Tag: رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے

  • اسد محمد خاں کی سال گرہ اور رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ

    اسد محمد خاں کی سال گرہ اور رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ

    اردو کے باکمال افسانہ نگاروں کی فہرست میں اسد محمد خاں کا نام نمایاں ہے۔ وہ زندہ کہانیاں بُننے کا فن جانتے ہیں۔ اپنے اسلوب سے اردو افسانے آبیاری کرنے والے اسد محمد خاں کا مزاح ہمیں چونکا دیتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کے لہجے پر کمال گرفت رکھتے ہیں۔ ان کا ہر افسانہ ایک نئے پن کا احساس دلاتا ہے۔

    اردو کے یہ صاحبِ طرز فکشن نگار زندگی کی ۹۲ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے جنم دن کی مناسبت سے رائٹرز اینڈر ریڈرز کیفے کے زیر اہتمام ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی، جس میں قلم کاروں نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ آئیے، اسد محمد خاں کے حالات زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    مختصر تعارف
    اسد محمد خاں نے 26 ستمبر 1932ء کو ریاست بھوپال میں آنکھ کھولی۔ مطالعے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انگریزی جاسوسی ادب پڑھا اور سنجیدہ ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ زمانۂ طالبِ‌ علمی میں انقلابی ہوگئے، اور ایک موقع پر سرکار مخالف پوسٹر لگانے کی پاداش میں گرفتار بھی ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں بسے۔ یہاں تعلیم مکمل کی اور ملازمت کا آغاز کیا۔

    فن و ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو اسد محمد خاں نے افسانہ نگاری، تراجم اور شاعری کے علاوہ ریڈیو اور بعد ازاں ٹیلی وژن کے لیے گیت، ڈرامے اور فیچر بھی لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ (باسودے کی مریم) شایع ہوا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ یہ افسانہ ”فنون“ میں شایع ہوا تھا۔ اسی پرچے میں ”مئی دادا“ نے جگہ پائی۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ افسانے ان کے قلم سے نکلتے چلے گئے اور یادگار ٹھیرے۔

    82ء میں اسد محمد خاں کی پہلی کتاب ”کھڑکی بھر آسمان“ (افسانے، نظمیں) شایع ہوئی۔ افسانوی مجموعہ ”برج خموشاں“ 90ء میں منظر عام پر آیا۔ 97ء میں ”غصے کی نئی فصل“ (افسانے) اور ”رُکے ہوئے ساون“ (گیت) شایع ہوئے۔ کتاب ”نربدا اور دوسری کہانیاں“ 2003ء میں شایع ہوئی۔ 2006ء تک تحریر کردہ افسانوں کو ”جو کہانیاں لکھیں“ کے نام سے کتاب میں اکٹھا کیا گیا۔ 2006ء ہی میں ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ اور 2010ء میں ”ایک ٹکڑا دھوپ کا“ کی اشاعت ہوئی۔

    مصنّف کو قومی ادبی ایوارڈ (اکادمی ادبیات پاکستان)، احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، مجلس فروغِ اردو ادب انعام، دوہا قطر،2007- شیخ ایاز ایوارڈ برائے ادب اور پاکستان میں حکومت نے تمغائے امتیاز سے نوازا۔

    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ
    رائٹرز اینڈ ریڈرز پاکستان کی فعال ترین ادبی تنظیموں میں سے ایک ہے، جس کی روح رواں ممتاز شاعرہ، مترجم، نقاد اور مدرس، ڈاکٹر تنویر انجم ہیں۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام متنوع موضوعات پر کئی اہم نشستیں منعقد ہوچکی ہیں، جن میں کئی ادبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ان سیشنز میں جہاں بڑی تعداد میں علم و ادب کا شوق رکھنے والے اور اہلِ قلم شرکت کرتے ہیں، وہیں فیس بک اور یوٹیوب اسٹریمنگ کی بدولت جلسے کی کارروائی آن لائن بھی دیکھی جاتی ہے۔

    خاں صاحب کی سال گرہ اور نوّے واں اجلاس
    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کے ۹۰ ویں اجلاس میں اسد محمد خاں کی ۹۲ ویں سال گرہ منائی گئی۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ اسپیکرز میں جناب اخلاق احمد، جناب انعام ندیم، جناب رفاقت حیات، ڈاکٹر رخسانہ صبا (جن کا مضمون انجلا ہمیش نے پڑھا) اور جوہر مہدی شامل تھے۔ پروگرام کی میزبانی معروف شاعرہ اور صحافی، ناصرہ زبیری نے انجام دیں۔ مقررین نے جہاں اسد محمد خاں کے فکشن کے فنی محاسن پر روشنی ڈالی، وہیں ان کے باکمال گیت اور شاعری پر بھی بات کی۔

    اس موقع پر خاں صاحب نے اپنے فن افسانہ نگاری سے متعلق یادیں شرکاء سے بانٹیں اور اپنے اوّلین افسانہ کی لکھت اور قاسمی صاحب کی موجودگی میں اسے پڑھنے کا تذکرہ کیا۔اس تقریب میں صدر آرٹس کونسل، احمد شاہ نے بھی اسد محمد خاں کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔

    تقریب کی صدر، ڈاکٹر فاطمہ حسن اپنے صدارتی خطبے میں تمام اسپیکرز کے مضامین کا احاطہ کرتے ہوئے اسد محمد خاں کے فن و اسلوب کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔ تقریب کے آخر میں تالیوں کی گونج میں اسد محمد خاں نے اپنے جنم دن کا کیک کاٹا۔

  • جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    بڑے ادیب کی تخلیق کئی عشروں کا احاطہ کرتی ہے، وہ صدیوں پر پھیل جاتی ہے اور ادیب کے گزر جانے کے بعد بھی برسوں پڑھی جاتی ہے۔ اس پر تنقیدی مباحث جاری رہتے ہیں اور ادبی دنیا میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

    جوزف کونریڈ (Joseph Conrad) بھی ایسا ہی ایک ادیب تھا، جس کا عالمی ادب میں خوب چرچا ہوا، اس کا اندازہ ان تقاریب سے لگایا جاسکتا ہے جو اس ادیب کی وفات کے سو برس مکمل ہونے پر اس کی یاد میں منعقد کی جارہی ہیں۔

    گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں بھی ایسی ہی ایک تقریب "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے” کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی، جس میں اس باکمال ادیب کے فن و اسلوب کا ذکر چھڑا، تو کئی نئے سوالات اور ان کے جواب سامنے آئے جن سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس تقریب کا احوال جاننے سے پہلے جوزف کونریڈ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    جوزف کونریڈ کون تھا؟

    جوزف کونریڈ ایک پولش نژاد برطانوی ادیب تھا، جسے اپنے موضوعات، منفرد انداز بیان کے ساتھ انسانی فطرت اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے لیے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جوزف کونریڈ نے 1857ء میں آنکھ کھولی، اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1924 میں تمام ہوا۔ کونریڈ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بحری سفر میں گزارا، اور اس کے تجربات کونریڈ کی تحریروں میں بھی جھلکتے ہیں۔ اس کے مشہور ناولوں میں ہارٹ آف ڈارکنس، لارڈ جم، اور نوسٹرو مو شامل ہیں۔

    یہ ناولز وجودیت، نوآبادیاتی نظام اور اخلاقی گراوٹ جیسے موضوعات کو کمال مہارت سے منظر کرتے ہیں۔ ہارٹ آف ڈارکنس(Heart of Darkness) کونریڈ کا سب سے مقبول ناول ہے، جسے یورپی سامراجیت پر ایک گہری تنقید تصور کیا جاتا ہے، جو انسانی فطرت کے تاریک پہلو اور افریقا میں نوآبادیاتی دور کے مظالم کو بیان کرتا ہے۔ گو بعد میں چنوا اچیبے سمیت مختلف ناقدین نے جوزف کونریڈ پر تعصب برتنے اور نوآبادیاتی نظام کی شبیہہ سازی کا الزام بھی لگایا۔ جوزف کونریڈ کے اس مشہورِ زمانہ ناول، ہارٹ آف ڈراکنس کا ترجمہ اردو کے ممتاز ادیب اور مترجم، سلیم الرحمان صاحب نے قلبِ ظلمات کے نام سے کیا۔

    تذکرہ رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا:

    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے ایک ادبی تنظیم ہے، جس میں شامل ارکان کی اکثریت قلم قیبلے سے ہے۔ اس کی ہفتہ وار نشستیں آرٹس کونسل کی جوش ملیح آبادی لائبریری میں منعقد ہوتی ہیں، جہاں کراچی کے ادبا کی بڑی تعداد باقاعدگی سے شرکت کرتی ہے، ساتھ ہی اس کی فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دیگر شہروں میں بسنے والے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی روحِ رواں معروف شاعر، مترجم، نقاد اور انگریزی ادب کی استاد ڈاکٹر تنویر انجم ہیں۔ گزشتہ دو برس میں اس کے نوے اجلاس ہوچکے ہیں، جن میں ادب، سماج، سیاست، اور فلم سمیت فنون لطیفہ کی تمام اصناف زیر بحث آئیں۔

    جوزف کونریڈ اور کیفے کے ۸۹ اجلاس کی جھلکیاں:

    ماہ ستمبر کی بارہ تاریخ کو رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے نے "جوزف کونریڈ کے سو سال” کے عنوان سے آرٹس کونسل میں ایک تقریب سجائی، جس کی صدارت دنیائے صحافت و ادب کی ممتاز شخصیت، غازی صلاح الدین نے کی۔

    اس تقریب میں ڈاکٹر تنویر انجم، سید کاشف رضا، ماخام خٹک، بشام خالد اور وشال خالد نے جوزف کونریڈ کے فن کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید طلحہ علی نے اس کی نظامت کی۔

    اپنے صدارتی خطے میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ جوزف کونریڈ کا مطالعہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، وہ ایک اہم ادیب تھا، جس نے نیا طرز اسلوب اختیار کیا اور نوآبادیاتی نظام کے سقم عیاں کیے۔

    مقررین میں حشام خالد نے جوزف کونریڈ کے ناول "لارڈ جم”، جب کہ ماخام خٹک اور وشال خالد نے ہارٹ آف دی ڈارک نیس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید کاشف رضا نے جوزف کونریڈ کے ناولز یوتھ اور Typhoon کے فنی محاسن پرروشنی ڈالی۔

    اس موقع پر شرکا نے بھی مقررین سے سوالات کیے۔ یہ مکالمہ ڈھائی گھنٹے جاری رہا، جس میں اس ممتاز قلم کار پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

    حرفِ آخر:

    قارئین، آج کے دور میں جوزف کونریڈ کو پڑھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اُن کے موضوعات طاقت، شناخت، اور عالمی استحصال جیسے موجودہ مسائل سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نثر قارئین کو عصری مسائل پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی دعوت دیتی ہے، ساتھ ہی ہمیں یہ خبر بھی دیتی ہے کہ نوآبادیاتی دور کے انگریز ادیب بھی ایک حد تک اپنے سانچے سے باہر جاسکتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی باغی کیوں نہ ہوں۔