Tag: ذہنی مسائل

  • پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار، مینٹل ہیلتھ پالیسی لانچ

    پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار، مینٹل ہیلتھ پالیسی لانچ

    کراچی: ماہرین نفسیات نے کہا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جو ایک تشویش ناک امر ہے، اس سلسلے میں صوبہ سندھ میں پہلی باقاعدہ مینٹل ہیلتھ پالیسی لانچ کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت سندھ اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ (PILL) کے اشتراک سے ڈاؤ یونیورسٹی کے معین آڈیٹوریم میں ’سندھ مینٹل ہیلتھ پالیسی‘ کے حوالے سے ایک افتتاحی تقریب منعقد کی گئی، جس میں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ماہرین نفسیات کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کا نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا تشویش ناک ہے، ہمیں حکومتی سطح پر اس کے حل کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    نگراں وزیر تعلیم سندھ رعنا حسین نے کہا کہ ہر بچے کے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی سوچ بھی بچوں اور والدین کی ذہنی صحت متاثر کر رہی ہے، ماہرین نفسیات نے بتایا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں نفسیاتی مسائل کے تدارک کے لیے باقاعدہ پالیسی لانچ کی گئی ہے۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ہم نے ابتدا میں صوبائی سطح پر خود کشی کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے رجسٹری پر کام کیا، پھر ہم نے نشہ آور اشیا کے حوالے سے پالیسی بنائی اور دونوں میں جو بنیادی مسئلہ سامنے آیا وہ نفسیات کا تھا، لہٰذا آج ہم ن سندھ مینٹل ہیلتھ پالیسی باقاعدہ لانچ کر دی ہے۔

    انھوں نے ماہر نفسیات مودات حسین رانا کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسمانی حجم و طاقت کی بنیاد پر دنیا سے ڈائنوسارز اور کئی قومیں فنا ہوئیں لیکن جو کچھ آج فلسطین میں ہو رہا ہے اور اسلامی ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک اس کو نظر انداز کر رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی بہت جلد فنا ہو جائیں کیوں کہ خود کو دوسرے سے اعلیٰ اور باوقار سمجھنا درست نہیں ہے۔

    انھوں نے انتہائی اہم مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شرکا کو بتایا کہ گزشتہ روز اے این ایف کے وفد سے ملاقات میں یہ بات سامنے آئی کہ بیش تر انڈسٹریز میں ہزاروں کلو کی تعداد میں مختلف کیمیکلز منگوائے جاتے ہیں جس میں سے اگر سو کلو بھی آگے پیچھے کر دیا جائے تو پکڑ پانا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کیمیکلز کو کیمیکل انجینئرز کی مدد سے منشیات میں تبدیل کر کے فروخت کیا جا رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انھوں نے نگراں وزیر یونس ڈھاگہ سے بھی بات کی ہے کہ وہ اینٹی نارکوٹکس فورس سندھ کے ساتھ ملاقات سے اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، انھوں نے کہا آج کل والدین بھی بہت نارمل طریقے سے کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سگریٹ نہیں بس ویپنگ کرتا ہے جب کہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ بچوں کو نشہ آور اشیا کا عادی بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

    نگراں وزیر تعلیم سندھ رعنا حسین نے کہا کہ آج کل بورڈ کے نتائج میں معیار برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے، فرسٹ ایئر میں 67 فی صد بچے نتائج میں ناکام ہوئے ہیں، یقیناً اس میں انسانی غلطی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کل افراد ٹیکنالوجی اور جدت سے گھبراتے ہیں، ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینیئر نہیں بن سکتا لہٰذا اس طرح کے واقعات سے بھی بچوں اور والدین کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے، محکمہ تعلیم کی جانب سے اساتذہ، والدین اور بچوں کی مینٹل ہیلتھ کو بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

    ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ سندھ میں آبادی کی نفسیاتی صحت اور سائیکاٹری کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اسی لیے ہم نے بی ایس میں پچھلے سال کلینیکل سائیکالوجی متعارف کروائی ہے۔

    ماہر نفسیات اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ کی سی ای او پروفیسر نسیم چوہدری نے کہا کہ دنیا میں نفسیات کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور دنیا بھر میں ہر 8 میں سے ایک فرد ذہنی مرض میں مبتلا ہے، جب کہ پاکستان میں 24 ملین افراد نفسیاتی مرض سے متاثر ہیں، ہم حدود سے باہر جا کر بھی مینٹل ہیلتھ پر کام کر رہے ہیں اور امراض قلب، حادثات کے نتیجے میں جھلسے ہوئے افراد اور چھاتی کے سرطان سے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت پر کام کر رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ’پل‘ نے اس سے قبل خودکشی اور نشے کی روک تھام کے لیے بھی پالیسی بنائی ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق پالیسی دستاویزات پر مبنی لائحہ عمل ہوتا ہے، ذہنی صحت کو جنرل ہیلتھ کا حصہ بنانا چاہیے، ہمیں متاثرہ فرد کی مینٹل ہیلتھ بہتر کرنے کے لیے امتیازی سلوک کے خلاف رویے کو تبدیل کروانا ہوگا۔

    تقریب سے ماہرین نفسیات پروفیسر غلام رسول، پروفیسر عمران بشیر چوہدری، پروفیسر موعدات اور مانچسٹر سے پروفیسر نصرت حسین نے آن لائن خطاب کیا۔

  • بھول جانے کی عادت سے چھٹکارا کیسے پائیں؟

    بھول جانے کی عادت سے چھٹکارا کیسے پائیں؟

    کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول جانے کی عادت بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے جس کے سبب وہ اکثر پریشان بھی نظر آتے ہیں، ضروری نہیں اب بات کا تعلق عمر یا ذہنی کمزوری سے بھی ہو۔

    اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی یادداشت کمزور ہونے کی شکایت کرتے ہیں، چیزیں خریدنے بازار جاتے ہیں تو یہی بھول جاتے ہیں کہ خریدنا کیا تھا؟۔ کمرہ امتحان میں لکھتے ہوئے آدھا جواب بھول جاتے ہیں، کسی شخص سے کافی دن بعد ملاقات ہو تو اس کا نام بھی ذہن میں نہیں آتا۔

    سائنسدانوں کے مطابق آپ ایک کام کو بھول کر دوسرے کی جانب رجوع کرتے ہیں تو یہ آپ میں نئے کام کو سیکھنے کے صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ بھول جانا نئے کام سیکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ بھول جانے کی عادت آج کی تیز رفتار دنیا میں نئی مہارت اور علم سیکھنے میں بے حد کارآمد ثابت ہوسکتی ہے اور اسے ایک نارمل عمل سمجھنا چاہیے۔ کبھی کبھی کسی ذہنی دباؤ یا ٹینشن کی وجہ سے بھی انسان وقتی طور پر باتیں بھولنے لگتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر یہ مسئلہ مستقل رہے یا انسان بہت ساری باتیں بھول جائے تو یہ خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

    ذرا سی کوشش اور مستقل مزاجی سے ہم زندگی کے خوبصورت لمحات کو اپنے موبائل میں محفوظ کرنے کے بجائے دل اور دماغ میں بھی محفوظ کرسکتے ہیں، ہم سنبھال کر رکھی چیزوں کی جگہ اپنے دماغ میں محفوظ کرسکتے ہیں اوراپنی یاد داشت کو اچھا اور بہتر بنا سکتے ہیں۔

    اس کے لئے ہمیں کچھ خاص کام کرنا ہوں گے جو ہمیں ہماری یادداشت کو بہتر اور تیز کرنے میں مدد دیں گے۔

    میٹھے پکوان سے پرہیز

    زیادہ چینی کا استعمال صحت کے بہت سے مسائل کو دعوت دیتا ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ زیادہ چینی کا استعمال ہماری یادداشت کو کمزور بناتا ہے اس کے علاہ چینی دماغ کے حجم کو کم کرتی ہے خاص طور پر اس حصے کو جہاں میموری محفوظ ہوتی ہے۔

    شوگرکا استعمال کم کرنے سے نہ صرف ہماری یادداشت اچھی ہوتی ہے بلکہ ہماری مجموعی صحت میں بھی بہتری آتی ہے۔اس لئے چیزوں میں چینی کا استعمال کم کریں اگر آپ گڑ کا استعمال کرتے ہیں تو یہ آپ کی صحت کے لئے اچھاہے۔

    اپنا وزن برقرار رکھیں

    اچھا اورصحت مند وزن آپ کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتا ہے وزن کو برقرار رکھنا آپ کی صحت میں بہتری کا ثبوت ہے، مطالعات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موٹاپا خطرے کی علامت ہے، موٹاپا الزائمز کی بیماری کو بڑھا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موٹاپا میموری سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ جین میں بھی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے جو دماغ پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔

    بھرپور نیند لیں

    بھرپور نیند کا فقدان ہماری یادداشت پر اثر ڈالتا ہے، اچھی نیند ہماری یادداشت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اگر آپ نیند سے محروم ہیں تو یہ آپ کی یاداشت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے اچھی یادداشت اور صحت کے لئے آپ کو بھرپور نیند لینی چاہیے۔

    وٹامن ڈی کی سطح برقرار رکھیں

    وٹامن ڈی بہت اہم غذائیت ہے یہ ہمارے جسم میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، اس کی کمی کی وجہ سے آپ کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج کل وٹامن ڈی کی کمی بہت عام ہے۔ اس کی کمی دور کرنے کے لئے ہمیں ان سبزیوں کا استعمال کرنا چاہیے جو وٹامن ڈی سے بھرپور ہوں۔

    ورزش لازمی کریں

    ورزش نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر صحت مند رکھتی ہے بلکہ ہمیں بہت سی بیماریوں سے بھی بچاتی بھی ہے۔ اچھی صحت کے لئے ہمیں باقاعدگی کے ساتھ ورزش اور سیر کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے آپ کو فٹ رکھ سکیں، میموری میں اضافے کے لئے ورزش بہت اچھی ہے یہ ہمارے خون کی گردش کو اچھا کرتی ہے۔ ہم ان طریقوں کی مدد سے اپنی یاداشت کو بہتر بناسکتے ہیں۔

  • لندن پولیس اب ذہنی مسائل پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی

    لندن پولیس اب ذہنی مسائل پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی

    لندن پولیس نے اعلان کیا ہے کہ پولیس آئندہ کسی ذہنی صحت کے واقع پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی۔

    پولیس کمشنر کے مطابق 31 اگست کے بعد ہر قسم کی ذہنی صحت ایمرجسنی کال لینے پر پابندی ہو گی۔

    میٹ پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ لندن پولیس میڈیکل پروفیشنل نہیں کہ ذہنی صحت کی ہنگامی کالز پر حاضر ہو جائے، یہ وقت جرائم سے نمٹنے پر لگانے سے اہلِ لندن کو بہت فائدہ اور سکون ہو گا۔

    میٹ پولیس نے کہا کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس صرف ذہنی صحت سے متعلق کالوں کو سنے گی جہاں "زندگی کو فوری خطرہ” ہو۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    لانگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے مسائل
    بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے طویل المدتی اثرات آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے دریافتت کیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

    حال ہی میں سنگاپور میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق سے علم ہوا کہ ہر 3 میں سے 1 بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہورہا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات نے ذہنی دباؤ کو بڑھا کر لوگوں میں ذہنی بے چینی، ڈپریشن اور بے خوابی جیسے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان عوامل کو سمجھنا ذہنی صحت کے پروگرامز کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

    اس تحقیق کے دوران 68 تحقیقی رپورٹس کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا جن میں 19 ممالک کے 2 لاکھ 88 ہزار سے زائد افراد شامل تھے اور ان عناصر کا تجزیہ کیا گیا جو ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا خطرہ عام آبادی میں بڑھاتے ہیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ خواتین، نوجوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کوویڈ، دیہی آبادی اور کوویڈ کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد اس بیماری سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی بے چینی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین میں نفسیاتی مسائل کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خواتین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی کو زیادہ ترجیح نہ دینا ممکنہ طور پر ان میں منفی ذہنی اثرات کا باعث بنتا ہے، 35 سال سے کم عمر افراد میں ذہنی مسائل کا تجربہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس کی وجہ واضح نہیں۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔