Tag: ذہنی دباؤ

  • اولاد سے امیدیں : والدین کا بچوں پر ذہنی دباؤ کتنا نقصان دہ ہے؟

    اولاد سے امیدیں : والدین کا بچوں پر ذہنی دباؤ کتنا نقصان دہ ہے؟

    اکثر والدین اپنے بچوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا تذکرہ بھی ان کے سامنے کرتے رہتے ہیں جس کے سبب بڑے ہوکر یہ بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات کے مطابق نوجوانوں میں ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں سے بڑی بڑی توقعات رکھنا بھی ہے جسے بچہ پورا نہیں کر پاتا اور وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں حالیہ دہائیوں کے دوران نوجوانوں میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے خرابی صحت، بے چینی اور یہاں تک کہ خودکشی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    والدین کو اپنے بچوں کی صحت بخش غذا اور جسمانی صحت کی فکر تو رہتی ہی ہے، تاہم اب ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کی ذہنی صحت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے، اکثر والدین کے لیے یہ جاننا کہ بچوں کی ذہنی کیفیت کیا ہے اور انہیں کس طرح ذہنی طور پر مضبوط شخصیت کا مالک بنایا جائے، ایک مشکل طلب کام ہے۔

    Parental Stress

    ہمارے معاشرے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کم عمری ہی میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر تم نے کیا بننا ہے، بلکہ گھر والے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔

    اگر بچہ اس کام میں یا پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں، اسے ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے،اس پر ہر وقت پڑھائی لکھائی کا زور دیتے ہیں۔

    والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے پر بے جا امیدوں کا بوجھ نہ ڈالیں، اپنے بچے کے مستقبل کیلئے جو بھی طے کریں اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اس پر اڑ مت جائیں بلکہ اس میں گنجائش بھی رکھیں کیونکہ اس زور زبر دستی کا نقصان زیادہ اور فائدہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔

    بچے کی عمر کے ابتدائی مراحل ہی اندازہ لگائیں کہ وہ آپ کی اُمیدوں کا بوجھ اٹھا بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہو تو اس کی دلچسپی معلوم کیجئے ، کسی ماہر سے مشورہ کیجئے کہ آ پ کا بچہ کیا کرسکتا ہے اور اس کی کیا دلچسپی ہے؟

    Under Pressure

    اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بعد میں پچھتائیں گے اور افسوس کریں گے کیونکہ آپ کا بچہ امیدوں کے بوجھ تلے اتنا دب جائے گا کہ اس کی رات کی نیند بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ نہ وہ سکون سے رہ نہیں نہ سو سکے گا اس کی صحت متاثر ہوگی۔

    ماہرین کے مطابق بچہ ذہنی طور پر تھکا ہوا ہوگا تو جلدی سو جائے گا مگر کب تک ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا، باربار اس کی نیند کھلے گی۔ ان کے مقابلے میں جن خاندانوں میں رجحان اور دلچسپی دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ان کے بچے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور خطے بھی نام روشن کرتے ہیں اور اکثر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔

  • دودھ میں صرف ایک چیز ڈال کر پیئں، ذہنی دباؤ منٹوں میں ختم

    دودھ میں صرف ایک چیز ڈال کر پیئں، ذہنی دباؤ منٹوں میں ختم

    دنیا میں تقریباً ہر انسان کسی نہ کسی پریشانی یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے جس کی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں، اسے انگریزی میں اسٹریس یا ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے۔

    درحقیقت روزمرہ کی زندگی میں ہماری چھوٹی چھوٹی چیزیں یا انتخاب بھی ہمارے مزاج پر اندازوں سے زیادہ اثرات مرتب کرسکتے ہیں اس سے چھٹکارا بہت آسان اور ممکن ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں معروف ہربلسٹ ڈاکٹر عیسیٰ نے اضطراب، ذہنی دباؤ اور تناؤ کی کیفیت سے محفوظ رہنے کیلئے ایک نہایت آسان اور کم قیمت نسخہ بتایا جسے پی کر آپ اپنے اندر سکون اور اطمینان محسوس کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ آدھی پیالی دودھ میں ایک چمچ  کھوپرے کا تیل (ورجن کوکونٹ آئل) اور ایک چٹکی زعفران ملا کر پی جائیں، 5سے دس منٹ کے اندر آپ خود کو تمام اقسام کی الجھنوں سے دور محسوس کریں گے کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔

    کھوپرے کی تیل کی مزید افادیت بتاتے ہوئے ڈاکٹر عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ کی طبیعت بوجھل ہورہی ہے اور قے کی کیفیت ہے تو کھوپرے کے ایک کپ پانی کے اندر ایک چمچ اورنج جوس، شہد، لیموں اور ایک چٹکی نمک ڈال کر پی لیں الٹی آنا بند ہوجائے گی۔

  • حماس کے حملوں کے بعد ہر 3 میں سے ایک اسرائیلی میں ایک خاص بیماری کی علامات کا انکشاف

    حماس کے حملوں کے بعد ہر 3 میں سے ایک اسرائیلی میں ایک خاص بیماری کی علامات کا انکشاف

    یروشلم: حماس کے حملوں کے بعد ہر 3 میں سے ایک اسرائیلی میں ایک خاص ذہنی تناؤ کی علامات کا انکشاف ہوا ہے۔

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک نئی ریسرچ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 7 اکتوبر کے حماس کے حملوں کے بعد ہر 3 میں سے 1 اسرائیلی میں پی ٹی ایس ڈی کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔

    پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی علامات کے حوالے یہ تحقیق اخوا اکیڈمک کالج، حیفہ یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے کی گئی ہے، جس میں 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 420 اسرائیلیوں کا غزہ میں حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کے بارے میں سروے کیا گیا۔

    القسام بریگیڈ نے اسرائیلی فوجی کیمپ دھماکے سے اڑا دیا

    اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق سروے میں معلوم ہوا کہ 34 فی صد افراد میں پی ٹی ایس ڈی کے ساتھ مطابقت رکھنے والی علامات موجود تھیں، اور جو لوگ حملوں سے براہ راست متاثر ہوئے یا اپنے کسی قریبی کو اس میں کھویا، ان میں سے 50 فی صد افراد میں پی ٹی ایس ڈی کی علامات دیکھی گئیں۔

  • مرد ٹینشن میں زیادہ مبتلا کیوں ہوتے ہیں؟ اہم وجہ سامنے آگئی

    مرد ٹینشن میں زیادہ مبتلا کیوں ہوتے ہیں؟ اہم وجہ سامنے آگئی

    پریشانی کے عالم میں ضرورت سے زیادہ سوچنا آپ کو ڈپریشن کا مریض بنا سکتا ہے، اسی طرح کی کیفیات بے چینی اور تشویش میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

    عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد اپنی پریشانیوں اور ذہنی دباؤ کا ذکر نہیں کرتے شاید یہی وجہ ہے کہ مردوں پر خواتین کے مقابلے میں زیادہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ملیحہ ناز نے ناظرین کو انسانی نفسیات کے متعلق اہم کیفیات سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اداسی یا ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ واقعی آپ اس مسئلے سے دوچار ہیں کیوں کہ ڈپریشن ایک حقیقی طبی حالت ہے۔

    خواتین کے مقابلے میں مردوں میں ڈپریشن زیادہ عام ہے جو ممکنہ طور پر بعض سماجی عوامل کی وجہ سے مردوں کے لیے مختلف ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں مردوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی پریشانی یا جذباتی تناؤ سے متعلق اپنی بات کسی سے شیئر نہیں کرتے اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ آپ نے رونا نہیں ہے یا کمزوری ظاہر نہیں کرنی۔

    ملیحہ ناز نے کہا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں ڈپریشن زیادہ عام ہے جو ممکنہ طور پر بعض سماجی عوامل کی وجہ سے مردوں کے لیے مختلف ہیں لیکن مردوں اور عورتوں میں ڈپریشن کی مختلف قسم کی کیفیات ہوتی ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی بیماری کو بیماری تصور نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے اور ایسی کوئی نفسیاتی بیماری نہیں جس کا علاج موجود نہ ہو۔

  • شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ نہ صرف ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی بری طرح اثرات ڈالنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی کا حصول ضروری ہے۔

    جب کوئی شخص شدید ذہنی دباؤ کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت بے تحاشا منفی خیالات اور احساسات اس کے ذہن پر یلغار کرتے ہیں، لیکن آپ کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے تکلیف دہ اور منفی احساسات و خیالات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے۔

    لیکن اگر ہم ان خیالات اور احساسات میں الجھ جائیں تو یہ ہمارے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔

    یہ جاننا بھی اہم ہے کہ الجھ جانے سے کیا مراد ہے؟ دراصل الجھ جانے کی بہت سی اقسام ہیں۔ اگر کوئی چیز کھونٹی سے پھنس جائے تو وہ اس سے دور نہیں جا سکتی، کھونٹی اسے پھنسائے رکھتی ہے، جیسا کہ مچھلی، بالکل اسی طرح ہم بھی اپنے تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ جاتے ہیں۔

    یہ بھی ضرور پڑھیں: جسم پر ذہنی دباؤ کے کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟

    ایک لمحے آپ بچوں کے ساتھ خوش گوار موڈ میں کھیل رہے ہوں گے، لیکن اگلے ہی لمحے آپ تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ سکتے ہیں۔ ابھی آپ مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور اگلے ہی لمحے آپ شدید غصے والے خیالات اور احساسات میں پھنسے ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارۂ صحت) کی ایک گائیڈ کے مطابق یہ تکلیف دہ خیالات اور احساسات بری طرح پھنسا کر ہمیں ہماری اقدار سے دور کر دیتے ہیں، یعنی وہ گہری خواہشات جن کے مطابق ہم اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یعنی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہم اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ پیار کرنے والے، سمجھ دار ماں یا باپ ہیں، بچوں پر توجہ دیتے ہیں، اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مستقل مزاجی کو پسند کرتے ہیں، باہمت ہیں، تو منفی احساسات و خیالات آپ کو پھنسا کر ان اقدار سے محروم کر سکتے ہیں۔

    اقدار یہ بتاتی ہیں کہ آپ کس طرح کے انسان بننا چاہتے ہیں، آپ خود سے، دوسروں سے اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے کس طرح پیش آنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ اقدار کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ اپنا اور دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، اور ایسا کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن جب ہم منفی خیالات اور احساسات میں پھنس جاتے ہیں تو اقدار سے دور ہونے لگتے ہیں۔

    تکلیف دہ، منفی خیالات و احساسات کی اقسام

    اس کی بہت سی اقسام ہیں جو ہمیں الجھا سکتی ہیں، جیسا کہ ہار مان لینا، ہم کہنے لگتے ہیں:

    میں نے ہار مان لی

    یہ میرے لیے بہت مشکل ہے

    دوسروں کو الزام دینے کے بارے میں سوچنا یعنی یہ اس کی غلطی ہے، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

    اپنے بارے میں انتہائی منفی رائے ہونا، یعنی میں کم زور ہوں، اور میں پاگل ہوں

    گزر جانے والے تکلیف دہ حالات کے بارے میں سوچتے رہنا

    مستقبل کے بارے میں اندیشے ہونا

    دوسروں کے بارے میں فکر مندی کے شدید احساسات محسوس کرنا

    یعنی کیا وہ ٹھیک ہے؟ اب وہ کہاں ہے؟

    جب ہم منفی خیالات و احساسات میں الجھ جاتے ہیں تو ہمارا رویہ بدل جاتا ہے، ہم اکثر ایسی چیزیں کرنے لگ جاتے ہیں جو ہماری زندگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔

    ہو سکتا ہے کہ ہم کسی لڑائی جھگڑے یا بحث میں الجھ جائیں، یا ہم خود کو ان سے دور کر لیں گے جن سے ہم پیار کرتے ہیں، یا بہت سارا وقت بستر میں لیٹے ہوئے گزار دیں گے۔

    عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ماہرین ان رویوں کو ‘دور کر دینے’ والے رویے کہتے ہیں، کیوں کہ جب ہم یہ رویے اپناتے ہیں تو ہم اپنی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں۔

  • جسم پر ذہنی دباؤ کے کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟

    جسم پر ذہنی دباؤ کے کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟

    اگر آپ ذہنی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں، آپ کے ارد گرد اور پوری دنیا میں اور بھی بہت سے لوگ موجود ہیں جو ذہنی دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

    ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹر اور ماہرین نفسیات آپ کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں، تاہم ذہنی دباؤ کے حوالے سے چند اہم باتیں معلوم کرنا آپ کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے، جس کے بعد اسٹریس یعنی ذہنی دباؤ کی منیجمنٹ آپ کے لیے کہیں زیادہ آسان ہو سکتی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ذہنی دباؤ کا مطلب ہے کہ آپ کے جذبات آپ پر حاوی ہیں یا آپ شدید خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ بڑے مسائل کی وجہ سے ہو سکتا ہے، جیسا کہ کوئی کہے کہ ایک شخص نے میرے ساتھ بہت برا کیا، گھریلو تشدد، بے گھری، روزگار نہ ہونا، صحت کی سہولیات کا نہ ہونا، یا معاشرتی تشدد وغیرہ۔ چھوٹے مسائل جیسا کہ گھریلو جھگڑے، مستقبل کے بارے میں اندیشے وغیرہ۔

    روزمرہ زندگی میں ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا عام بات ہے، لیکن شدید ذہنی دباؤ ہمارے جسم پر برے اثرات ڈالتا ہے، اکثر لوگ ذہنی دباؤ میں کچھ ناخوش گوار احساسات کا سامنا کرتے ہیں۔

    ان اثرات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں، جو نمودار ہو کر آپ کو خبردار کر سکتے ہیں:

    سر درد

    کندھے اور گردن میں درد

    بھوک کا احساس نہ ہونا

    گلے میں کچھ پھنسے رہنا

    کمر میں درد

    سینے پر دباؤ

    پیٹ خراب ہو جانا

    پٹھوں میں کھچاؤ

    شدید ذہنی دباؤ کی صورت میں کچھ لوگ خود کو جسمانی طور پر بیمار محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ جلد پر خارش ہونا، انفیکشن ہونا، بیماریوں کا سامنا کرنا، یا پھر ہاضمے کے مسائل وغیرہ۔

    بہت سے لوگ جب شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو وہ:

    توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے

    جلدی غصے میں آ جاتے ہیں

    ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے

    سونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں

    اداسی محسوس کرتے ہیں یا اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں

    پریشان ہو جاتے ہیں

    روتے ہیں

    بہت زیادہ تھکن محسوس کرتے ہیں

    انھیں بھول پہلے کم یا زیادہ لگتی ہے

    یاد رکھیں کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے تکلیف دہ احساسات و خیالات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے، لیکن اگر ہم ان خیالات اور احساسات میں الجھ جائیں تو یہ مسئلہ بن جاتے ہیں۔

    عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ جب آپ ان احساسات میں الجھ جائیں تو سب سے پہلا جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ آپ توجہ مرکوز کرنا شروع کریں، اور گہری دل چسپی لیں، مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مشروب پی رہے ہیں تو اس پر توجہ مرکوز کر کے اس کے ذائقے سے لطف لینا شروع کریں۔

  • ذہنی دباؤ سے ہونے والے نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    ذہنی دباؤ سے ہونے والے نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    ذہنی دباؤ آج کل کی زندگی میں بے حد عام ہوگیا ہے، ماہرین نے اس کی کچھ علامات اور ان سے نمٹنے کا طریقہ بتایا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے ک ذہنی دباؤ سے دور رہنے کے لیے صحت بخش غذائیں، ورزش اور بھرپور نیند جیسے معمولات پر عمل کر کے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    نیویارک کے ادارے الیون الیون ویلنیس سینٹر کے ہیلتھ کوچ جیکی ڈومبورگیان کا کہنا ہے کہ اگر ذہنی دباؤ آپ کے بالوں، جلد اور ناخنوں سے ظاہر ہونے لگے تو آپ کبھی دباؤ کا شکار ہونا پسند نہیں کریں گے لیکن کچھ علامات ایسی ہیں، جو آپ کے ذہنی دباؤ کو ظاہر کرسکتی ہیں۔

    ایکنی

    ذہنی دباؤ کی وجہ سے جلد کے مسائل بھی سامنے آتے ہیں جیسے کہ ایکنی، چنبل یا ایگزیما، اس کا حل یہ ہے کہ گہری سانسیں لیں، اس سے اینگزائٹی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    ماہرین اس کے لیے 10 منٹ کا مراقبہ بھی تجویز کرتے ہیں، بہت سارا پانی پینا اور متوازن غذا کھانا بھی اہمیت رکھتا ہے، پھل، سبزیاں اور اعلیٰ معیار کا پروٹین بھی ان مسائل کے حل کے لیے ضرور ہے۔

    آنکھوں کی دیکھ بھال

    نیند نہ آنے کی وجہ سے آپ کی آنکھوں کے نیچے پانی جمع ہو جاتا ہے اور وہ پھولنے لگتی ہیں اور صبح آپ کی آنکھیں اور زیادہ خرابی ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔

    صبح آپ کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوں تو ایک ٹھنڈا ٹھار چمچ (جو فریج میں رکھا ہو) الٹا کرکے آنکھوں کے نیچے پھیریں۔

    خشک اور کھردری جلد

    اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ زائد مقدار میں پانی نہ پی رہے ہوں، خصوصاً موسم گرما میں زیادہ پانی نہ پینے سے ڈی ہائیڈریشن اور آپ کی جلد کاغذ جیسی خشک ہو سکتی ہے۔

    اس کے سدباب کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کریں۔

    جسم میں صحت بخش اینٹی آکسیڈنٹس میں اضافے کے لیے آپ کو گرین ٹی پینے اور ایسی غذائیں کھانے کی ضرورت ہے جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو، جیسے کہ کھیرے، ٹماٹر، چقندر، تربوز یا ہری سبزیاں وغیرہ۔

    الرجی یا خارش

    ذہنی دباؤ کی وجہ سے بگڑنے والا ہارمون Dysbiosis پیدا ہوتا ہے، جس سے مضر بیکٹیریا، اچھے بیکٹیریا پر حاوی ہوجاتے ہیں اور جلد میں خارش ہونے لگتی ہے۔

  • ناشتہ نہ کرنے سے خواتین کو جسمانی نقصان

    ناشتہ نہ کرنے سے خواتین کو جسمانی نقصان

    مردوں کے مقابلے میں خواتین میں ذہنی دباؤ کی سطح زیادہ ہوتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ غیر صحت مند خوراک بھی ہے۔

    بین الاقوامی تحقیق کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین میں ذہنی دباؤ بڑھنے کی وجہ غیر صحت بخش خوراک کا استعمال ہےْ

    اس قسم کی غیر صحت بخش خوراک یا فاسٹ فوڈ، صبح کا ناشتہ نہ کرنا، کیفین اور ہائی گلاسیمک خوراک خواتین میں مردوں سے زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے اور وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ بالغ افراد میں ورزش اور بہتر ذہنی صحت کا تعلق خوراک میں تبدیلی سے ہے۔ تحقیقی ٹیم میں شامل اسسٹنٹ پروفیسر آف ہیلتھ اینڈ ویل بینگ اسٹڈیز کی اس سے قبل جو تحقیق شائع ہوئی وہ ڈائٹ اور موڈ پر مبنی تھی جس میں تجویز دی گئی تھی کہ اعلیٰ معیار کی خوراک ذہنی صحت کو بہتر کرتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور ٹیسٹ 30 سال یا اس سے زیادہ عمر کے مردوں اور خواتین میں خوراک میں مرضی کی تبدیلی کرکے یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ کیا اس سے موڈ بہتر ہوتا ہے۔

    تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ خواتین میں غیر معیاری اور ناقص خوراک ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔

  • ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    بھاگتی دوڑتی زندگی اور مختلف مسائل نے ہر شخص کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے، ایسے میں ذہنی صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ نہ صرف زندگی کے مختلف امور بہتر طور پر سرانجام دیے جائیں بلکہ خود کو بھی خوش رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر کنول قدیر نے شرکت کی اور ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی خرابی کی سب سے پہلی علامت تو یہ ہے کہ مناسب طریقے سے کوئی کام سرانجام دینے میں ناکامی ہونا۔ جب بھی ہم کسی شخص میں تبدیلی محسوس کریں اور تبدیلی خرابی کی صورت میں ہو تو ایسی صورت میں چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    جیسے کوئی شخص پہلے کی نسبت تنہائی پسند ہوگیا، زیادہ رونے لگا ہے، اس کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں فرق آگیا ہے تو یہ ذہنی طور پر پریشان ہونے کی علامت ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کو سب سے پہلے اہل خانہ اور قریبی دوست محسوس کرتے ہیں۔ اگلا مرحلہ اس شخص کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ یہ عادت نارمل نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ اس تبدیلی کو مانتے نہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں، پاکستان میں خواتین کی اکثریت ڈپریشن کا شکار ہے اور انہیں یہ نہیں پتہ کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ زیادہ رونا، زیادہ سوچنا یا گھلنے ملنے سے پرہیز کرنا ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ پچھلا پورا سال کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوا اور اس سے ہماری دماغی صحت کو بے حد نقصان پہنچا ہے، اب دماغی صحت کی بہتری کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھائیں کہ گھر سے باہر وقت گزاریں۔

    انہوں نے کہا کہ پورا سال گھر میں بند رہنے کے بعد اب ہمارے دماغ کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہے، لہٰذا اگر کسی روز کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی صبح جلدی اٹھیں، کپڑے تبدیل کریں اور باہر نکلیں۔

    ڈاکٹر کنول نے بتایا کہ وہ ایک استاد بھی ہیں اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آج کل نوجوان بچوں میں اینگزائٹی میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سخت مقابلے کی فضا اور سوشل میڈیا پر سب اچھا دکھانے کا رجحان ہے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر بچے (اور بڑے بھی) کسی اہم موقع یا امتحان کے دن دماغی بلیک آؤٹ محسوس کرتے ہیں اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال پیش آئے تو اس پر فوکس کریں جو آپ کو یاد ہے، بجائے اس کے کہ اس پر فوکس کیا جائے جو آپ کو یاد نہیں۔

    ڈاکٹر کنول نے دماغی صحت کی بہتری کے لیے 5 ٹپس بھی بتائیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    روزانہ دن میں کم از کم 1 گھنٹہ گھر سے باہر کھلی ہوا میں گزاریں۔

    مراقبے کی عادت اپنائیں اور اس کے لیے یوٹیوب ویڈیوز کی مدد لیں۔

    اپنے سوشل سرکل کو بہتر کریں، ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں جو آپ کی حوصلہ افزئی کریں اور جن کے ساتھ بیٹھ کر آپ خوشی محسوس کریں۔ جو لوگ آپ کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اور آپ کی خرابیاں گنوائیں، ایسے لوگوں سے رابطہ ختم نہیں کرسکتے تو کم سے کم کردیں۔

    اپنی کامیابیوں اور خود کو حاصل نعمتوں کی ایک فہرست بنا کر رکھیں، جب بھی اداسی اور مایوسی محسوس کریں اس فہرست کو دیکھیں۔

    چاکلیٹ اور اخروٹ کا استعمال باقاعدگی سے کریں، یہ دماغ کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔

  • ذہنی دباؤ میں کمی لانے سے متعلق ماہرین کی نئی تحقیق

    ذہنی دباؤ میں کمی لانے سے متعلق ماہرین کی نئی تحقیق

    اوہایو: امریکی یونی ورسٹی کے ماہرین نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے کم استعمال سے اسٹریس (ذہنی دباؤ) کی سطح کم کی جا سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اوہایو اسٹیٹ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ کے کم استعمال سے ذہنی دباؤ کی سطح کم ہوتی ہے۔

    یہ سروے ریسرچ جریدے نیوٹرنٹس میں چھپی، ریسرچ اسٹڈی میں ایسی زیادہ وزن والی خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن کی آمدنی کم تھی، اور جو کم سن بچوں کی مائیں تھیں، اور یہ پروگرام 16 ہفتوں پر مشتمل تھا۔

    ریسرچ اسٹڈی کے دوران ان خواتین نے فاسٹ فوڈ اور زیادہ چکنائی والی اسنیکس پر مشتمل خوراک کا کم استعمال کیا، جس کا نتیجہ واضح طور پر ذہنی دباؤ میں کمی کی صورت میں نکلا۔

    وہ نقصانات جو ذہنی تناؤ کی وجہ سے جسم پر مرتب ہوتے ہیں

    خواتین کا کہنا تھا کہ لائف اسٹائل میں تبدیلی کی وجہ سے ان میں اسٹریس کی کمی میں مدد ملی۔ اس پروگرام کا مقصد ذہنی دباؤ میں کمی لا کر بڑھتے ہوئے وزن کو کنٹرول کرنا، صحت بخش خوراک اور جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا تھا۔

    ریسرچ کے مرکزی مصنف اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نرسنگ مائی وائی چانگ کا کہنا تھا پروگرام کے بہت سارے شرکا نے پہلی بار اسٹریس میں کمی کا اقرار کیا، اور کہا کہ وہ اس سے قبل ذہنی دباؤ سے بھری زندگی گزار رہے تھے۔