Tag: ذہنی دباؤ

  • موبائل فون کھوجانے کا خوف دہشت گرد حملے جتنا ہوسکتا ہے

    موبائل فون کھوجانے کا خوف دہشت گرد حملے جتنا ہوسکتا ہے

    اسمارٹ فون ہماری زندگیوں کا لازمی جز بن گیا ہے، اس کا چھن جانا یا کھو جانا ہمیں بے حد نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ ہم اپنا بہت سا قیمتی ڈیٹا کھوسکتے ہیں جبکہ مالی طور پر نقصان سے بھی دو چار ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں موبائل فون کھونے کے بعد کا خوف اور تناؤ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی دہشت گرد حملے کا شکار ہونے کے بعد کا خوف؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی انسان کی زندگی کا سب سے بدترین اور تناؤ زدہ وقت وہ ہوتا ہے جب وہ اچانک اپنے کسی پیارے کو کھودے، تاہم موبائل فون کھو دینے کا دکھ اور تناؤ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی دہشت گرد حملے کو رونما ہوتے دیکھا ہو۔

    ماہرین کے مطابق انسان کی زندگی میں متوقع طور پر آنے والی 5 تناؤ زدہ اور سب سے زیادہ متاثرکرنے والی صورتیں ایسی ہیں جو رونما ہونے کے بعد کسی انسان کی پوری زندگی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ان میں قدرتی آفات، نوکری سے ہاتھ دھونا یا کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہونا شامل ہے۔

    آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ اس فہرست میں سے ایک ٹرین یا بس کا چھوٹ جانا بھی شامل ہے۔ منزل پر پہنچنے سے قبل بس یا ٹرین کا چھوٹ جانا، اور منزل سے دور ہوجانے کا احساس، چاہے وہ سفر کتنا ہی غیر اہم اور معمولی کیوں نہ ہو، انسان کو بے حد صدمے سے دو چار کرسکتا ہے۔

    اس فہرست میں پہلے نمبر پر موبائل فون کھوجانے کے بعد ہونے والا تناؤ اور صدمہ ہے جو کسی انسان کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔

    کیا آپ کا موبائل فون بھی آپ کے لیے ایسی ہی اہمیت رکھتا ہے؟

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    آج کی مصروف زندگی میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور زندگی کی مختلف الجھنیں ہمارے دماغ کو تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں اور ہم زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کرنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

    زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم خود یا ہمارا کوئی عزیز ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ ہم ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے اور بعض اوقات لاعلمی کے باعث ہم ان کے مرض کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف ایک اداسی ہی ڈپریشن کی علامت نہیں ہے۔

    ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات ڈپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا


    ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟

    ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔ ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہوگا۔

    ذہنی تناؤ کا شکار افراد کی جانب سے برے رویے یا خراب الفاظ کی بھی امید رکھنی چاہیئے اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا چاہیئے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ رویہ متشدد صورت اختیار نہ کرے۔

    مریض کے خیالات ور جذبات کو سنتے ہوئے آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف اس کا دھیان مبذول کروایا جائے جیسے کسی لذیذ کھانے، کسی دلچسپ (خاص طور پر مزاحیہ) ٹی وی پروگرام، خاندان میں آنے والی کسی تقریب کی تیاری، شاپنگ، کسی اہم شخصیت سے ملاقات یا کہیں گھومنے کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کی جائے۔

    اسی طرح ڈپریشن کے شکار شخص کو جسمانی طور پر قریب رکھا جائے اور انہیں گلے لگایا جائے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا کہ قریبی رشتوں جیسے والدین، بہن بھائی، شریک حیات یا دوستوں کے گلے لگنا ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلے لگنا بے شمار فوائد کا سبب

    ڈپریشن کے شکار مریض کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے لہٰذا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی لفظ مرض کو بدتری کی جانب نہ گامزن کردے۔

    ماہرین کے مطابق آپ ڈپریشن کا شکار اپنے کسی پیارے یا عزیز کا ڈپریشن کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ کا استعمال کریں۔ یہ ان کے مرض کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔


    یہ کہیں

    تم اکیلے اس مرض کا شکار نہیں ہو۔

    تم ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت کو نہیں سمجھ سکتا / سکتی لیکن میری کوشش ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔

    وقت بدل جائے گا، بہت جلد اچھا وقت آئے گا اور تم اس کیفیت سے باہر نکل آؤ گے۔

    ہم (خاندان / دوست) تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری بیماری سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔


    یہ مت کہیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل الفاظ ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    بہت سے لوگ تم سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔

    زندگی کبھی بھی کسی کے لیے اچھی نہیں رہی۔

    اپنے آپ کو خود ترسی کا شکار مت بناؤ۔

    تم ہمیشہ ڈپریشن کا شکار رہتے ہو، اس میں نئی بات کیا ہے۔

    اپنا ڈپریشن ختم کرنے کی کوشش کرو۔

    تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا / سکتی ہوں۔ میں خود کئی دن تک اس کیفیت کا شکار رہا / رہی ہوں۔

    صرف اپنی بیماری کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔


    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون لازمی چاہیئے۔

    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • ذہنی دباؤ کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    ذہنی دباؤ کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    آج کی مصروف زندگی میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور زندگی کی مختلف الجھنیں ہمارے دماغ کو تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔

    جن دنوں آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہوں ان دنوں آپ چاہ کر بھی زندگی کی کسی چیز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا

    لیکن فکر مت کریں، یہاں ہم آپ کو ذہنی تناؤ کم کرنے کے چند نہایت انوکھے طریقے بتا رہے ہیں۔ اس کے لیے نہ ہی تو آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے نہ آپ کی بھاری رقم خرچ ہوگی۔


    لذیذ کھانا

    1

    ذہنی تناؤ کم کرنے کا ایک طریقہ لذیذ کھانا ہے۔ آپ کے پسند کا بہترین کھانا آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر آپ کے پسندیدہ فلیور کی آئس کریم بھی بہترین نتائج دے گی۔


    سیڑھیاں چڑھیں

    3

    سیڑھیاں چڑھنے سے آپ کی سانسوں کی آمد و رفت تیز ہوگی اور آپ زیادہ آکسیجن کو جذب کریں گے۔

    زیادہ آکسیجن جذب کرنے سے آپ کے جسمانی اعضا فعال ہوں گے نتیجتاً جسم کے لیے مضر اثرات رکھنے والے ہارمون کم پیدا ہوں گے۔


    صفائی کریں

    4

    بعض دفعہ ہمارے آس پاس پھیلی اور بکھری ہوئی چیزیں بھی دماغ کو دباؤ کا شکار کرتی ہیں۔

    چیزوں کو ان کے ٹھکانے پر واپس رکھا جائے اور آس پاس کے ماحول کو سمٹا ہوا اور صاف ستھرا کرلیا جائے تو ذہنی تناؤ میں کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔


    کنگھا کریں

    5

    سر کی مالش یا کنگھا کرنا سر کے دوران خون کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دوران خون تیز ہوگا تو دماغ خود بخود تازہ دم ہوگا اور اس پر چھایا تناؤ کم ہوسکے گا۔

    ایک مصروف اور تناؤ بھرا دن گزارنے کے بعد 10 سے 15 منٹ اپنے بالوں میں کنگھا کریں۔ یہ عمل یقیناً آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرے گا۔


    مساج کریں

    چہرے، بھوؤں، اور آنکھوں کا ہلکا سا مساج کرنا بھی ذہنی دباؤ کم کرنے کا سبب بنے گا۔


    پینٹنگ

    8

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں اور مصوری کا تعلق دماغ کے خوشگوار اثرات سے ہے۔ اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مصوری کریں، یہ یقیناً آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں


    غسل کریں

    موسم کی مناسبت سے سرد یا گرم پانی سے غسل کرنا بھی ذہنی تناؤ کو کم کرنے کا باعث بنے گا اور دماغی اعصاب کو پرسکون بنائے گا۔


    رقص کریں

    7

    رقص کرنا ذہنی دباؤ کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ خالی کمرے میں میوزک کے ساتھ رقص کرنا نہ صرف ذہنی دباؤ بلکہ وزن گھٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔


    اچھی خوشبو سونگھیں

    10

    پھولوں، گھاس، درختوں کی خوشبو یا بہترین پرفیومز کی خوشبو سونگھنا آپ کے دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔


    اچھی یادیں

    9

    ذہنی دباؤ کے وقت اس گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں جس میں آپ ہنسے اور زندگی سے لطف اندوز ہوئے۔ ہنسنے والی باتوں کو دوبارہ دہرائیں یقیناً آپ ہنس پڑیں گے۔ یہ عمل آپ کے ڈپریشن کو کم کرسکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


     

  • ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    آج کل کے دور میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    تاہم اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ اسے کام کی زیادتی یا حالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

    اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی عام اور ابتدائی علامات

    اس مرض کی ایک علامت اداسی ہے تاہم اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور یہ صرف ایک ابتدائی علامت ہے۔

    آج ہم آپ کو ڈپریشن کی کچھ غیر معمولی علامات بتا رہے ہیں۔ یہ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ڈپریشن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اب یہ وہ وقت ہے کہ مریض کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروی ہے۔

    اگر آپ اپنے یا اپنے آس پاس موجود افراد میں سے کسی کے اندر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے۔


    پشیمانی یا شرمندگی کا احساس

    3

    ڈپریشن کا شکار افراد شدید پشیمانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہر برے کام کے لیے اپنے آپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

    یہ عمل انفردای شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر کافی عرصے تک احساس کمتری اور بلا وجہ کی پشیمانی کا شکار رہتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔


    منفی سوچ

    4

    ڈپریشن کے مریض ہر بات میں منفی پہلو دیکھنے اور اس کے بارے میں منفی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد خوشی کے مواقعوں پر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال کر سب کو ناخوش کردیتے ہیں۔


    تھکاوٹ

    5

    ڈپریشن کے شکنجے میں جکڑے افراد ہر وقت تھکن اور غنودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں، منفی سوچتے ہیں اور منفی نتائج اخذ کرتے ہیں۔

    یہ عمل انہیں دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور وہ ہر وقت غنودگی محسوس کرتے ہیں۔


    عدم دلچسپی

    6

    اس مرض کا شکار افراد ہر چیز سے غیر دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک انہیں نہایت پرجوش کردینے والی چیزیں بھی ان کے لیے کشش کھو دیتی ہیں اور انہیں کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔

    ان کا عمومی رویہ بظاہر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لگتا ہے کیونکہ وہ کسی کام کو کرنے میں دلچسپی محسوس نہیں کر پاتے۔


    قوت فیصلہ میں کمی

    7

    ڈپریشن کی ایک اور علامت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہونا بھی ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے کسی بھی شے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ان کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ ہو، یا پھر روز یہ فیصلہ کرنا کہ آج چائے پی جائے یا کافی۔

    ایسے افراد بعض دفعہ کوئی فیصلہ کر بھی لیں تو وہ انہیں غلط محسوس ہوتا ہے اور کوئی مشکل وقت آنے سے قبل ہی وہ پچھتاووں کا شکار ہوجاتے ہیں۔


    جذبات میں تغیر

    1

    ڈپریشن کے شکار افراد کے جذبات اور موڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچانک بہت زیادہ غصہ یا چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کبھی نہایت خوش اخلاق اور مددگار بن جاتے ہیں۔

    ان کے جذبات کا یہ تغیر ان کے رشتوں اور دیگر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔


    خودکش خیالات

    2

    خودکشی اور موت کے بارے میں سوچنا کوئی عام عادت نہیں بلکہ ذہنی انتشار کی علامت ہے اور فوری طور پر علاج کی متقاضی ہے۔

    ایسے خیالات اس وقت آتے ہیں جب کوئی شخص زندگی سے بالکل مایوس اور نا امید ہوجائے اور اسے لگے کہ اب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون بھی لازمی درکار ہے۔


    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث

    روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث

    گھر سے باہر کھلی فضا میں وقت گزارنا دماغی و جسمانی دونوں طرح کی صحت کے لیے بہتر ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے روزانہ ساحل سمندر پر کچھ وقت گزارنے کے حیران کن فوائد بتائے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ساحل سمندر پر وقت گزارنا دماغ کو نہایت پرسکون کردیتا ہے جسے ماہرین بلیو اسپیس کا نام دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق سمندر کی لہروں کی آواز، پانی اور ریت کی خوشبو دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ایک تحقیق کے مطابق پانی ذہنی دباؤ کم کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔ ساحل سمندر پر جا کر چاہے آپ تیراکی کریں یا صرف پانی میں اپنے پاؤں ڈبوئیں، سمندر کا پانی ذہنی دباؤ کو حیران کن حد تک کم کردیتا ہے۔

    ایک اور تحقیق کے مطابق ساحل سمندر پر جانا آپ کے دماغ پر چھائی دھند اور غبار کو کم کرسکتا ہے اور آپ کا دماغ تازہ دم ہو کر نئے سرے سے کام کرنے لگتا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ کوئی نیا اور تخلیقی کام کرنا چاہ رہے ہیں تو سمندر پر جانا آپ کے کام کی شروعات کو آسان بنا سکتا ہے۔

    مجموعی طور پر ساحل سمندر کی سیر آپ کو اندرونی طور پر پرسکون کرتی ہے جس سے آپ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے یہ ورزشیں کریں

    دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے یہ ورزشیں کریں

    آپ نے دماغ کو زنگ لگنے کا محاورہ سنا ہے؟

    یہ بات کئی بار تحقیق سے ثابت کی جاچکی ہے کہ دماغ کو جتنا زیادہ فعال رکھا جائے اتنا ہی زیادہ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر دماغ کو کم استعمال کیا جائے تو آہستہ آہستہ اس کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے اور ہماری ذہانت میں فرق آنے لگتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کئی دماغی بیماریوں جیسے ڈیمینشیا، الزائمر اور خرابی یادداشت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوائل عمری ہی سے دماغی مشقیں اپنا کر ان بیماریوں سے کسی حد تک حفاظت ممکن ہے۔

    دراصل دماغ ایک ہی چیزوں اور ایک ہی معمول سے ’بور‘ ہوجاتا ہے لہٰذا اس کی ’کام میں دلچسپی‘ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے نئی نئی چیزوں سے روشناس کروایا جائے۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    ماہرین دماغ کو فعال اور سرگرم رکھنے کے لیے کچھ ورزشیں بتاتے ہیں جو آپ بغیر کسی محنت کے دن کے کسی بھی حصہ میں کر سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ ورزشیں کیا ہیں۔


    دماغی حساب

    11

    جب بھی پیسوں یا اعداد و شمار کا حساب کرنا ہو تو کاغذ قلم یا کیلکولیٹر کے بجائے زبانی حل کریں۔ اس سے آپ کا دماغ فعال ہوگا۔


    نئی زبان سیکھیں

    2

    نئی زبان سیکھنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔ نئے نئے الفاظ، ان کے مطلب اور تلفظ سننا، بولنا اور سمجھنا آپ کے دماغ کی سستی کو دور کردے گا اور آپ اپنی ذہانت میں اضافہ محسوس کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دو زبانیں بولنے والوں کا دماغ زیادہ فعال


    غیر بالادست ہاتھ کا استعمال

    3

    اگر آپ سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی تو اپنے الٹے، اور الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے عادی ہیں تو دن میں کچھ کام سیدھے ہاتھ سے ضرور نمٹائیں۔ یہ جسمانی طور پر مشکل کام ہوسکتا ہے مگر دماغ کے لیے یہ ایک بہترین مشق ہے۔

    ہم جو ہاتھ استعمال کرتے ہیں ہمارے دماغ کا وہی حصہ زیادہ فعال ہوتا ہے۔ دوسری طرف کے حصہ کو فعال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس طرف کے ہاتھ کو حرکت دی جائے۔ ماہرین اس کے لیے بہترین ورزش غیر بالا دست ہاتھ سے دانت برش کرنا بتاتے ہیں۔


    مختلف طریقہ سے مطالعہ

    9

    جب بھی مطالعہ کریں مختلف طریقے اپنائیں۔ کبھی باآواز بلند، کبھی ہلکی آواز میں پڑھیں۔ کبھی صرف دل میں پڑھیں۔ کبھی کسی دوست سے کہیں کہ وہ آپ کو پڑھ کر سنائے۔


    خوشبویات سونگھیں

    6

    خوشبو سونگھنا بھی دماغی خلیات کو فعال کرتا ہے۔ اپنے بستر کے قریب کوئی خوشبو رکھیں اور صبح اٹھنے کے بعد اسے سونگھیں۔ اسی طرح اپنے بیگ میں، آفس کی ڈیسک پر بھی خوشبویات رکھیں اور دن بھر مختلف کاموں کے دوران اسے سونگھتے رہیں۔


    صبح کی روٹین بدلیں

    4

    صبح کی ایک ہی روٹین کو لمبے عرصہ تک چلانے کے بجائے تھوڑ ے تھوڑے دن بعد اس میں کچھ تبدیلی لائیں۔

    مثلاً کسی دن ناشتہ کرنے کے بعد تیار ہوں، کسی دن چائے کی جگہ کافی کا استعمال کریں، کسی دن صبح خبریں دیکھنے کے بجائے کوئی ٹی وی شو (سرسری سا) دیکھ لیں۔ یہ سارے کام آپ کے دماغ کو سرگرم کرکے اسے فعال کریں گے۔


    کھانے کے لیے جگہ کی تبدیلی

    5

    ہر روز ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے جگہ تبدیل کریں۔ ڈائننگ ٹیبل پر کرسی بھی تبدیل کریں۔

    کسی دن اگر آپ کھانے کے قریب بیٹھے ہیں اور ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے تو کسی دن کھانے سے دور بیٹھیں۔ کھانے کی اشیا، نمک، چینی وغیرہ لینے میں دقت آپ کے دماغ کو چست کردے گی۔


    نئی چیزیں دیکھیں

    7

    سفر کے دوران گاڑی کے شیشہ بند رکھنے کے بجائے کھلے رکھیں اور باہر ہونے والے کاموں، آوازوں اور خوشبوؤں کا تجربہ کریں۔

    مزید پڑھیں: سیاحت کرنے کے فوائد


    سپر مارکیٹ میں جائیں

    8

    سپر مارکیٹ میں بے شمار ورائٹی موجود ہوتی ہے۔ جب بھی سپر مارکیٹ جائیں کسی شیلف کے قریب رک کر اوپر سے نیچے تک دیکھیں۔ آپ ایک ہی شے کو مختلف ڈبوں اور پیکنگ میں بند دیکھیں گے۔ اس میں جو چیز آپ کے لیے اجنبی ہو اسے اٹھائیں اور اس کے اجزا پڑھیں۔

    یہ کچھ نیا سیکھنے جیسا ہوگا اور آپ کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔


    کچھ نیا کھائیں

    10

    اپنی ذائقہ کی حس کو فعال کریں اور نئی نئی چیزیں کھانے یا چکھنے کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ روٹین کے کھانے کھانا دماغ کو سست کردیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈپریشن سے چھٹکارہ دلانے والی غذا

    ڈپریشن سے چھٹکارہ دلانے والی غذا

    ڈپریشن یا ذہنی دباؤ آج کل ایک عام مرض بن چکا ہے۔ اگر پہلے دن سے اس مرض کی علامات پر غور کر کے مختلف طریقوں سے اس کا علاج شروع کردیا جائے تو بہت جلد اس سے نجات مل سکتی ہے۔

    حال ہی میں امریکی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ دہی ڈپریشن میں کمی کرنے کے لیے نہایت معاون غذا ہے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف ورجینیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دودھ کو دہی میں تبدیل کرنے والا بیکٹریا ذہنی تناؤ سے کمی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    yogurt

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے چوہوں پر اس کا تجربہ کیا۔ انہوں نے دہی میں پائے جانے والے اجزا کو چوہوں کی خوراک میں شامل کیا۔

    ان اجزا کے باقاعدہ استعمال سے چوہوں کے دماغی خلیات میں تبدیلی دیکھی گئی اور وہ نسبتاً پرسکون حالت میں پائے گئے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ڈپریشن سے لڑنے کی کوششوں کو نئی جہت دے سکتی ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن سے نجات پانے کے لیے مہنگی اور زود اثر ادویات کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا حل صرف ایک پیالہ دہی ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    یاد رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کی عام علامات میں اداسی، ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات آنا شامل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دماغی طور پر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی عادات و رویوں کے عادی ہوتے ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری دماغی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ان عادات و رویوں سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی عوامل جیسے کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آئیے ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ان سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔


    ڈپریشن

    2

    مستقل ڈپریشن کا شکار رہنا آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔

    ایک طویل عرصے تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بالآخر اسی کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے


    تنقید کا نشانہ بننا

    11

    آپ نے اب تک اسکول بلنگ کا نام سنا ہوگا جس میں کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے نتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کی جگہوں پر بھی لوگ بلنگ یا تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں بلنگ کا نشانہ بننا دماغی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس کے اثرات سے نجات کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔


    کاموں کو ٹالنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ناکامی کے خوف یا سستی کے باعث اسے ٹال دیتے ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    یاد رکھیں پہلا قدم اٹھانے کا مطلب کسی کام کو نصف پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ جب آپ کام شروع کریں گے تو خود اسے مکمل کرنا چاہیں گے۔


    ناپسندیدہ رشتے

    ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشروں یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچوں کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور ہوجانا ہی بہتر ہے۔


    لوگوں میں گھرے رہنا

    5

    محبت کرنے والے دوست، احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

    تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغ کو خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد


    جھک کر چلنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں اور کاندھوں کو جھکا کر بیٹھتے ہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔


    ہر چیز کی تصویر کھینچنا

    7

    معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔

    ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیا کہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔


    زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا

    8

    زندگی مسائل، دکھوں، پریشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشیوں کانام ہے۔

    یہ سوچنا احمقانہ بات ہے کہ کسی کی زندگی میں مصائب یا دکھ نہ ہوں۔ انہیں سنجیدگی سے لے کر ان پر افسردہ اور ڈپریس ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ان کا حل سوچنا چاہیئے۔


    ورزش نہ کرنا

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ویک اینڈ پر ورزش کرنا زیادہ فوائد کا باعث


    ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

    9

    ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔

    یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریاں


    بیک وقت کئی کام کرنا

    10

    ماہرین کی نظر میں ملٹی ٹاسکنگ ایک اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

    اس کے برعکس ایک وقت میں ایک ہی کام پوری یکسوئی اور دلجمعی سے کیا جائے۔ ملٹی ٹاسکنگ دماغی خیالات کو منتشر کر کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔