیت میں کسی کمزوری کی علامت نہیں ہیں۔ یہ بہت ہی اذیت ناک اور تکلیف دہ واقعات سے گزرنے والے لوگوں میں عام طور پہ نظر آتی ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا کم مت کریں۔ بہت زیادہ سگریٹ یا شراب نوشی نہ کریں۔ اپنی نیند یا خوراک میں زیادہ کمی نہ ہونے دیں۔

    اگر آپ شدید ذہنی تکلیف کی وجہ سے نہ سو سکتے ہوں اور نہ ہی واضح طور پر سوچ سکتے ہوں تو پھر آپ سکون آور ادویات لے سکتے ہیں لیکن انہیں دس دن سے زیادہ کے لیے نہیں لینا چاہیے۔

    کسی بھی مریض کو جسمانی ورزشوں کے ذریعے علاج پر توجہ دینی چاہیے جن میں فزیو تھراپی یعنی جسم کے مختلف حصوں کی ورزش، مالش، یوگا، مراقبہ وغیرہ تکلیف کے احساس میں کمی کے ساتھ ہر وقت چوکنا یا خطرے کے احساس سے دوچار رہنے کی کیفیت کو کم کرتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ آپ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے تکلیف محسوس نہیں‌ گے اور خود کو ہر وقت کسی خطرے کی زد میں محسوس کرنا بند کر دیں گے تو یہ علامات ظاہر کرتی ہیں کہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے۔

  • فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    زندگی میں نشیب و فراز اور حالات کا اتار چڑھاؤ ہماری رفتار تو کم کرسکتے ہیں، لیکن ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور بُرا وقت بھی گزر جاتا ہے۔

    مشکل حالات اور کڑے وقت کا سامنا کرتے ہوئے ہم گھبراہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجانے خدشے، اندیشے ستاتے ہیں اور ہم پریشان رہنے لگتے ہیں۔

    اسی طرح جب کوئی خطرہ سَر پر ہو یا افتاد ٹوٹ پڑنے کا ڈر ہو تو ہم اس کے "خوف” میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو حاوی ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    فوبیا، کسی مخصوص صورتِ حال یا چیز کے خوف کو کہتے ہیں جس میں کچھ خاص تدابیر اور طریقے اپنائے جائیں تو اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہر قسم کی احتیاط، کچھ چیزوں سے پرہیز اور اجتناب کرنا بتدریج بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔

    کوشش کریں کہ انجانی اور ان دیکھی شے یا خطرے کے فوبیا کو کم سے کم وقت کے لیے سوچیں، خود کو مثبت سرگرمی کی طرف دھکیل دیں۔ اچھی اور معلوماتی کتب کا مطالعہ اور دیگر مفید مشاغل اپنائیں۔ تاہم ماہر اور مستند معالج اس حوالے سے بہتر راہ نمائی کرسکتا ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق اکثر فوبیا کے شکار لوگوں پر عرصے بعد کُھلتا ہے کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ تھے، وہ کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا کہ اس سے مسلسل پریشان رہا جاتا، لیکن اس پر توجہ دینا اور ضرورت پڑنے پر باقاعدہ علاج یا عادات و رویے میں تبدیلی لاکر گھبراہٹ اور بے چینی کی شدت سے بچنا بہرحال ضروری تھا۔

    بعض اوقات تشویش، پریشانی اور اس کے نتیجے میں گھبراہٹ کی بہت واضح اور معقول وجوہ بھی ہوتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس حوالے سے غیرمستند، غیرضروری اور سنی سنائی باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے درست اور مناسب راہ نمائی اور مشاورت ضروری ہوتی ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ اور رویوں پر برسوں کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مستقبل کا خوف یا کل کے اندیشوں سے گھبرانے کے بجائے فوبیا کے شکار افراد کو اگر اس بات پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے ڈٹ کر‌ حالات کا مقابلہ کریں تو ان کی حالت میں بتدریج بہتری آسکتی ہے اور مسائل کے حل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔