Tag: راجہ مہدی علی خان

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • ستارہ پری

    ستارہ پری

    ننّھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لیے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے، لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچّوں کو گود میں لیے کھڑی ہے۔ اس عورت کے بازؤوں کے ساتھ سات رنگ کے خوب صورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

    شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خوب صورت عورت تم کون ہو؟‘‘

    عورت بولی۔ ’’میں ہوں ستارہ پری۔‘‘

    شیلا نے پوچھا:’’تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔‘‘

    شیلا کہنے لگی۔ ’’گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔‘‘

    شیلا نے جواب دیا۔ ’’اچھا نہلالو۔‘‘

    اب پری اپنے بال بچّوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوب صورت مہمان کی تواضع کے لیے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوب صورت مہمان غائب ہے، لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔

    شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوب صورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے، دستانہ پیارا تھا۔ اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔ اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔ دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔ پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ شیلا نے ایک چمچ اٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزے دار چوٹیاں کھانے لگی۔ بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے۔ ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔

    ہر طرف باغ ہی باغ نظر آرہے تھے۔ جن میں رنگ برنگ شربت کے فوّارے ناچ رہے تھے۔ فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرّد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔ اس نے ایک فوّارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔ پھر دوسرے فوّارے سے پھر تیسرے فوّارے سے ،کیوں کہ ہر فوّارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔

    اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔ آگے ایک بڑا خوب صورت بازار آگیا۔ جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔ شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

    دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔ رنگ برنگ پھول، تتلیاں، ستارے، موتی، کل سے اڑنے والے پنچھی، گل دان مربّے، جام، چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔

    یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچّوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لیے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔

    شیلا چلّا کر بولی۔ ’’ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چُرا رہی ہو۔‘‘

    ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ ’’شیلا میرے قریب آؤ۔‘‘

    جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیے اور بولی۔ ’’شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔ جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔ جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔‘‘

    اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوب صورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لیے۔ شیلا ڈر گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

    اس کے بھیّا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

    (اس کہانی کے مصنّف راجہ مہدی علی خاں اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے لیے مشہور ہیں، صحافت اور شاعری میں بھی انھوں‌ نے خوب نام کمایا)