Tag: ذیابیطس

  • خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    طبی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر (ذیابیطس) کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔

    نیچر کمیونی کیشنز نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے پروٹین ’فولسٹیٹن‘ (follistatin) کی مقدار سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا سراغ 19 سال قبل ہی لگایا جانا ممکن ہے، اگرچہ اس وقت بیماری کا معمولی خطرہ بھی نہ ہو۔

    اس ریسرچ کے نتائج سویڈن میں برسوں سے جاری ایک تحقیقی مطالعے سے حاصل ہوئے ہیں، ’مالمو ڈائٹ اینڈ کینسر کارڈیو ویسکیولر کوہورٹ‘ میں شریک 5000 افراد کے خون میں فولسٹیٹن پروٹین کی مقدار کا مطالعہ کیا گیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ جن افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار اوسط سے زیادہ رہی، وہ کئی سال بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا شکار ہوئے۔

    تحقیقی مطالعے کے دوران ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ سے زیادہ وقفہ 19 سال نوٹ کیا گیا، یعنی ذیابیطس میں مبتلا ہونے سے 19 سال پہلے ہی ان کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

    محققین کے مطابق ریسرچ کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا مکمل دارومدار مذکورہ افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی اضافی مقدار پر تھا، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے مکمل صحت مند بھی تھے۔

    خون کا ٹیسٹ

    تحقیق میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کوئی شخص آنے والے برسوں میں شوگر کی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    ’فولسٹیٹن‘ پروٹین

    یہ پروٹین 1980 کے عشرے میں دریافت کیا گیا تھا، یہ تقریباً تمام جسمانی بافتوں (Tissues) سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار جگر سے خارج ہوتی ہے، ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں بھی اس پروٹین کی زیادہ مقدار دیکھی جا چکی ہے۔

    اس حوالے سے جانوروں پر بھی تحقیق کی جا چکی ہے، جن سے معلوم ہوا کہ انسولین کی کارکردگی متاثر کرنے میں بھی یہی پروٹین اہم کردار ادا کرتا ہے، انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز سے توانائی حاصل کرنے میں خلیوں کے کام آتا ہے۔

    انسولین کی کارکردگی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہو جاتی ہے، جس سے مرتے دم تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔

  • کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی لا کر ذیابیطس ٹائپ ٹو یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پلان تیار کیا گیا اور 12 ہفتوں تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔

    ان مریضوں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والا غذائی پلان دیا گیا اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کا علاج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس والی غذا استعمال کرتے ہیں، تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 50 فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔

    12 ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔

    محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول، اوسط جسمانی وزن، بلڈ پریشر اور مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔

    انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

  • طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا علم نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ذیابیطس کووِڈ سے بڑی عالمی وبا ہے، جو پاکستان جیسے غریب ممالک میں کرونا وائرس سے زیادہ افراد کی جان لے رہی ہے، پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے، جب کہ تقریباً 2 کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    آج کراچی میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی اور ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں 200 سے زائد ڈائبیٹیز کلینکس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔

    افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بارے میں علم ہی نہیں اور انھیں اپنی بیماری کا علم اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے ایسے مریضوں کی بروقت تشخیص کے لیے مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے ساتھ مل کر ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ شروع کیا ہے، اس پروجیکٹ کے تحت ایک مفت ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جہاں پر فون کر کے ذیابیطس کے خطرے سے دوچار افراد رہنمائی اور فری ٹیسٹنگ سمیت تشخیص کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔

    بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنالوجی سے وابستہ معروف ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا غیر تشخیص شدہ دو کروڑ افراد میں کئی ہزار بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث ذیابیطس جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنی کھانے پینے کی عادات اور طرز زندگی کو بدلیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے ہوئے اپنے معمولات تبدیل کریں، تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔

    جناح اسپتال سے وابستہ معروف اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج لعل رحمٰن کا کہنا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے، موٹاپے کا شکار ہیں، انھیں کسی علامت کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے جلد از جلد اپنی شوگر چیک کروانی چاہیے، تاکہ انھیں اس بیماری کی پیچیدگیوں اور مہلک اثرات سے بچایا جا سکے۔

    ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کے انچارج اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2045 تک دس کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔

  • ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول متوازن بنانے کی مؤثر دوا، نئی تحقیق

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معدے میں تیزابیت کم کرنے والا ایک مادہ اینٹاسیڈ ذیابیطس کے مریضوں میں شوگر لیول کو متوازن کرنے میں بھی مؤثر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جرنل آف کلینیکل اینڈو کرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کچھ اینٹاسیڈ (Antacids) ایسے بھی ہیں جو ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں بلڈ شوگر لیول کو بہتر کرتے ہیں۔

    انھی میں سے پروٹون پمپ انہیبیٹرز ( پی پی آئی) بھی ہیں، جنھیں عام طور پر اینٹاسیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور جو ذیابیطس کے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    جو لوگ ہاضمے کے مسائل سے دوچار ہیں، جیسے پیٹ میں جلن اور گیس کی تکلیف، انھیں اپنے ڈاکٹرز سے مشورے کے بعد اینٹاسیڈ لینی چاہیے، اس کے علاوہ جو لوگ صحت سے متعلق مسائل کی وجہ سے زیادہ دوائیاں لیتے ہیں، انھیں بھی صبح کے وقت خالی پیٹ میں سب سے پہلے اینٹاسیڈ دوا لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

    ضروری اینٹاسیڈ کیا ہے؟

    اینٹاسیڈ ایک ایسی دوا ہے جو معدے میں موجود تیزابیت کو غیر مؤثر بناتی ہے، اس میں ایلومینیم، کیلشیم، میگنیشیم یا سوڈیم بائی کاربونیٹ جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں، اور معدے میں تیزاب کو بننے سے روکنے کے لیے اہم ہے اور اس کے پی ایچ کو متوازن بناتا ہے۔

    پی ایچ کیا ہے؟

    کسی محلول میں ہائیڈروجن آئن کی تعداد کو جاننے کے لیے پی ایچ کی پیمائش کی جاتی ہے، اور اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا محلول کتنا ترش (تیزابی) یا کتنا کھارا (اساسی) ہے۔ پی ایچ کی پیمائش کے لیے پی ایچ پیپر یا پی ایچ اسکیل کی مدد لی جاتی ہے، جس پر 1 سے 14 درجے ہوتے ہیں۔ اگر اسکیل میں درجہ 7 سے کم ظاہر ہوتا ہے تو یہ محلول تیزابی ہوتا ہے، اسکیل میں محلول کا پی ایچ 7 درجہ نظر آئے تو وہ نیوٹرل ہوگا۔ جب کہ اسکیل کا درجہ 7 سے 14 تک ہو تو محلول کھارا یا سوڈا جیسا ہوگا۔ عام گیسٹرک ایسڈ کا پی ایچ 1.5 سے 3.5 کے درمیان ہوتا ہے۔

    اینٹاسیڈ کس لیے؟

    اینٹاسیڈ گیسٹرو ایسوفیگیل ریفلکس بیماری (جی ای آر ڈی)، سینے کی جلن یا بدہضمی (dyspepsia) کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کچھ اینٹاسیڈز کو مکمل طور پر غیر متعلقہ طبی حالتوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے:

    ایلومینیم اینٹاسیڈ: خون مین فاسفیٹ کی سطح کو کم کرنے اور گردے میں پتھری کو بننے سے روکتا ہے۔

    کیلشیم کاربونیٹ اینٹاسیڈز :کیلشیم کی کمی کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم آکسائیڈ اینٹاسیڈ: اس سے میگنیشم کی کمی کا علاج کیا جاتا ہے۔

    اینٹاسیڈ شوگر کے لیے

    اینڈوکرائن سوسائٹی کے جرنل آف کلینیکل اینڈوکرینولوجی اور میٹابولزم میں شائع ہونے والے ایک نئے تجزیے کے مطابق اینٹاسیڈ ذیابیطس سے متاثرہ لوگوں میں خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن عام آبادی میں ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے پر اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

    محققین نے ذیابطیس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے والی پروٹون پمپ انہیبیٹر، جسے عام طور پر اینٹاسیڈ دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کے اثرات کو سمجھنے کے لیے تجزیہ کیا تھا اور یہ جانے کی کوشش کی تھی کہ کیا ان دواؤں سے عام آبادی میں ذیابطیس کی شروعاتی علامات کو روکا جا سکتا ہے؟

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ بیماری سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ جانیے

    بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ بیماری سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ جانیے

    پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، صرف بڑے ہی نہیں بچوں میں بھی اب شوگر کا مرض بڑھ رہا ہے، اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے شان رمضان پروگرام میں ڈاکٹر سید محمد حسن کی خصوصی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

    یہ نہایت تشویش ناک بات ہے کہ بچوں میں بھی اب شوگر کا مرض بڑھ رہا ہے، 13 سے 15 سال کے لڑکے، لڑکیوں میں شوگر کی تشخیص ہو رہی ہے، بچوں میں شوگر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ اور اس بیماری سے چھوٹی عمر میں کیسے جان چھڑائی جا سکتی ہے؟ ڈاکٹر حسن نے اس پر تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر حسن کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کی وجہ بچوں میں موٹاپا، موبائل اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ہے، غیر معیاری خوراک اور ورزش سے دوری بھی بچوں میں شوگر کی بیماری کے اسباب ہیں۔

    ڈاکٹر سید حسن محمد نے بتایا کہ جس طرح ہمارا لائف اسٹائل تبدیل ہو گیا ہے، خوراک تبدیل ہو گئی ہے، ہمارے رجحانات تبدیل ہو گئے ہیں، گھنٹوں موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز پر بیٹھے رہتے ہیں، اور اس کے بعد راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں اور اس دوران کچھ نہ کچھ کھاتے بھی رہتے ہیں، جب کہ دوسری طرف جسمانی سرگرمی نہیں ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ بچوں میں موٹاپے کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں میں ذیابیطس کا مرض بہت عام ہو گیا ہے، حتیٰ کہ ٹائپ 2 ذیابیطس بھی ہونے لگی ہے جب کہ ہم ٹائپ 1 کی توقع کرتے ہیں، اور جتنا جلدی یعنی کم عمری میں اس کی تشخیص ہوگی اتنا ہی یہ طویل عرصے تک چلتی ہے اور اتنی ہی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

    ڈاکٹر حسن محمد نے بتایا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ذیابیطس کو پلٹایا جا سکتا ہے، اگر ہم اپنے روز مرہ رویوں کو تبدیل کریں، یعنی ہم فطری خوراک کھائیں، اپنی صحت برقرار رکھنے پر توجہ بڑھائیں، تو ذیابیطس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے کیسز کم ہوں۔

    وسیم اکرم کی مثال اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال ہے، میرے پاس بھی جب بھی کوئی نیا شوگر مریض آتا ہے میں اسے انھی کی مثال دیتا ہوں، انھیں 17 سال کی عمر میں شوگر کے اثرات شروع ہوئے اور 21 سال کی عمر میں تشخیص ہو گئی، انھوں نے جس طرح فیلڈ میں رہ کر اپنی ذیابیطس کو کنٹرول کیا، کرکٹ کیریئر بنایا، شادی کی، باپ بھی بنے، تو یہ ایک مثال ہے کہ شوگر کے مرض کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور زندگی میں اپنے اہداف بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کرونا وبا کے دوران دنیا بھر میں لوگوں کا طرز زندگی بہت متاثر ہوا، لوگ گھر پر رہنے لگے، کھانے پینے کی عادات پر بڑا اثر پڑا، جسمانی سرگرمیاں کم ہو گئیں، اس لیے یہ صرف کو وِڈ 19 کی وبا ہی نہیں تھی بلکہ ذیابیطس کی بھی وبا تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ ذیابیطس ایک تو موروثی ہوتی ہے اور ایک ٹائپ ون، ٹائپ ون میں پنکریاز انسولین بالکل نہیں بنا پاتا، جس کا علاج ہی انسولین لگانا ہے، تو اس صورت میں ذیابیطس ختم نہیں ہو سکتی، ہاں اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

    دوران حمل خواتین کو ذیابطیس لاحق ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر حسن محمد نے کہا کہ اگر شوگر کا مرض صرف حمل کے دوران ظاہر ہوا ہے تو وضع حمل کے بعد یہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن ان خواتین کو اگلے 5 سے 10 برسوں میں ذیابیطس لاحق ہونے کا پچاس فی صد خطرہ ہوتا ہے، اس لیے ان کو اپنے لائف اسٹائل کا خیال رکھنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، خوراک میں احتیاط کریں، وزن کم رکھیں، اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔

    واضح رہے کہ پہلے لوگ 40 کے بعد ذیابیطس میں مبتلا ہو رہے تھے، پھر 30 سال میں اور اب 20 سال سے بھی کم عمر میں لوگ مبتلا ہو رہے ہیں، اس لیے اپنے طرز زندگی کو صحت مند رکھنا ہی اس سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔

  • رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، تاہم ایسے ماہ میں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار افراد کچھ مشکل میں پڑجاتے ہیں کہ وہ روزہ کیسے رکھیں۔

    پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک فرد شوگر کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہے، ایسے افراد اگر روزہ رکھ رہے ہیں تو انہیں صحت مند اور متوازن بلڈ شوگر لیول کے لیے کچھ تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔

    شوگر کے مریضوں کو سب سے پہلے روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیئے اور اپنے معالج کے تجویز کردہ اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنا ان افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے جو کہ انسولین کا استعمال کرتے ہوں یا شوگر سے متعلق مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہوں، ایسے افراد روزہ رکھنے کی صورت میں اگر پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں اور اپنے بلڈ شوگر لیول پر کڑی نظر رکھیں تو انہیں اس کی سمجھ آجائے گی اور وہ اپنے کھانے پینے کی عادات اور روزے کو اپنی شوگر کے لیول کے مطابق باآسانی چلا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہنا ہے ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیئے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    شوگر لیول گرنے اور زیادہ ہونے کی علامات کیا ہیں؟

    انسانی خون میں شوگر لیول کی کمی کی علامات میں بہت زیادہ پسینہ آنا، سردی لگنا، انتہائی شدید بھوک کا محسوس ہونا، بینائی کا دھندلانا، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونا اور سر چکرانا شامل ہے جبکہ شوگر لیول میں اضافے کی علامات میں مریض کے ہونٹوں کا خشک ہونا اور بار بار پیشاب آنا شامل ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض رمضان کے مہینے کے دوران پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔

    ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں، بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو، کسی بھی غذا کا زیادہ استعمال پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے چند مفید مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

    شوگر کے مریض کے لیے ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو روزہ رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

    ماہرین کی جانب سے بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مریض رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے معالج سے دواؤں اور غذا کا چارٹ اور طریقہ استعمال بنوا لے، ادویات سے متعلق خود سے کوئی فیصلہ نہ کریں۔

    شوگر کے شکار افراد سحری میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس کے مریض پراٹھا نہیں کھا سکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھا سکتے ہیں، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں میں حلیم بھی شامل ہے، حلیم میں گوشت اور دالوں کے سبب فائبر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں تا دیر بھوک نہیں لگتی۔

    کولیسٹرول کے بڑھنے کے خدشات کے سبب انڈے کا استعمال نہ کریں، شوگر کے مریض اگر انڈے کا استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں تو نصف زردی کے ساتھ انڈہ کھایا جا سکتا ہے، انڈے کا استعمال کسی سالن کے ساتھ ملا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    شوگر کے جن مریضوں کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کے قہوے کا استعمال کر سکتے ہیں، الائچی کے قہوے میں کم مقدار میں دودھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا پھر نمکین لسی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    سحری کے دوران میٹھے میں کھجلہ، پھینیاں، کسٹرڈ یا کسی بھی قسم کی میٹھی غذا کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

    شوگر کے مریض روزہ کھجور سے افطار کر سکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق ایک کھجور میں 6 گرام کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جس میں معدنیات، فائبر، فاسفورس اور پوٹاشیئم بھی موجود ہوتا ہے، کھجور میں پائے جانے والا پوٹاشیئم تھکاوٹ اور بوجھل پن دور کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ افطار کرتے ہوئے ایک کھجور کھا سکتے ہیں اور اگر ان کا شوگر لیول متوازن ہے تو 2 کھجوریں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔

    افطار کے دوران پھلوں کی چاٹ بغیر چینی، کریم اور دودھ کے کھائی جا سکتی ہے، پھلوں میں تھوڑی سی مقدار میں لیموں کا رس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    مائع میں سادہ پانی بہترین قرار دیا جاتا ہے جبکہ نمک میں بنا ایک گلاس لیموں پانی بھی پیا جا سکتا ہے، شوگر کے مریض گھر کی بنی ہوئی غذاؤں کا ہی استعمال کریں، کوشش کریں کے تیل، نمک، لال مرچ اور چینی کی زیادہ مقدار لینے سے پرہیز کیا جائے۔

    شوگر کے مریض رات بھوک لگنے پر ایک روٹی کم مرچ مصالحے والے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتے کے ساتھ کھا سکتے ہیں، چاولوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں، رات سونے سے قبل بھوک محسوس ہونے پر ایک گلاس دودھ بغیر شکر کے پیا جا سکتا ہے۔

    رمضان بخیر و عافیت گزارنے اور روزو ں کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے افطار کے بعد اور رات کھانے سے قبل کم از کم 30 منٹ چہل قدمی لازمی کریں، شوگر کے مریضوں کے لیے چہل قدمی بھی ایک بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے۔

    شوگر کے مریض اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق رمضان گزاریں، خود سے ادویات یا شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے کی علامات پر علاج نہ کریں۔

  • ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    بیماریوں اور ان سے جڑے معاملات میں لوگوں میں مختلف قسم کے مفروضے پھیلے ہوتے ہیں، اور لوگ ان مفروضوں کو حقیقت سمجھ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر درست نہیں ہوتے۔

    ایسا ہی ایک مفروضہ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی عام ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔

    طبی ماہرین نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خون دینے سے بلڈ شوگر لیول متاثر ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول نارمل ہو، اور جو لوگ انسولین لگاتے ہیں وہ عطیہ نہیں دے سکتے، تاہم عام دوائیاں کھانے والے شوگر مریض خون عطیہ کر سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس میٹابولزم کا مرض ہے، اس سے مریض کا جسم متاثر ہوتا ہے، خون نہیں، یہ ذہن میں رہے کہ اگر مریض کو دل یا گردوں کی بیماری نہیں ہے تو وہ خون دے سکتا ہے۔

    ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص کو خون کا عطیہ دینا چاہیے اور شوگر کے مریضوں کو اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

    طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خون دیتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ آپ روزے سے نہ ہوں، آپ نے اچھی طرح کھانا کھایا ہو، اور عطیہ دینے سے قبل خون کا نمونہ دیں۔

    خون دیتے وقت کچھ لوگوں پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ خالی پیٹ نہ ہوں۔

  • کیا روسی ویکسینز شوگر اور دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے موزوں ہیں؟

    کیا روسی ویکسینز شوگر اور دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے موزوں ہیں؟

    ماسکو: روس کے وزیر صحت نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے تمام روسی کرونا ویکسینز موزوں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر صحت میخائل مراشکو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کی تینوں کرونا ویکسینز ذیابیطس اور امراض قلب کے شکار افراد کے لیے موزوں ہیں تاہم حتمی فیصلہ چیک اپ کرنے والے ڈاکٹر یا معالج کا ہوگا۔

    میخائل مراشکو نے کہا ذیابیطس اور امراض قلب میں مبتلا افراد کو کرونا وائرس سے زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے، اور اس زمرے کے لوگوں میں کرونا کے سب سے زیادہ سنگین علامات پائی جاتی ہیں، اس لیے ماہرین ان کے لیے جلد ویکسین کی سفارش کرتے ہیں۔

    روسی وزیر نے کہا کہ کرونا سے سنگین طور پر متاثرہ افراد میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا یہ ویکسینز بنیادی طور پر زندگی کو بچانے والا عنصر ہوگی اور انھیں خطرناک پیچیدگیوں سے بچائے گی۔

    میخائل مراشکو کا کہنا تھا کہ شوگر اور امراض قلب میں مبتلا افراد کے لیے ویکسی نیشن کی سفارش چیک اپ کرنے والا ڈاکٹر ہی کرے گا۔

    انھوں نے کہا روس کی تیار کردہ تمام ویکسینز ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے خطرناک نہیں ہیں، تاہم ڈاکٹر اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ مریض کی حالت کیسی ہے اور اسے ویکسین لگائی جا سکتی ہے یا نہیں۔

  • موسمِ گرما: پیاز کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    موسمِ گرما: پیاز کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    قدرت نے ہمیں موسمی تغیّرات کا مقابلہ کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کے ساتھ صحّت اور جسمانی توانائی برقرار رکھنے کے لیے قسم قسم کا اناج، سبزیاں اور پھل بھی دیے ہیں جن میں پیاز بھی شامل ہے۔

    موسمِ گرما میں ہمیں ایسی غذائیں اپنی خوراک میں ضرور شامل کرنا چاہییں‌ جو نہ ہماری مجموعی صحّت کے لیے مفید ہوں بلکہ گرمی کی شدّت اور جسم پر اس کے منفی اثرات سے ہمیں‌ بچاسکیں۔

    پیاز وہ سبزی ہے جو جسم کو گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ سبزی ہر قسم کے پکوان کا لازمی جزو ہے اور اسے کچّا بھی کھایا جاتا ہے۔

    پیاز فولا، اینٹی آکسیڈینٹ، ضروری وٹامنز اور دیگر غذائی اجزا سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں وٹامن سی اور بی کی بھی مخصوص مقدار شامل ہوتی ہے۔

    گرمیوں میں پیاز کا استعمال موسم کی سختی سے نمٹنے اور صحّت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

    طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کی ایک خصوصیت جسم کو ٹھنڈک پہنچانا ہے۔ یہ جسم کے درجہ حرارت کو متوازن بنانے میں مدد دیتی ہے۔ پیاز کو سلاد کے طور پر کچّا کھایا جاسکتا ہے۔ پیاز ہمارے جسم کی وٹامن سی کی ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔

    پیاز سے ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس میں پوٹاشیم ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    یہ سبزی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق پیاز کا گلیسیمک انڈیکس 10 سے کم ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچّھا ہوتا ہے۔ اس میں بہت کم کاربس اور کثیر مقدار میں فائبر موجود ہوتا ہے۔

    پیاز میں فائبر اور پری بائیوٹک کی خاصی مقدار قدرتی طور پر شامل ہے جو آنت کی صحّت کے لیے فائدہ مند ہے۔ پیاز کھانے سے ہمارا نظامِ ہاضمہ بھی بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس سے کولیسٹرول کی سطح کنٹرول ہوتی ہے۔

    عام اور صحّت مند افراد تو پیاز کو موسم کی شدّت اور سختی کے دوران ضرورت کے مطابق اپنی غذا اور خوراک کا حصّہ بنا سکتے ہیں، لیکن ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے ضرور اپنے معالج سے مشورہ کریں اور طبّی ماہر کی تجویز اور ہدایت ہی پر پیاز کو اپنی غذا میں شامل کریں۔