Tag: ذہنی صحت

  • ’صدر ٹرمپ کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کیلیے خطرہ ہے‘

    ’صدر ٹرمپ کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کیلیے خطرہ ہے‘

    صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے سے متعلق بیان کے بعد دنیا بھر سے شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اب انہیں ذہنی بیمار قرار دے دیا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ پر قبضے کا بیان دیا تھا جس پر دنیا بھر سے ردعمل عمل سامنے آ رہا ہے اور خود وائٹ ہاؤس کو بھی اس حوالے سے وضاحت جاری کرنی پڑی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی بیان کے تناظر میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے امریکی صدر کو ذہنی بیمار قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کا غزہ سے متعلق بیان احمقانہ ہے اور ان کی ذہنی صحت امریکا اور دنیا کے لیے خطرناک ہے۔

    لیاقت بلوچ نے اپنے بیان میں ملکی سیاسی صورتحال پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی بحران پورے پاکستان میں بے یقینی کو بڑھا رہا ہے۔ سندھ باب الاسلام ہے، لیکن یہاں کے حکمرانوں نے اسے باب فسادات بنا دیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سندھ کی سیاست کرپشن اور جبر مافیاز کی سرپرست بنا دی گئی ہے۔ سندھ کی سیاسی سول سوسائٹی قیادت آگے بڑھے اور تعلیم کو مکمل تباہی سے بچائے۔ پانی تقسیم وچوری کے خدشات کا ازالہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/palestinians-expulsion-from-gaza-will-be-permanent/

  • ماہرین نے ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت کو نقصان پہنچنے سے خبردار کر دیا

    ماہرین نے ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت کو نقصان پہنچنے سے خبردار کر دیا

    دنیا بھر میں آج ذہنی صحت کا دن منایا جا رہا ہے، اس سال کا موضوع ’مینٹل ہیلتھ ایٹ ورک‘ رکھا گیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ نامی تنظیم نے رواں برس کے عالمی یوم ذہنی صحت کے لیے ایک خاص تھیم منتخب کیا ہے جو یوں ہے: ’’یہی وقت ہے کہ کام کی جگہ پر دماغی صحت کو ترجیح دی جائے۔‘‘

    کام یا ملازمت کی جگہوں پر ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کو ماہرین نے بہت اہم قرار دیا ہے، اور ماہرین کہتے ہیں کہ درگزر کرنا سیکھیں اور زندگی کو آسان بنائیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن کا بروقت علاج نہ ہونے سے انسان کے دیگر اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں، اس لیے ذہنی تناؤ سے بچنا ہے تو صحت مند خوراک اور ورزش کریں۔

    پاکستان میں بھی ذہنی صحت کے مسائل پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں، محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر 4 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔

    رواں برس کی تھیم کے حوالے سے فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ملازمت پیشہ افراد دن کا زیادہ تر وقت کام میں صرف کرتے ہیں، یہ کام نہ صرف روزی روٹی کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ زندگی کو معنی بھی فراہم کرتا ہے اور خوشی بھی، لیکن بدقسمتی سے بہت سارے لوگوں کے لیے یہ کام نہ خوشی لاتا ہے نہ زندگی کو بہتر کر پاتا ہے، یہی کام ان کی ذہنی صحت اور فلاح و بہبود کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ان کی ذہنی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔

    ڈپریشن اور بے چینی جیسے ذہنی صحت کے مسائل پوری دنیا میں کام کی جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں، جس سے نہ صرف یہ کہ کام کی جگہ پر حاضری متاثر ہوتی ہے بلکہ پیداواری اور مجموعی کارکردگی پر اثر مرتب ہوتا ہے، اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو نہ صرف انسان کی پوری جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کی اور اس کے خاندان کی معاشی زندگی بھی شدید متاثر ہو جاتی ہے، اور یوں ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق اس سے ممالک کو سالانہ طور پر 1 کھرب امریکی ڈالر کی حیران کن اقتصادی لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ کے صدر سویوشی آکیاما کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں کام کی جگہ پر ذہنی صحت کو فروغ دینے اور اس سلسلے میں بہترین طرز عمل اختیار کرنے اور اچھا ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ کارکنان اچھی ذہنی حالت کے ساتھ پیداوار میں اپنی صلاحیت صرف کر سکیں۔

  • کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    کیا ویڈیو گیمز سے بچوں کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کر دیا

    ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے کھیل کے میدان کی بجائے اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ پر زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ویڈیو گیمز کے عادی ہیں، ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے دن بھر کمرے میں بیٹھ کر گیم میں مگن رہتے ہیں، اور بغیر پلک جھپکائے لمبے وقت تک موبائل پر ویڈیو گیمز کھیلتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کا دماغ ٹھیک سے کام کرنے کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔

    صحت کے ماہرین کے مطابق موبائل فون پر زیادہ دیر تک گیم کھیلنے کی وجہ سے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے جس سے بچوں کو سر درد، بے چینی اور بھاری پن محسوس ہونے لگتا ہے، جس کے سبب پڑھائی میں ان کا دل بھی نہیں لگتا کیوں کہ ان کے ذہن پر ویڈیو گیمز حاوی رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو اس صورت حال میں توجہ دینی ہوگی، کیوں کہ اس سے بچوں کی ذہنی صحت خراب ہو رہی ہے، وہ چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں، اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے خاندان اور معاشرے سے بھی بالکل کٹ رہے ہیں۔

    رات کو دیر تک موبائل فون پر آن لائن گیمز کھیلنے کی وجہ سے آنکھوں پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بینائی متاثر ہو جاتی ہے، اور نیند کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، جس سے انھیں دن بھر تھکن اور بوریت کا احساس ستاتا رہتا ہے، والدین اور دوستوں سے دوری کی وجہ سے انھیں تنہائی کا احساس بھی ہونے لگتا ہے، یوں وہ اداس اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کا اسکرین ٹائم کم کرنے کی کوشش کریں، اور اسکرین ٹائم 2 گھنٹے سے زیادہ نہ ہونے دیں۔ ماہرین نے یہ دل چسپ حل بھی بتایا ہے کہ والدین بالخصوص مائیں اپنے بچوں کو گھر یعنی کچن کے چھوٹے موٹے کام میں پیار اور حکمت سے مشغول کروائیں، اور باہر کے کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

    والدین خود بھی موبائل فون کا استعمال کم کر دیں، اور اپنے عمل سے بتائیں کہ یہ بھی دوسری چیزوں کی ایک چیز ہے جسے ضرورت کے وقت ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا: ایک لاعلاج بیماری

    فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا (frontotemporal dementia) کو مختصراً ایف ٹی ڈی بھی لکھتے ہیں۔ اس مرض کا سبب دماغ کے فرنٹل اور ٹیمپورل لوبز میں مسلسل گھٹتے ہوئے اعصابی خلیات بنتے ہیں۔

    ایف ٹی ڈی کو ماہرین ڈیمنشیا کی ایک عام قسم بھی سمجھتے ہیں۔ ڈیمنشیا کی یوں تو بہت سی اقسام ہیں اور اِن سب میں یادداشت کا متاثر ہونا ایک بینادی علامت ہے، مگر عام طور پر ڈیمنشیا میں کئی دیگر علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، جن میں کسی شخص کے روزمرہ کے کام متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے مزاج یا شخصیت میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی فیصلہ سازی کی اہلیت متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایسا شخص دوسروں پر زیادہ انحصار کرنے لگتا ہے۔

    ایک جیسی علامات والی ذہنی بیماریوں کے لیے استعمال ڈیمنشیا کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس فہرست میں الزائمرز بھی شامل ہے۔ تاہم یہ عام ’ڈیمنشیا‘ سے الگ ہے۔

    ایف ٹی ڈی ایک غیرمعمولی بیماری ہے اور طبّی محققین نے اسے لاعلاج قرار دیا ہے۔ ایف ٹی ڈی 45 سے 65 سال کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس کی بعض اقسام عمر رسیدہ افراد میں بھی پائی جاتی ہیں۔

    طبّی تحقیق کے مطابق ڈیمنشیا کی دیگر اقسام کی طرح ایف ٹی ڈی بھی آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور پھر بدترین صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

    ایف ٹی ڈی کی چند علامات
    اس مرض کی علامات کا اظہار دماغ کے مثاثرہ حصوں پر منحصر ہے لیکن ان علامات میں شخصیت یا طرزِ عمل میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبان، ارتکاز اور یادداشت کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس بیماری کی دیگر علامات جسمانی پیچیدگیوں کی شکل میں‌ سامنے آسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر مثانے یا آنتوں کے مسائل، پٹھوں کی کمزوری یا نگلنے میں دشواری اس کے شکار ہونے والے کو محسوس ہوسکتی ہے۔

    طبّی محققین کسی کے رویے میں تبدیلی کو بھی اس بیماری کی ایک علامت سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں‌ متاثرہ فرد دوسروں سے نامناسب رویہ اور بدسلوکی کرسکتاہے، جب کہ وہ فیصلہ سازی میں کم زور نظر آتا ہے اور عدم ارتکاز کا شکار ہوجاتا ہے۔

    معروف امریکی طبّی ادارے کی تحقیقی رپورٹ مطابق ایف ٹی ڈی سے لوگوں کی شخصیت اور رویے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات اسے ذہنی مرض سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی غلط تشخیص کی بنیاد پر علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لاعلاج ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات کو بھی کم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم مستقل نگرانی سے ایسے مریض کو کافی حد تک سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین سمجھتے ہیں‌ کہ بیماری بڑھنے سے اور تشخیص کے بعد اوسطاً لوگ آٹھ سے 10 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم بعض مریض طویل عرصہ بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ایف ٹی ڈی کی تشخیص کیسے ممکن ہے؟
    اس کی تشخیص کے لیے کوئی خصوصی ٹیسٹ موجود نہیں اور یہ جاننے کے لیے کہ کیا طبّی معائنے کے لیے آنا والا ایف ٹی ڈی کا شکار ہے، اس سے بات چیت کے دوران علامات پر غور کرنے کے علاوہ معالج کئی طرح کے ٹیسٹ تجویز کرسکتا ہے اور یہ طویل مدتی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔

  • ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی مشروم کی ایک خاص جڑی بوٹی کو ڈپریشن اور دیگر ذہنی مسائل کے لیے نہایت فائدہ مند پایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشرومز کے خصوصی مرکب سائلو سائبن جسے پھپھوندی بھی کہا جاتا ہے سے تیار کی گئی دوائی کے دوسرے ٹرائل کے نتائج بہترین آنے پر ماہرین نے اسے مستقبل کی حیران کن دوائی قرار دیا ہے۔

    ماہرین نے سائلو سائبن سے تیار کی گئی گولیوں کو آزمانے کے لیے برطانیہ، یورپ اور لاطینی امریکا کے 22 علاقوں کے 233 رضا کاروں کی خدمات حاصل کیں۔

    ماہرین نے ان رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں جن میں شدید ڈپریشن تھا اور ان کا مرض ادویات یا تھراپی کے سیشن لینے کے بعد بڑھ جاتا تھا۔

    ماہرین نے رضا کاروں کو 3 مختلف گروپس میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک گروپ کو یومیہ ایک ملی گرام، دوسرے گروپ کو 10 ملی گرام جبکہ تیسرے گروپ کو 25 ملی گرام کی گولیاں دیں۔

    تمام رضا کاروں کو گولیاں دینے کے بعد انہیں تھراپی سیشن لینے کے لیے بھی کہا گیا اور تین ماہ تک ماہرین نے رضاکاروں کے ٹیسٹس کرنے سمیت ان کے دماغ کی لہریں اور رویوں کو بھی پرکھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق کے اختتام پر ان افراد کو زیادہ پر سکون پایا گیا، جنہوں نے زیادہ گرام پر مشتمل خوراک لی تھی، یعنی ایک اور 10 گرام مقابلے 25 گرام کا ڈوز لینے والے افراد کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔

    ماہرین کے مطابق گولیاں لینے کے بعد تھراپی سیشن والے افراد میں 6 گھنٹے تک ڈپریشن دور ہوگیا اور ان کے رویہ بھی بہتر ہوا اور انہوں نے پرسکون ماحول میں موسیقی سننے سمیت دوسرے کام سر انجام دیے۔

    ماہرین نے مشرومز کی جڑی بوٹی سائلو سائبن سے تیار کی گئی دوا کو جادوئی دوا قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے ڈپریشن جیسے عام مرض پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس دوائی کے تھراپی کے ساتھ حیران کن نتائج مل سکتے ہیں۔

  • وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    وہ 5 دماغی امراض جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہے ہیں

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں اس وقت 5 کروڑ افراد کسی نہ کسی نوعیت کے ذہنی امراض کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی امراض کو اہم مسئلہ خیال کرتے ہوئے اسے اولین ترجیح دینا ضروری ہے اور صحت کے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

  • شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ نہ صرف ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی بری طرح اثرات ڈالنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی کا حصول ضروری ہے۔

    جب کوئی شخص شدید ذہنی دباؤ کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت بے تحاشا منفی خیالات اور احساسات اس کے ذہن پر یلغار کرتے ہیں، لیکن آپ کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے تکلیف دہ اور منفی احساسات و خیالات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے۔

    لیکن اگر ہم ان خیالات اور احساسات میں الجھ جائیں تو یہ ہمارے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔

    یہ جاننا بھی اہم ہے کہ الجھ جانے سے کیا مراد ہے؟ دراصل الجھ جانے کی بہت سی اقسام ہیں۔ اگر کوئی چیز کھونٹی سے پھنس جائے تو وہ اس سے دور نہیں جا سکتی، کھونٹی اسے پھنسائے رکھتی ہے، جیسا کہ مچھلی، بالکل اسی طرح ہم بھی اپنے تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ جاتے ہیں۔

    یہ بھی ضرور پڑھیں: جسم پر ذہنی دباؤ کے کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟

    ایک لمحے آپ بچوں کے ساتھ خوش گوار موڈ میں کھیل رہے ہوں گے، لیکن اگلے ہی لمحے آپ تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ سکتے ہیں۔ ابھی آپ مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور اگلے ہی لمحے آپ شدید غصے والے خیالات اور احساسات میں پھنسے ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارۂ صحت) کی ایک گائیڈ کے مطابق یہ تکلیف دہ خیالات اور احساسات بری طرح پھنسا کر ہمیں ہماری اقدار سے دور کر دیتے ہیں، یعنی وہ گہری خواہشات جن کے مطابق ہم اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یعنی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہم اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ پیار کرنے والے، سمجھ دار ماں یا باپ ہیں، بچوں پر توجہ دیتے ہیں، اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مستقل مزاجی کو پسند کرتے ہیں، باہمت ہیں، تو منفی احساسات و خیالات آپ کو پھنسا کر ان اقدار سے محروم کر سکتے ہیں۔

    اقدار یہ بتاتی ہیں کہ آپ کس طرح کے انسان بننا چاہتے ہیں، آپ خود سے، دوسروں سے اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے کس طرح پیش آنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ اقدار کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ اپنا اور دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، اور ایسا کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن جب ہم منفی خیالات اور احساسات میں پھنس جاتے ہیں تو اقدار سے دور ہونے لگتے ہیں۔

    تکلیف دہ، منفی خیالات و احساسات کی اقسام

    اس کی بہت سی اقسام ہیں جو ہمیں الجھا سکتی ہیں، جیسا کہ ہار مان لینا، ہم کہنے لگتے ہیں:

    میں نے ہار مان لی

    یہ میرے لیے بہت مشکل ہے

    دوسروں کو الزام دینے کے بارے میں سوچنا یعنی یہ اس کی غلطی ہے، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

    اپنے بارے میں انتہائی منفی رائے ہونا، یعنی میں کم زور ہوں، اور میں پاگل ہوں

    گزر جانے والے تکلیف دہ حالات کے بارے میں سوچتے رہنا

    مستقبل کے بارے میں اندیشے ہونا

    دوسروں کے بارے میں فکر مندی کے شدید احساسات محسوس کرنا

    یعنی کیا وہ ٹھیک ہے؟ اب وہ کہاں ہے؟

    جب ہم منفی خیالات و احساسات میں الجھ جاتے ہیں تو ہمارا رویہ بدل جاتا ہے، ہم اکثر ایسی چیزیں کرنے لگ جاتے ہیں جو ہماری زندگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔

    ہو سکتا ہے کہ ہم کسی لڑائی جھگڑے یا بحث میں الجھ جائیں، یا ہم خود کو ان سے دور کر لیں گے جن سے ہم پیار کرتے ہیں، یا بہت سارا وقت بستر میں لیٹے ہوئے گزار دیں گے۔

    عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ماہرین ان رویوں کو ‘دور کر دینے’ والے رویے کہتے ہیں، کیوں کہ جب ہم یہ رویے اپناتے ہیں تو ہم اپنی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں۔

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • کیا کرونا ویکسینز کے استعمال سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے؟ نئی تحقیق

    کیا کرونا ویکسینز کے استعمال سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے؟ نئی تحقیق

    واشنگٹن: امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا ویکسینز کا استعمال ذہنی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔

    امریکن جرنل آف پریونٹیو میڈیسین میں شایع شدہ مقالے کے مطابق نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کی تحقیق میں محققین نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانا لوگوں کی ذہنی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق ویکسینز کے استعمال سے چوں کہ بیماری سے متاثر ہونے اور اسپتال اور موت کے خطرے میں کمی آتی ہے، تو اس کا مثبت اثر ذہن پر بھی مرتب ہوتا ہے، اور کووڈ 19 سے تحفظ کا احساس ذہنی صحت اور معیار زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باعث عالمی سطح پر ذہنی بے چینی اور نفسیاتی مسائل کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہوا، جس کی متعدد وجوہ ہیں جیسے ملازمتوں اور آمدنی سے محرومی، سماجی طور پر تنہا ہو جانا وغیرہ۔

    محققین اس سلسلے میں 8 ہزار بالغ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی، ویکسینیشن سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے ان سے مارچ 2020 سے جون 2021 کے دوران کئی بار انٹرویو کیے گئے، نتائج کے مطابق دسمبر 2020 سے جون 2021 کے دوران کرونا ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لینے والے بالغ افراد کے ذہنی دباؤ میں 7 فیصد کمی آئی، مکمل ویکسینیشن پر یہ شرح 25 فیصد تک گھٹ گئی۔

    محققین کے مطابق اس کی وجہ ویکسینیشن کے بعد بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرے میں کمی تھی، محققین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے ویکسینیشن کے ذہنی صحت کے لیے فوائد کا اظہار ہوتا ہے جو اس کا ایک اضافی فائدہ ہے۔

    اس سے قبل ستمبر 2021 میں امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔

  • مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کے تیل کے کیپسول کا استعمال ذہنی صحت کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچاتا کیونکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن پر نہ ہونے کے برابر یا کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھل کے تیل کے سپلیمنٹس سے ڈپریشن کی روک تھام یا مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اس تحقیق میں 18 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 50 سال یا اس سے زیادہ تھی اور کسی میں ڈپریشن کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس کی علامات کے خطرے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی مزاج کے معیار پر کسی قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔

    درحقیقت تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ ان سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس سے منسلک علامات کا خطرہ کچھ حد تک بڑھ گیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈپریشن کے خطرے میں معمولی اضافہ بہت زیادہ نمایاں نہیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان سپلیمنٹس سے مزاج پر کوئی فائدہ مند یا نقصان دہ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور یہ نتیجہ ہم نے ان افراد کا 7 سال تک جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔