Tag: ذہنی صحت

  • نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے نئی نسل کو ڈپریسڈ جنریشن قرار دیتے ہوئے ڈپریشن کی متعدد وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

    دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

    مینٹل ہیلتھ ڈیلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر 15 وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان وجوہات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل اور ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

    امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

    اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    تاہم نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

    جنریشن گیپ: ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے نئی اور پرانی نسل کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے دونوں نسلوں کے درمیان گفت و شنید کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔

    سوشل میڈیا: ڈپریشن کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس پر لوگ اپنی مصنوعی شخصیات پیش کرتے ہیں نتیجتاً دیگر افراد احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال: موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہیں۔

  • اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    اور اب اومیکرون کا خوف، ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد طریقہ بتا دیا

    آسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ تھِنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ نے پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی، سماجی اور مالی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    فکرمندی اور خوف کی وجہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ آج آپ نے اپنے دماغ کو کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے، کیا آپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟

    کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ایسے میں ہم غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

    دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث ہوتے ہیں، ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں، اس لیے جب ہم برا محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں آسانی سے آ جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور معلومات سے بھر جائے، ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں آسانی سے منفی تصویریں اور خیالات ابھرنے لگ جاتے ہیں، جو بعد میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ناامیدی اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔

    ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام کرتا ہے، وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں، اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیالات کم ہوتے ہیں۔

    خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ہمیں ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

    جس سے خوشی محسوس ہو

    چاہے کھانا پکانا ہو، گیراج میں کام کرنا ہو، سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو، وہ کام جس سے آپ کو خوشی محسوس ہو، اسے کرنے سے آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوں گے، یہ کام آپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا علاج بھی کر سکتا ہے۔

    دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے

    انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے، جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے، گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں، انھوں نے لاک ڈاؤن میں اکیلا پن زیادہ محسوس کیا، خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی خیالات کو دور رکھتی ہے، ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔

    غذائیت سے بھرپور خوراک

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے انجام دینے، اور حتیٰ کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو نیوٹرینٹس موجود ہوں، طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔

    مائیکرو نیوٹرینٹس ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہے، ان میں وٹامنز, اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی پیداوار، مدافعتی افعال، خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں، جب کہ معدنیات نشوونما، ہڈی کی صحت، مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جب کہ میکرونیوٹرینٹس میں کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین شامل ہیں، یہ وہ چیزیں جو بہت استعمال ہوتی ہیں، یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں۔

  • کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    کرونا وبا: ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا

    دنیا کووِڈ 19 کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے، جو نئے ویرینٹ اومیکرون کی صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔

    ماہرین ایک طرف 50 تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا یہ 2 تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی ثابت ہوگا، یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے، یعنی کم زور ہو گیا ہے۔

    دوسری طرف، جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیالات میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ لوگ پُرامید ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔

    ایسے میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے اسکول آف سائیکلوجیکل سائنس میں ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ آسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس لائف کے ہیلپ لائن پر صرف ماہِ اگست ماہ میں روزانہ اوسطاً 3 ہزار 505 کالز کی گئیں، یہ کالیں مختلف پریشانیوں میں مبتلا شہریوں نے کیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی 57 سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ اس سال کے آغاز سے 6 لاکھ 94 ہزار 4 سو پریشان آسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس لائف لائن پر کال کیا۔

    جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکلات، خراب رشتہ، اکیلا پن اور خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    لانگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے مسائل
    بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ

    دنیا بھر میں سنہ 2020 کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی اضافہ ہوا، ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی، تحقیق میں بتایا گیا کہ 2020 میں دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی 7 کروڑ 60 لاکھ جبکہ ڈپریشن کے 5 کروڑ 30 لاکھ کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں، بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں ملازمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار نہیں رکھ سکے، جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران شائع ہونے والی 48 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔

    اس کے بعد تمام تر تفصیلات کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو دیکھا جا سکے۔

    اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔

    تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ 2020 کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے 24 کروڑ 60 لاکھ جبکہ اینگزائٹی کے 37 کروڑ 40 لاکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔

    سنہ 2019 کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں 28 فیصد اور اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے 68 فیصد اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئے، بالخصوص 20 سے 24 سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے، ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

  • بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    آج کل کی زندگی میں بہت زیادہ مصروفیات تھکن کا شکار کردیتی ہیں اور اس کے لیے کچھ وقت فارغ رہ کر گزارنا بہترین حل ہے، تاہم اب ماہرین نے بہت زیادہ فراغت کو بھی نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ دن بھر میں ساڑھے 3 گھنٹے سے زیادہ فراغت ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور 7 گھنٹے تک فارغ رہنا لوگوں کو خود برا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے فارغ وقت اور خوشی کے درمیان ایک اتار چڑھاؤ پر مبنی تعلق کو دریافت کیا، اگر فراغت کا وقت بہت کم ہے تو بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو بہت زیادہ تناؤ محسوس ہوتا ہے، مگر زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد بہت زیادہ فارغ رہ کر گزارتا ہے تو بھی اس کی شخصیت اور خوشی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر فراغت کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے، اگر اس کو تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 21 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو 2012 اور 2013 کے دوران ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ان افراد سے گزشتہ 24 گھنٹوں کا تفصیلی احوال معلوم کیا گیا اور ان سے اپنی ذہنی حالت کے بارے میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ فارغ رہ کر 5 گھنٹے گزارنے سے لوگوں میں خوشی کا احساس گھٹنے لگتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو بہت کم یا بہت زیادہ فراغت ہوتی ہے وہ ذہنی طور پر بدترین اثرات محسوس کرتے ہیں جبکہ معتدل وقت گزارنے والوں کا ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔

    ماہرین نے تسلیم کیا کہ یہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی جیسے ضروری نہیں کہ بہت زیادہ فارغ وقت ہر فرد پر یکساں اثرات مرتب کرتا ہو، تحقیق کے نتائج لوگوں کے تاثرات پر مبنی تھے لہٰذا ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اسی طرح کے تجربے کا سامنا ہوتا ہو۔

  • ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    برسلز: کرونا وائرس کے ذہنی صحت پر طویل المدت اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت نے تشویش ناک بیان جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (WHO) نے خبردار کیا ہے کہ ذہنی صحت پر کووِڈ 19 کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاک ڈاؤن، قرنطینہ، بے روزگاری اور معاشی خطرات ایسے معاملات ہیں جن سے لوگوں کے ذہن پر طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان اثرات کو ڈبلیو ایچ او نے ذہنی صحت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔

    صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ صورت حال میں وبا کی وجہ سے ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات طویل المیعاد ہوں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے یورپی ریجنل ڈائریکٹر ہنس کلوگی نے اس تناظر میں ذہنی صحت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپ اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ کووڈ نائنٹین کے نتائج سے نبردآزما ہیں، جب کہ چالیس لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، بے شمار کاروبار تباہ ہو گئے، جس کی وجہ سے وبا سے مینٹل ہیلتھ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    ہنس کلوگی نے ایک انٹرویو کے دوران نئے کرونا وائرس کے لیبارٹری میں تیاری کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سارس 1 وائرس کے منبع کی تلاش میں ماہرین کو تقریباً 2 سال لگے تھے، اس کے بعد وائرس اور ابتدائی میزبان کے درمیان تعلق کا تعین کیا جا سکا تھا، اس لیے یہ نارمل ہے کہ اس میں وقت لگتا ہے۔

  • انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟

    کو وِڈ 19 کی مہلک ترین وبا کے باعث جہاں بڑی تعداد میں لوگ مرے ہیں، اور معاشی نقصانات بھی نہایت وسیع سطح پر مرتب ہوئے ہیں، وہاں یہ بیماری انسانی دماغی صحت کے لیے بھی نہایت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔

    انسان کی دماغی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات کیا ہیں؟ اس حوالے سے ایک ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر تامر المری بتاتی ہیں کہ ذہنی صحت پر کرونا وائرس کے متعدد اثرات ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

    بے چینی کی کیفیت، ذہنی تناؤ اور زیادہ غصہ محسوس کرنا، نیند میں مشکل ہونا یا خلل، روزمرہ کے معمول میں عدم توازن وغیرہ۔

    محققین نے کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی ذہنی صحت پر بھی اس کے اثرات کو نوٹ کیا ہے، آکسفورڈ یونی ورسٹی کے محققین کی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شفایاب ہونے والوں میں سے 18 فی صد افراد صحت یابی کے 3 ماہ کے اندر ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحت یاب ہونے والوں کو مختلف نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً بے خوابی، افسردگی اور اضطراب اس کی سب سے عام علامات ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں دماغی کم زوری جیسے دماغی نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جب کہ پہلے سے موجود نفسیاتی عارضے میں مبتلا افراد میں ذہنی بیماریوں کی سنجیدہ علامات دیکھی گئیں، اور صحت مند افراد کے مقابلے میں انھیں کرونا وائرس ہونے کا 65 فی صد زیادہ امکان دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا بیماری کی وجہ سے لوگوں میں مختلف نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، اور ذہنی تناؤ، اضطراب، افسردگی عدم یقین جیسی کیفیات میں دن بدن اضافہ دیکھا گیا، اس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ ٹینشن، دماغی بیماریاں اور اسٹروک وغیرہ کا شکار ہوئے ہیں۔

    جو لوگ پہلے سے اعصابی مسائل کا شکار تھے انھیں بیماری سے مزید متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے ان کا نقصان بعض اوقات موت کا سبب بنتا ہے۔

  • کیا آپ مطئمن اور خوش رہنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ مطئمن اور خوش رہنا چاہتے ہیں؟

    شاید خوش رہنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کسی حال میں‌ خوش نہیں رہتا۔ وہ ہمیشہ میسر اور دست یاب سے بہت زیادہ کی خواہش کرتا ہے اور یہ خواہش بسا اوقات اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ شکوہ کناں اور ناخوش نظر آتا ہے۔

    زندگی میں‌ مختلف مسائل، مشکلات اور محرومیوں کے سبب اکثر لوگ مایوس، افسردہ اور ناخوش نظر آتے ہیں، لیکن پریشان رہنے سے کبھی مسائل حل نہیں‌ ہوتے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں‌ کہ منفی خیالات کو جھٹک کر مثبت اور بامقصد سوچ اور طرزِ فکر اپنایا جائے تو حالات کا زیادہ بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں‌ نفیسات کے ماہرین اور محققین کی یہ تجاویز اور مختلف ہدایات آپ کے لیے سودمند ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جو لوگ ماضی پر کڑھتے رہتے ہیں‌ یا مستقبل کی فکر میں‌ گھلتے رہتے ہیں، وہ کسی طرح‌ پُرسکون نہیں‌ رہ سکتے۔ ماضی کا پیچھا چھوڑنے اور مستقبل کی پریشانی کو سوچنے کے بجائے حال اور لمحہ موجود میں‌ رہنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیے۔

    معروف کتاب ’دی پاور آف ناؤ‘ کے مصنف لکھتے ہیں، آج میں زندہ رہنا اور حال کو بھرپور انداز میں محسوس کرنا ہمیں ماضی کی سوچوں میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے؟ تو کیوں نہ حال میں زندہ رہنا سیکھیں۔

    یونیورسٹی آف میڈرڈ کی ایک تحقیق کے مطابق منفی خیالات اور تکلیف دہ باتوں‌ کو لکھ لینا ہمیں‌ بہت حد تک پرسکون کرسکتا ہے۔ ایسے خیالات کو تحریر کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کی ان خیالات سے جان چھوٹ جائے گی۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے باقاعدگی سے یہ عمل جاری رکھا جائے تو بہت جلد انسان مشکل باہر نکل آتا ہے۔ اپنے خیالات پر توجہ دینا اور یہ جاننا چاہیے کہ کون سی سوچ منفی ہے اور اس سے ہماری ذہنی صحت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، یہی نہیں‌ بلکہ ان خیالات میں‌ بھی تمیز کرنا چاہیے جو کسی انسان کی ہمت اور ارادے کو توڑ سکتے ہیں۔ جیسے ہی ہم منفی سوچوں کی پہچان پر قادر ہوتے ہیں، انھیں‌ مسترد کرنے اور نجات پانے کی ہمت بھی بڑھ جاتی ہے اور ہم جلد اس مسئلے کو حل کرلیتے ہیں۔

    ماہرین کے مابق مستقبل کے بارے میں سوچتے رہنا اور پریشان رہنا ایک منفی عمل ہے۔ تاہم کوئی بھی انسان مستقبل کا خواب بُنے بغیر نہیں‌ رہ سکتا۔ ہم سب کل کے بارے میں‌ سوچتے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ ہم میں‌ سے کچھ لوگ اپنے مستقبل کے لیے صرف فکر مند نہیں‌ رہتے بلکہ وہ زندگی کا کوئی مقصد بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ہر کوشش کرتے ہیں، وہ بچوں کی اچھی تربیت کرنے کے لیے زیادہ محنت اور دل چسپی ظاہر کرتے ہیں، وہ اپنے بہتر اور روشن مستقبل کی فکر کے بجائے وسائل اور اسباب کو آزماتے ہیں۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق دوسروں کی مدد کرنا آپ کو منفی خیالات سے بچاسکتا ہے یا نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔ اپنے وسائل، اپنی جیب اور حالت کے مطابق کبھی کسی ضرورت مند کی مدد کرنا، صرف کوئی اچھا جملہ، اچھا مشورہ اور دوسروں‌ کی خوشی میں‌ خوش ہوجانا بھی آپ کو بے پناہ طاقت اور خوشی دے سکتا ہے۔

    آپ کیسے اپنی صلاحیتوں اور شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو استعمال کر رہے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں‌ کہ یہ جاننا ضروری ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانے سے انسان نہ صرف اپنی زندگی میں مزید مطمئن اور مسرور ہوسکتا ہے بلکہ وہ بہت کچھ بدلنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

    اپنی صحت کا خیال رکھیں! مشہور موٹیویشنل اسپیکر ’ٹونی روبنز‘ کی کتاب ’ان لیمیٹیڈ پاور‘ میں لکھا ہے کہ انسان کی اچھی جسمانی صحت کا ان کی ذہنی صحت اور ان کی زندگی کی کام یابی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

    ماہرین کے مطابق آزمائش شرط ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو مطمئن اور خوش رہا جاسکتا ہے۔‌

  • وبا کے دوران ذہنی صحت کے لیے عوامی آگاہی کی گائیڈ لائنز جاری

    وبا کے دوران ذہنی صحت کے لیے عوامی آگاہی کی گائیڈ لائنز جاری

    اسلام آباد: وزارت انسانی حقوق نے کو وِڈ 19 کی وبا کے دوران ذہنی صحت کے لیے عوامی آگاہی کی گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی کو دیکھتے ہوئے عوام کے اندر ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے، جس کے پیش نظر وزارت انسانی حقوق نے گائیڈ لائنز جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کرونا سے عوام میں تناؤ اور ذہنی اضطراب پیدا ہو سکتے ہیں۔

    گائیڈ لائنز میں کہا گیا ہے کہ اپنے آس پاس لوگوں کی ذہنی اور نفسیاتی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں، جھوٹی خبریں اور افراتفری نہ پھیلائیں، اپنے ذرایع کی تصدیق کریں۔

    گائیڈ لائنز کے مطابق اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھیں، خاص طور پر جو ڈپریشن، اضطراب یا کسی اور بیماری کا شکار ہیں، وبا سے متاثرہ افراد سے متعلق غلط باتیں نہ کریں، انھیں بدنام نہ کریں، کسی بھی نسل، قومیت یا مذہب کو وبا سے منسلک نہ کریں۔

    سندھ حکومت کا 10 ہزار بیڈز پر مشتمل آئسولیشن سینٹرز قائم کرنے کا فیصلہ

    وزارت انسانی حقوق نے کہا ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو کسی قسم کے تشدد کا شکار ہے تو وزارت انسانی حقوق کی ہیلپ لائن 1099 پر فوری رابطہ کریں۔

    واضح رہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کرونا وائرس سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں کرونا کے 5 ہزار 125 مریض زیر علاج ہیں، 24 گھنٹوں کے دوران کرونا کے 497 کیس رپورٹ ہوئے، جس کے بعد کرونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 7 ہزار 25 ہو گئی ہے۔ جب کہ 24 گھنٹوں کے دوران 11 نئی اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد اموات کی تعداد 135 تک جا پہنچی ہے۔