Tag: ذیابیطس

  • ہر وقت تھکن کیوں؟ طبی ماہرین نے اسباب بتا دیے

    ہر وقت تھکن کیوں؟ طبی ماہرین نے اسباب بتا دیے

    کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر وقت تھکن اور اُکتاہٹ محسوس کرتے ہیں، یہ لوگ جب توانائی سے بھرپور، ہشاش بشاش لوگوں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں، کیوں کہ ہر وقت ایسی حالت میں رہنے کی وجہ سے وہ اسے نارمل سمجھنے لگتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجوہ ہیں، صبح بیدار ہونے پر کچھ لوگوں کا بستر سے اٹھنے کو جی نہیں کرتا، وہ اپنے اندر توانائی محسوس نہیں کرتے، کچھ لوگ کام سے گھر لوٹتے ہیں تو شدید تھکن کا شکار ہوتے ہیں، کبھی اہم میٹنگ میں تھکاوٹ کی وجہ سے معاملات پر ٹھیک سے توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔

    اس حوالے سے لائف اسٹائل کی ایک ویب سائٹ بولڈ اسکائی پر تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس میں مذکورہ مسئلے کا جائزہ لیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ تھکاوٹ محسوس کرنے کی عام وجوہ میں ذہنی دباؤ، افسردگی، جسم میں پانی کی کمی اور نیند کی کمی وغیرہ شامل ہیں، تاہم اس حوالے سے کچھ دیگر اہم مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    کہیں آپ خون کی کمی کا شکار تو نہیں؟

    یہ بہت اہم وجہ ہے، جسے اینیمیا (خون کی کمی کی بیماری) لاحق ہو، وہ بہت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے، اس بیماری میں جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی ہو جاتی ہے، یہ خلیات جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن لے کر جاتے ہیں، جب ایسا نہیں ہوتا تو آدمی تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ تھکاوٹ کے ساتھ سر درد، توجہ دینے میں دشواری، دل کی دھڑکن میں تیزی اور سونے میں دشواری کا سامنا ہو تو ضروری ٹیسٹ اور معائنے کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    تھائرائیڈ (غدود) کے مسائل

    اگر جسم میں غدود کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، تھائرائیڈ گلینڈ کے ہارمونز رک گئے ہیں جو جسم کے بنیادی کاموں کو کنٹرول کرتے ہیں تو، اس حالت میں تھکاوٹ کے ساتھ بالوں اور جلد میں خشکی ہو جاتی ہے، ناخن ٹوٹنے لگتے ہیں، آنکھوں کے گرد نشانات، آواز پھٹنے لگتی ہے، دل کی دھڑکن میں تیزی اور موڈ میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔

    ذیابیطس

    شوگر بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے، اگر طاقت میں کمی کے علاوہ کوئی شخص سُستی، بار بار پیشاب کی حاجت، دھندلا پن، وزن میں کمی، چڑچڑاپن اور غصہ محسوس کرتا ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ محسوس کر رہا ہے تو اسے خون میں گلوکوز کی سطح کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ تھکاوٹ ذیابیطس کی علامت ہو سکتی ہے، کیوں کہ میٹابولک نقص انسولین کی پیداوار کو محدود کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ اور کم زوری سمیت متعدد بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

    وٹامن بی 12 کی کمی

    حیاتین بی 12 ایک ضروری وٹامن ہے جس کی جسم کو توانائی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضرورت ہوتی ہے، جسم میں اس وٹامن کی کمی تھکاوٹ اور ذہنی الجھن کا سبب بن جاتی ہے، اسے اضافی غذا کے طور پر لیا جا سکتا ہے یا پھر قدرتی ذرائع جیسے انڈے، مرغی اور مچھلی کھانے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

    غیر متحرک طرز زندگی

    یاد رکھیں کہ غیر فعال طرز زندگی کم زوری اور تھکاوٹ ہونے میں معاون ہوتی ہے، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ غیر فعال طرز زندگی کا دائمی تھکاوٹ کی بیماری (Chronic fatigue syndrome) سے تعلق ہوتا ہے، جس کی بنیادی علامت یہ ہے کہ انتہائی تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے، اس لیے سُست طرز زندگی کی بجائے فعال زندگی گزارنے سے تھکاوٹ کو کم کرنے اور توانائی کی سطح کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

    نیند کی کمی

    غیر فعال طرز زندگی گزارنے والا شخص نیند کی کمی اور بے خوابی کا شکار ہو سکتا ہے، اس طرز زندگی میں بری عادات، دیر سے کھانے اور ورزش کی کمی شامل ہیں، دماغ کو مناسب طریقے سے چلنے اور جسمانی تندرستی اور متحرک رہنے کے لیے ہر شخص کو کم از کم چھ گھنٹے کی نیند لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    کھانے کی اقسام

    ہر وقت کی تھکاوٹ کی وجہ کھانوں کی کچھ اقسام بھی ہو سکتی ہیں، ایسے کھانوں میں گلوٹین، دودھ، انڈے، سویا اور مکئی شامل ہیں، تھکاوٹ کھانے کی الرجی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے.

    ذہنی تناؤ، افسردگی

    دائمی ذہنی دباؤ اور افسردہ رہنے کی وجہ سے انسانی جسم میں توانائی کی سطح متاثر ہو جاتی ہے، اگر آپ کو کسی کام پر توجہ دینے اور بات چیت کرنے میں مشکل ہو، ہر وقت منفی اور نا اُمیدی محسوس ہونے لگے تو جلد از جلد کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    پانی کی کمی اور دیگر وجوہ

    پانی کی کمی سے جسم کے معمول کے کام میں خلل پڑتا ہے، جس سے اکتاہٹ اور انتہائی تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دیگر عام وجوہ کھانے کی خراب یا مضر عادات ہیں، جیسے انرجی مشروبات ضرورت سے زیادہ پینا، پروٹین کی مقدار میں کمی، کم کیلوریز کی کھپت اور فائدہ مند کاربوہائیڈریٹ کا زیادہ استعمال۔

  • وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے شوگر یا ذیابیطس کی 4 نئی علامات کی طرف اشارہ کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ علامات آپ میں ظاہر ہورہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ برائے شوگر نے شوگر بڑھنے کی 4 علامات کی طرف توجہ دلائی ہے، شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے شوگر کے مطابق ذیابیطس کی پہلی علامت پیاس کا زیادہ محسوس ہونا ہے، انسان شعوری طور پر شدید پیاس محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حلق بھی خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بدستور بڑھتی چلی جاتی ہے، اگرچہ آپ روزانہ 2 لیٹر پانی پیتے ہوں۔

    دوسری علامت پیشاپ کا زیادہ آنا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں شوگر بڑھ چکی ہے، کیونکہ جسم زائد گلوکوز پیشاپ کے ذریعے نکالنے لگ جاتا ہے۔

    تیسری علامت تھکاوٹ ہے، شوگر بڑھ جانے کے بعد انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جو آرام یا نیند کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خون سے گلوکوز کی مقدار خلیوں تک جب نہیں پہنچتی تو اس سے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ کی علامتوں میں جسم کا بے جان محسوس ہونا، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، مایوسی یا افسردگی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر ایسی علامات آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ محسوس ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    چوتھی علامت چڑچڑا پن ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ایک پیچیدہ مرض ہے، اس کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، انسولین کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔

    شوگر ہونے کی وجوہات میں کھانے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، ناقص اور تلے ہوئے پکوان، یا ایسے کھانے جن میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہو شوگر کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں شوگر عموماً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی نقل وحرکت اور وراثتی جینیات سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

  • شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    ذیابیطس کا مرض نہایت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال بے حد ضروری ہوتا ہے ورنہ ذیابیطس دیگر طبی خطرات کو بھی دگنا کرسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا شکار افراد کا صحت مند کھانے کی عادات اپنانا حد ضروری ہے۔

    نیوٹریشنسٹ اور ذیابیطس ایجوکیٹر دویا گپتا کا کہنا ہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوراک میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے میں پہلے سے طے شدہ مقدار سے زیادہ کاربس نہ ہوں، پھر اس حساب سے طے کیا جائے کہ مریض کو کتنی انسولین لینے کی ضرورت ہے۔

    ذیابیطس ٹائپ 2 کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہے انہیں سب سے پہلے اپنا وزن گھٹانے کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 اور ٹائپ 1 دونوں کے مریضوں کو اپنی خوراک میں صحیح مقدار میں غذائی عناصر شامل کرنا ضروری ہے۔ ایسی غذا کا انتخاب کریں جس میں کاربس ہوں اور اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ کتنی مقدار میں اس کو اپنی خوراک میں شامل کر رہے ہیں۔

    مثال کے طور پر براؤن رائس، روٹی، پاستا، اوٹس، کم چینی والے غذائی عناصر اور جوار۔ ان غذاؤں سے پرہیز کریں جس میں فائبر کی مقدار کم ہو جیسے سفید چاول، سفید بریڈ۔

    کچھ بھی خریدنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ اس میں کیا کیا غذائی عناصر شامل ہیں، ہری پتے والی سبزیاں کھائیں، ان میں ضروری وٹامنز اور معدنیات شامل ہوتی ہیں جبکہ یہ بلڈ شوگر لیول کو بھی کم متاثر کرتی ہیں۔

    سبز پتوں والی سبزیوں میں گوبھی اور پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے پھل کھانا بھی فائدہ مند ہے، ان کی قدرتی مٹھاس انہیں نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس ڈبہ بند جوسز مصنوعی مٹھاس سے بھرے ہوتے ہیں ان سے گریز کیا جائے۔

    پروٹین سے بھرپور غذائیں جیسے انڈے، پھلیاں، کم چربی والا دودھ، گوشت اور کھٹا دہی بھی کھایا جاسکتا ہے۔

    پیکٹ والے تمام کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے پرہیز کریں، خاص طور پر جن میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہو۔

    ایسے مشروبات سے پرہیز کریں جس میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہوتی ہے، جیسے انرجی ڈرنکس وغیرہ۔

    غذا میں نمک کی مقدار کو بھی کم کریں، بہت زیادہ نمک کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے لیے یہ تمام خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے کھانے میں پہلے سے تیار شدہ گوشت اور سرخ گوشت کی مقدار کو بھی کم کرنے کی کوشش کریں، اس کے بجائے اپنی خوراک میں دال، پھلیاں، انڈے، مچھلی اور چکن شامل کریں۔

    اسنیکس کی مقدار کم سے کم کریں اور چپس، بسکٹ اور چاکلیٹ کے بجائے دہی، پھل اور سبزیاں کھائیں۔

    شوگر کے مریضوں کو باقاعدگی سے ورزش کرتے رہنا چاہیئے، ورزش جسم کے وزن کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے اور انسولین کی سطح کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    صحت مند کھانے کے ساتھ جسمانی طور پر متحرک رہنا بھی ضروری ہے، یہ ذیابیطس کو سنبھالنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

  • شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر

    شوگر کے مریضوں کو روزانہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کی درست مقدار استعمال کرنی ضروری ہوتی ہے، تاہم اب شوگر کے مریضوں کے لیے امید افزا خبر سامنے آگئی ہے۔

    ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی اور بائیوٹک کمپنی گیوبرا نے ایک نیا انسولین مالیکیول تیار کیا ہے جو مستقبل قریب میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے درست مقدار میں انسولین کی مقدار کو یقینی بنائے گا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسر کیونڈ جے جینسن نے بتایا کہ ہم نے اس قسم کی انسولین کی جانب پہلا قدم بڑھایا ہے جو جسم کے اندر خودکار طور پر بلڈ شوگر لیول کے مطابق مطابقت پیدا کرلیتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کی زندگی میں نمایاں بہتری آسکے گی۔

    محققین نے انسولین کی یہ قسم ایک بلٹ ان مالیکیول کے ذریعے تیار کی ہے جو محسوس کرسکتی ہے کہ جسم میں بلڈ شوگر کی مقدار کتنی ہے۔

    جسم میں بلڈ شوگر لیول بڑھنے پر یہ مالیکیول تیزی سے متحرک ہوکر مزید انسولین خارج کرتا ہے، اگر بلڈ شوگر کی سطح گرتی ہے تو انسولین کی کم مقدار کا اخراج ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ مالیکیول مسلسل انسولین کی کم مقدار کو خارج کرتا ہے، مگر یہ مقدار ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں کے لیے محفوظ اور آسان علاج فراہم کیا جاسکے گا، آج اس بیماری کے شکار افراد کو دن بھر میں کئی بار انسولین کو انجیکٹ کرنا پڑتا ہے اور مسلسل بلڈ شوگر لیول پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔

    ان کے بقول اس نئی قسم کی بدولت ایسا نہیں ہوسکے گا اور جب کوی فرد نئے انسولین مالیکیول کو انجیکٹ کرے گا تو اسے دن بھر میں دوبارہ لگانے کی کم ضرورت ہوگی۔

    اگرچہ خودکار انسولین ایک اہم پیشرفت ہے مگر یہ کب تک عام استعمال کے لیے دستیاب ہوگی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔

  • سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    سائنس دانوں کا ذیابیطس کے بارے میں خوف ناک انکشاف

    لندن: سائنس دانوں نے ذیابیطس کے بارے میں ایک اور خوف ناک انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 بچے کو پیدائش سے بھی قبل ہو سکتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل ڈائیبٹولوجیا کے مطابق 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے اور اس عارضے کی جڑ ممکنہ طور پر پیدائش سے قبل ہی بن جاتی ہے۔

    اس سے قبل یہ مانا جاتا تھا کہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں میں صرف نیونیٹل ڈایابیٹیز (صرف نوزائیدہ بچوں کو لاحق ہونے والی ذیابیطس) ہو سکتی ہے جو کسی جیناتی نقص کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں لبلبے کے خلیات کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    لیکن اب ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں میں بھی ذیابیطس ٹائپ ون کا مرض ہو سکتا ہے، اس دوران جسم کا اپنا مدافعتی نظام انسولین بنانے والے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔

    ماہرین اس تحقیق سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ذیابیطس ٹائپ ون کے باعث جسم پر مدافعتی نظام کا حملہ کچھ نوزائیدہ بچوں میں ماں کے پیٹ ہی سے شروع ہو جاتا ہے؟ جس کے نتیجے میں انسولین کی سطح گھٹ جاتی ہے اور پیدائشی وزن کم ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر ایلزیبتھ رابرٹسن کا کہنا تھا کہ زندگی کے ابتدائی چند مہینوں میں پہلی بار ذیابیطس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، یہ اہم نتائج اس بیماری کے بارے میں ہمارے فہم کو پھر سے ترتیب دے رہے ہیں کہ کہ کب اس حالت کا حملہ ہو سکتا ہے اور کب مدافعتی نظام میں خامی پیدا ہو سکتی ہے۔

    برطانوی ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر ایلزیبتھ نے کہا کہ اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کب اور کیسے ذیابیطس ٹائپ ون اتنی کم عمری میں جسم میں پیدا ہو جاتی ہے، اس سے ہر عمر کے افراد کو ذیابیطس ٹائپ 1 کی وجوہ جاننے میں مدد ملے گی، اور ایسے علاج کے دریافت کے لیے بھی اہم ہوگا جو بچوں میں زندگی کو بدل دینے والی اس حالت کو روک سکے۔

    برطانیہ کی ایگزیٹر یونی ورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے اس سلسلے میں نوزائیدہ بچوں کے 3 گروپس کا مطالعہ کیا، محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ 1 کا مرض ابتدائی چند ماہ کے دوران بھی بچوں میں ہو سکتا ہے اور کچھ نوزائیدہ بچوں میں تو یہ پیدائش سے قبل بھی ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر میتھیو جاسٹن نے کہا کہ ہم نے یہ بھی معلوم کیا کہ نوزائیدہ بچوں میں ذیابیطس کی تشخیص انسولین بنانے والے بیٹا خلیات کی مکمل تباہی سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی ٹیم اب اس بات کا مطالعہ کرنا چاہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدافعتی نظام بننے سے قبل ہی اتنا شدید رد عمل ظاہر کر سکتا ہے۔

  • اب اسمارٹ فون بھی شوگر کی تشخیص کرسکتا ہے

    اب اسمارٹ فون بھی شوگر کی تشخیص کرسکتا ہے

    کیلی فورنیا: ذیابیطس ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مرض ہے جس کی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی ہے، ذیابیطس کی اسی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے ایک ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک عام اسمارٹ فون کو بھی ذیابیطس کی تشخیص کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین نے ایک نئی تکنیک سے اسمارٹ فون کیمرے کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ ٹائپ 2 ذیابیطس کی 80 فیصد درستگی سے شناخت کر سکتا ہے، یونیورسٹی کے ماہرین نے ذیابیطس کی شناخت کے لیے ایک خاص الگورتھم بنایا ہے جو کیمرے کی مدد سے ذیابیطس کا نشاندہی کرتا ہے۔

    اس عمل کو طب کی زبان میں فوٹو پلائتھسموگرافی (پی پی جی) کہا جاتا ہے۔ اس تکنیک میں روشنی کو کسی کھال یا بافت (ٹشو) پر ڈالا جاتا ہے جس سے خون کے حجم میں کمی بیشی کو نوٹ کیا جاتا ہے۔

    بالکل اسی طرح سے شہادت کی انگلی پر سینسر لگا کر خون میں آکسیجن کی مقدار اور دھڑکن کو بھی معلوم کیا جاتا ہے۔

    اس کے لیے پہلے ایک الگورتھم بنایا گیا اور پھر غور کیا گیا کہ آیا اسمارٹ فون کیمرہ ذیابیطس کی وجہ سے خون کی رگوں کو پہنچنے والے کسی نقصان یا تباہی کو ظاہر کر سکتا ہے یا نہیں؟

    اس کے بعد پی پی جی کی لاکھوں ریکارڈنگز کو ایک بڑے ڈیٹا بیس میں رکھا گیا اور انہیں تربیت دی گئی تاکہ وہ صحت مند اور بیمار بافتوں کے درمیان فرق کر سکے۔ اس کے بعد پی پی جی ٹیکنالوجی کو ذیابیطس کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا۔

    اس پورے تجربے میں کل 53 ہزار سے زائد 26 لاکھ پی پی جی ریکارڈنگز کو دیکھا گیا اور تمام افراد میں ذیابیطس کی درست شناخت ہوئی۔

    دوسرے تجربے میں لوگوں کے 3 گروہوں کا اسمارٹ فون کیمرے سے جائزہ لیا گیا اور ان کی انگلیوں پر کیمرے لگائے گئے۔ پورے سسٹم نے 80 فیصد درستگی کے ساتھ ذیابیطس کی شناخت کی۔

    اس طرح ماہرین نے اسے کم تکلیف والا ٹیسٹ قرار دیا ہے جس کی بدولت عام اسمارٹ فون کے ذریعے ذیابیطس کی شناخت کی جاسکتی ہے۔

  • ذیابیطس میں مبتلا باکسر محمد علی کی مسلسل چھٹی باؤٹ میں کامیابی

    ذیابیطس میں مبتلا باکسر محمد علی کی مسلسل چھٹی باؤٹ میں کامیابی

    بولٹن: برطانوی شہر بولٹن میں پاکستانی نژاد باکسر محمدعلی نے اپنے کیرئیر کی مسلسل چھٹی فائٹ بھی اپنے نام کر لی، ذیابیطس میں مبتلا باکسر نے فتح کے بعد اعلان کیا کہ وہ پاکستان میں ذیابیطس کے مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی باکسر محمد علی نے پاکستان میں ذیابطیس کے مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے چھٹی باؤٹ جیتنے کے بعد کہا کہ میں پاکستان میں ذیابیطس پر قابو پانے کے لیے مدد کرنے کا خواہش مند ہوں۔

    انھوں نے کہا میں ذیابیطس اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے لیے اپنی خدمات دینا چاہتا ہوں، پاکستان میری دھرتی ہے، اس کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں، عمران خان اسپورٹس مین ہیں، وہ مدد کریں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

    قبل ازیں، پاکستانی نژاد برطانوی باکسر محمد علی نے مسلسل چھٹی باؤٹ میں کام یابی حاصل کر لی ہے، محمد علی تمام راؤنڈز میں اپنے مخالف نیتھن ہارڈی پر حاوی رہے اور رِنگ میں اترتے ہی مخالف پر تابڑ توڑ وار کر کے فائٹ اپنے نام کی۔

    خیال رہے کہ باکسر محمد علی ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ برطانوی باکسنگ فیڈریشن کی تاریخ کے پہلے ذیابیطس میں مبتلا باکسر ہیں۔

  • آنکھوں کے امراض کی چند بنیادی وجوہات

    آنکھوں کے امراض کی چند بنیادی وجوہات

    آنکھیں ہمارے وجود کا انمول حصّہ اور بینائی عظیم نعمت ہے۔

    انسانی جسم کا یہ نازک اور نہایت حساس عضو کسی حادثے کے نتیجے میں‌، ہماری غفلت یا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کم زور اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے. ضعفِ بصر کے علاوہ بعض صورتوں‌ میں‌ ہم بینائی سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے آنکھوں سے متعلق کسی بھی قسم کی پیچیدگی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ آنکھوں کے بعض امراض فوری طبی معائنہ اور علاج چاہتے ہیں جب کہ معمولی اور عام شکایت کی صورت میں بھی آنکھوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا ہی بہتر ہوتا ہے، کیوں کہ ذرا سی غفلت سے تاریکی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

    آنکھ کے امراض کا سبب متعدد قسم کی جسمانی کم زوریاں اور وہ کمی ہو سکتی ہیں جس سے آنکھوں کی طاقت اور بینائی متاثر ہوتی ہے جس میں ناقص غذا اور جسم کا ضروری غذائی اجزا سے محروم ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ حادثات کی وجہ سے نقصان جیسے سر یا آنکھ پر ضرب یا شدید چوٹ لگنے سے بھی بلواسطہ یا براہِ راست اس عضو کو نقصان پہنچے اور یہ بینائی کو متاثر کرے۔ ہماری کھوپڑی یا سَر کی پشت اور دماغ پر ضرب بھی آنکھوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ فضائی آلودگی سے بھی آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔

    آنکھوں کے مختلف مسائل کی ایک دوسری وجہ عمر کا بڑھنا ہے جس کے سبب پیدا ہونے والی شکایات سے مکمل طور پر نجات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان میں بہت زیادہ روشنی اور آنکھوں کے آگے اکثر کالے دھبے ابھر آنے کی شکایت عام ہے۔ یہ مسئلہ عموماً پچاس سال کی عمر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے۔ تاہم ایسے دس میں سے نو افراد مزید کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوتے۔ تاہم کئی ایسے امراض اور پیچیدگیاں بھی ہیں جو پاکستان میں امراضِ چشم میں اضافے کا سبب ہیں۔

    ان میں آلودگی کی وجہ سے آنکھ کی سوزش اور اس پر توجہ نہ دینے کی صورت میں رفتہ رفتہ بینائی سے محرومی، آنکھوں میں درد رہنا، مسلسل خارش، ذیابیطس کی وجہ سے آنکھ کے پردے کو ہونے والا نقصان اور بینائی کا متاثر ہونا، سفید اور کالا موتیا جیسے امراض جو اندھے پن کی بڑی وجہ ہیں۔

    ماہرینِ امراضِ چشم کے مطابق روانہ آنکھوں کو صاف پانی سے دھونا چاہیے۔ موجودہ دور میں جہاں برقی آلات اور اسکرینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے، وہیں بعض لوگوں کا تیز روشنی، شعلوں یا ایسے گرد و غبار میں خاصا وقت گزرتا ہے جس میں دھاتی اور ریتیلے ذرات شامل ہوں۔ ایسے افراد آنکھوں کے مختلف مسائل، طبی پیچیدگیوں اور امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔

    ویلڈر، مختلف بھٹیوں پر کام کرنے والے، دھاتی صنعت سے وابستہ افراد یا کھلے میدانوں میں دھوپ اور گرد و غبار میں رہنے والے جن کی آنکھیں عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ انھیں باقاعدگی سے اپنی آنکھوں کا معائنہ کروانا چاہیے جب کہ کسی بھی قسم کی چبھن، جلن، آنکھوں سے پانی بہنے کی شکایت اور کم نظر آنے، دھندلا دکھائی دینے یا بصارت کے عمل کے دوران ارد گرد مختلف دھبے یا دائرے نظر آنے پر طبی معائنہ کروانا چاہیے۔

    اسی طرح اپنی غذا اور خوراک میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے آنکھ کے خلیات کو تقویت اور اس کی ضرورت کے مطابق طاقت بخشتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسکرین، کتاب سے مخصوص فاصلہ رکھنا، مناسب و ضروری روشنی میں لکھنا، پڑھنا اور آنکھوں کی صفائی کے ساتھ ان کو آرام دینے سے عام شکایات سے بچا جاسکتا ہے۔

  • ذیابیطس کا عالمی دن: کم کھائیں اور زیادہ چلیں

    ذیابیطس کا عالمی دن: کم کھائیں اور زیادہ چلیں

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ذیابیطس یا شوگر سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک شخص ٹائپ 1 ذیابیطس کا شکار ہے۔

    ذیابیطس کا عالمی دن منانے کا مقصد اس مرض سے پیدا شدہ پیچیدگیوں، علامات اور اس سے بچاؤ کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ’خاندان کی حفاظت کریں‘ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا مرض موروثی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اگر خاندان میں یہ مرض موجود ہے تو اس سے حفاظت اور بچاؤ کے اقدامات کم عمری سے ہی اٹھائے جائیں۔

    ذیابیطس دراصل اس وقت ہمارے جسم کو اپنا شکار بناتا ہے جب ہمارے جسم میں موجود لبلبہ درست طریقے سے کام کرنا چھوڑ دے اور زیادہ مقدار میں انسولین پیدا نہ کر سکے، جس کے باعث ہماری غذا میں موجود شکر ہضم نہیں ہو پاتی۔

    یہ شکر ہمارے جسم میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے جو شوگر کی بیماری کے علاوہ بے شمار امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ذیابیطس کا آسان اور قدرتی علاج

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کا ساتواں بڑا ملک ہے جبکہ سنہ 2030 تک یہ چوتھا بڑا ملک بن جائے گا جو ایک تشویشناک بات ہے۔

    ذیابیطس کی کئی علامات ہیں جن میں پیشاب کا بار بار آنا، وزن کا گھٹنا، بار بار بھوک لگنا، پاؤں میں جلن اور سن ہونا شامل ہیں۔ ذیابیطس دل، خون کی نالیوں، گردوں، آنکھوں، اعصاب اور دیگر اعضا کو متاثر کر سکتا ہے۔

    اس موذی مرض کی اہم وجہ غیر متحرک طرز زندگی اور غیر صحت مند غذائی عادات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس سے بچنے کے لیے انٹرنیشنل ڈایابیٹز فیڈریشن کی ہدایت ’کم کھائیں اور زیادہ چلیں‘ پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔

    ان کے مطابق والدین 5 سال کی عمر سے ہی بچوں کو فاسٹ فوڈ اور سوڈا مشروبات سے پرہیز کروانا شروع کردیں۔ یہ وزن میں اضافے کا سبب ہیں اور موٹاپا ٹائپ 2 ذیابیطس کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکول کی سطح سے ہی ذیابیطس کی تشخیص اور علاج کے لیے قومی صحت پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ بروقت تشخیص اور فوری علاج ہی اس بیماری کے باعث لاحق ہونے والی پیچیدگیوں سے بہتر تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

  • وسیم اکرم سے بد تمیزی کا معاملہ، مانچسٹر ایئر پورٹ انتظامیہ کا نوٹس

    وسیم اکرم سے بد تمیزی کا معاملہ، مانچسٹر ایئر پورٹ انتظامیہ کا نوٹس

    مانچسٹر: برطانوی شہر مانچسٹر کے ایئر پورٹ پر پاکستان کے لے جنڈ کرکٹر وسیم اکرم کے ساتھ افسوس ناک واقعہ پیش آیا، ٹویٹر پر شکایت کے بعد ایئر پورٹ انتظامیہ نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق مانچسٹر ایئر پورٹ پر سابق قومی ٹیم کپتان وسیم اکرم کے ساتھ ایئر پورٹ حکام نے بد تمیزی کی، سابق کرکٹر نے ٹویٹر پر واقعے سے متعلق اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ حکام نے انسولین سے متعلق برا رویہ اپنایا۔

    سوئنگ کے سلطان مانچسٹر ایئر پورٹ حکام پر برس پڑے، ایئر پورٹ پر انسولین روکے جانے پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’دنیا بھر میں سفر کرتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں روکا۔

    وسیم اکرم نے ٹویٹ میں لکھا کہ مانچسٹر ایئر پورٹ حکام نے میرے ساتھ بد تمیزی کی، مجھے کہا گیا انسولین نکال کر پلاسٹک بیگ میں ڈال دیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  یوٹیوب گولڈن بٹن کا اعزاز ملنے کے بعد شعیب اختر کا بڑا اعلان

    ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا بھر میں سفر کرتے رہتے ہیں، انھیں کبھی اس طرح پریشان نہیں کیا گیا، لیکن مانچسٹر ایئر پورٹ حکام کے رویے سے سخت مایوس ہوئے ہیں۔

    قومی ٹیم کے سابق کپتان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں سخت بے عزتی محسوس ہوئی، حکام نے سب کے سامنے نہایت بد تہذیبی سے پوچھ گچھ کی اور حکم دیا کہ میں اپنی انسولین کو ٹھنڈے سفری بیگ سے نکال کر ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال دوں۔

    خیال رہے کہ سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم 1997 سے ذیابطیس کے مریض ہیں اور باقاعدگی سے انسولین استعمال کرتے ہیں۔

    ایئر پورٹ انتظامیہ کا نوٹس

    وسیم اکرم سے بد تمیزی کے معاملے پر مانچسٹر ایئر پورٹ انتظامیہ نے ٹویٹر پر ان کی شکایت کا نوٹس لے لیا، ایئر پورٹ انتظامیہ نے وسیم اکرم سے تفصیلات طلب کر لیں، انتظامیہ نے کہا کہ وسیم اکرم واقعے سے متعلق براہ راست آگاہ کریں۔

    لے جنڈ کرکٹر وسیم اکرم کے ٹویٹ پر مانچسٹر ایئرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے ریپلائی میں کہا گیا کہ آپ نے اس مسئلے کی طرف ہماری توجہ دلائی جس کے لیے شکرگزار ہیں۔

    جس پر وسیم اکرم نے بھی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا فوری رد عمل کے لیے شکریہ، میں آپ کے ساتھ رابطے میں رہوں گا۔

    قبل ازیں وسیم اکرم نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ میرے ساتھ دوسروں سے مختلف رویہ کیسے رکھا جا سکتا ہے، تمام لوگوں کے ساتھ ڈیلنگ کرتے ہوئے ایک معیاری رویہ اپنایا جانا چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کی بے عزتی کی جائے۔