Tag: ذیابیطس

  • ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    کراچی: پاکستان بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج اور طبی معاونت فراہم کرنے کے لیے 3,000 ذیابیطس کلینکس کا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے، اس نیٹ ورک کے تحت روزانہ تقریباً 75,000 مریضوں کو بلا معاوضہ علاج اور رہنمائی فراہم کی جائے گی۔

    ماہر ذیابطیس اور ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر عبدالباسط نے اس سلسلے میں ہفتے کے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈائبٹیز نیٹ ورک (NDN) کے تحت چلنے والے ان کلینکس میں مریضوں کو 50 فی صد رعایتی قیمت پر ادویات اور انسولین بھی فراہم کی جائے گی۔

    انھوں نے کہا اس وقت پاکستان میں لاکھوں افراد شوگر کے مرض کا علاج نہ ہونے کے باعث مستقل معزور (پاؤں کے زخم) اور قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ نیٹ ورک ان لاکھوں افراد کو ذیابیطس کا معیاری علاج اور دیکھ بھال فراہم کرے گا۔

    پروفیسر عبدالباسط کے مطابق کراچی میں ان کلینکس کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں جانے کا فیصلہ کیا گیا، یہ کلینکس خصوصاً ان علاقوں میں قائم کیے جائیں گے جہاں صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔

    ہر کلینک روزانہ 25 ذیابیطس مریضوں کو مفت مشاورت فراہم کرے گا اور اس طرح تین ہزار کلینکس پر روزانہ 75 ہزار افراد کو علاج کی مفت سہولیات میسر آئیں گی۔ پروفیسر باسط کے مطابق ان مریضوں کو 50 فی صد رعایت پر دوائیں، انسولین اور 25 فی صد رعایت پر لیبارٹری ٹیسٹ فراہم کیے جائیں گے، جس کے لیے چغتائی لیب کے ساتھ شراکت داری کی گئی ہے۔

    انھوں نے بتایا روزانہ تقریباً 35-40 افراد ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ٹانگیں اور پاؤں کٹوا بیٹھتے ہیں، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس سال کے آخر تک 600,000 افراد کی ٹانگیں کٹنے کا خطرہ ہے۔

    گیٹس فارما کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود نے کہا کہ پاکستان میں صحت کی صورتحال اور حالات کچھ افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں، جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کو ویکسینیشن کی کوریج، غذائیت، اور زچہ و بچہ کی صحت کے شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔

    خیال رہے کہ نجی شعبے کی جانب سے شروع کیا جانے والا یہ دنیا میں صحت کا سب سے بڑا مفت نیٹ ورک ہوگا، یہ ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے تحت این ڈی این اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیلتھ کیئر پلیٹ فارم ’میری صحت‘ اور گیٹس فارما کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔

  • کیا آپ کو ذیابیطس لاحق ہے؟ اپنا معائنہ خود کریں

    کیا آپ کو ذیابیطس لاحق ہے؟ اپنا معائنہ خود کریں

    شوگر یعنی ذیابیطس تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو علم ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ اس کا کب اور کیسے شکار ہوا۔

    اس بیماری کا شکار ہونے کی صورت میں کچھ علامات ایسی ہوتی ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کو اپنا چیک اپ کروا لینا چاہئے تاکہ ذیابیطس کی شکایت ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔

    ذیابیطس نہ صرف خود ایک بیماری ہے بلکہ دوسری خطرناک بیماریوں جیسے ہارٹ اٹیک، اسٹروک، اندھاپن یہاں تک کہ پیروں سے بھی معذور کرسکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ شوگر کے مرض کو معمولی نہ سمجھا جائے اور مرض کی تشخیص ہونے پر پورا علاج اور احتیاط کی جائے، اگر آپ اپنے اندر یہ علامات پائیں تو شوگر ٹیسٹ ضرور کروائیں تاکہ بروقت اس مرض کا علاج ہوسکے

    بار بار پیشاب آنا :

    جب جسم زائد گلوکوز کو خارج کرنے کے لئے تمام سیلز کا پانی لے لیتا ہے تو اسے صاف اور دوبارہ جذب کرنے کے لئے گردوں کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور اس کے اخراج کے لئے آپ کو جلدی جلدی پیشاب کرنے کیلئے واش روم جانا پڑتا ہے، بہت زیادہ پیشاب کرنے کے نتیجے میں پیاس بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ذیابیطس کے مریض افراد اگر جوسز، کولڈ ڈرنکس یا دودھ وغیرہ کے ذریعے اپنی پیاس کو بجھانے کی خواہش میں مبتلا ہوجائیں تو یہ خطرے کی علامت ہوسکتی ہے۔

    سستی

    اگر آپ کی نیند پوری نہ ہوتو آپ دن بھر سست رہتے ہیں لیکن شوگر کے مرض میں سستی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کا جسم اس کھائی ہوئی غذا کو استعمال نہیں کر پاتا، اگر کھانا کھانے کے بعد آپ کو توانائی محسوس ہونے کے بجائے سستی محسوس ہو تو یہ شوگر کے مرض کی علامت ہوسکتی ہے ۔

    بھوک اور پیاس زیادہ لگنا:

    شوگر کے مرض کی ایک نشانی بار باربھوک اورپیاس لگنا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم خون میں گلوکوز کی زیادہ مقدار کو جب استعمال نہیں کر پاتا تو اسے باہر نکالنے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے جسم تمام سیلز کا پانی استعمال کرتا ہے اور اس طرح گلوکوز کے ساتھ اہم غذائی اجزاء بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں بار بار بھوک اور پیاس لگتی ہے۔

    جسمانی وزن میں کمی

    جسمانی وزن میں اضافہ ذیابیطس کے لیے خطرے کی علامت قرار دی جاتی ہے تاہم وزن میں کمی آنا بھی اس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن میں کمی دو وجوہات کی بناءپر ہوتی ہے، ایک تو جسم میں پانی کی کمی ہونا (پیشاب زیادہ آنے کی وجہ سے) اور دوسری خون میں موجود شوگر میں پائے جانے والی کیلیوریز کا جسم میں جذب نہ ہونا۔

    دھندلا نظر آنا:

    آنکھوں کو بھی صحیح طرح کام انجام دینے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ،شوگر کی وجہ سے آنکھوں میں ہوجانے والی خشکی کی وجہ سے دھندلا نظر آنے لگتا ہے۔صحیح اور بر وقت علاج کے ذریعے اسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو شوگر کی وجہ سے نروز کو نقصان پہنچتا ہے جس کے نتیجے میں بینائی بھی جاسکتی ہے ۔

    زخم یا خراشوں کے بھرنے میں تاخیر

    زخموں کو بھرنے میں مدد دینے والا دفاعی نظام اور پراسیس بلڈ شوگر لیول بڑھنے کی صورت میں موثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں زخم یا خراشیں معمول سے زیادہ عرصے میں مندمل ہوتے ہیں اور یہ بھی ذیابیطس کی ایک بڑی علامت ہے۔

    پیروں، ٹانگوں کا سن ہوجانا:

    شوگر خون کی نالیوں کو سخت کرنے کے ساتھ نروز کو بھی نقصان پہنچاتی ہے جس کی علامات پیروں اور ٹانگوں میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ دوران خون میں کمی اور نروز کی خرابی جلد کے السر اور انفیکشن کا باعث بنتی ہیں جو ٹھیک نہیں ہو پاتے یا زیادہ وقت لیتے ہیں کیونکہ آپ کے پیر سن رہتے ہیں اس لئے آپ کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے پیر میں کتنی تکلیف ہے۔

    مثانے کی شکایات

    پیشاب میں شکر کی زیادہ مقدار بیکٹریا کے افزائش نسل کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں مثانے کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بار بار انفیکشن کا سامنے آنا فکرمندی کی علامت ہوسکتی ہے اور اس صورت میں ذیابیطس کا ٹیسٹ لازمی کرالینا چاہئے کیونکہ یہ اس مرض میں مبتلا ہونے کی بڑی علامات میں سے ایک ہے۔

  • مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    آج صبح دفتر میں اپنی ایک عزیز سہیلی اور کولیگ سے ملاقات ہوئی تو انھیں آزردہ پایا۔ دل میں خیال آیا معلوم نہیں کیا ہو گیا، کل تک تو اچھی بھلی تھیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کچھ دن سے ان کی طبعیت ناساز تھی، معالج کے کہنے پر خون کے چند ٹیسٹ کروائے جس کے بعد کولیسٹرول کی زیادتی اور یورک ایسڈ کے مسئلے کی تشخیص ہوئی ہے۔

    اب یہ معاملہ تو وہی ہے کہ خود پر توجہ نہ دینا اور جب کوئی مسئلہ یا تکلیف محسوس ہو تو اسے نظر انداز کرتے رہنا۔ ہمارے ہاں یہ بہت عام ہے کہ ہم معمولی تکلیف اور بیماری میں سوچتے ہیں کہ چلے جائیں گے ڈاکٹر کے پاس، جلدی کیا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ وزن بڑھ رہا ہے، مٹاپے کی طرف جارہے ہیں مگر اس پر توجہ نہیں دیتے اور یہ کہتے ہیں‌ کہ چھوڑو، ایسا بھی کیا ہوگیا، کون دیکھتا ہے۔ اس طرح ہم خود کو تسلی دیتے رہتے ہیں اور جب ہمیں ہوش آتا ہے تو پانی سَر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ جو لوگ فربہی کی طرف مائل ہو رہے ہوں یا مٹاپے کا شکار ہو رہے ہوں انھیں اپنے دماغ سے یہ بات نکال دینی چاہیے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں یا چھوڑو کچھ نہیں ہوتا۔

    مٹاپے کا شکار لوگوں کی ایک قسم تو وہ ہوتی ہے جو کھانا وقت پر نہیں کھاتے اور جنک فوڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ جنک فوڈ مٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ اگر غذا اور خوراک کے حوالے سے ہم اپنی عادات تبدیل کریں اور وقفے وقفے سے کھائیں تو اس سے نہ صرف معدہ پر بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ آپ موٹاپے کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔

    ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ بچپن میں موٹے ہوتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے ان میں مٹاپا بڑھتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو اکثر لوگ بھوک مٹانے کے لئے صحت بخش غذاؤں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ جو مل جائے کھا لیتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے محقیقن نے بتایا ہے کہ دس میں سے سات افراد ایسے ہوتے ہیں جو ابتدائی عمر ہی سے مٹاپے پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کے ایک میڈیکل جرنل کے مطابق سعودی عرب کے شہری سستی اور کاہلی میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہیں، یہاں 63 فیصد سے زائد افراد بالکل ورزش نہیں کرتے اور چالیس فیصد شہری مٹاپے کا شکار ہیں۔ کویت میں 21 فیصد سے زائد شہری ذیابیطس کا شکار ہیں جس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ جنک فوڈ کھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ رمضان المبارک میں آپ کو پھلوں اور دوسری سادہ غذا کے بجائے زیادہ تر افراد کچوریاں، سموسے اور اسی طرح کی تلی ہوئی اشیا خریدتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس کی ایک وجہ وقت کی کمی ہے اور اکثریت عجلت میں جنک فوڈ کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض عام ہوچکا ہے اور بڑے ہی نہیں بچّے بھی اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹاپے کی وجہ سے لوگ گردوں‌ کی تکلیف میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔

    مٹاپا اور اس کی وجہ سے لاحق ہونے والی دوسری بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ متوازن اور صحت بخش غذا کی جگہ جنک فوڈ اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال اور اس پر ہماری کاہلی اور سہل پسندی کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہم ایسی بہت سی عادتیں اپنا چکے ہیں یا کچھ مفید سرگرمیوں کو ترک کردیا ہے جن کی وجہ سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ان میں ورزش نہ کرنا، یا جسمانی سرگرمیوں سے دور رہنا اور نیند پوری نہ کرنا شامل ہیں۔

  • قدرتی طور پر بلڈ شوگر کم کرنے کے 6 طریقے

    قدرتی طور پر بلڈ شوگر کم کرنے کے 6 طریقے

    ذیابیطس ایک خاموش قاتل کہلائے جانے والا مرض ہے کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے۔

    اس کے بچاؤ کیلئے ضروری ہے کہ بلڈ شوگر کو چیک کراتے رہنا چاہیے اور ہر بار اس میں ہونے والا اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آگے بڑھ کر آپ کو ذیابیطس کا مریض بھی بنا سکتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خون میں شوگر کو متوازن رکھنا بہت ضروری ہے، میتھی، سیب کا سرکہ، اور فائبر اور زنک جیسے سپلیمنٹس تمام قدرتی علاج ہیں جو گلوکوز کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

    اگر آپ ذیابیطس کی روک تھام کیلیے سنجیدہ اقدامات کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے کچھ قدرتی علاج بھی ہیں ان ہدایات پر عمل کرکے آپ اس پر کافی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔

    مندرجہ ذیل مضمون میں یہاں چھ ایسے طریقے بیان کیے جارہے ہیں جو آپ کو بلڈ شوگر کے اضافے سے بچنے اور گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

    1: ورزش

    باقاعدگی سے ورزش کرنے سے بلڈ شوگر کی سطح بہتر ہوسکتی ہے، ورزش سے آپ کے خلیے جسم میں پٹھوں کو طاقت دینے کے لیے گلوکوز کو توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

    ورزش کے بعد آپ کے پٹھوں میں دوران خون سے زیادہ گلوکوز پہنچتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ آپ جتنے فٹ ہوتے ہیں انسولین کے نظام میں اتنی ہی بہتری آتی ہے۔

    2: فائبر سے بھرپور غذائیں کھائیں

    فائبر سے بھر پور غذائیں طویل العمری اور صحت مند زندگی کی کنجی ہیں، فائبر درحقیقت دو اقسام کا ہوتا ہے ایک کولیسٹرول کی سطح کم کرنے والا یا آسانی سے ہضم ہونے والا جو کہ دلیہ، مٹر، بیج، سیب، ترش پھل، گاجر وغیرہ میں پایا جاتا ہے جبکہ ایک قسم جذب نہ ہونے والا فائبر ہے جو گندم کے آٹے، گریوں، آلو اور سبزیوں جیسے گوبھی میں پایا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ گری دار میوے، بیج، سیب، کیلے، انگور اور بیریز وغیرہ، فائبر آپ کے جسم کو انسولین کی فراہمی کے لیے مدد کرتا ہے۔

    3 : سیب کا سرکہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیب کا سرکہ بلڈ شوگر کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے،
    ایک جائزے کے مطابق کھانے کے ساتھ ایک سے دو کھانے کے چمچ سیب کا سرکہ پانی ملا کر پینے سے بلڈ شوگر میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔

    4 : میتھی کا استعمال

    سال 2023میں کیے جانے والے ایک تحقیقی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ میتھی کھانے سے اے آئی سی اور کھانے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح کم ہو سکتی ہے۔ میتھی میں فور ہائیڈروکسی آئسولین نامی امینو ایسڈ ہوتا ہے جو لبلبہ کو انسولین کے اخراج کے لیے تحریک دیتا ہے۔

    آپ کو فارمیسیز یا میڈیکل اسٹورز سے میتھی کے سپلیمنٹس مل سکتے ہیں، آپ میتھی کے بیجوں کو رات بھر گرم پانی میں بھگو کر خود بھی تیار کر سکتے ہیں، جس سے انہیں چبانے اور نگلنے میں آسانی ہوتی ہے۔

    5 : جسم میں زنک کی مقدار

    زنک ایک ایسا منرل ہے جس کی ہمارے جسم کو بہت ضرورت ہوتی ہے، اس کی کمی کئی مسائل کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے خوراک میں زنک کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

    انسان کے لبلبے میں قدرتی طور پر زنک کی بڑی مقدار ہوتی ہے، یہ معدنیات جسمانی طور پر بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس میں لبلبہ میں بیٹا سیلز کو انسولین پیدا کرنے کی ترغیب دینا زیادہ اہم ہے۔ تربوز کے بیج، لہسن اور انڈے کی زردی میں زنک کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔

    6: پروبائیوٹک غذاؤں کا استعمال

    پروبائیوٹک کھانے میں قدرتی طور پر جسم میں پائے جانے والے بیکٹیریا اور خمیر کا مرکب ہوتے ہے، پروبائیوٹکس غذائیں کھانے سے آپ کے آنتوں کی صحت بہتر ہوتی ہے جو اینڈوکرائن سسٹم سے گہرا تعلق ہے۔ پری بائیوٹکس کھانے کے ناقابل ہضم اجزاء آنت کے بیکٹیریا کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    پری بائیوٹکس بہت سے پھلوں، سبزیوں اور اناج سمیت بہت سے اشیاء شامل ہیں جیسے موصلی سفید، جَو، بیر، چکری، ہری سبزیاں، پیاز، ٹماٹر، سویا بین اور گندم وغیرہ۔

  • ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    ذیابیطس کا کامیاب علاج ’ٹرانسپلانٹ‘ سے، لیکن کیسے؟

    دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، خون میں شکر کی مقدار بعض پیچیدگیوں کے سبب عدم توازن کا شکار ہوتی ہے جس کے بعد ذیابیطس کی بیماری جنم لیتی ہے۔

    بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو اقسام ہوتی ہیں، ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون بہت عام نہیں ہے اور تاحال اس کا علاج بھی نہیں ہے جبکہ ٹائپ ٹو زیادہ وزن بڑھنے اور ایسے لائف اسٹائل جس میں طویل مدت کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے سے ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ مرض کی مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں تاہم چینی ڈاکٹروں نے ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ذیابیطس کا کامیاب علاج کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

     ذیابیطس

    اگرچہ ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس کی ابتدا میں تشخیص کی جائے تو اسے ادویات اور طرز زندگی سے ختم کیا جا سکتا ہے، تاہم بعض اوقات یہ مرض انتہائی سنگین ہوجاتا ہے۔

    ذیابیطس کی بیماری کو دیگر بیماریوں کی وجہ سے بھی قرار دیا جاتا ہے اور اس میں مبتلا افراد کے دیگر اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک عمر رسیدہ شخص کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے انہیں ذیابیطس کی بیماری سے چھٹکارا دلوایا اور اب مذکورہ مرض تقریبا تین سال سے صحت مند زندگی گزار رہا ہے۔

    بنیادی طور پر انسانی جسم میں انسولین کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے یہ بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے اور چینی ماہرین نے ایک مریض کے لبلبے کا ٹرانسپلانٹ کرکے ان کے جسم میں انسولین کی پیدوار بڑھانے کو یقینی بنایا۔

    چینی نشریاتی ادارے ڈیلی چائنا کے مطابق شنگھائی یونیورسٹی کے ماہرین نے59 سالہ شخص کے لبلبے کے ان خصوصی خلیات کا ٹرانسپلانٹ کیا، جو انسولین کی پیداوار کرتے ہیں۔

    ماہرین نے اسٹیم سیل کے ذریعے مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا، جس سے ان کا لبلبہ کچھ ہی ہفتوں بعد انسولین بنانا شروع ہوگیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے مریض کے لبلبے کے خلیات کے ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کی حالت انتہائی تشویش ناک بن چکی تھی اور انہیں یومیہ متعدد انسولین کے انجکشن لگائے جاتے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ٹرانسپلانٹ کے تین ماہ بعد مریض کا لبلبہ انسولین پیدا کرنے لگا اور آہستہ آہستہ مریض کو تمام ادویات کی ضرورت نہ رہی اور اب گزشتہ تقریباً تین سال سے مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے 2021 میں مریض کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا اور 2022 کے آغاز میں مریض کے لبلبے نے انسولین بنانا شروع کردی تھی اور اب تک مریض ادویات کے بغیر صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

  • بلڈ شوگر کا علاج ’سرخ روشنی‘ سے

    بلڈ شوگر کا علاج ’سرخ روشنی‘ سے

    کسی شخص کی کمر پر 15 منٹ تک سرخ روشنی کی مخصوص فریکوئنسی دینے سے خون میں شوگر کی سطح کم ہو سکتی ہے۔

    جی ہاں !! سائنس دانوں نے بلڈ شوگر کی سطح کو کم کرنے کے لیے سرخ روشنی کے استعمال کا کامیاب تجربہ کرلیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طبی جریدے ’جرنل آف بائیو فوٹونکس‘ میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ریڈ لائٹ تھراپی‘ بلڈ شوگر کو تقریباً 30 فیصد تک کم کرتی ہے اور صرف 15 منٹ تک اگر بدن کی جلد پر براہ راست سرخ روشنی پڑنے دی جائے تو اس سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    تجربے کے دوران ماہرین صحت سرخ روشنی کے ذریعے بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے میں کامیاب رہے، یہ ایک مختصر تحقیق تھی جس کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

     Red Light Therapy

    تحقیق کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر پاؤنر نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ روشنی مائٹوکونڈریا کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے اور یہ سیلولر اور جسمانی سطح پر ہمارے جسموں کو متاثر کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہم کھانے کے بعد خون میں شوگر کی سطح کو کم کرنے کے لیے 5 منٹ کیلئے سرخ روشنی کا استعمال کر سکتے ہیں۔

    امریکی ماہرین نے ریسرچ کے لیے 40 سال کی عمر کے 30 رضاکاروں کا انتخاب کیا، جنہیں بلڈ شوگر یا ذیابیطس نہیں تھا، رضاکاروں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ کو روزانہ کچھ گھنٹوں بعد 15 منٹ تک سرخ لائٹس تھراپی کرنے کا مشورہ دیا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی دوا پینے کا کہا گیا۔

    Cryotherapy

    ایک ہفتے بعد رضاکاروں میں بلڈ شوگر کی سطح دیکھی گئی اس کے بعد مزید ایک ہفتے تک ریڈ لائٹ تھراپی دہرائی گئی اور پھر ان میں کھانے کے بعد خون میں پیدا ہونے والی شوگر کی سطح اور اس شوگر کے کام کرنے کا عمل دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین نے نوٹ کیا کہ رضاکاروں میں نہ صرف بلڈ شوگر کی سطح کم ہوئی بلکہ ان میں کھانے کے بعد پیدا ہونے والی شوگر کے نقصان دہ طور پر کام کرنے کا عمل بھی سست تھا۔ سرخ شعاعیں پڑنے سے جسم پر کوئی منفی رد عمل بھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ سرخ روشنی سے کیوں اور کس طرح بلڈ شوگر کی سطح کم ہوتی ہے، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا ریڈ لائٹ تھراپی ذیابیطس کے شکار مریضوں کو بھی بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟ تاہم محققین نے امید ضرور ظاہر کی ہے۔

  • ذیابیطس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی محقق کا بڑا کارنامہ

    ذیابیطس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ پاکستانی محقق کا بڑا کارنامہ

    کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق اور ڈاکٹر محمد تنویر خان نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ پیٹ کے جراثیم سے ذیابیطس کو لاحق ہونے سے روکنا ممکن ہے۔

    کراچی یونیورسٹی سے مائیکرو بیالوجی میں ماسٹرز اور پھر نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد تنویر خان اس وقت سوئیڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور مالیکیولر اور کلینیکل میڈیسنز کے شعبے میں سنگ میل ثابت ہونے والی ریسرچ کر رہے ہیں۔

    معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں اس موضوع پر شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر محمد تنویر خان بتایا کہ آنتوں میں رہنے والے جراثیم ہماری صحت پر مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    diabetes

    پاکستانی محقق ڈاکٹر محمد تنویر خان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ خوشی، غم، اسٹریس، بھوک اور ایسے دیگر عوامل ان ہی جراثیم سے جڑے ہوتے ہیں۔

    سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والی ان کی نئی تحقیق کے نتائج پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق پیٹ کے ان جراثیموں میں واقع ہونے والی تبدیلیاں نہ صرف بہت سی بیماریوں کی پیشگی اطلاع دے سکتی ہیں بلکہ ان کی شدت اور ادویات کے اثرات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

    Dr. Muhammad Tanvir Khan

    ڈاکٹر محمد تنویر خان تحقیقی رپورٹ میں خاص طور پر ذیابیطس کے مرض پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ دل کی بیماریاں بھی ان ہی جراثیم کی انسانی جسم میں تعداد سے جڑی ہوتی ہیں۔

    تحقیقی مقالے کے مطابق پیٹ میں ان جراثیم سے جڑی تبدیلوں کا سراغ لگانے کے لیے جینوم سیکوئنسنگ (میٹا جینوم) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر تنویر خان کے مطابق آنتوں میں رہنے والے جراثیم کی تعداد ہمارے جسم کے خلیوں کی مجموعی تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہوتی ہے جبکہ ان میں موجود جینز کی تعداد تقریباً سوگنا زیادہ ہے۔

    ڈاکٹر تنویر خان نے مزید بتایا کہ ایک عام انسان دن میں تقریباً آدھا کلو فضلہ خارج کرتا ہے، جس کا نصف وزن ان ہی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے، یہ جراثیم انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اکثر ہوا کے ساتھ رابطے میں آنے کے چند لمحوں میں ہی مرجاتے ہیں۔

    جراثیم

    ڈاکٹر تنویر کے مطابق آنتوں کی توانائی کا 60 فیصد بشمول وٹامنز، ہارمونز اور دیگر کیمیائی اجزاء ان ہی جراثیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی مریض پر اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے تو اچھے جراثیم (جو ہمیں وٹامنز فراہم کرتے ہیں) مرجاتے ہیں اور اسی لیے وٹامنز کی گولیاں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

    پاکستانی ریسرچر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک نامی یہ گولیاں اصل میں وہ فائبر ہوتے ہیں جو انسان ہضم نہیں کرتا بلکہ یہ انسانی جسم میں رہ کر اچھے جراثیموں کی تعداد بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ذیابیطس سے قبل کچھ خاص قسم کے جراثیم جسم میں کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق سے قبل تک ان جراثیم کو محفوظ بنا کر کسی دوا کی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔

    ڈاکٹر تنویر خان کی ٹیم نے ان جراثیم کو پیدا کرنے اور محفوظ بنانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔ اس پاکستانی ریسرچر کے مطابق یہ طریقہ ابھی پچاس افراد پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب یہ تحقیق انسانوں کے ایک بڑے گروپ پر استعمال کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج بھی جلد ہی شائع کیے جائیں گے۔

  • ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ہر سال کی طرح ماہ رمضان کی آمد کا انتظار اس بار بھی مذہبی جوش جذبے کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ فرزندان توحید اپنے روزے اور عبادات رب کے حضور پیش کرسکیں۔

    اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکمل روزے رکھے تاہم ذیابیطس کے مریض اس سلسلے میں پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو رمضان میں اضافی احتیاط برتنی چاہیے اور اپنے خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب خوراک لینی چاہیے ورنہ ان کی شوگر کا لیول کبھی ہائی تو کبھی لو رہتا ہے۔

    ذیابیطس کے ماہر معالج اپنے تجربے کے پیش نظر بتاتے ہیں کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سب ذیادہ جس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ذیابیطس کے مریض روزے رکھ سکتے ہیں؟

    اگر آپ بھی اس سوال کا جواب جاننا چاہتا ہے تو یہ مضمبون آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

    معالجین کا کہنا ہے ذیابیطس میں جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ یا کم ہو جاتی ہے، یہ ایسا مرض ہے جسے ختم تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کنٹرول ضرور کیا جاسکتا ہے اور اسے قابو کرنے کے لیے ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے،عمومی طور پر ان دواؤں کا ساتھ ساری عمر کے لیے ہوتا ہے۔

    ذیابیطس کے شکار افراد کی بڑی تعداد اپنے ڈاکٹر کی نصیحت کے برعکس رمضان میں روزہ رکھتی ہے جبکہ ایسے افراد کے لیے انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری اقدامات کریں تاکہ جتنا محفوظ ممکن ہوسکے روزہ رکھ سکیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے معالج کے مشورے، شوگر لیول کی مسلسل نگرانی اور دواؤں کی مقدار میں معمولی ردّوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں تاہم کچھ ضروری معلومات کا جان لینا نہایت ضروری ہے۔

    کیا ذیابیطس کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟

    ایسے مریض جو انسولین پر نہ ہوں اور ذیابیطس نے ابھی ان کے دیگر اہم جسم اعضاء کو نقصان نہ پہنچایا ہو، معمولی احتیاط اور دواؤں کی مقدار میں معمولی رددوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    تاہم ایسے مریض جو انسولین پر ہوں اورذیابیطس نے اُن کے کسی اہم جسمانی اعضاء کو بھی نقصان پہنچایا ہو تو ایسے مریض معالج کی خصوصی نگرانی، شوگر لیول کی سختی سے جانچ پڑتال اور انسولین کے یونٹس میں رددوبدل کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    ایک عام غلطی

    زیابیطس کے مریض رمضان کے مہینے میں اپنی دواؤں کے وقت اور مقدار میں ایک سنگین غلطی کرتے ہیں جس کے باعث روزے کے دوران شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔

    عمومی طور پر شوگر کم کرنے والی دواؤں کی زیادہ مقدار ناشتے سے قبل لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا شام کی چائے اور رات کا کھان کھانا ہوتا ہے جب کہ رات کے کھانے سے قبل دوا کی کم مقدار لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صرف رات کا کھانا ہوتا ہے اور سونے کے دوران شوگر ویسے ہی کم ہوتی ہے۔

    رمضان میں مریض یہ غلطی کرتے ہیں کہ ناشتے سے قبل والی دوا کی مقدار سحری میں اور رات والی دوا کی مقدار افطاری میں لے لیتے ہیں اور یوں لو شوگر لیول کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    روزہ کے دوران دوا کی ترتیب

    انسولین یا گولیوں کی وہ مقدار جو عام دنوں میں ناشتے سے قبل لی جاتی ہو وہ رمضان میں افطار کے وقت لی جائے اور جو مقدار عام دنوں میں رات کے کھانے سے قبل لی جاتی ہے وہ سحری کے اوقات میں لے لی جائے تو شوگر لیول کم ہونے کے خدشات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

  • بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے ریڈ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ

    بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے ریڈ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ

    طبی سائنس دانوں نے خون میں شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے سرخ لائٹ کے استعمال کا کامیاب تجربہ کر لیا۔

    طبی جریدے ’جرنل آف بائیوفوٹونکس‘ میں ایک ریسرچ اسٹڈی شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریڈ لائٹ تھراپی صحت مند بالغوں میں بلڈ شوگر کو تقریباً 30 فی صد تک کم کرتی ہے، اور صرف 15 منٹ تک اگر بدن کی جلد پر براہ راست سرخ روشنی پڑنے دی جائے تو اس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    تجربے کے دوران ماہرین صحت سرخ لائٹس کے ذریعے بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے میں کامیاب رہے، یہ ایک مختصر تحقیق تھی جس کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    امریکی ماہرین نے ریسرچ کے لیے 40 سال کی عمر کے 30 رضاکاروں کا انتخاب کیا، جنھیں بلڈ شوگر یا ذیابیطس نہیں تھا، رضاکاروں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ کو روزانہ کچھ گھنٹوں بعد 15 منٹ تک سرخ لائٹس تھراپی کرنے کا مشورہ دیا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو مصنوعی دوا پینے کا کہا گیا۔ ایک ہفتے بعد رضاکاروں میں بلڈ شوگر کی سطح دیکھی گئی۔ اس کے بعد مزید ایک ہفتے تک ریڈ لائٹ تھراپی دہرائی گئی اور پھر ان میں کھانے کے بعد خون میں پیدا ہونے والی شوگر کی سطح اور اس شوگر کے کام کرنے کا عمل دیکھا گیا۔

    طبی ماہرین نے نوٹ کیا کہ رضاکاروں میں نہ صرف بلڈ شوگر کی سطح کم ہوئی بلکہ ان میں کھانے کے بعد پیدا ہونے والی شوگر کے نقصان دہ طور پر کام کرنے کا عمل بھی سست تھا۔ سرخ شعاعیں پڑنے سے جسم پر کوئی منفی رد عمل بھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ سرخ روشنی سے کیوں اور کس طرح بلڈ شوگر کی سطح کم ہوتی ہے، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا ریڈ لائٹ تھراپی ذیابیطس کے شکار مریضوں کو بھی بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟ تاہم محققین نے امید ضرور ظاہر کی ہے۔

    خیال رہے کہ اس وقت کینسر سمیت دماغی امراض، ڈپریشن اور بعض آنکھوں کی پیچیدگیوں کے لیے بھی لائٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

  • میدہ صحت کے لیے کیسا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    میدہ صحت کے لیے کیسا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    میدے سے بنی اشیاء ہر ایک کی مرغوب غذا بن گئی ہے لیکن میدہ انسانی صحت کے لیے نہایت مضر صحت قرا دیا جاتا ہے۔

    عام طور پر پیزا سے لے کر بسکٹ تک سب ہی معدے سے تیار کی جاتی ہے تاہم میدے سے تیار یہ تمام ہی غذائیں صحت کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے جبکہ ماضی میں بھی کی جانے والے بہت سے مطالعوں میں اسے مضر صحت قرار دیا جاچکا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں موٹاپے کے ساتھ ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ معدے کو سفید زہر کہا جاتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے سفید آٹے یعنی کہ ریفائن آٹے کو انسانی معدے کے لیے سفید گلو قرار دیا گیا ہے، سفید آٹا کئی طرح کے مراحل سے گزر کر میدے کی شکل اختیار کرتا ہے، ان مراحل میں گندم میں سے انسانی صحت کے لیے بہترین اجزا جیسے کہ سوجی اور فائبر نکال لیا جاتا ہے جس کے بعد آٹا میدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے استعمال سے انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    میدہ سے ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک، برگر، پیزا اور پراٹھے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں، اس میں فائبر نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہضم ہو کرجسم میں گلوکوز کی سطح کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے انسولین کا زائد اخراج ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں موٹاپے کی سب سے بڑی وجہ میدہ یعنی سفید آٹا ہی ہے اور یہی آگے چل کر کئی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ اس میں فائبر، وٹامنز اور منرلز نہیں ہوتے اسی بنا پر یہ صرف اضافی کیلوریز ہے اور جلد ہضم ہو کربے وقت کی بھوک کو جگاتے ہیں۔