Tag: ذہین

  • نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین شخص جو ساری زندگی کلرک بنا رہا

    نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین شخص جو ساری زندگی کلرک بنا رہا

    سترہویں صدی کے ریاضی دان آئزک نیوٹن اور بیسویں صدی کے طبیعات دان آئن اسٹائن کا شمار تاریخ کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے جن کی دریافتوں نے سائنس کو نئی جہت دی، لیکن کیا آپ جانتے ہیں دنیا میں ایک شخص ایسا بھی گزرا ہے جو ان افراد سے زیادہ ذہین تھا؟

    یہ کہانی ہے امریکا کے ولیم جیمز سائیڈس کی جو نیوٹن اور آئن اسٹائن سے زیادہ ذہین تھا لیکن آج تاریخ کے صفحات میں اس کا کوئی ذکر نہیں، کیونکہ اس نے دنیا کی بہتری کے لیے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور اپنی غیر معمولی ذہانت ضائع کردی۔

    نیوٹن کا آئی کیو لیول 190 اور آئن اسٹان کا 160 تھا، لیکن ولیم کا آئی کیو 260 تھا۔

    سنہ 1898 میں نیویارک میں پیدا ہونے والے ولیم کے والدین بھی نہایت ذہین تھے، اس کے والد سائیکاٹرسٹ تھے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔

    صرف 18 ماہ کی عمر میں ولیم نیویارک ٹائمز کا پورا اخبار پڑھ لیا کرتا تھا، 8 سال کی عمر میں ولیم خود سے ہی 8 زبانیں سیکھ چکا تھا جن میں لاطینی، یونانی، فرنچ، روسی، جرمن، ہیبرو، ترک اور آرمینین زبان شامل تھی۔

    یہی نہیں اسی عمر میں اس نے خود سے ایک زبان بھی ایجاد کرڈالی تھی جو ان تمام زبانوں کا مجموعہ تھی، اس زبان کو وینڈر گڈ کا نام دیا گیا۔

    سنہ 1909 میں جب ہارورڈ یونیورسٹی نے ولیم کو داخلہ دیا اس وقت اس کی عمر 11 سال تھی، وہ ہارورڈ کی تاریخ کا کم عمر ترین طالب علم تھا۔ اگلے ہی سال سے اس نے اپنے ریاضی کے استادوں کو ریاضی کے لیکچر دے کر انہیں دنگ کردیا۔

    16 سال کی عمر میں وہ اپنی بیچلرز کی ڈگری مکمل کرچکا تھا،تب تک وہ نہایت مشہور ہوچکا تھا اور اس کا ذکر اخبارات کی زینت بننے لگا تھا لیکن ولیم اس زندگی سے ناخوش تھا، وہ تنہائی پسند تھا اور اس شہرت اور توجہ سے بھاگ کر ایک عام زندگی گزارنا چاہتا تھا۔

    اس کے والد ولیم کی صلاحیتوں کو جانتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ آگے تعلیم حاصل کرے اور اپنی ذہانت کا استعمال کرے، لیکن ولیم نے اپنے باپ کے اصولوں سے بغاوت کردی۔

    دونوں کے درمیان تعلقات اس قدر خراب ہوگئے کہ ولیم گھر چھوڑ کر چلا گیا اور سنہ 1923 میں جب والد کی موت ہوئی تو ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بھی نہ آیا۔

    وہ اپنے خاندان سے دور رہ کر ساری زندگی کلرک کی اور دیگر چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا، لیکن وہ جہاں بھی جاتا لوگ اس کی صلاحیتوں کو پہچان جاتے، حتیٰ کہ اخباروں نے چھاپنا شروع کردیا کہ ولیم اپنی بچپن کی ذہانت اور صلاحیت کھو بیٹھا ہے اسی لیے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے۔

    جنگ عظیم اول کے دوران جب وہ جنگ کے خلاف احتجاج کر رہا تھا تو اسے گرفتار کرلیا گیا، اسے 18 ماہ کی سزا سنائی گئی لیکن والدہ نے اس کی ضمانت کروا لی۔ وہ ایک بار پھر سے تنہائی کی زندگی گزارنے لگا۔

    ولیم نے شادی نہیں کی، اپنے خاندان سے بھی قطع تعلق کیے رکھا اور گمنامی میں زندگی بسر کرتا رہا، بالآخر وہ شخص جو دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا، سنہ 1944 میں صرف 46 سال کی عمر میں خاموشی سے اس دنیا کو چھوڑ گیا۔

    ہارورڈ سے اپنی ڈگری مکمل کرلینے کے بعد ولیم نے ایک کتاب دا اینیمیٹ اینڈ دا ان اینیمیٹ لکھی تھی، اس کتاب میں اس نے زندگی کی شروعات، علم کائنات اور اس حوالے سے دیگر سائنسدانوں کے نظریات پر اظہار خیال کیا۔

    تاہم یہ کتاب اسے تاریخ کے صفحات میں زندہ نہ رکھ سکی اور دنیا کا ذہین ترین انسان وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔

  • کیا ذہانت کی یہ نشانی آپ میں موجود ہے؟

    کیا ذہانت کی یہ نشانی آپ میں موجود ہے؟

    یوں تو ذہین افراد میں بے شمار خصوصیات ہوتی ہیں، تاہم حال ہی میں ماہرین نے ایک تحقیق کے بعد ذہین لوگوں کی ایک اور خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ افراد جو بہترین حس مزاح رکھتے ہیں اور اپنے بے ساختہ جملوں سے محفل کو گرمائے رکھتے ہیں ان کا آئی کیو لیول ان افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو حس مزاح نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایسے خواتین و حضرات جو ہنسی مذاق کے عادی ہوتے ہیں انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی زندگی میں موجود رشتے بھی دیرپا ہوتے ہیں کیونکہ وہ پریشان کن اور تناؤ زدہ صورتحال کو اپنی حس مزاح سے کم کر سکتے ہیں۔

    معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد ذہین ہونے کے ساتھ بچوں جیسی حس مزاح رکھتے تھے اور لوگوں سے ہنسی مذاق کر کے اور بے ساختہ فقرے کہہ کر بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

    چلتے چلتے آپ کو آئن اسٹائن کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے چلیں۔

    آئن اسٹائن اپنی زندگی میں مختلف جامعات اور درس گاہوں میں لیکچر دینے جایا کرتے تھے جہاں وہ اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافت کے بارے میں بتاتے۔

    ایسے ہی ایک روز لیکچر دینے کے لیے ایک کالج کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ان کے ڈرائیور نے ان سے کہا، ’سر آپ کا یہ لیکچر میں اتنی بار سن چکا ہوں کہ یہ مجھے لفظ بہ لفظ یاد ہوگیا ہے۔ اب تو میں بھی لیکچر دے سکتا ہوں‘۔

    مزید پڑھیں: ذہین بنانے والے 6 مشغلے

    آئن اسٹائن نے ڈرائیور کی بات سن کر کہا، ’اچھا ایسی بات ہے تو آج کا لیکچر تم دو۔ وہ لوگ مجھے شکل سے نہیں پہچانتے، لہٰذا تم باآسانی آئن اسٹائن بن کر وہاں لیکچر دے سکتے ہو‘۔

    ڈرائیور نے ایسا ہی کیا اور آئن اسٹائن بن کر لیکچر دیا جس میں ایک بھی غلطی نہیں تھی۔ لیکچر کے اختتام پر اپنے علم پر نازاں ایک گھمنڈی پروفیسر نے اپنے تیئں آئن اسٹائن کا امتحان لینے کے لیے ایک نہایت مشکل سوال پوچھا۔

    سوال سن کر ڈرائیور نے کہا، ’اتنا آسان سوال؟ میں تو حیران ہوں آپ نے اتنا آسان سوال پوچھا ہی کیسے۔ اس کا جواب تو میرا ڈرائیور بھی دے سکتا ہے‘۔

    یہ کہہ کر اس نے آئن اسٹائن کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت ڈرائیور کے روپ میں بیٹھے تھے۔ آئن اسٹائن نے کھڑے ہو کر پروفیسر کے سوال کا مفصل جواب دیا جس سن کر پروفیسر بے حد شرمندہ ہوا۔

  • یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    یہ خراب عادات ذہانت کی نشانی

    آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ذہین افراد عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذہانت سے جہاں بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہوتے ہیں وہیں زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملوں میں نہایت لاپروا ہوتے ہیں اور ان کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو ان سے بے حد شکایات ہوتی ہیں۔

    یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ اکثر شاعر، ادیب اور مصور نہایت بد دماغ ہوتے ہیں۔ ایک عمومی خیال یہ ہے کہ کوئی تخلیق کار جتنا زیادہ شاہکار تخلیق کرتا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ چڑچڑا اور بد مزاج ہوگا اور لوگوں سے ملنا سخت ناپسند کرتا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    اسی طرح اکثر سائنسدان بھولنے کی عادت کا شکار ہوتے ہیں۔ مشہور سائنسدان آئن اسٹائن کبھی بھی لوگوں کے نام یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ لوگ چاہے اس سے کتنی ہی بار ملتے، انہیں ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف کروانا پڑتا تھا۔

    برصغیر کے مشہور شاعر اور فلسفی علامہ اقبال بھی اسی عادت کا شکار تھے۔ وہ فکر اور مطالعہ میں اس قدر مصروف رہتے کہ کھانا کھانا بھی بھول جاتے تھے اور اس کے بعد اپنے ملازم الٰہی بخش کو آواز دے کر پوچھتے، ’کیا ہم نے کھانا کھا لیا ہے‘؟

    مزید پڑھیں: دماغی کارکردگی میں اضافہ کے لیے 10 ورزشیں

    یہاں ہم نے ذہین افراد کی کچھ ایسی ہی عادات اور ان کی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔


    راتوں کو دیر سے جاگنا

    smart-2

    دنیا کے اکثر تخلیق کار اور ذہین افراد راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں۔ سائنس کے مطابق رات کی تنہائی اور خاموشی ذہین افراد کے دماغ کے خلیات کو متحرک اور ان کی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرتی ہے۔

    اکثر ذہین افراد اور فنکار راتوں کو جاگ کر ہی اپنے شاہکار تخلیق کر ڈالتے ہیں۔


    خراب زبان استعمال کرنا

    smart-3

    ایک عام تصور یہ ہے کہ خراب زبان اور برے الفاظ استعمال کرنا کم علمی یا جہالت کی نشانی ہے۔ لیکن اب سائنسدانوں نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ جو شخص کبھی برے الفاظ استعمال نہیں کرتا یہ اس کے کم علم ہونے کی نشانی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس ذخیرہ الفاظ کی کمی ہے۔

    اس کے برعکس وسیع مطالعہ کے حامل افراد اپنے غصہ یا دیگر جذبات کا اظہار نہایت وسیع ذخیرہ الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زیادہ مطالعہ کرتے ہیں بلکہ مطالعہ کر کے اسے یاد بھی رکھتے ہیں۔


    چیزیں پھیلانے کے عادی

    smart-4

    ذہین افراد کے کمرے اور کام کرنے کی جگہ عموماً بکھری ہوئی ہوتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ دراصل وہ اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔

    وہ چیزوں کی صفائی کرنے یا انہیں سمیٹنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ وقت کا ضیاع ہوتی ہیں۔


    لوگوں سے کم میل جول

    ذہین افراد لوگوں سے کم میل جول رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے کام کو دیتے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا ان کے نزدیک ایک بے مقصد سرگرمی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہین افراد کم دوست کیوں بناتے ہیں؟

    دوسری وجہ ان کی خود پسندی ہوتی ہے۔ چونکہ وہ نہایت وسیع النظر ہوتے ہیں لہٰذا وہ عام افراد کی عام موضوعات پر گفتگو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے جیسے بلند دماغ افراد سے ہی ملنا پسند کرتے ہیں چاہے ان سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔

    کیا آپ میں بھی ان میں سے کوئی عادت موجود ہے؟ تو جان جائیں کہ آپ کا شمار بھی ذہین افراد میں ہوتا ہے اور آپ بھی اپنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام درج کروا سکتے ہیں۔

  • وہ انوکھی نشانیاں جو ذہانت کا تعین کریں

    وہ انوکھی نشانیاں جو ذہانت کا تعین کریں

    ذہین افراد کی فطرت و عادات میں کچھ مخصوص نشانیاں پائی جاتی ہیں جو ان کی ذہانت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذہانت سے بے خبر ہوتے ہیں اور خود کو در خو اعتنا نہیں سمجھتے۔

    کہیں آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں نہیں ہوتا؟ تو پھر ہم نے آپ ہی کے لیے ایسی فہرست مرتب کی ہے جو اگر آپ کی زندگی میں موجود ہے تو جان جائیں کہ آپ کا شمار بھی ذہین افراد میں ہوتا ہے۔


    موسیقی سیکھنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی سیکھنا یا کوئی آلہ موسیقی بجانا دماغ کے خلیات کو فعال کرتا ہے۔ ان کے مطابق صرف ایک مہینے تک موسیقی کی کلاس لینا 4 سے 6 سال کے بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافہ کرتی ہے۔

    کیا آپ نے کبھی بچپن یا اوائل نوجوانی میں موسیقی کی کلاس لی ہے؟ تو پھر جان جائیں کہ آپ اپنے ارد گرد موجود افراد سے زیادہ ذہین ہیں۔


    بہن بھائیوں میں بڑا ہونا

    ایک تحقیق کے مطابق سب سے بڑے بھائی یا بہن میں دیگر بچوں کی نسبت زیادہ ذہانت موجود ہوتی ہے۔ بڑے بہن بھائی چھوٹوں کی نسبت اپنی زندگی میں زیادہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔


    اسمارٹ جسامت

    ایک حیرت انگیز تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کمر کی موٹائی کا تعلق حیرت انگیز طور پر ذہانت سے بھی ہے۔ جس شخص کی کمر جتنی چوڑی ہوتی ہے، ذہانت کے امتحان میں اس کی کامیابی کا امکان اتنا ہی کم ہوتا ہے۔


    بلند قامتی

    کیا آپ کا قد دیگر ساتھیوں سے لمبا ہے اور اس وجہ سے آپ اپنے دوستوں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں؟ تو اس بات پر ان سے خفا ہونا چھوڑ دیں کیونکہ آپ کی بلند قامتی آپ کے ذہین ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔


    ماں کا دودھ پینا

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ماں کا دودھ پینے والے بچے دیگر اقسام کا دودھ پینے والوں بچوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔


    پریشان ہونا

    کیا آپ پریشان کن صورتحال کو چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں اور فطرتاً لاپرواہ ہیں؟ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجانا بظاہر تو مضر عادت لگتی ہے، تاہم یہ نہ صرف ذہانت کی نشانی ہے بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ آپ ہر قسم کے مسائل کو دور اندیشی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


    بائیں ہاتھ کا استعمال

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بائیں (الٹے) ہاتھ سے کام کرنے والے افراد دائیں (سیدھے) ہاتھ سے کام کرنے والے افراد کی نسبت زیادہ ذہین اور تخلیقی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔


    حس مزاح

    کسی شخص میں حس مزاح کا موجود ہونا بھی اس کے ذہین ہونے کا ثبوت ہے۔


    پرتجسس ہونا

    چیزوں کے بارے میں پر تجسس ہونا اور جاننے کی کوشش کرنا بھی آپ کے ذہین ہونے کی نشانی ہے۔


    کاملیت پسندی

    ذہین افراد اپنے ہر کام میں پرفیکشن چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ظاہری حلیے سے لے کر پیشہ وارانہ امور تک ہر کام نہایت پرفیکشن سے سر انجام دیتے ہیں چاہے اس کے لیے انہیں زیادہ محنت اور وقت کیوں نہ صرف کرنا پڑے۔


    خراب لکھائی

    کیا اپنی خراب لکھائی پر آپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ تو پھر اس شرمندگی سے چھٹکارہ پالیں کیونکہ ذہین افراد کا ذہن نہایت تیز چلتا ہے اور ان کے ہاتھ کی رفتار ذہن کا ساتھ نہیں دے پاتی، نتیجتاً ایسے افراد نہایت خراب لکھائی میں اپنا خیال پیش کرتے ہیں۔


    مطالعے کا شوق

    اگر آپ کو بچپن سے مطالعے کا شوق ہے اور آپ نے بچپن ہی سے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا تو یقیناً آپ کی معلومات اپنے دیگر ساتھیوں سے زیادہ ہوگی۔ یہی نہیں آپ مختلف مسائل اور پریشانیوں کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔


    رات کو جاگنا

    یوں تو دن کو جاگ کر کام کرنا اور رات میں سوجانا ہماری طے کردہ فطرت ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو اس کے برعکس ہوں، راتوں کو جاگتے ہوں اور دن میں سوتے ہوں وہ بھی عموماً ذہین اور تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شہد کی مکھیاں فٹبال کھیلنے کی صلاحیت کی حامل

    شہد کی مکھیاں فٹبال کھیلنے کی صلاحیت کی حامل

    کیا آپ جانتے ہیں شہد کی مکھیاں فٹ بال کھیل سکتی ہیں اور گول بھی کر سکتی ہیں؟

    سننے میں یہ بات بہت حیران کن لگتی ہے مگر یہ حقیقت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں اپنے جیسے دیگر اڑنے والے کیڑوں سے کہیں زیادہ ذہین اور چالاک ہوتی ہیں اور ان میں بہت تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

    ان کی آواز اور حرکت جسے ہم ان کا اڑنا اور بھنبھناہٹ سمجھتے ہیں، دراصل دوسری مکھیوں کے لیے اشارہ ہے کہ انہیں کہاں سے زیادہ غذا ملے گی۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ ایک ننھے بیج سے بھی کم جسامت کا دماغ رکھنے والی شہد کی مکھی فٹبال بھی کھیل سکتی ہے۔

    bee-2

    تحقیق کے لیے مکھی کی جسامت سے مطابقت رکھتی ایک چھوٹی سی گیند اور اتنا ہی گراؤنڈ بنایا گیا۔ بعد ازاں ایک مکھی کو فٹبال کھیلنے کی تربیت دی گئی۔ اس کے لیے اسے گیند کی سمت بتائی گئی اور صحیح حرکت پر اسے انعام میں چینی کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔

    مکھی نے بہت جلد بتائی گئی مووز کو سیکھ لیا۔

    اس کے بعد اس مکھی کو دیکھ کر ہر مکھی نے فٹبال کھیلنا سیکھی، کھیلی اور گول کیا۔

    bee-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیوں میں سیکھنے کی حد درجہ صلاحیت موجود ہوتی ہے اور یہی خوبی اسے دوسرے کیڑوں سے ممتاز بناتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میں اسمارٹ نہیں جینیئس ہوں‘ ڈونلڈ ٹرمپ

    میں اسمارٹ نہیں جینیئس ہوں‘ ڈونلڈ ٹرمپ

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صحت پرظاہر کیے جانے والے شہبات کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں احمق نہیں بلکہ ہمیشہ سے حاضردماع اور ذہین ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی ذہنی صلاحیت سے متعلق ٹویٹرپراپنے پیغام میں کہا میں دماغی صلاحیتوں میں استحکام اور حاضردماغی میری پوری زندگی کے دو عظیم اثاثے ہیں، چالاک ہیلری کلنٹن نے ان کارڈز کا بھرپور استعمال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ میں بہترین کالج میں گیا، میں بہترین طالب علم تھا، وہاں سےفراغت کے بعد میں نےاربوں ڈالرکمائے، بہترین تاجروں میں شمار ہوا، ٹی کے شعبے میں گیا جہاں 10 سالوں تک زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوا جیسا کہ آپ سب نے سنا ہوگا۔

    امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا کہ میراخیال ہے کہ میں صرف ایک حاضردماغ انسان نہیں بلکہ ذہین ترین شخص کہلانے کے لائق ہوں۔

    خیال رہے کہ ڈونلڈٹرمپ کے حوالے سے امریکی صحافی مائیکل وولف نے فائراینڈفیوری کے نام سے کتاب تحریر کی ہے جس میں انہوں نے ٹرمپ کو مضحکہ خیز اور احمق آدمی قرار دیا ہے جو اپنے ملازموں پرشک کرتا ہے اور ہروقت چیختا جلاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آکٹوپس حیران کن صلاحیتوں اور ذہانت کا حامل

    آکٹوپس حیران کن صلاحیتوں اور ذہانت کا حامل

    سمندر میں رہنے والا آکٹوپس جسے اپنی 8 ٹانگوں کی وجہ سے ہشت پا بھی کہا جاتا ہے، بظاہر ایک بے ضرر جاندار ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ سمندری جانور انتہائی ذہین ہے؟

    اب سے 40 کروڑ سال قبل وجود میں آنے والا یہ جانور زمین کے اولین ذہین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی جس وقت یہ زمین پر موجود تھا، اس وقت ذہانت میں اس کے ہم پلہ دوسرا اور کوئی جانور موجود نہیں تھا۔

    آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات (نیورونز) موجود ہوتے ہیں۔

    ان کے اندر انسانوں سے 10 ہزار زائد جینز موجود ہوتے ہیں جنہیں یہ اپنے مطابق تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔

    آکٹوپس موقع کے حساب سے اپنے آپ کو ڈھالنے کی شاندار صلاحیت رکھتا ہے۔

    یہ نہ صرف رنگ بدل سکتا ہے بلکہ اپنی جلد کی بناوٹ بھی بدل لیتا ہے اور ایسی شکلیں اختیار کر لیتا ہے کہ دشمن یا شکار نزدیک ہونے کے باوجود بھی دھوکہ کھا جاتا ہے۔

    اگر آپ آکٹوپس کو کسی جار میں بند کر کے اوپر سے ڈھکن لگا دیں تو یہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس ڈھکن کو باآسانی کھول کر آزاد ہوجائے گا۔

    اسی طرح یہ معمولی نوعیت کے پزل بھی حل کرسکتے ہیں۔

    آکٹوپس کو پالتو جانوروں کی صورت میں بھی رکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ اپنے مالک کو پہچاننے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ جانور محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لہٰذا برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں آکٹوپس کو بے ہوش کیے بغیر تحقیقی مقاصد کے لیے ان کے جسم کے ساتھ چیر پھاڑ کرنا قانوناً جرم ہے۔

    آکٹوپس غیر فقاری (ان ورٹی بریٹس) جانور ہیں یعنی ان میں ریڑھ کی ہڈی موجود نہیں، اور یہ اس اقسام کے جانوروں میں ذہین ترین سمجھے جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • اس سوال کا جواب صرف ذہنی مریض یا بے حد ذہین انسان دے سکتا ہے

    اس سوال کا جواب صرف ذہنی مریض یا بے حد ذہین انسان دے سکتا ہے

    بعض دفعہ کسی انسان کی ظاہری شخصیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی ذہنی مرض یا ذہنی خلل کا شکار ہے۔ اسی طرح بعض ڈاکٹرز بھی اندازہ لگانے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کا مریض اس وقت کس کیفیت کا شکار ہے اور اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔

    ایسے افراد کی جانچ کرنے کے لیے یہاں ایسے ہی 2 سوالات دیے جارہے ہیں جن کے درست جواب صرف ایک ذہنی خلل کا شکار شخص ہی دے سکتا ہے۔

    اور ہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر آپ غیر معمولی ذہانت کے حامل ہیں تب بھی آپ ان سوالوں کا درست جواب دے سکتے ہیں۔

    نوٹ: مندرجہ ذیل تصاویر کو دیکھیں، ان کے سوال کو سمجھیں اور اس بات پر ذہن مرکوز کریں کہ آپ کا دماغ کیا بتا رہا ہے۔ منطق اور اصول کو ایک طرف رکھیں اور صرف وہ جواب دیں جو آپ کا دماغ آپ کو بتا رہا ہے۔

    پہلا سوال: کیا یہ ماسک دونوں جانب سے محدب (باہر کو ابھرا ہوا ) ہے یا اس کا ایک حصہ کھوکھلا ہے؟

    دوسرا سوال: یہ ماسک ایک طرف گھوم رہا ہے یا دونوں طرف؟


    درست جواب

    پہلے سوال کا درست جواب ہے کہ ماسک ایک طرف سے محدب جبکہ دوسری طرف سے کھوکھلا ہے جیسے کہ ماسک ہوتا ہے۔

    دوسرے سوال کا درست جواب یہ ہے کہ ماسک صرف ایک سمت یعنی دائیں سمت میں گھوم رہا ہے۔


    آپ کون ہیں؟

    اب آپ کا جواب آپ کی شخصیت کا تعین کرے گا۔ اگر آپ نے دونوں جواب غلط دیے ہیں تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ دماغی طور پر بالکل صحت مند ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغی طور پر صحت مند آدمی کسی بھی شے کو عقل اور اصول کے مطابق پرکھتا ہے۔ پہلے سوال میں کوئی بھی ذہنی طور پر صحت مند شخص دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ ماسک صرف اپنی ایک سمت دکھا رہا ہے۔

    اس کے برعکس دماغی خلل کا شکار افراد اتنی گہرائی سے نہیں سوچتا، وہ فوری طور پر اسی پر نتیجہ قائم کرتا ہے جو اسے نظر آتا ہے۔

    ہاں البتہ اگر آپ نے ایک بھی سوال کا جواب درست دیا ہے تو آپ کو دماغی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضروت ہے۔


    دماغی مرض اور ذہانت میں کیا تعلق ہے؟

    غیر معمولی طور پر ذہانت کے حامل افراد میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ عام افراد کی طرح بھی سوچ سکتے ہیں جبکہ چاہیں تو تصویر کا دوسرا رخ دیکھ کر کسی دماغی خلل کا شکار افراد کی طرح بھی سوچ سکتے ہیں۔

    تو اگر آپ نے دونوں سوالات کے درست جواب دیے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، ہوسکتا ہے آپ غیر معمولی طور پر ذہین ہوں۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    پہلی اولاد دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین

    کیا آپ کو لگتا ہے دنیا میں ہر نیا آنے والا بچہ پہلے آنے والے بچے کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور تیز طرار ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس غلط فہمی کو اب دور کرلینے کی ضرورت ہے کیونکہ ماہرین نے تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ والدین کا پہلا بچہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈن برگ میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق چونکہ کسی بھی جوڑے کا پہلا بچہ اپنے والدین کی تمام تر توجہ، نگہداشت اور دھیان پانے میں کامیاب رہتا ہے لہٰذا اس کی سطح ذہانت اپنے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت بلند ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یوں تو والدین اپنی تمام اولادوں کو یکساں توجہ اور شفقت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم تحقیق کے لیے کیے جانے والے سروے میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان کے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے لاشعوری طور پر بچوں کے لیے ان کی توجہ کے لیے کمی آتی جاتی ہے۔

    پہلی بار والدین بننا چونکہ ان کے لیے نیا تجربہ ہوتا ہے لہٰذا وہ پہلے بچے کا حد سے زیادہ دھیان اور خیال رکھتے ہیں، اور معمولی معمولی مسائل پر بھی بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔

    آہستہ آہستہ دیگر بچوں کے ساتھ ان کا رویہ معمول کے مطابق ہوجاتا ہے اور وہ ان کا خیال تو رکھتے ہیں، مگر وہ غیر معمولی حد تک نہیں ہوتا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    والدین کی یہی اضافہ توجہ بڑے بچوں کو ذہین اور باصلاحیت بنا دیتی ہے۔

    ماہرین نے اس سے پہلے بھی اسی سلسلے کی ایک تحقیق میں آگاہ کیا تھا کہ اپنے والدین کے پہلے بچے زندگی میں نہایت کامیاب ثابت ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے امکانات اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    معروف امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے کہتا ہے، ’ذہین افراد کا خوش ہونا، ایک ایسا عمل ہے جو میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھا ہے‘۔

    آپ نے ذہین افراد کو عام افراد کے مقابلے میں کچھ مختلف دیکھا ہوگا۔ ان کی عادتیں، چیزوں کو محسوس کرنے کے طریقے، گفتگو وغیرہ سب کچھ عام افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

    ایسے لوگ تنہائی پسند، کم میل جول رکھنے والے، اور بے ترتیب عادات کے مالک بھی ہوتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ذہین افراد کو خوش ہونے کا موقع بھی بہت کم ملتا ہے؟ اگر یہ ایک نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہوں، ان کی زندگی میں کوئی کمی نہ ہو، اور انہیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہو، تب بھی آپ انہیں خوش نہیں دیکھیں گے۔

    ماہرین نفسیات اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، آئیے آپ بھی وہ وجوہات جانیں۔

    بہت زیادہ سوچنا

    intelligent-3

    ذہین افراد ہر شے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ وہ مختلف خوشگوار اور تلخ واقعات کا بار بار تجزیہ کرتے ہیں اور ہر بار اس تجزیے کے مختلف نتائج حاصل کرتے ہیں، جس میں کہیں نہ کہیں دکھ یا تلخی کا عنصر چھپا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو ناگوار واقعات کو درگزر اور نظر انداز کرنا سیکھیں۔

    بلند ذہنی سطح

    intelligent-4

    ذہین افراد کی ذہنی سطح عام افراد سے کچھ بلند ہوتی ہے۔ وہ عام افراد کے بے مقصد خیالات اور گفت و شنید میں حصہ نہیں لے سکتے۔

    وہ چاہتے ہیں کہ ان سے ان کے ذہنی معیار کے مطابق گفتگو کی جائے، اور جب انہیں اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ تنہا اور اداس محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ایسے افراد اپنے جیسے ذہنی معیار کے حامل افراد کے ساتھ نہایت خوش رہتے ہیں۔

    اپنا محاسبہ کرنا

    intelligent-2

    ذہین افراد اپنی ذات کے لیے کڑا معیار رکھتے ہیں اور وہ نہایت سخت اصولوں پر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور سزا زندگی کی کئی نعمتوں اور رشتوں سے محروم بھی کر لیتے ہیں جو انہیں اداسی کا شکار بنا دیتی ہے۔

    مختلف انداز فکر

    intelligent-5

    ذہین افراد کی قوت تخیل بلند اور انداز فکر مختلف ہوتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں یا چیزوں پر خوش نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کے مدنظر بڑی کامیابی اور بڑا مقصد ہوتا ہے۔

    دماغی امراض کا شکار؟

    bipolar

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ ذہین اور حساس افراد اکثر اوقات دماغی امراض اور الجھنوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جس میں سب سے عام مرض بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔

    مزید پڑھیں: بائی پولر ڈس آرڈر ۔ علامات اور علاج

    اس مرض میں موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کا دورانیہ بعض اوقات کئی ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ایک اور عام مرض اینگزائٹی یا بے چینی ہے جس میں خوف، عدم تحفظ، گھبراہٹ اور بے دلی کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔