Tag: راجندر سنگھ بیدی

  • خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    ہندوستانی افسانہ نگار، ادیب، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کو اردو ادب اور فلم کی دنیا میں‌ بے مثال شہرت اور نام و کام یابی ملی جن کی شخصیت، فن و کمال کا تذکرہ اپنے وقت کے بڑے بڑے اہلِ‌ قلم نے کیا ہے۔

    یہ خواجہ احمد عباس کے شخصی خاکے سے چند پارے ہیں جس کے مصنّف خود ہندوستان میں‌ ادبی اور فلمی دنیا کی معروف شخصیت رہے ہیں۔ یہ راجندر سنگھ بیدی ہیں جنھوں نے اپنے ممدوح کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے:

    زندگی میں کم ہی آدمی آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جن کی شکل پیدایش سے لے کر آخر دم تک ایک ہی سی رہی ہو جس کی وجہ سے وہ بہت سے جرائم نہیں کر سکتے۔

    میں نے عباس صاحب کو ان کے بچپن میں تو نہیں دیکھا لیکن اپنے فزیالوجی کے محدود علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی عباس صاحب اپنے اس لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو پچھلے پچیس برس سے تو میں ان کا منہ دیکھ رہا ہوں۔ جہاں ذہنی طور پر ان کا قد بڑھا ہے، جسمانی طور پر آپ وہی کے وہی ہیں۔ چہرے پر جس فہم و فراست کے نشان پہلے تھے، وہی اب بھی ہیں۔ ویسے ہی نگاہ اچٹ کر سامنے والے پہ پڑتی ہے۔ وہی مونچھوں کی ہلکی سی تحریر جس کے نیچے پتلے سے ہونٹ جو خفگی یا کھسیانے لمحوں میں کچھ اس طرح سے ہلتے ہیں کہ انہیں پھڑپھڑانا کہا جا سکتا ہے اور نہ بھینچنا۔ ان کی ہنسی بے ساختہ ہے مگر ریشمی، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ایکا ایکی رک جاتے ہیں۔ معتبر آدمی کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہیے! سَر پر کے بال پہلے ڈھائی تھے، اب دو رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود سکھوں کے خلاف نہیں۔ بلکہ کئی دفعہ میں نے انہیں کسی سکھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا ہے۔

    لباس میں سادگی ہے اور استغنا کا فن بھی۔ ان کی عام نشست و برخاست کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ زندگی میں تاکید تکلفات پر نہیں، کچھ اور ضروری باتوں پر ہے، جس میں ادب، صحافت، فلم، سیاست اور دوسری بیسیوں قسم کی سماجی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں اگر انہیں اسرائیل اور متحدہ عرب جمہوریہ کے درمیان چننے کا حق دیا جائے تو وہ یقیناً عرب جمہوریہ کو چنیں گے۔ صدر جمال عبدالناصر کی پیروی کریں گے لیکن شکل ہمیشہ اسرائیل کے بین گورین سے ملے گی۔

    میں نے عباس صاحب کو پہلی بار لاہور میں دیکھا جہاں وہ اپنے صحافی دوست ساٹھے کے ساتھ کوئی فلم بنانے کے سلسلے میں آئے تھے۔ یہ دونوں دوست انڈین پیپلز تھیٹر کی تحریک کا حصہ تھے، جس کے ایک جلسے میں، میں عباس صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ ان دنوں لاہور کے لارنس باغ میں ایک نیا اوپن ایئر تھیٹر قائم ہوا تھا جہاں خوب ہی ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کمبھ نہیں تو اردھ کمبھی ضرور ہے۔ چنانچہ عباس صاحب کو دیکھنے کے سلسلے میں مجھے خوب دھکے پڑے۔ خیر، دھکوں کی بات چھوڑیے، وہ تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم سب دھکے کھاتے ہیں۔ کبھی مل کر اور کبھی الگ الگ۔ ایک بار پہلے بھی جب لاہور کے بریڈ لا ہال میں مہا کوی ٹیگور کو دیکھنے گیا تھا تو اس سے بھی برا سلوک ہوا۔ بھگدڑ میں سیکڑوں پیروں کے نیچے دَلا گیا۔ جب بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے خود چھوٹا ہونا ضروری ہے؟

    اس جلسے میں عباس صاحب ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ باقی کے فضول اور بے کار قسم کے مرد تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور عباس صاحب سب سے ملتے اور سب سے باتیں کرتے پھر رہے تھے، جسے صحافت کی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’اور وہ آزادانہ مہمانوں میں گھومتے اور ان سے ملتے جلتے رہے۔‘‘

    ایسا معلوم ہوتا تھا عباس صاحب کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسا کریں گے تو ان کا اپنا دل ٹوٹ جائے گا۔ اس عمل میں انہیں کتنا ہی بولنا، کتنا ہی وقت ضائع کرنا پڑا۔ وہ اس بات کو بھول ہی گئے اور آج تک بالعموم بھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ کسی کا دل نہیں توڑیں گے، بات کیسے بنے گی؟ (دل ’’بدست آور‘‘ کہ حج اکبر است!)

  • راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

    بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

    بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔

  • فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔

    سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

    مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘ لکھی تو اوّل اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘

    مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلّی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

    تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

    آپ زیبُ النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحّت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

    ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اوّل اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔

    تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

    سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔

    نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ شری مدبھا گوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

    سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سر والٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

    نا بابا۔ ساماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،

    حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
    کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

    (اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار اور فلمی مکالمہ نویس راجندر سنگھ بیدی کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وِجینتی مالا کی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے قدرت نے نہیں، جیمنی رائے نے بنایا ہو۔ وہ کسی حد تک کانوں کی طرف کھنچی ہوئی ہیں۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ سامنے دیکھتی ہوئی پیچھے بھی دیکھ رہی ہوں گی۔

    ایسی آنکھیں پورے جلال میں آجانے پر کیا ہوتا ہوگا؟ ان میں سے برستا نور میں نے ڈرامائی مناظر میں دیکھا ہے، جہاں ان آنکھوں کی وجہ سے مکالمے لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

    مجھے وجینتی مالا کے ساتھ چار فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے: دیوداس، مدھومتی، آس کا پنچھی اور رنگولی میں۔

    ”دیو داس“ میں وجینتی مالا نے ایک طوائف کا رول کیا تھا، جو کسی طرح بھی ہیروئن کا رول نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن جنھوں نے شرت چندر کا ناول ”دیو داس“ پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ چندر مکھی کا رول چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں اتنا ہی تیکھا ہے کہ اس کی بات ہیروئن ’پارو‘ کو میسّر نہیں آتی۔

    ان دنوں وجینتی مالا مدراس کی ایک دو ہندی فلموں میں کام کرچکی تھی۔ جب وہ ہمارے سامنے آئی، تو ہم اسے ایسی گڑیا سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے، جو چابی دینے سے ہاتھ پانو چلانے لگتی ہے۔ اس کے سامنے ہیروئن کے رول میں مشہور بنگالی اداکارہ سچترا سین تھی، جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا درجے کی فن کار بھی تھی۔ ان ہی دنوں اسے ایک بین الاقوامی ایواڈ بھی ملا تھا۔ اس کے سامنے وجینتی مالا کا ٹکنا بہت مشکل تھا۔ اور پھر اس کے رول میں اتنی گہرائی تھی کہ اس کی تہوں کو پانا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہ تھی۔

    طوائف چندر مکھی، دیو داس سے اس باعث محبت کرتی ہے کہ وہ پہلا مرد تھا، جس نے اس سے نفرت کی۔ اس نفرت نے چندر مکھی کی ’بری‘ عورت کو سدا کے لیے فنا کر دیا اور وہ اپنا پیشہ چھوڑ کر جسم کی بجائے صرف روح بن گئی۔ وجینتی مالا نے کچھ اداس سی اداؤں اور بہکی بہکی نظروں سے اس بے حد مشکل رول کو بہت عمدہ ڈھنگ سے نبھایا۔ اس کا رقص تفریح کا ذریعہ تھا، تو اس کی اداکاری روح کی غذا تھی۔

    شاید اسی لیے بمل رائے نے وجینتی مالا کو اپنی اگلی فلم ”مدھو متی“ میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اداکار، دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے لیے منتخب کیا۔ ”مدھو متی“ میں کئی ایسے منظر آتے ہیں جن میں دلیپ کمار سراسر حسن بن جاتا ہے اور وجینتی مالا خالصتاً محبت۔ وجینتی مالا نے دیکھنے والوں کے سامنے محبت کی وہ تصویر پیش کی کہ وہ اسے پانے کے لیے آئندہ جنموں کی مصیبتیں سہنے کو بھی تیار تھے۔ اگر وہ دوسرے جنموں کا سلسلہ نہ ہوتا، تو میں اس فلم کو کیسے لکھتا؟

    ”آس کا پنچھی“ میں وجینتی مالا کا ایک عام سا رول تھا اور اس کا کینواس بھی، ہیرو کے مقابلے، بہت چھوٹا تھا۔ لیکن رول چھوٹا ہونے کے باوجود وجینتی مالا نے اعلا فن کا ثبوت دیا۔ ”رنگولی“ میں نے خود لکھی اور بنائی تھی۔ تب وجینتی مالا سے میرا براہِ راست واسطہ پڑا، جس میں تلخ تجربے بھی ہوئے اور میٹھے بھی۔ لیکن ایک بات جو وجینتی مالا کے حق میں جا سکتی ہے، وہ یہ کہ ایک بار ”کال شیٹ“ منظور کر لینے کے بعد، دیگر اداکاروں کے مقابلے، وہ اس میں کم ہی ادل بدل کرتی ہے اور سیٹ پر اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے۔

    ”رنگولی“ کے آغاز میں، پہلے ہی دن اسے طویل مکالموں پر مبنی ایک ڈرامائی سین دیا گیا تھا۔ ہماراخیال تھا کہ مادری زبان تامل ہونے کی وجہ سے وہ ہندی لب و لہجہ آسانی سے نہ اپنا سکے گی۔ سین ایک روز پہلے، شام کے وقت، اس کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اگلی صبح جب وہ سیٹ پر آئی تو اسے نہ صرف سین کا ایک ایک لفظ یاد تھا، بلکہ اس کا لہجہ اور ادائیگی بھی دیکھنے لائق تھی۔

    (ہندوستانی فلموں کی معروف اداکارہ پر راجندر سنگھ بیدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    دیوندر ستیارتھی کی ”عادتِ بد“

    نرالی شخصیت ،افسانہ نگار اور شہر شہر گھوم پھر کر لوک گیت اکٹھے کرنے والے دیوندر ستیارتھی بھی تقسیم سے پہلے کے برسوں میں لاہور میں موجود تھے۔ ان کی ایک عادتِ بد، جس سے ان کے دوست تنگ رہتے، اپنا افسانہ زبردستی دوسروں کے گوش گزار کرنا تھی۔

    ستیارتھی سنت نگر میں رہتے تھے۔ اسی علاقے میں کنھیا لال کپور، فکر تونسوی اور ہنس راج رہبر کی رہایش تھی۔ یوں وہ براہِ راست ستیارتھی کی زد میں تھے، اس لیے چھپتے پھرتے۔ راجندر سنگھ بیدی کی قسمت بری تھی کہ ستیارتھی ایک دفعہ ان کے یہاں بیوی اور بیٹی سمیت آن براجے اور کئی دن ٹھیرے۔ بیدی لاہور کینٹ میں چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ شام کو تھکے ٹوٹے گھر پلٹتے تو مہمانِ عزیز افسانہ سنانے کو پھر رہے ہوتے، اس پر طرّہ یہ کہ اصلاح کے طالب ہوتے۔ اس عمل میں جو وقت برباد ہوتا سو ہوتا لیکن صبح سویرے بھی تازہ دَم ہو کر ستیارتھی تصحیح شدہ افسانہ بیچارے میزبان کو سناتے۔ ان سب باتوں سے تو بیدی زچ تھے ہی، غصّہ ان کو اس بات پر بھی تھا کہ بیوی بچّوں کے لیے وہ وقت نہ نکال پاتے۔ یہ سب معلومات بیدی کی زبانی منٹو کے علم میں آئیں، جن کی بنیاد پر انھوں نے افسانہ ”ترقّی پسند“ لکھ دیا۔

    ستیارتھی نے بیدی کی خلوت میں ایسی کھنڈت ڈالی کہ میاں بیوی کا قرب محال ہو گیا۔ منٹو نے یہ صورتِ حال افسانوی رنگ میں یوں پیش کی کہ ایک دن دھڑکتے دل کے ساتھ، کہ کہیں سے ترپاٹھی (دیوندر ستیارتھی) نہ آجائے، اس نے جلدی سے بیوی کا بوسہ یوں لیا جیسے ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگائی جاتی ہے۔ یہ بیدی پر سیدھی چوٹ تھی کہ وہ ان دنوں ڈاک خانے میں لفافوں پر مہر لگاتے تھے۔

    منٹو کی کہانی کے ردِعمل میں ستیارتھی نے ”نئے دیوتا“ کے عنوان سے افسانہ لکھ ڈالا، اس میں منٹو کے طرزِ زندگی پر طنز تھا۔ مرکزی کردار کا نام نفاست حسن رکھا گیا۔ یہ کہانی ”ادبِ لطیف“ میں چھپی اور بقول ستیارتھی، اوپندر ناتھ اشک اور کرشن چندر کو بہت پسند آئی اور انھوں نے منٹو کو اس پر خوب دق کیا۔ ستیارتھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کہانی کی وجہ سے منٹو ان سے پانچ سال ناراض رہے۔ دونوں کی صلح کرانے میں راجندر سنگھ بیدی اور نذیر احمد چودھری نے کردار ادا کیا۔ ”نئے دیوتا“ کے بارے میں کہا گیا کہ بھلے سے یہ ستیارتھی کے نام سے شایع ہوا ہو مگر اس کے اصل مصنف بیدی ہیں۔ اشک اپنے مضمون ”منٹو میرا دشمن“ میں بتاتے ہیں:

    ”دوستوں کے درمیان دیوار نہ کھڑی ہوئی بلکہ انھوں نے منٹو کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قایم کر لیا اور جس طرح منٹو نے اپنی کہانی میں بیدی اور ستیارتھی کے عادات و اطوار، شکل و شباہت اور ذاتی زندگی کا مذاق اُڑایا تھا، اسی طرح ان دونوں نے مل کر ایک افسانہ لکھ کر منٹو کی ذاتی زندگی اور اس کی خامیوں کو اُجاگر کر دیا۔ کہانی ستیارتھی کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے ہی لکھی تھی۔ بیدی نے اس پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے کچھ ایسے پنّے لگائے کہ کہانی، جہاں تک کردار نگاری کا تعلّق ہے، بے حد اچھی اُتری، نام ہے ’نئے دیوتا‘ بات یہ ہے کہ افسانہ کسی نے لکھا ہو فنّی اعتبار سے منٹو کے ’ترقی پسند‘ کا پلّہ بھاری ہے۔“

    دیوندر ستیارتھی کے لوک گیتوں پر کام کو کنھیا لال کپور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”اللہ میاں کی کچہری میں جب ستیارتھی کو آواز پڑے گی تو ’لوک گیتوں والا ستیارتھی‘ کہہ کر، نہ کہ کہانی کار ستیارتھی کے نام سے۔“ بیدی اس معاملے میں کپور کے ہم خیال تھے۔

    ستیارتھی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں اپنی کہانی ”اگلے طوفانِ نوح تک“ پڑھی جس میں نذیر احمد چودھری کو بطور پبلشر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بیدی نے بحث میں حصّہ لیتے ہوئے کہا: ”ستیارتھی کو سات جنم میں بھی کہانی کار کا مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔“
    اس پر ستیارتھی نے جواب دیا: ”حضرات! جب تک میں کہانی کار نہیں بن جاتا میں بدستور بیدی کو گرو دیو تسلیم کرتا رہوں گا۔“

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور:‌ شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    بیدی اردو کے چند ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ لکھا اور فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریر کیے۔

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنٰی ہیں۔ بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کا لطیف ترین عکس ہمارے سامنے لاتے ہیں اور وہ آئینہ خانہ ہیں‌ جس میں انسان کا سچّا روپ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں فرد اور سماج کے پیچیدہ رشتوں اور انسان کی شخصیت کے پُراسرار تانے بانے بھی اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ وہ زیادہ بامعنٰی، بلیغ اور خیال انگیز ثابت ہوتے ہیں، اور اس میں‌ اپنے تخیّل و قلم کی انفرادیت کا اظہار اُس سوز و گداز سے کرتے ہیں جو احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے آسکتا ہے۔ ان کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔

    بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔

    انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی کو ان کے تخلیقی جوہر نے مسلسل دماغ سوزی اور اپنی کہانیوں پر محنت کرنے پر آمادہ کیے رکھا اور انھوں نے حقیقت اور تخیّل کے امتزاج سے لاجواب کہانیاں قارئین کو دیں۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کرتے ہوئے 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    بیدی نے اردو ادب کو کئی کہانیاں دیں اور ان کا قلم مختلف صورتوں یا اصناف میں‌ ہمیشہ متحرک رہا، لیکن فلم انڈسٹری میں کیمرے کے پیچھے رہ کر بھی انھوں نے بڑا کام کیا۔

    فلمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیدی نے اس زمانے میں‌ متحدہ ہندوستان کے پنجاب کے خوش حال و بدحال لوگوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور ان کے تخلیقی جوہر نے اسے بڑی درد مندی کے ساتھ کاغذ پر منتقل کیا۔

    وہ عاشق مزاج بھی تھے۔ انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کو رومان اور دل لگی کے ہاتھوں تلخ بنا لیا تھا۔

    اردو زبان کے اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ ان پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

  • "فلمی کہانی کیسے لکھی جاتی ہے؟”

    "فلمی کہانی کیسے لکھی جاتی ہے؟”

    کبھی میں نے اس لیے لکھنا شروع کیا تھا کہ مجھے کچھ کہنا تھا معاشرے کے بارے میں، زمانے کے بارے میں، حالات کے بارے میں، خود اپنے بارے میں۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنی تصانیف کے ذریعے معاشرے کے زخموں کو دکھاؤں تاکہ جو لوگ ان پر مرہم لگا سکتے ہیں، وہ لگائیں، یا اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کا بیان کروں، جو زندگی کی بڑی بڑی مصیبتیں بن جاتی ہیں۔

    پھر میں کتابی زندگی سے نکل کر فلمی زندگی میں آیا اور میں نے محسوس کیا کہ ہر فلم ساز میری طرف ایسے دیکھ رہا ہے جیسے شیش محل میں کوئی کتّا گھس آیا ہو۔ ہر شخص مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ فلمی کہانی اصل میں کیا ہوتی ہے اور کیسے لکھی جاتی ہے۔ کام یاب فلم سازوں کی تقریریں سننا میں گورا کر بھی لیتا، لیکن ان کے چیلے چانٹے، جنھیں فلمی زبان میں ’’چمچے‘‘ کہا جاتا ہے، وہ بھی مجھے سمجھاتے کہ فلمی کہانی اصل میں ایسی ہونی چاہیے، اس میں فلاں فلاں باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہیے۔

    میں ان باتوں میں ایسا جکڑ گیا کہ کبھی کبھی سوچنے لگتا کہ ادبی کہانی اور فلمی کہانی اصل میں دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور پھر جب میں نے فلمی کہانیاں لکھیں تو ان پر بھی ویسی ہی نکتہ چینی ہوئی جو ادبی کہانیوں پر ہوتی تھی۔ ان میں بھی وہی جھول نظر آئے جو ادبی کہانیوں میں دکھائی دیتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ فلم ساز مجھے زبان اور لکھنے کا انداز اور جملے بنانا تک سکھانے لگے۔

    میں ان کی غلط باتوں پر جھنجھلاتا، آخر ایک بار اُس زمانے کے ایک بہت بڑے فلم ساز سے میں یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا: ’’آپ نے کون سی کتاب لکھی ہے؟‘‘ اور اُس کے بتانے پر کہ اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی میں نے کہا: ’’میری تین کتابیں چھپ چکی ہیں اور اُن میں، میں نے کسی ہندوستانی یا غیر ملکی فلم سے کچھ نہیں چرایا ہے۔‘ پھر جو سین وہ مجھ سے سات بار لکھوا چکا تھا، اُسے آٹھویں بار لکھنے کی بجائے کاغذوں کے پُرزے پُرزے کر کے اس کی میز پر پھینک کر چلا آیا۔

    ہمارے اسٹوڈیو بہت بڑے اصطبل ہیں۔ ان میں کیمرے اور ساؤنڈ ریکارڈنگ کا سامان پچھلی صدی کا ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے ان کا کرایا دگنا ہے۔ پھر انگڑائی لے کر جاگے مزدور اور ان کی یونین ہے۔ صبح کی شفٹ میں کام کرنے والوں کو بھی پروڈیوسر کو دوپہر کا کھانا دینا پڑتا ہے اور شام کی شفٹ میں کام کرنے والوں کو بھی۔ لنچ تو لنچ ہوا ہی، مگر ڈنر بھی لنچ اور بریک فاسٹ بھی لنچ اور پھر نام میں کیا رکھا ہے۔

    گلاب کے پھول کو آک کہہ دیجیے تو کیا وہ گلاب نہیں رہتا؟ خاص کر جب لنچ کا مطلب دال روٹی نہ ہو کر صرف پیسا ہوا ور پیسا بھی چھ یا آٹھ گنا۔ فلم کی پوری دنیا ایک اُلٹا استرا ہے جس سے پروڈیوسر کے سر کی حجامت کی جاتی ہے۔ لاکھوں روپے لینے کے باوجود آپ کا ہیرو، کار کے پیڑول کے پیسے نہ مانگے تو وہ بہت اچھا اور مقبول ہیرو مانا جاتا ہے، مگر ڈرائیور کے دس روپے کے بھتّے کے لیے وہ بھی بگڑجاتا ہے۔

    پھر اس کی شرطیں کہ میک اپ مین اس کا اپنا ہوگا، مگر اس کی تنخواہ پروڈیوسر کو دینی پڑے گی۔ اسی طرح ہیروئن کو بھی انار، انگور، موسمی کے رس اور بھنے ہوئے مرغ مسلّم کے علاوہ بڑھیا شراب بھی چاہیے۔ اگر کوئی شرط نہیں ہے تو پروڈیوسر کی نہیں۔

    جلا بھُنا میں ایک روز بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اور پروڈیوسر آگیا۔ وہ جیسے بھول ہی گیا کہ میں اب ادیب نہیں رہا۔ اور کہنے لگا ’’بیدی صاحب، میں ’’چھینا جھپٹی‘‘ نام کی ایک فلم بنا رہا ہوں۔ آپ میرے لیے ڈائیلاگ لکھ دیں گے؟‘‘

    ’’ضرور لکھ دوں گا، مگر میری ایک شرط ہے۔‘‘

    ’’بتائیے۔‘‘

    ’’ہیئر ڈریسر میرا اپنا ہوگا۔‘‘

    میں ایک نئی کشمکش میں گرفتار ہو گیا تھا۔ کئی موقعوں پر میں نے دیکھا کہ ہدایت کار اور فلم ساز کی پسند الگ الگ ہے اور وہ ایک دوسرے کے برعکس رائے دیتے ہیں۔ دونوں کو مطمئن کرنے کا جو ایک طریقہ مجھے سوجھا، وہ تھا کہ ایک ہی سین کو دو الگ الگ طریقوں سے لکھوں اور پھر یہ فیصلہ ان دونوں پر چھوڑ دوں کہ انھیں کون سا سین پسند آیا۔

    یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک شکایت اندر ہی اندر مجھے پریشان کرنے لگی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں نے کسی ناشر کے کہنے پر اس کی مرضی کے مطابق لکھا ہو بلکہ میں نے جو کچھ اپنی مرضی سے لکھا، وہی ناشر نے قبول کیا لیکن اب میں مجبور تھا کہ یا تو فلم ساز کی مرضی کے مطابق لکھوں یا فلم کے ہدایت کار کی پسند کو ذہن میں رکھوں۔ مجھے ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ اور فلم ساز اور ہدایت کار دونوں ہی کی شکایتیں سننی پڑتیں۔

    ان شکایتوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ میں خود ہی ہدایت کار بن جاؤں، لیکن ایسا کوئی فلم ساز نہ ملا جو ایک مکالمہ نگار کو بطور ہدایت کار فلم دینے کو تیار ہو جائے۔ آخر مجبور ہو کر مجھے خود ہی فلم ساز اور ہدایت کار بننا پڑا۔

    اب، سب سے پہلا سوال آیا پیسے کا۔ فلم کے لیے پیسا کہاں سے آئے گا؟ آخر کون پیسا دے گا مجھے؟ جب کوئی بھی پیسا دینے والا نہ ملا تو ’’فلم فائنانس کارپوریشن‘‘ کی طرف نظر گئی، جس سے نپی تلی رقم ہی مل سکتی تھی۔

    اس رقم کو دھیان میں رکھ کر میری اپنی کہانیوں اور ساتھ ہی اُن ڈراموں پر نظر گئی، جو میں نے کبھی آل انڈیا ریڈیو کے لیے لکھے تھے اور ’’سات کھیل ‘‘کے نام سے شائع ہو چکے تھے۔ اُن ڈراموں میں سے میں نے ’’نقل مکانی‘‘ نامی ڈرامے کو منتخب کر لیا کیوں کہ اُس کے لیے ایک ہی سیٹ کافی ہو سکتا تھا۔

    تب میں نے ڈرامے کو فلم کے نقطۂ نظر سے لکھا اور اس پر ’’دستک ‘‘ نامی فلم بنائی۔ اس فلم نے اس سال کی بہترین فلم کا قومی انعام حاصل کیا اور ’’باکس آفس‘‘پر بھی کام یاب رہی۔ اس طرح اُس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ایک ادبی کہانی، فلمی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور ایک ادبی ادیب، فلم ہدایت کار بھی بن سکتا ہے۔

    (کلیات بیدی کا ایک ورق جس میں نام ور افسانہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار راجندر سنگھ بیدی نے فلم نگری میں اپنے سفر کی یادیں رقم کی ہیں)

  • وبا اور کوارنٹین

    وبا اور کوارنٹین

    کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں، قرنطینہ اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات، صحتِ‌ عامّہ کی تنظیموں کی جانب سے آگاہی مہمات جاری ہیں۔ پاکستان میں‌ لاک ڈاؤن اور اس حوالے سے پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، مگر خوف کی فضا برقرار ہے، کیوں‌ کہ ابھی یہ وبا پوری طرح‌ ختم نہیں‌ ہوئی ہے۔

    چند ماہ کے دوران آپ نے متعدد ناولوں اور فلموں‌ کا ذکر سنا یا پڑھا ہو گا جو اسی قسم کی فرضی اور حقیقی وباؤں اور ہلاکتوں‌ کی افسانوی اور فلمی شکل ہیں، لیکن طاعون کی وبا وہ حقیقت ہے جسے برصغیر کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے نہایت خوبی سے اپنے افسانے میں سمیٹا ہے۔

    راجندر سنگھ بیدی کا یہ افسانہ ‘کوارنٹین‘ کے نام سے ان کے مجموعے میں‌ شامل ہے جس میں طاعون کے مرض‌ سے اموات، خوف کی فضا، اور قرنطینہ میں‌ ڈالے جانے والوں کے جذبات اور ان کی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے سے چند اقتباسات پیش ہیں‌ جو کرونا کی وبا میں‌ ہمارے طرزِ عمل اور ماحول سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔

    اس افسانے کا آغاز یوں‌ ہوتا ہے:

    "ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہرے کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔”

    "پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔ ”

    "کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تن درست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ ”

    "اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کی کثرت سے وہاں آ جانے پر ان کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پے در پے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔”

    طاعون سے ایک ہی روز میں‌ کئی ہلاکتوں‌ کے بعد ان کی لاشوں‌ کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا وہ شاید جیتے جاگتے انسانوں‌ کی مجبوری تھا، لیکن لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے پیارے کی تدفین سے بھی محروم کر دیے جاتے تھے، اس پر مصنف لکھتے ہیں:

    "بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرتِ اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں، یعنی سیکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ و ہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔”

    "کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔”

    "ان دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔”

    گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں۔۔۔ اُف! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔ پلیگ! اور پھر۔۔۔ کوارنٹین!

    اس افسانے کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے وبا کے خاتمے یا اس کی شدّت میں‌ کمی کا ذکر یوں‌ ملتا ہے۔

    اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔

    شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔