Tag: ذہنی صحت

  • فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    زندگی میں نشیب و فراز اور حالات کا اتار چڑھاؤ ہماری رفتار تو کم کرسکتے ہیں، لیکن ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور بُرا وقت بھی گزر جاتا ہے۔

    مشکل حالات اور کڑے وقت کا سامنا کرتے ہوئے ہم گھبراہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجانے خدشے، اندیشے ستاتے ہیں اور ہم پریشان رہنے لگتے ہیں۔

    اسی طرح جب کوئی خطرہ سَر پر ہو یا افتاد ٹوٹ پڑنے کا ڈر ہو تو ہم اس کے "خوف” میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو حاوی ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    فوبیا، کسی مخصوص صورتِ حال یا چیز کے خوف کو کہتے ہیں جس میں کچھ خاص تدابیر اور طریقے اپنائے جائیں تو اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہر قسم کی احتیاط، کچھ چیزوں سے پرہیز اور اجتناب کرنا بتدریج بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔

    کوشش کریں کہ انجانی اور ان دیکھی شے یا خطرے کے فوبیا کو کم سے کم وقت کے لیے سوچیں، خود کو مثبت سرگرمی کی طرف دھکیل دیں۔ اچھی اور معلوماتی کتب کا مطالعہ اور دیگر مفید مشاغل اپنائیں۔ تاہم ماہر اور مستند معالج اس حوالے سے بہتر راہ نمائی کرسکتا ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق اکثر فوبیا کے شکار لوگوں پر عرصے بعد کُھلتا ہے کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ تھے، وہ کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا کہ اس سے مسلسل پریشان رہا جاتا، لیکن اس پر توجہ دینا اور ضرورت پڑنے پر باقاعدہ علاج یا عادات و رویے میں تبدیلی لاکر گھبراہٹ اور بے چینی کی شدت سے بچنا بہرحال ضروری تھا۔

    بعض اوقات تشویش، پریشانی اور اس کے نتیجے میں گھبراہٹ کی بہت واضح اور معقول وجوہ بھی ہوتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس حوالے سے غیرمستند، غیرضروری اور سنی سنائی باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے درست اور مناسب راہ نمائی اور مشاورت ضروری ہوتی ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ اور رویوں پر برسوں کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مستقبل کا خوف یا کل کے اندیشوں سے گھبرانے کے بجائے فوبیا کے شکار افراد کو اگر اس بات پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے ڈٹ کر‌ حالات کا مقابلہ کریں تو ان کی حالت میں بتدریج بہتری آسکتی ہے اور مسائل کے حل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • عوام میں ذہنی بیماریوں سے بچاؤ اوراحتیاطی تدابیر کا شعور پیدا کرنا ہے، عثمان بزدار

    عوام میں ذہنی بیماریوں سے بچاؤ اوراحتیاطی تدابیر کا شعور پیدا کرنا ہے، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی بحالی حکومت کی ترجیح ہے، ذہنی امراض میں مبتلا افراد کوعلاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ذہنی صحت کےعالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ تندرست زندگی کا براہ راست تعلق صحت مند دماغ سے ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ غربت، بیروزگاری، معاشی مسائل سے ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، موبائل فون، کمپیوٹر کا بے تحاشا استعمال بھی ذہنی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اعتدال کے ساتھ زندگی بسرکرنے سے ذہنی صحت برقرار رہتی ہے، جسمانی ورزش، تفریحی سرگرمیاں اوراچھا ماحول دماغی صحت کے لیے ضروری ہیں۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ذہنی امراض میں مبتلاافرادکی بحالی حکومت کی ترجیح ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کوعلاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، عوام میں ذہنی بیماریوں سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کا شعورپیدا کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں آج ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، یہ دن منانے کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔

  • نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں خاتون

    نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں خاتون

    دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض لوگوں کی صحت کو بے حد متاثر کر رہے ہیں، تاہم ان امراض کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا ایک مشکل عمل ہے۔

    ایک امریکی خاتون اچیا ریڈ نے اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ذہنی مسائل سے نبرد آزما نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں وہ لڑکیوں کو کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

    ریڈ سنہ 2016 میں شدید ڈپریشن اور اینگزائٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوگئی تھیں، اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے لیے انہوں نے اپنے خیالات پر مشتمل بلاگ لکھنا شروع کیے۔

    لکھنے سے ان کے مرض میں خاصی کمی آئی، تب ہی انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ڈپریشن کا شکار نوجوان لڑکیوں کو اس بات کی طرف راغب کیا جائے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں تاکہ ان کے مرض میں کمی آئے۔

    ریڈ اس سال کے وسط میں اپنی کتاب بھی منظر عام پر لانے والی ہیں جس کا نام ہے، ’بی فری بی یو‘۔ وہ کہتی ہیں، ’ڈپریشن سے لڑنے والے افراد کے لیے میرا پیغام ہے، آپ اکیلے نہیں ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کریں‘۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپس میں گفتگو کرنا بھی آپ کی ذہنی صحت کو بہتر کرسکتا ہے، ’ضرورت اس بات کی ہے کہ گفت و شنید کے لیے محفوظ مقام میسر ہو جہاں آپ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے نہ گھبرائیں‘۔

    ریڈ کا ادارہ نہ صرف ڈپریشن کے شکار افراد کو ایسی جگہ مہیا کرتا ہے، بلکہ وہ ان کی ذہنی حالت کے پیش نظر انہیں مدد اور رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔

  • اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    سان فرانسسکو: سائنس دان ایسا مالیکیول ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں جو ڈپریشن اور زیادہ عمر کے باعث یادداشت کھو دینے والے مریضوں کی میموری واپس لے آتا ہے۔

    سائنسی جریدے مالیکیولر نیورو سائیکیٹری میں شائع ہونے والے مقالے میں مرکز برائے نشے کے عادی اور ذہنی صحت کینیڈا کے سائنس دانوں نے ایک نیا دافع مرض مالیکیول ایجاد کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یہ تھیراپیوٹک مالیکیول نہ صرف مرض کی علامات کو نمایاں طور پر ختم کرتا ہے بلکہ دماغ کی اندرونی تہہ میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی بھی مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ریسرچ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا عمر زیادہ ہو جانے کے باعث یادداشت کھو جانے کی صورت میں یادداشت کی بحالی کے لیے کوئی کارگر دوا موجود نہیں تھی، تاہم حالیہ ریسرچ نے یادداشت کھو جانے کے علاج میں ٹھوس امید دلائی ہے۔

    طبی تحقیق کے مطابق گابا نیورو ٹرانسمیٹرز نظام کے دماغ کے خلیات میں توڑ پھوڑ یادداشت کھو جانے کے ذمہ دار ہیں۔

    نیا مالیکیول نہ صرف گابا نیورو ٹرانسمیٹر کے ریسیپٹر تک جا کر دماغ کے اُن خلیات کی توڑ پھوڑ کو روکتا ہے بلکہ دماغ کے خلیوں کی تعمیرِ نو میں بھی کردار ادا کرتا ہے جس سے یادداشت کی بحالی ممکن ہو جاتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    طبی ماہرین نے بتایا کہ خلیوں کی تعمیرِ نو سے یادداشت واپس آنے کے بھی امکانات روشن ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چند ضروری اقدامات کے بعد یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اور دماغی امراض میں ایک انقلابی حیثیت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گی۔

  • شاپنگ کرنا دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    شاپنگ کرنا دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    شاپنگ کرنا تقریباً ہر خاتون کو پسند ہوتا ہے۔ مردوں کی بات آئے تو انہیں بھی اپنے لیے شاپنگ کرنا پسند ہوتا ہے۔

    ماہرین کا دعویٰ ہے کہ شاپنگ کرنا ہماری دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    آج کل کی مصروف زندگی میں شاپنگ کے انداز بھی بدل گئے ہیں اور زیادہ تر شاپنگ آن لائن کرلی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ شاپنگ کے لیے جانا آپ کی دماغی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    آئیں جانتے ہیں شاپنگ ہمارے لیے کس طرح فائدہ مند ہے۔


    واک کرنا

    جب بھی آپ شاپنگ کے لیے کسی مال یا مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو بہتر سے بہتر چیز کی تلاش میں کئی دکانوں پر جاتے ہیں اور اس دوران واک کرتے ہیں۔

    یہ وہ چیز ہے جس کے لیے روزمرہ کی مصروفیت میں وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پیدل چلنا یا چہل قدمی کرنا دماغی و جسمانی صحت پر نہایت مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔


    رنگ آنکھوں کے لیے تسکین کا باعث

    شاپنگ کے لیے جانے کے بعد آپ کے چاروں طرف مختلف اشیا کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔

    مختلف اشیا اور مختلف رنگوں کو دیکھنا آنکھوں کے لیے ورزش کا کام دیتا ہے چنانچہ شاپنگ پر جانے سے آپ اپنی آنکھوں کو بھی پرسکون کرنے کا باعث بنتے ہیں۔


    ذہنی تناؤ میں کمی

    ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شاپنگ کرنا ذہنی تناؤ میں کمی لاتا ہے۔ شاپنگ کے دوران آپ وقتی طور پر تمام پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں جس سے آپ کا دماغ پرسکون ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی آپ اداس ہوں یا کسی وجہ سے پریشان ہوں تو شاپنگ اس کا بہترین علاج ثابت ہوسکتی ہے۔


    خوشی

    یہ ناممکن ہے کہ آپ اپنے لیے بہترین اشیا کی خریداری کر کے لائیں اور آپ کو خوشی کا احساس نہ ہو۔

    نئی اور پسندیدہ اشیا کو استعمال کرنے کا خیال آپ کو خوش اور پرجوش بنا دیتا ہے جس سے آپ کا دماغ بہت پرسکون ہوجاتا ہے۔

    تو پھر کیا خیال ہے؟ آج ہی شاپنگ پر جانے کا پروگرام بنالیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آ کیور فور ویل نیس: دماغی انتشار کی کہانی یا پراسرار واقعات کا مجموعہ

    آ کیور فور ویل نیس: دماغی انتشار کی کہانی یا پراسرار واقعات کا مجموعہ

    ہالی ووڈ کی سسپنس فلم ’آ کیور فور ویل نیس‘ کا سنسنی خیز ٹریلر جاری کردیا گیا۔ فلم کی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ انسانی ذہن ہوش کی سرحدوں سے دور ہو کر کیا کیا کمالات دکھا سکتا ہے۔

    شہرہ آفاق فلم سیریز ’پائریٹس آف دی کیربیئن‘ کے ڈائریکٹر گور وربنسکی کی آنے والی فلم ’آ کیور فور ویل نیس‘ اس بار عقل و شعور کی سرحد سے دور پیش آنے والے واقعات کو بڑے پردے پر پیش کرنے والی ہے۔

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت *

    film-8

    film-9

    جاری کیے جانے والے ٹریلر میں ڈین ڈہان کو دکھایا گیا ہے جنہیں ذہنی صحت کی بحالی کے ایک ادارے میں بھیجا جاتا ہے۔

    film-3

    لیکن یہاں پہنچ کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس ادارے میں پس پردہ بھی کچھ پراسرار کام جاری ہیں جن کا تعلق انسانی دماغ سے ہے۔

    film-7

    ٹریلر میں دکھائے گئے مختلف تخیلاتی مناظر سے ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارا دماغ کس قدر طاقت ور ہے اور صحت مندی، بیماری یا انتشار کی حالت میں ہمیں کیا کیا دکھا سکتا ہے۔

    film-11

    ٹریلر کے ایک منظر میں ایک کردار کو کاغذ پر گول گول دائرے بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ذہنی انتشار کا شکار افراد کی عمومی عادت ہوتی ہے۔

    film-1

    اسی طرح خود کشی کا ایک منظر دکھا کر ذہنی بیماریوں کا شکار افراد کی دماغی کشمکش کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    film-5

    ایک منظر میں اداکارہ میا گوتھ بھی دکھائی دیں جو اس سے قبل فلم ’ایورسٹ‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔

    film-2

    ڈین ڈہان ان اسرار بھرے واقعات اور مخفی رازوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ادارے میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، جس کے بعد ان کی اپنی دماغی صحت کی خرابی کے خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز *

    film-6

    ٹریلر کے آخری سین میں ڈین ایک سبز محلول میں کچھ انسانوں کو دیکھتا ہے جو بے ہوشی کی حالت میں وہاں موجود ہوتے ہیں تب اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے جس میں یہ لوگ مبتلا تھے اور انہیں ’علاج‘ کی خاطر اس محلول میں ڈالا گیا ہے۔

    film-4

    فلم اگلے برس 17 فروری کو ریلیز کردی جائے گی۔

  • دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    دماغ کو بیمار کرنے والی خطرناک عادات

    ہم اپنی زندگی میں بے شمار ایسے کام انجام دیتے ہیں جو ہماری جسمانی و دماغی صحت کے لیے مضر ہوتے ہیں اور ہمیں بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ کام ہماری عادت بن کر غیر محسوس انداز میں ہماری طرز زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمیں علم بھی نہیں ہوتا لیکن یہ ہمیں خطرناک طریقے سے متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ایسی ہی کچھ عادات جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، ہمارے دماغ کو بے حد نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ہمارے دماغ کی کارکردگی کم کر کے اسے غیر فعال بناتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ اتنا ہی فعال ہوگا۔ غیر فعال دماغ آہستہ آہستہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جائے گا اور اسے مختلف امراض گھیر لیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اگر بڑھاپے میں بھی دماغ کا زیادہ استعمال کیا جائے تب بھی یہ کوئی نقصان دہ بات نہیں بلکہ یہ آپ کو مختلف بیماریوں جیسے الزائمر یا ڈیمینشیا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    آئیے وہ عادات جانیں جو ہمارے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

    :تخیلاتی تصورات کی کمی

    imagination

    اگر آپ کا دماغ تخیلاتی پرواز سے محروم ہے، یعنی آپ حقیقی زندگی کو پوری طرح اپنے اوپر حاوی کر چکے ہیں اور اپنے دماغ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ تصوراتی اور غیر حقیقی چیزوں کے بارے میں سوچے، تو جان جائیں کہ آپ اپنے دماغ کو محدود کر رہے ہیں۔

    کسی انسان کی قوت تخیل جتنی زیادہ بلند ہوگی اس کا دماغ اتنا ہی زیادہ فعال ہوگا۔

    :فضائی آلودگی

    pollution

    ہمارا دماغ جسم کا وہ عضو ہے جو پورے جسم میں سب سے زیادہ آکسیجن جذب کرتا ہے اور اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے اس سے توانائی حاصل کرتا ہے۔

    آلودہ فضا میں آکسیجن کم اور دیگر مضر صحت گیسیں زیادہ شامل ہوتی ہیں جس کے باعث دماغ کو پہنچنے والی آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے یوں دماغ  آہستہ آہستہ سست ہوتا چلا جاتا ہے۔

    :کم بولنا

    speak

    کم بولنا ویسے تو ذہانت کی نشانی ہے لیکن ماہرین کے مطابق دانشورانہ بحثوں میں حصہ لینا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا اور دوسروں کی رائے سننا بھی آپ کے دماغ کے سوئے ہوئے حصوں کو بیدار کرتا ہے اور دماغ کے سوچنے کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔

    :سوتے ہوئے سر کو ڈھانپنا

    covering-head

    اگر آپ سوتے ہوئے سر کو چادر یا تکیے سے ڈھانپ لیتے ہیں تو محتاط ہوجائیں کیونکہ یہ دماغ کے لیے تباہ کن عادت ہے۔ سر ڈھانپنے سے یہ 8 سے 9 گھنٹے تک ہوا سے محروم رہتا ہے جس سے مختلف دماغی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    :بیماری کے دوران دماغی کام

    sickness

    کسی بھی جسمانی بیماری کے دوران زیادہ دماغی کام کرنا دماغی خلیات کو تباہ کرسکتا ہے۔ بیماری کی حالت میں جسم اور دماغ دونوں کمزور ہوجاتے ہیں اور ایسے میں دماغ کو اس کی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور کرنا اسے تباہ کرسکتا ہے۔

    :موٹاپا

    obesity

    شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ موٹاپا ہمارے دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موٹاپے کے باعث دماغ کی شریانوں کو اپنا کام سر انجام دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں موٹے افراد آہستہ آہستہ کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    :سگریٹ نوشی

    smoking

    سگریٹ نوشی دماغی خلیات کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وقت سے بہت پہلے الزائمر کا شکار بناسکتی ہے۔

    :ناشتہ نہ کرنا
    breakfast

    ناشتہ نہ کرنے کی عادت ہمیں جسمانی و دماغی طور پر بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔ صبح کے وقت کھایا جانے والا پہلا کھانا جسم سے زیادہ دماغ کو توانائی پہنچاتا ہے لہٰذا اگر آپ صبح ناشتہ نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے دماغ کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناشتہ میں چاکلیٹ کھانا دماغی صلاحیت میں اضافے کا باعث

    صبح ناشتہ نہ کرنا ہمارے جسم میں شوگر کی سطح کو کم کردیتا ہے۔ ہمارے جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز یا شوگر پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمارے جسم میں شوگر کی مقدار کم ہوگی تو دماغ اپنے افعال درست طریقے سے سر انجام نہیں دے سکے گا نتیجتاً آپ کام کرنے کے لیے دماغی توانائی سے محروم ہوجائیں گے۔

    :میٹھے کا زیادہ استعمال

    sugar

    ویسے تو دماغ اپنی توانائی شوگر سے حاصل کرتا ہے لیکن اگر جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوجائے تب بھی یہ دماغ کے لیے نقصان دہ بات ہے۔

    مزید پڑھیں: بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    شوگر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارا جسم صرف شوگر کو ہضم کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور دوسرے صحت مند اجزا جیسے پروٹین اور نمکیات وغیرہ کو ہضم نہیں کر پاتا جس کا منفی اثر دماغ پر بھی پڑتا ہے۔

    :نیند کی کمی

    sleep

    نیند کی کمی ہماری دماغی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ہم کام کے دوران چاق و چوبند نہیں رہ پاتے۔

  • ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک شخص کو کچھ حد تک ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کا شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔

    ماہرین دماغی صحت کو بہتر بنانے اور مختلف ذہنی بیماریوں سے بچنے کی کچھ تجاویز بتاتے ہیں۔ آپ بھی ان پر عمل کریں۔

    دماغ کو متحرک رکھیں

    mh-1

    ڈپریشن سمیت دماغ کی تقریباً تمام بیماریوں سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ دماغ کو متحرک رکھا جائے۔ ہمارا دماغ ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جسے جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ اتنا ہی فعال ہوگا۔ غیر فعال دماغ آہستہ آہستہ بوسیدگی کا شکار ہوتا جائے گا اور اسے مختلف امراض گھیر لیں گے۔

    ماہرین کے مطابق اگر بڑھاپے میں بھی دماغ کا زیادہ استعمال کیا جائے تب بھی یہ کوئی نقصان دہ بات نہیں بلکہ یہ آپ کو مختلف بیماریوں جیسے الزائمر یا ڈیمینشیا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔

    مختلف اقسام کی ذہنی مشقیں، مختلف دماغی استعمال کے کھیل کھیلنا جیسے پہیلیاں بوجھنا، حساب کے سوالات حل کرنا، شطرنج کھیلنا، یا کوئی نئی زبان سیکھنا دماغ کے لیے بہترین ورزش ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    یہی تجویز ان افراد کے لیے بھی ہے جو ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ ریٹائرڈ ہونے والے افراد کو دماغ کو فعال رکھنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ فارغ بیٹھنے کے بجائے اگر وہ کام کیے جائیں جو زندگی بھر وقت نہ ملنے کے سبب آپ نہیں کر سکے تو آپ بڑھاپے کے مختلف ذہنی امراض سے بچ سکتے ہیں۔

    کوئی نئی زبان سیکھنا، کوئی آلہ موسیقی یا رقص سیکھنا، باغبانی کرنا، رضاکارانہ خدمات انجام دینا، سیاحت کرنا یا کسی پسندیدہ شاعر یا مصنف کی کتابیں پڑھنا آپ کو جسمانی و دماغی طور پر صحت مند رکھے گا۔

    مزید پڑھیں: دو زبانیں بولنے والوں کا دماغ زیادہ فعال

    نیند پوری کریں

    sleep

    نیند پوری نہ ہونے کا عمل دماغی صحت کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ آپ کو چڑچڑاہٹ، بیزاری، دماغی تھکن اور ڈپریشن کا شکار کر سکتا ہے۔ روزانہ 8 گھنٹے کی نیند ہر شخص کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    مراقبہ کریں

    meditation

    ذہنی سکون حاصل کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ مراقبہ کرنا ہے۔ دن کے کسی بھی حصہ میں 10 سے 15 منٹ کے لیے کسی نیم اندھیرے گوشے میں سکون سے بیٹھ جائیں، آنکھیں بند کرلیں اور دماغ کو تمام سوچوں سے آزاد چھوڑ دیں۔ یہ طریقہ آپ کے دماغ کو نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    ٹیکنالوجی سے دور رہیں

    technology

    نئی چیزوں کے سیکھنے کی حد تک تو ٹیکنالوجی کا استعمال ٹھیک ہے لیکن اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا آپ کو دماغی طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹرز کا زیادہ استعمال آپ کے ذہنی مزاج پر بھی اثر ڈالے گا نتیجتاً آپ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوں گے۔

    متوازن غذا کھائیں

    fish

    متوازن غذا کا استعمال بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ غیر متوازن غذا یا کم غذا کا استعمال آپ کی دماغی کارکردگی کو سست اور خلیات کو بوسیدہ کرنے لگتا ہے۔ بغیر چکنائی کے دودھ، انڈے اور مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔

    بہت زیادہ تنہائی یا بہت زیادہ سماجی سرگرمیاں نقصان دہ

    alone

    ہر وقت تنہا رہنا یا ہر وقت لوگوں میں گھرے رہنا بھی دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ سماجی سرگرمیوں جیسے دعوتوں، محافل اور تقریبات میں بھرپور اندازسے شرکت کی جائے لیکن کچھ وقت کے لیے اپنے آپ کو بالکل تنہا بھی رکھا جائے۔

    اگر یہ وقت سمندر کے کنارے یا پارک میں درختوں کے ساتھ یا کسی اور قدرتی مناظر والے مقام پر گزارا جائے تو یہ اور بھی بہتر ہوگا۔ خاموشی اور تنہائی ہمارے دماغ کے خلیوں کو سکون کی حالت میں لا کر ان کی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے اور دماغ تخلیقی کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی تحریک حاصل کرنے کے 5 طریقے

    ہر وقت شور شرابے میں رہنا اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے جلتے رہنا بھی دماغ کے لیے نقصان دہ ہے۔ دونوں چیزوں کو اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

    موسیقی سنیں

    music

    اگر آپ حال ہی میں اپنے کسی دماغی مرض کا علاج کروا چکے ہیں تو دوبارہ اس مرض سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ دھیمی موسیقی سنیں۔ موسیقی زمانہ قدیم سے جسمانی و دماغی تکالیف کو مندمل کرنے کے لیے استعال کی جاتی رہی ہے۔ ہلکی آوز میں دھیمی موسیقی سننا آپ کے دماغ کو سکون پہنچائے گا۔